۲۔ آخری آیت کس کے بارے میں ہے؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 09
۳۔ ایک وضاحت:۱۔ ”إِجْرَام“کا مفہوم:

زیرِ نظر آخری آیت کے بارے میں بعض نے یہ احتمال ذکر کیا ہے کہ یہ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کے بارے میں نہیں ہے بلکہ خود حضرت نوح(علیه السلام) سے مربوط ہے کیونکہ یہ سب آیات انہی سے مربوط ہیں اور بعد میں آنے والی آیات بھی انہی سے متعلق ہیں لہٰذا زیادہ مناسب یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت بھی حضرت نوح(علیه السلام) سے مربوط ہے اور ان کے نزدیک اس کا جملہٴ معترضہ ہونا خلاف ظاہر ہے لیکن اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ:
اوّلاً: تقریباً اس طرح کی تعبیر انہی الفاظ میں سورہٴ احقاف کی آیت ۸ میں پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کے بارے میں آئی ہے ۔
ثانیاً: ان آیات میں جو کچھ حضرت نوح(علیه السلام) کے بارے میں آیا ہے وہ سب صیغہٴ غائب کی صورت میں ہے جبکہ زیرِ بحث آیت مخاطب کی صورت میں ہے (اور مسئلہ ”التفات“ یعنی غیبت سے خطاب کی طرفانتقال بھی خلاف ظاہر ہے) اب اگر ہم اس آیت کو حضرت نوح(علیه السلام) کے بارے میں قرار دیں تو لفظ ”یقولون“جو فعل مضارع کی صورت میں ہے اور اسی طرح ”قل“جو فعل امر کی صورت میں ہے سب تقدیر کے محتاج ہوںگے ۔
ثالثاً: ایک حدیث جو تفسیر برہان میں اس آیت کے ذیل میں حضرت امام باقر علیہ السلام اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کی گئی ہے میں ہے کہ یہ آیت کفارِمکہ کے مقابلے میں نازل ہوئی تھی ۔
ان تمام دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم سے مربوط ہے، کفار آپ پر ناروا تہمتیں باندھتے تھے یہ آیت آپ کی جانب سے ان کے لئے جواب کے طور پر نازل ہوئی ہے ۔
اس نکتے کا ذکر بھی ضروری ہے کہ جملہٴ معترضہ کا یہ معنی نہیں کہ کوئی ایسی بات ذکر ہو جو اصل گفتگو سے کوئی کلام تاکید اور تائید کرتے ہیں ، ان سے وقتی طور پر رشتہٴ سخن منقطع ہوجاتا ہے، مخاطب کو ایک طرح سے موقع ملتا ہے اور گفتگو کو بھی لطافتِ روح اور تازگی میسّر آتی ہے، یہ بات حتمی ہے کہ جملہ معترضہ کبھی بھی ہر لحاظ سے کلام سے بیگانہ نہیں ہوسکتا ورنہ یہ بات اصولِ فصاحت وبلاغت کے خلاف ہوجائے گی حالانکہ فصیح وبلیغ کلام میں ہمیشہ جملہ ہائے معترضہ پائے جاتے ہیں ۔


۳۔ ایک وضاحت:۱۔ ”إِجْرَام“کا مفہوم:
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma