آغاز طوفان

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 09
۱۔ کیا طوفان نوح عالمگیر تھا:۳۔ حضرت نوح (علیه السلام) کی کشتی:

گذشتہ آیات میں ہم نے دیکھا ہے کس طرح حضرت نوح (علیه السلام) اور سچے مومنین نے کشتی نجات بنانا شروع کی اور انھیں کیسی کیسی مشکلات آئیں اور بے ایمان مغرور اکثریت نے ان کا کس طرح ان کا تمسخر اڑایا، اس طرح تمسخراڑانے والوںنے کس طرح اپنے آپ کو اس طوفان کے لئے تیار کیا جو سطح زمین کو بے ایمان مستکبرین کے نجس وجود سے پاک کرنے والا تھا ۔
زیر بحث آیات میں اس سر گزشت کے تیسرے مرحلے کے بارے میں ہیں، یہ آیات گویا اس ظالم قوم پر نزول عذاب کی بولتی ہوئی تصویریں ہیں ۔
پہلے ارشاد ہوتا ہے: یہ صورت حال یونہی تھی یہاں تک کہ ہمارا حکم صادر ہوا اور عذاب کے آثار ظاہر ہونا شروع ہوگئے ، پانی تنور کے اندر سے جوش مارنے لگا (حَتَّی إِذَا جَاءَ اٴَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ ) ۔
تنور“ (نون کی تشدید کے ساتھ) وہی معنی دیتا ہے جو آج کل فارسی زبان میں مستعمل ہے، یعنی روٹی پکانے کی جگہ۔ (۱)
اس بارے میں کہ طوفان کے نزدیک ہونے سے تنور سے پانی کا جوش مارنا کیا مناسبت رکھتا ہے مفسرین کے درمیان بہت اختلاف ہے ۔
بعض نے کہا ہے کہ تنور سے پانی کا جوش مارنا خدا کی طرف سے حضرت نوح(علیه السلام) کے لئے ایک نشانی تھی تاکہ وہ اصل واقعہ کی طرف متوجہ ہوں اور اس موقع پر وہ اور ان کے اصحاب ضروری اسباب و وسائل لے کر کشتی میں سوار ہوجائیں ۔
بعض نے کہا ہے کہ یہاں ”تنور“ مجازی اور کنائی معنی میں ہے جو اس طرف اشارہ ہے کہ غضب الٰہی کے تنور میں جوش پیدا ہوا اور وہ شعلہ ور ہوا اور یہ تباہ کن خدائی عذاب کے نزدیک ہونے کے معنی میں ہے، ایسی تعبیریں فارسی اور عربی زبان میں استعمال ہوتی ہیں کہ شدت غضب کو آگ کے جوش مارنے اور شعلہ ور ہونے سے تشبیہ دی جاتی ہے ۔
ان احتمالات میں یہ احتمال زیادہ قوی ہوتا ہے کہ یہاں ”‘تنور“ اپنے حقیقی اور مشہور معنی میں آیا ہے اور ہوسکتا ہے اس سے مراد کوئی خاص تنور بھی ہو بلکہ ممکن ہے کہ اس سے یہ نکتہ بیان کرنا مقصود ہوکہ تنور جو عام طور پر آگ کا مرکز ہے جب اس میں سے پانی جوش مارنے لگا تو حضرت نوح (علیه السلام) اور ان کے اصحاب متوجہ ہوئے کہ حالات تیزی سے بدل رہے ہیں اورانقلاب قریب تر ہے ۔یعنی کہاں آگ اور کہاں پانی ۔
بالفاظ دیگر جب انھوں نے یہ دیکھا کہ زیرزمین پانی کی سطح اس قدر اوپر آگئی ہے کہ وہ تنور کے اندر سے جو رعام طور پر خشک، محفوظ اوراونچی جگہ بنایا جاتا ہے، جوش ماررہاہے تو وہ سمجھ گئے کہ کوئی اہم امر درپیش ہے اور قدرت کی طرف سے کسی نئے حادثے کا ظہور ہے ۔ اور یہی امر حضرت نوح (علیه السلام) اور ان کے اصحاب کے لئے خطرے کا الارم تھا کہ وہ اٹھ کھڑے ہوں اور تیار رہیں ۔
شاید غافل اور جاہل قوم نے بھی اپنے گھروں کے تنور میں پانی کو جوش مارتے دیکھا ہو بہرحال وہ ہمیشہ کی طرح خطرے کے ان پُر معنی خدائی نشانات سے آنکھ کان بند کئے گزرگئے یہاں تک کہ انھوں نے اپنے آپ کو ایک لمحہ کے لئے بھی غور وفکر کی زحمت نہ دی کہ شاید شرف تکوین میں کوئی حادثہ پوشیدہ ہو اور شاید حضرت نوح (علیه السلام) جن خطرات کی خبر دیتے تھے ان میں سچائی ہو۔
اس وقت نوح کو” ہم نے حکم دیا کہ جانوروں کی ہر نوع میں سے ایک جفت (نر اور مادہ کا جوڑا) کشتی میں سوار کرلو“ تاکہ غرقاب ہوکر ان کی نسل منقطع نہ ہوجائے ( قُلْنَا احْمِلْ فِیھَا مِنْ کُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ)، ”اور اسی طرح اپنے خاندان میں سے جن کی ہلاکت کا پہلے سے وعدہ کیا جاچکا ہے ان کے سوا باقی افراد کو سوار کرلو نیز مومنین کو کشتی میں سوار کرلو“( وَاٴَھْلَکَ إِلاَّ مَنْ سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوْلُ وَمَنْ آمَنَ)،” لیکن تھوڑے سے افراد کے سوا لوگ ان پر ایمان نہیں لائے تھے“، ( وَمَا آمَنَ مَعَہُ إِلاَّ قَلِیل) ۔
یہ آیت ایک طرف حضرت نوح (علیه السلام) کی بے ایمان بیوی اور ان کے بیٹے کنعان کی طرف اشارہ کرتی ہے جن کی داستان آئندہ آیات میں آئے گی کہ جنھوں نے راہ ایمان سے انحراف کیا اور گنہگاروں کا ساتھ دینے کی وجہ سے حضرت نوح (علیه السلام) اپنا رشتہ توڑ لیا، وہ اس کشتی میں سوار ہونے کا حق نہیں رکھتے تھے کیونکہ اس میں سوار ہونے کی پہلی شرط ایمان تھی ۔
دوسری طرف یہ آیت اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ حضرت نوح (علیه السلام) نے جو اپنے دین وآئین کی تبلیغ کے لئے سالہاسال بہت طویل اور مسلسل کوشش کی اس نتیجہ بہت تھوڑے سے افراد مومنین کے سوا کچھ نہ تھا بعض روایات کے مطابق ان کی تعداد صرف اسی افراد تھی یہاں تک کہ بعض نے تو اس سے بھی کم تعداد لکھی ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس عظیم پیغمبر نے کس حد تک استقامت اور پامردی کا مظاہرہ کیا ہے کہ ان میں سے ایک ایک فرد کے لئے اوسطاً کم از کم دس سال زحمت اٹھائی، اتنی زحمت تو ہم لوگ اپنی اولاد تک کی ہدایت اور نجات کے لئے نہیں اٹھاتے ۔
بہرحال حضرت نوح (علیه السلام) نے جلدی سے اپنے وابستہ صاحب ایمان افراد اور اصحاب کوجمع کیا اور چونکہ طوفان اور تباہ کن خدائی عذابوں کا مرحلہ نزدیک آرہا تھا ”انھیں حکم دیا کہ خدا کے نام سے کشتی پر سوار ہوجاؤاور کشتی کے چلتے اور ٹھہرتے وقت خدا کانام زبان پر جاری کرو اور اس کی یاد میں رہو ( بِاِسْمِ اللهِ مَجْرَاھَا وَمُرْسَاھَا) ۔ (2)
کیوںکہا گیا کہ ہر حالت میں اس کی یاد میں رہو اور اس کی یاد اور اس کے نام سے مدد لو”اس لئے کہ میرا پروردگار بخشنے والا اور مہربان ہے“( إِنَّ رَبِّی لَغَفُورٌ رَحِیمٌ) ۔
اس نے اپنی رحمت کے تقاضے سے تم اہل ایمان بندوں کو یہ وسیلہ نجات بخشا ہے اور اپنی بخشش کے تقاضے سے تمہاری لغزشوں سے درگزر کرے گا ۔
بالآخر آخری مرحلہ آپہنچا اور اس سرکش قوم کے لئے عذاب اور سزا کا فرمان صادر ہوا تیرہ وتار بادل جو سیاہ رات کے ٹکڑوں کی طرح تھے سارے آسمان پرچھا گئے اور اس طرح ایک دوسرے پر تہ بہ تہ ہوئے کہ جس کی نظیر اس سے پہلے نہیں دیکھی گئی تھی، پے در پے سخت بادل گرجتے خیرہ کن بجلیاں پورے آسمان پر کوندتیں آسمانی فضا گویا ایک بہت بڑے وحشتناک حادثے کی خبر دے رہی تھی ۔
بارش شروع ہوگئی اور پھر تیز سے تیزتر ہوتی چلی گئی، بارش کے قطرے موٹے سے موٹے ہوتے چلے گئے جیسا کہ قرآن سورہٴ قمر کی آیہ ۱۱ میں کہتا ہے:
گویا آسمان کے تمام دروازے کھل گئے اور پانی کا سمندر ان کے اندر سے نیچے گرنے لگا ۔
دوسری طرف زیر زمین پانی کی سطح اس قدر بلند ہوگئی کہ ہر طرف سے پرجوش چشمے ابل پڑے، یوں زمین وآسمان کا پانی آپس میں مل گیا اور زمین، پہاڑ، دشت، بیابان اور درہ غرض ہرجگہ پانی جاری ہوگیا، بہت جلد زمین کی سطح ایک سمندر کی صورت اختیار کرگئی، تیز ہوئیں چلنے لگیں جن کی وجہ سے پانی کو کوہ پیکر موجویں امنڈنے لگیں اس عالم میں” کشتی نوح پیکر موجوں کا سینہ چیرتے ہوئے بڑھ رہی تھی“(وَھِیَ تَجْرِی بِھِمْ فِی مَوْجٍ کَالْجِبَالِ ) ۔
پسر نوح ایک طرف اپنے باپ سے الگ کھڑا تھا، نوح نے پکارا: میرے بیٹے! ہمارے ساتھ سوار ہوجاؤ اور کافروں کے ساتھ نہ رہو ورنہ فنا ہوجاؤ گے (وَنَادیٰ نُوحٌ ابْنَہُ وَکَانَ فِی مَعْزِلٍ یَابُنَیَّ ارْکَبْ مَعَنَا وَلَاتَکُنْ مَعَ الْکَافِرِینَ) ۔
پیغمبر بزرگوار حضرت نوح (علیه السلام) نے نہ صرف پاک کی حیثیت سے بلکہ ایک انتھک پر امید مربی کے طور پر آخری لمحے تک اپنی ذمہ داریوں سے دستبرداری نہ کی، اس امید پر کہ شاید ان کی بات سنگ دل بیٹے پر اثر کرجائے لیکن افسوس کہ بری ساتھی کی بات اس کے لئے زیادہ پر تاثیر تھی لہٰذا دلسوز پاک کی گفتگو اپنا مطلوبہ اثر نہ کر سکی، وہ ہٹ دھرم اورکوتاہ فکر تھا ، اسے گمان تھا کہ غضب خداکا مقابلہ بھی کیا جاسکتا تھا، اس لئے”اس نے پکار کر کہا: ابا! میرے لئے جوش میں نہ آؤ میں عنقریب پہاڑ پر پناہ لے لوں گا جس تک یہ سیلاب نہیں پہنچ سکتا ( قَالَ سَآوِی إِلیٰ جَبَلٍ یَعْصِمُنِی مِنَ الْمَاءِ) ۔
نوح (علیه السلام) پھر بھی مایوس نہ ہوئے، دوبارہ نصیحت کرنے لگے کہ شاید کوتاہ فکر بیٹا غرور اور خود سری کے مرکب سے اتر آئے اور راہ حق پر چلنے لگے ”انھوں نے کہا: میرے بیٹے! آج حکم خدا کے مقابلے میں کوئی طاقت پناہ نہیں دے سکتی“( قَالَ لَاعَاصِمَ الْیَوْمَ مِنْ اٴَمْرِ اللهِ )،”نجات صرف اس شخص کے لئے ہے رحمت خدا جس کے شامل حال ہو“(إِلاَّ مَنْ رَحِمَ) ۔
پہاڑ تو معمولی سی چیز ہے، خود کرہ ارض بھی معمولی سی چیز ہے، سورج اور تمام نظام شمسی اپنی خیرہ کن عظمت کے باوجود خدا کی قدرت لایزال کے سامنے ذرہ بے مقدار سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا، کیا بڑے سے بڑے پہاڑ کرہ زمین کے مقابلے میں چھوٹے سے ابھار سے زیادہ رکھتے ہیں ان کی حیثیت تو ایسے ہے جیسے ناشپاتی کی بالائی سطح ہوتی ہے جب کہ خود زمین کی حیثیت یہ ہے کہ اسے ایک ملین اور دوہزار گنا بڑا کیا جائے تو پھر جاکر وہ کرہ آفتاب کے برابر ہوتی ہے ، وہ آفتاب آسمان میں جس کی حیثیت ایک معمولی سے ستارہ کی سی ہے جب کہ وسیع عالم خلقت میں اربوں کھربوں سارے موجود ہیں پس کس قدر خام خیالی ہے کہ پہاڑ پانہ دے سکے گا ۔
اسی دوران ایک موج اٹھی اور آگے آئی، مزید آگے بڑھی اور پسر نوح کو ایک تنکے کی طرح اس کی جگہ سے اٹھایا اور اپنے اندر درہم برہم کردیا اور باپ بیٹے کے درمیان جدائی ڈال دی اور اسے غرق ہونے والے میں شامل کردیا ( وَحَالَ بَیْنَھُمَا الْمَوْجُ فَکَانَ مِنَ الْمُغْرَقِینَ) ۔

 


۱۔اردو میں بھی ”تنور“ کا یہی معنی مستعمل ہے ۔ (مترجم)
2۔ ”مجرا“ اور”مرسا“ دونوں اسم زمان ہیں اور ان کا معنی”چلتے وقت“ اور ”ٹھہرتے وقت“ ۔
۱۔ کیا طوفان نوح عالمگیر تھا:۳۔ حضرت نوح (علیه السلام) کی کشتی:
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma