بھائی سر جھکائے باپ کے پاس پہنچے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 10
چند اہم نکاتبرادران یوسف (ع) کی فداکاری کیوں قبول نہیں ہوئی ؟

بھائیوں نے بنیامین کے رہائی کے لئے اپنی آخری کوشش کر دیکھی لیکن انہوں نے اپنے سامنے تمام راستے بند پائے ۔ ایک طرف تو اس کام کو کچھ اس طرح سے انجام دیا گیا تھا کہ طاہراً بھائی کی براٴت ممکن نہ تھی اور دوسری طرف عزیز مصر نے اس کی جگہ کسی اور فرد کو رکھنے کی تجویز قبول نہ کی لہٰذا وہ مایوس ہو گئے ۔ یوں انہوں نے کنعان کی طرف لوٹ جانے اور باپ سے سارا ماجرا بیان کرنے کا رادہ کرلیا ۔ قرآن کہتا ہے : جس وقت وہ عزیز مصر سے یا بھائی کی نجات سے مایوس ہو گئے تو ایک طرف کو آئے اور دوسروں سے الگ ہو گئے اور سر گوشی کرنے لگے ( فَلَمَّا اسْتَیْئَسُوا مِنْہُ خَلَصُوا نَجِیًّا) ۔
” خلصوا“”یعنی “ خالص ہو گئے “۔ یہ دونوں سے الگ ہونے اور خصوصی مٹینگ کرنے کی طرف اشارہ ہے ۔ اور ”نجی “ ” مناجات“ کے مادہ سے در اصل ” نجوہ “ سے مر تفع زمین کے معنی میں لیا گیا ہے چونکہ اونچی اور مفع زمینیں اپنے اطراف سے جدا اور الگ ہوتی ہیں اور مخفی میٹنگیں اور سر گوشیاں ارد گرد والوں سے ہٹ کر ہوتی ہیں اس لئے انہیں ” نجوی “ کہتے ہیں ( اس بناء پر ” نجوی “ ہر قسم کی محرمانہ بات کو کہا جاتا ہے چاہے وہ کان میں کہی جائے یا کسی خفیہ میٹنگ میں ) ۔
جملہ” خلصوا نجیا“ جیسا کہ بہت سے مفسرین نے کہا ہے کہ فصیح ترین اور خوبصورت ترین قرآنی تعبیر ہے جس میں دو لفظوں کے ذریعے بہت سے مطالب بیان کردئے گئے ہیں جب کہ یہ مطالب بیان کرنے کے لئے بہت سے جملے در کار تھے ۔
بہر حال سب سے بڑے بھائی نے اس خصوصی میٹنگ میں میں ان سے کہا : کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے باپ نے تم سے الہٰی پیمان لیا ہے کہ بنیامین کو ہر ممکنہ صورت میں ہم واپس لائیں گے ( قَالَ کَبِیرُھُمْ اٴَلَمْ تَعْلَمُوا اٴَنَّ اٴَبَاکُمْ قَدْ اٴَخَذَ عَلَیْکُمْ مَوْثِقًا مِنْ اللهِ) ۔اور تمہی نے اس سے پہلے بھی یوسف کے بارے میں کوتاہی کی “ اور باپ کے نزدیک تمہارا گزشتہ کردار برا ہے ( وَمِنْ قَبْلُ مَا فَرَّطتُمْ فِی یُوسُفَ) ۔۱
” اب جبکہ معاملہ یوں ہے تو میں اپنی جگہ سے ( یا سر زمین ِ مصرسے ) نہیں جاوٴں گا اور یہیں پڑاوٴ ڈالوں گا ، مگر یہ کہ میرا باپ مجھے دے دے یا خدا میرے متعلق کوئی فرمان صادر کرے جو کہ بہترین حاکم و فرماں رواہے ( فَلَنْ اٴَبْرَحَ الْاٴَرْضَ حَتَّی یَاٴْذَنَ لِی اٴَبِی اٴَوْ یَحْکُمَ اللهُ لِی وَھُوَ خَیْرُ الْحَاکِمِینَ) ۔
اس حکم یا تو موت کا حکم مراد ہے یعنی مرتے دم تک یہاں سے نہیں جاوٴں گا یا خدا کی طرف پیداہونے والا کوئی چارہ ٴ کار مراد ہے یا پھر کوئی قابل قبول اور ناقابل ِ توجیہ عذر مراد ہے جوکہ باپ کے نزدیک قطعی طور پر قابل قبول ہو۔
پھر بڑے بھائی نے دوسرے بھائیوں کو حکم دیا “ تم باپ کے پاس لوٹ آوٴ او رکہوابا جان آپ کے بیٹے نے چوری کی ہے ( ارْجِعُوا إِلَی اٴَبِیکُمْ فَقُولُوا یَااٴَبَانَا إِنَّ ابْنَکَ سَرَقَ) ۔
” اور یہ جو ہم گواہی دے رہے ہیں اتنی ہی ہے جتنا ہمیں علم ہوا“ بس ہم نے اتنا دیکھا کہ بادشاہ کا پیمانہ ہمارے بھائی کے بارے سے بر آمد ہو اجس سے ظاہر ہوتا تھا کہ اس نے چوری کی ہے ، باقی رہا امر ِ باطن تو وہ خدا جانتا ہے (وَمَا شَھِدْنَا إِلاَّ بِمَا عَلِمْنَا) ۔” اورہمیں غیب کی خبر نہیں “ ( وَمَا کُنَّا لِلْغَیْبِ حافِظِینَ) ۔اس آیت کی تفسیر میں یہ احتمال بھی ہے کہ بھائیوں کا مقصد یہ ہو کہ وہ باپ سے کہیں کہ اگر ہم نے تیرے پاس گواہی دی اور عہد کیا کہ ہم بھائی کو لے جائیں گے اور واپس لے آئیں گے تو اس بناء پر تھا کہ ہم اس کے باطن سے باخبر نہ تھے اور ہم غیب سے آگاہ نہ تھے کہ اس کا انجام یہ ہوگا ۔

 


 ۱۔ ” فرطتم “ تفریط“ کے مادہ سے در اصل ”فروط“ (بروزن” شروط“)مقدم ہونے کے معنی میں ہے اور جب یہ بات تفعیل میں آجائے تو آگے بڑھنے میں کوتاہی کرنے کے معنی میںہے اور جب باب افعال سے ” افراط “ ہوتو تقدم اور اگے بڑھنے میں تجاوز کرنے کے معنی میں ہے ۔
چند اہم نکاتبرادران یوسف (ع) کی فداکاری کیوں قبول نہیں ہوئی ؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma