بہادر بت شکن

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 09
۱۔ تمام انبیاء کی دعوت کا خمیر توحید ہے۱۔ انبیاء کے سچے واقعات

جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں اس سورت میں پانچ عظیم انبیاء کی دعوت، اس راستے میں پیش آنے والی مشکلات اور دعوت کے نتائج کا تذکرہ ہے گزشتہ آیات میں حضرت نوح (علیه السلام) کے بارے میں گفتگو تھی اور اب حضرت ہود (علیه السلام) کی باری ہے ۔
یہ تمام انبیاء ایک ہی منطق اور ایک ہی ہدف کے حامل تھے، انھوں نے نوع بشر کو ہر طرح کی قید وبند سے نجات دلانے اور توحید کی طرف، اس کی تمام شرائط کے ساتھ، دعوت دینے کے لئے قیام کیا، ایمان، خلوص، جد وجہد اور راہ خدا میں استقامت ان سب کا شعار تھا، ان سب کے خلاف مختلف اقوام کا رویہ بہت تنگ اور سخت تھا انھوں نے انبیاء کو طرح طرح سے ستایا اور ان کو جبر واستبداد روا رکھا ۔
زیر نظر پہلی آیت میں اس سلسلے میں فرمایا گیا ہے: ہم قوم عاد کی طرف ان کے بھائی ہود کو بھیجا (وَإِلیٰ عَادٍ اٴَخَاھُمْ ھُودًا) ۔
یہاں حضرت ہود (علیه السلام)کو بھائی کہا گیا تھا، یہ تعبیر یا تو اس بنا پر ہے کہ عرب اپنے تمام اہل قبیلہ کو بھائی کہتے تھے کیونکہ نسب کی اصل میں سب شریک ہوتے ہیں، مثلا ًبنی اسد کے شخص کو ”اخواسدی“ کہتے ہیں اور مذحج قبیلہ کے شخص کو ”اخومذحج“ کہتے ہیں ، یا ہوسکتا ہے یہ اس طرف اشارہ ہو کہ حضرت ہود (علیه السلام) کا سلوک اپنی قوم سے دیگر انبیاء کی طرح بالکل برادرانہ تھا نہ کہ حاکم کا سا بلکہ ایسا بھی نہیں جو باپ اپنی اولاد سے کرتا ہے بلکہ آپ کا سلوک ایسا تھا جو ایک بھائی دوسرے بھائیوں سے کرتا ہے کہ جس میں کوئی امتیاز اور برتری کا اظہار نہ ہو۔
حضرت ہود (علیه السلام) نے بھی اپنی دعوت کا آغاز دیگر انبیاء کی طررح کیا، آپ کی پہلی دعوت توحید اور ہر قسم کے شرک کی نفی کی دعوت تھی، ہود چنے ان سے کہا: ”اے میری قوم! خدا کی عبادت کرو“( قَالَ یَاقَوْمِ اعْبُدُوا اللهَ ) ۔
”کیونکہ اس کے علاوہ کوئی اللہ اور معبود لائق پرستش نہیں“(مَا لَکُمْ مِنْ إِلَہٍ غَیْرُہُ)، ”بتوں کے بارے میں تمہارا اعتقاد غلطی اور اشتباہ پر مبنی ہے اور اس میں تم خدا پر افتراء باندھتے ہو“( إِنْ اٴَنْتُمْ إِلاَّ مُفْتَرُونَ) ۔
یہ بت خدا کے شریک ہیں نہ خیر وشر کے منشاء ومبدا اور ان سے کوئی کام بھی نہیں ہوسکتا، اس سے بڑھ کر کیا افتراء اور تہمت ہوگی کہ اس قدر بے وقعت موجودات کے لئے تم اتنے بڑے مقام ومنزلت کا اعتقاد رکھو۔
اس کے بعد حضرت ہود (علیه السلام) نے منزید کہا:اے میری قوم ! میں اپنی دعوت کے سلسلے میں تم سے کوئی توقع نہیں رکھتا تم سے کسی قسم کی اجرت نہیں چاہتا کہ تم یہ گمان کرو کہ میری یہ دادوفریاد اور جوش وخروش مال ومقام کے حصول کے لئے ہے یاتم خیال کرو کہ تمھیں مجھے کوئی بھاری معاوضہ دینا پڑے گاکہ جس کی وجہ سے تم تسلیم کرنے کو تیار نہ ہوتے ہو ( یَاقَوْمِ لَااٴَسْاٴَلُکُمْ عَلَیْہِ اٴَجْرًا )، میری اجرت صرف اس ذات پر ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے، جس نے مجھے روح وجسم بخشے ہیں اور تمام چیزیں جس نے مجھے عطا کی ہیں وہی جو میرا خالق ورازق ہے (إِنْ اٴَجْرِی إِلاَّ عَلَی الَّذِی فَطَرَنِی)، میں اگر تمہاری ہدایت وسعادت کے لئے کوئی قدم اٹھاتا ہوں تو وہ اصولاً اس کے حکم کی اطاعت میں ہوتا ہے لہٰذا اجروجزا بھی میں اسی سے چاہتا ہوں نہ کہ تم سے، علاوہ ازیں کیا تمھارے پاس اپنی طرف سے کچھ ہے جو تم مجھے دو، جو کچھ تمھارے پاس ہے اس کی طرف سے ہے، کیا سمجھتے نہیں ہے (اٴَفَلَاتَعْقِلُونَ) ۔
آخر میں انھیں شوق دلانے کے لئے اور اس گمراہ قوم میں حق طلبی کاجذبہ بیدار کرنے کے لئے تمام ممکن وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے مشروط طور پر مادی جزاؤں کا ذکر کیا گیا ہے کہ جو اس جہان میں خدا مومنین کو عطا فرماتا ہے ، ارشاد ہوتا ہے: اے میری قوم ! اپنے گناہوں پر خدا سے بخشش طلب کرو ( وَیَاقَوْمِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ)، پھر توبہ کرو اور اس کی طرف لوٹ آؤ ( ثُمَّ تُوبُوا إِلَیْہِ)، اگر تم ایسا کرلو تو وہ آسمان کو حکم دے گاکہ وہ بارش کے حیات بخش قطرے پیہم تمیاری طرف بھیجے ( یُرْسِلْ السَّمَاءَ عَلَیْکُمْ مِدْرَارًا)(۱) ، تاکہ تمھارے کھیت اور باغات کم آبی یا بے آبی کا شکار نہ ہوں اور ہمیشہ سرسبز وشاداب رہیں، علاوہ ازیں تمھارے ایمان، تقویٰ، گناہ سے پرہیز اور خدا کی طرف رجوع اور توبہ کی وجہ سے تمہاری قوت میں مزید قوت کا اضافہ کرے گا (وَیَزِدْکُمْ قُوَّةً إِلیٰ قُوَّتِکُمْ) ۔
یہ کبھی گمان نہ کرو کہ ایمان وتقویٰ سے تمہاری قوت میں کمی واقع ہوگی ایسا ہرگز نہیں بلکہ تمہاری جسمانی و روحانی قوت میں اضافہ ہوگ، اس کمک سے تمہارا معاشرہ آبادتر ہوہوگا، جمعیت کثیر ہوگی، اقتصادی حالات بہتر ہوں گے اور تم طاقتور، آزاد اور خود مختار ملت بن جاؤ گے، لہٰذا راہ حق سے روگردانی نہ کرو اور شاہراہ گناہ پر قدم نہ رکھو (ولَاتَتَوَلَّوْا مُجْرِمِینَ)

 


۱۔ ”مدرار“ جیسے کہ ہم نے پہلے بھی کہا ہے ”در“ کے مادہ سے ”پستان سے دودھ گرنے“ کے معنی میں ہے، بعد ازاںبارش برسنے کے معنی میں بھی بولاجانے لگا، یہ بات جاذب نظر ہے کہ مندرجہ بالا آیت میں یہ نہیں کہا گیا کہ آسمان سے تم پر بارش برسائے گا بلکہ فرمایا گیا ہے کہ آسمان کو تم پر برسائے گا یعنی اس قدر بارش برسے گی کی گویا ساراآسمان برس رہا ہے، نیز اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ ”مدرار“ مبالغہ کا صیغہ ہے اس سے انتہائی تاکید ظاہر ہوتی ہے ۔

 

۱۔ تمام انبیاء کی دعوت کا خمیر توحید ہے۱۔ انبیاء کے سچے واقعات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma