چند اہم نکات

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 10
برادران یوسف (ع) کی فداکاری کیوں قبول نہیں ہوئی ؟ بھائی کو روکنے کی کوشش

مندرجہ بالا آیات سے سوالات پید ا ہوتے ہیں جن کا ایک ایک کر کے جواب دیاجائے گا :
۱۔ یوسف (ع) نے بھائیوں سے اپنا تعارف کیوں نہ کروایا؟ یوسف (ع) نے بھائیون نے اپنا تعارف کیوں نہیں کروایا، تاکہ ان کے باپ کو جانکاہ غم ِ فراق سے جلدی نجات ملتی ؟۔
اس سوال کا جواب جیسا کہ پہلے بھی اشارہ ہوا ہے یہ ہے کہ باپ اور بھائیوں کے امتحان کے پروگرام کی تکمیل کے لئے تھا ۔ دوسرے لفظوں میں یہ کام خود غرضی کی بناء پر نہ تھا بلکہ ایک فرمان الہٰی کے ماتحت تھا۔ خدا چاہتا تھا کہ دوسرے بیٹھے کو کھونے پر بھی یعقوب(ع) کے عزم اور حوصلے کا امتحان لے اور یوں ان کے تکامل اور ترقی کا آخری زینہ بھی طے ہو جائے اور بھائی بھی آزمائے جائیں کہ ایسے موقع پر جب ان کا بھائی اس طرح کے معالے میں گرفتار ہوا ہے تو وہ باپ سے باندھے پیمان کی کس طرح سے حفاطت کرتے ہیں ۔
۲۔ بے گناہ پر چوری کا الزام ؟ : کیا جائز تھا کہ ایک بے گناہ پر چوری کا اتہام لگا یا جاتا، ایسااتہام کہ جس کے برے آثار نے باقی بھائیوں کو بھی کسی حد تک اپنی لپیٹ میں لے لیا ؟
اس سوال کاجواب بھی خود واقعہ میں موجود ہے اور وہ یہ کہ یہ معاملہ خود بنیامین کی رضا مندی سے انجام پا یا تھا ۔ کیونکہ حضرت یوسف (ع) نے پہلے اپنے آپ کو اس سے متعارف کروایا تھا اور وہ جانتا تھا کہ یہ منصوبہ خود اس کی حفاظت کے لئے بنایا گیا تھا ۔ نیز اس سے بھائیوں پر بھی کوئی تہمت نہیں لگی البتہ انہیں اضطراب اور پریشانی ضرور ہوئی جس میں کہ ایک اہم امتحان کی وجہ سے کوئی ہرج نہ تھا ۔
۳۔ چوری کی طرف سب کی نسبت کیوں دی گئی ؟ : کیا ” انکم لسارقون “ یعنی “ تم چورہو کہکر سب کی طرف چوری کی نسبت دینا جھوٹ نہ تھا اور اس جھوٹ اور تہمت کا کیا جواز تھا ؟
ذیل کے تجربہ سے اس سوال کا جواب واضح ہو جائے گا:
اولاً: یہ معلوم نہیں کہ یہ بات کہنے والے کون تھے ۔ قرآن میں صرف اس قدر :” قالوا “ یعنی انہوں نے کہا۔“ ہوسکتا ہے یہ با ت کہنے والے حضرت یوسف (ع) کے کچھ کارندے ہوں کہ جب انہوں نے دیکھا کہ مخصوص پیمانہ نہیں ہے تو یقین کرلیا کہ کنعان کے قافلے میں سے کسی شخص نے اسے چرا لیا ہے او ریہ معمول ہے کہ اگر کوئی چیز ایسے افراد میں چوری ہو جائے کہ جو ایک ہی گروہ کی صورت میں متشکل ہو او راصل چور پہچانا نہ جائے تو سب کو مخاطب کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم نے یہ کام کیا ہے یعنی تم میں سے ایک نے یا میں سے بعض نے ایسا کیا ہے ۔
ثانیاً: اس بات کا اصلی نشانہ بنیامین تھا جو کہ اس نسبت پر راضی تھا کیونکہ اس منصوبے میں ظاہراً تو اس پر چوری کی تہمت لگی تھی لیکن در حقیقت وہ اس کے اپنے بھائی یوسف (ع) کے پاس رہنے کے لئے مقدمہ تھی اور یہ جو سب پر الزام آیا یہ ایک بالکل عارضی سی بات تھی جو صرف برادران یوسف (ع) کے سامان کی تلاشی پر ختم ہوگیا اور جو در حقیقت مراد تھا یعنی ” بنیامین “ وہ پہچان لیا گیا ۔
بعض نے کہا کہ یہاں جس چوری کی ان کی طرف نسبت دی گئی ہے وہ گزشتہ زمانے سے مربوط تھی اوروہ تھی بھائیوں کا یوسف (ع) کے باپ یعقوب (ع) سے یوسف (ع) کو چرا نا لیکن یہ خیال اس صورت میں درست ہو سکتا ہے جب یہ نسبت حضرت یوسف (ع) (ع) کی طرف اشارہ سے انہیں دی جاتی کیونکہ وہی گز شتہ معا ملے سے آگاہ تھے اور شاید بعد والے جملے میں اسی کی طرف اشارہ ہو کیو نکہ حضرت یو سف (ع) کے مامور ین نے یہ نہیں چاہا کہ تم نے باد شاہ کا پیمانہ چوری کیا ہے بلکہ کہا: ” نفقد صوامع الملک “ یعنی ہم باد شاہ کا پیمانہ مفقود پاتے ہیں “۔ ( لیکن پہلا جواب زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے ) ۔
۴۔اس زمانے میں چوری کی سزا ؟ اس زمانے میں چوری کی سزا کیا تھی اس سلسلے میں زیر بحث آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ مصریوں اور کنعان کے باشندوں میں چوری کی سزا مختلف تھی ۔ حضرت یوسف (ع) کے بھائیوں اور احتمالاً اہل کنعان میں اس عمل کی سزا یہ تھی کہ چور کو اس چوری کے بدلے میں ( ہمیشہ کے لئے یا وقتی طور پر ) غلام بنالیا جاتا ۔2
لیکن مصریوں میں یہ سزا رائج نہ تھی بلکہ چوروں کو دوسرے ذرائع سے مثلاًمار پیٹ سے اور قید و بند وغیرہ سے سزا دیتے تھے ۔
بہر حال یہ جملہ اس امر کی دلیل نہیں بنتا کہ آسمانی ادیان میں سے کسی میں غلام بنالینا چور کی سزا تھی کیونکہ بسا اوقات کسی گروہ میں رائج کوئی طریقہ اس زمانے کے لوگوں کی طرف سے شمار ہوتا ہے ۔ غلامی کی تاریخ میں بھی ہم پڑھتے ہیں کہ بے ہودہ اقوام میں یہ طریقہ رہا ہے کہ اگر مقروض اپنا قرض اداکرنے سے عاجز ہو جاتا تو اسے غلام بنا لیا جاتا ۔
۵۔” سقایا“یا ” صوامع “ : زیر نظر آیات میں کبھی لفظ ”صوامع “( پیمانہ ) استعمال ہوا اور کبھی ” سقایة “ ( پانی پینے کا برتن ) ۔ ان دونوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ یہ پیمانہ ابتداء میں باد شاہ کے پینے کا برتن تھا لیکن جس وقت اناج سر زمین مصر میں گراں او رکم یاب ہو گیا اور اس کی راشن بند ہوگئی تو اس امر کی اہمیت ظاہر کرنے کے لئے کہ لو گ نہایت احتیاط سے اور کم خرچ کریں بادشاہ کے پانی پینے کے لئے استعمال ہونے والا مخصوص برتن اس کے پیمانے کے طور پر استعمال کیا گیا ۔
اس برتن کی خصوصیت کے ضمن میں مفسرین نے بہت سی باتیں لکھی ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ وہ چاندی کا تھا اور بعض کے بقول وہ سونے کا تھا بعض نے اضافہ کیا ہے کہ اس میں جواہرات بھی جڑے ہوئے تھے ۔ کچھ غیر معتبر روایات میں بھی ایسے مطالب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے لیکن اس سلسلے میں کوئی واضح دلیل موجود نہیں ہے ۔
جو کچھ مسلم ہے وہ یہ کہ ایک ایسا پیمانہ تھا جس سے کسی زمانے میں بادشاہ ِ مصر پانی پیتا تھا بعد میں وہ پیمانے میں تبدیل ہو گیا ۔
یہ بھی واضح ہے کہ ایک ملک کی تمام تر ضروریات کو اس قسم کے پیمانے سے ناپ کرپورا نہیں کیا جا سکتا۔ شاید ایسا رمزاًکیا گیا ہو او ران سالوں میں غلے کی کم یابی اور اہمیت ظاہر کرنے کے لئے خاص طور پر اسے استعمال کیا گیا ہوتا لو گ اسے صرف کرنے میں بہت احتیاط سے کام لیں ۔
ضمناً اس بناء پر کہ وہ پیمانہ اس وقت حضرت یوسف (ع) کے قبضے میں تھا لہٰذا وہ اس بات کا سبب بنتا اگر چور غلام بنایاجاتاتو وہ صاحب ِ احتیاط پیمانہ یعنی خود حضرت یوسف (ع) کا غلام بنتا اور انہی کے پاس رہتا اور بالکل اسی مقصد کے لئے حضرت یوسف (ع) نے یہ منصوبہ بنایا تھا ۔


۷۷۔ قَالُوا إِنْ یَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ اٴَخٌ لَہُ مِنْ قَبْلُ فَاٴَسَرَّھَا یُوسُفُ فِی نَفْسِہِ وَلَمْ یُبْدِھَا لَھُمْ قَالَ اٴَنْتُمْ شَرٌّ مَکَانًا وَاللهُ اٴَعْلَمُ بِمَا تَصِفُونَ۔
۷۸۔ قَالُوا یَااٴَیُّھَا الْعَزِیزُ إِنَّ لَہُ اٴَبًا شَیْخًا کَبِیرًا فَخُذْ اٴَحَدَنَا مَکَانَہُ إِنَّا نَرَاکَ مِنْ الْمُحْسِنِینَ۔
۷۹۔ قَالَ مَعَاذَ اللهِ اٴَنْ نَاٴْخُذَ إِلاَّ مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَہُ إِنَّا إِذًا لَظَالِمُونَ ۔

 

ترجمہ

۷۷۔) بھائیوں نے ) کہا: اگر اس( بنیامین ) نے چوری کی ہے تو ( تعجب کی بات نہیں )اس کے بھائی ( یوسف ) نے بھی اس سے پہلے چور ی کی تھی یوسف(کو بہت دکھ ہوا اور اس ) نے اس ( دکھ ) کو اپنے اندرچھپائے رکھا اور ان پر ظاہر نہیں کیا۔ ( بس اتنا) کہا: تم بد تر ہو او رجو کچھ تم بیان کرتے ہو خدا اس سے زیادہ آگاہ ہے ۔
۷۸۔انہوں نے کہا : اے عزیر مصر ! اس کا ایک بوڑھا باپ ہے ( اور وہ بہت پریشان ہوگا ) ہم میں سے ایک کو لے لے ہم دیکھ رہے ہیں کہ تو نیکوکاروں میں سے ہے ۔
۷۹۔ اس نے کہا : اس سے خدا کہ پناہ کہ جس شخص کے پاس سے ہمارا مال و متاع ملا ہم سوائے اس کے کسی اور کو لیں کیونکہ اس صورت میں ہم ظالموں میں سے ہو جائیں گے ۔
 

برادران یوسف (ع) کی فداکاری کیوں قبول نہیں ہوئی ؟ بھائی کو روکنے کی کوشش
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma