چند قابل توجہ امور

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 08
قریب کے دشمن کی خبر جہالت اور دشمن کے خلاف جہاد

۱۔ آیت کی تفسیر میں مختلف احتمالات: آیت کی تفسیر میں جو کچھ کہا ہے وہ مشہور شانِ نزول میں مطابقت رکھنے کے علاوہ آیت کے ظاہری مفہوم سے بھی دیگر ہر تفسیر کی نسبت زیادہ موافق ہے ایک چیز البتہ یہاں قابل غور ہے اور وہ یہ کہ ” کل فرقة طائفة“ کے بعد ” لتبقی طائفة“ ( ایک گروہ باقی رہے ) مقدر سمجھا جائے یعنی ہر جماعت میں سے ایک گروہ چلاجائے اور ایک گروہ رہ جائے آیت میں موجود قرائن کی طرف توجہ کی جائے تو اس سے کوئی مشکل پیدا نہیں ہوتی ( غور کیجئے گا )
لیکن بعض مفسرین نے یہ احتمال پیش کیا ہے کہ آیت میں کسی قسم کی تقدیر نہیں ہے او رمراد یہ ہے کہ مسلمانوں کا ایک گروہ واجب کفائی ہے طور پر میدانِ جہاد میں جائے اور وہاں اسلامی تعلیمات سے آگاہی حاصل کرے دشمنوں پر مسلمانوں کی کامیابی کو اپنی آنکھوں سے دیکھے جو کہ اس دین کی عظمت و حقانیت کا نمونہ ہے اور واپسی پر یہ آگاہی اپنے دوستوں کو منتقل کرے ۔۱
تیسرا احتمال بعض بعض دوسرے مفسرین نے ذکر کیا ہے اور وہ یہ کہ مباحث جہاد سے الگ ، آیت ایک مستقل حکم بیان کررہی ہے اور وہ یہ کہ مسلمانوں پر فرضہے کہ واجب کفائی کے طو رپر ان کی ہر جمیعت میں سے ایک گروہ اٹھ کھڑا ہو جو اسلامی تعلیمات و معارف حاصل کرنے کے لئے اسلام کے عظیم مراکز کی طرف جائے او رعلوم حاصل کرنے کے بعد اپنے شہروں اور گھروں کو پلٹ آئے اور دوسروں کو ان کی تعلیم دے ۔ (یہ تفسیر تبیان میں شیخ کی بیان کی گئی شان ِ نزول سے مطابقت رکھتی ہے)
البتہ جیسا کہ ہم نے کہا ہے پہلی تفسیر آیت کے مفہوم سے زیادہ مناسبت رکھتی ہے اور اگر چہ تمام معانی مرادلینا بھی زیادہ بعید نہیں ہے ۔۲
۲۔ ایک اشکال اور اس کا جواب :بعض نے خیال کیا ہے کہ اس آیت اور گزشتہ آیات کے درمیان ایک طرح کا اختلاف زیر بحث آیت میں حکم دیا گیا ہے کہ سب کو میدان ِ جہادمیں شرکت کا حکم دیا گیا ہے اور پیچھے رہ جانے والوں کی سخت سر نزش کی گئی ہے لیکن زیر بحث آیت میں حکم دیا گیا ہے کہ سب لوگ میدان ِ جہاد کی طرف نہ چل پڑیں ۔
لیکن واضح ہے کہ یہ دونوں حکم مختلف حالات کے پیش نظر دئیے گئے ہیں مثلاً تبوک کے موقع پ رجبکہ روم کی شاہی حکومت کی طاقتور فوج کا سامنا تھا ، وہاں اس کے عالوہ چارہ ہی نہ تھا کہ تمام مسلمان چل پڑیں خصوصاًایسے مواقع پر جبکہ رسول اللہ خود مدینہ میں رہ جائیں تو مدینہ خالی نہیں چھوڑ نا چاہئیے اور اس صورت میں اھتمالی خطرات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئیے نیز اسلامی احکام و معارف کے حصول سے غافل نہیں رہنا چاہئیے ۔ لہٰذ امندرجہ بالا آیات میں کوئی نسخ نہیں ہے اور بعض نے جویہ خیال کیا ہے وہ اشتباہ ہے ۔
۳۔”تفقہ فی الدین “کا وسیع مفہوم :اس میں شک نہیں کہ ”تفقہ فی الدین “ سے مراد تمام اسلامی معارف و احکام کا حصول ہے چاہے ان کا تعلق اصول دین سے ہو یا فروع دین سے کیونکہ تفقہ کے مفہوم میں یہ تمام امور جمع ہیں لہٰذ ا مندرجہ بالا آیت اس بات پر واضح دلیل ہے کہ مسلمانوں میں سے ایک گروہ ہمیشہ واجب کفائی انجام دینے کے لئے تمام اسلامی مسائل میں تحصیل علم کرے اور فارالتحصیل ہونے کے بعد اسلامی احکام کی تبلیغ کےلئے مختلف علاقوں کی طرف جائے ، خصوصاً اپنی قوم اور جمیعت کی طرف آئے اور اسے اسلامی مسائل سے آشنا کرے ۔
لہٰذا مندرجہ بالا آیت کے اسلامی مسائل کے تعلیم و تعلم کے وجوب پر ایک واضح دلیل ہے دوسرے لفظوں میں تعلیم حاصل کرنا بھی واجب ہے اور تعلیم دینا بھی ۔ آج کی دنیا اگر جبری تعلیم پر فخر کرتی ہے تو قرآن نے چودہ سو سال پہلے اس سے بھی بڑھ کر معلمین پر بھی یہ کام فرض کیا ہے ۔
۴۔ اجتہاد اور تقلید کے جواز پر استدلال : بعض علماء اسلام نے زیر نظر آیت سے مسئلہ جواز تقلید پر استدلال کیا ہے ۔ کیونکہ تعلیمات ِ دین حاصل کرنا اورمسائل فروع کو دوسروں تک پہنچا نا اور سننے والوں کے لئے ان کی لازمی طور پر پیروی کرنا . یہی تقلید ہے ۔
البتہ جیسا کہ ہم نے کہا ہے کہ زیر بحث آیت صرف فروع دین سے بحث نہیں کرتی اور اس کے مفہوم میں مسائل ِ اصول بھی شامل ہیں لیکن بہر حال فروع دین اس کے مفہوم میں داخل ہیں ۔
واحد اعتراض جو یہاں نظر آتا ہے یہ ہے کہ اس وقت اجتہاد اور تقلید کی بات نہیں تھی اس زمانے میں جو لوگ مسائل دین سیکھتے اور اسے دوسروں تک پہنچاتے ان کی کیفیت ہمارے زمانے کے مسائل بیان کرنے والے حضرات کی سی نہ تھی نہ وہ مجتہدین کی سی حیثیت رکھتے تھے یعنی پیغمبر اکرم سے مسائل معلوم کرکے بعینہ بغیر کسی قسم کے اظہار ِ نظر کے دوسروں کے سامنے نقل کردیتے تھے ۔
اگر ہم اس طرف توجہ دیں کہ اجتہاد اور تقلید کا ایک وسیع مفہوم ہے تو مندر بالا اعتراض کا جواب مل سکتا ہے ۔
اس کی وضاحت یہ ہے کہ اس میں شک نہیں کہ علم فقہ کو جو موجود ہ وسعت حاصل ہے یہ اس زمانے میں نہ تھی اور مسلمان آسانی سے پیغمبر اکرم سے مسائل معلوم کرلیتے تھے لیکن اس کے باوجود ایسا نہ تھا کہ تما م بزرگان ِ اسلام ہمارے زمانے کے مسائل بیان کرنے والے حضرات کی طرح ہوں ۔ ان میں سے بہت سے افراد قضاوت یا امارت کی ذمہ دایوں کی ادائیگی کے لئے دوسری جگہوں کی طرف جایا کرتے تھے ۔ فطرتا ً انھیں کچھ ایسے مسائل پیش آتے تھے جو بعینہ انھوں نے پیغمبر اکرم سے نہ سنے تھے ۔ لیکن وہ آیا ت قرآن کے عمومات اور اطلاق سے استفادہ کرتے تھے ۔ مسلماً وہ کلیات کی تطبیق پر کرتے تھے ۔عملی اصطلاح میں ” ردّ فروع بر اصول “اور ”ردّ اصول بر فروع “ سے ان مسائل کے احکام سمجھتے تھے اور یہ ایک قسم کا سادہ اور آسان اجتہاد تھا ( غور کیجئے گا ) ۔
مسلم ہے کہ یہ کام اور ایسے معاملات رسول اللہ کے زمانے میںتھے ۔ اس طرح سے اجتہاد کی بنیاد صحابہ میں موجود تھی اگر چہ تمام اصحاب اس مد میں آتے تھے ۔
زیرنظر آیت چونکہ عمومی مفہوم رکھتی ہے لہٰذا مسائل بیان کرنے والے افراد کی بات قبول کرنے اور مجتہدین کا قول قبول کرنے کے دونوں مفہوم اپنے دامن میں لئے ہوئے ۔ اس طرح آیت کی عمومیت سے جوازِ تقلید پر استدلال کیا جاسکتا ہے ۔
۵۔ تعلیم اور تعلّم کی اہمیت : ایک اور اہم مسئلہ جو آیت سے معلوم کیا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ اسلام کی نظر میں تعلیم اور تعلّم کا ایک خاص احترام اور اہمیت ہے یہاں تک کہ اسلام مسلمانوں پر لازم قرار دیتا ہے کہ سب کے سب میدانِ جنگ میں شرکت نہ کریں بلکہ ایک گروہ ٹھہر جائے اور معارف اسلام حاصل کرے یعنی جہالت کے خلاف جہاد کرنا دشمن کے خلاف جہاد کرنے کی طرح فرض ہے اور ایک کی دوسرے سے کم اہمیت نہیں ہے بلکہ جب تک جہا لت کے خلاف جہاد کرنے میں کامیاب نہ ہوں دشمن سے جہاد میں کامیاب نہیں ہو سکتے کوینکہ جاہل قوم ہمیشہ شکست خوردہ ہوتی ہے ۔ ایک معاصر مفسرے نے اس آیت کے ذیل میں ایک جالب ِ نظر بات بیان کی ہے ۔
وہ کہتا ہے : ” میں طرابلس میں تحصیل علم میں مشغول تھا ایک دن وہاں کا ڈپٹی کمشنر جو معارفِ اسلامی کے بارے میں خود بھی اچھی آگاہی رکتھا تھا ، مجھ سے کہنے لگا :۔
”حکومت کس بناء پر علماء اور علوم دینی کے طلباء کو فوجی خد مات سے مستثنیٰ قرار دیتی ہے جب کہ یہ مقدس خدمت شرعی طور پر سب پر واجب ہے او رعلوم دین کے طلبہ اس دینی فریضہ کی انجام دہی کے لئے دیگر لوگوں کی نسبت زیادہ حق رکھتے ہیں ، کیا یہ کام غلط نہیں ہے ؟ “
فوراً زیرنظر آیت مجھے یاد آئی اور میں نے بغیر کسی تمہید کے کہا:
” اس معاملے کی بنیاد قرآن میں موجود ہے اور اس سلسلے میں وہ کہتا ہے کہ اگر ایک گر وہ جہاد کرے اور ایک گروہ علم حاصل کرے “۔
اسے اس جواب سے بہت لطف آیا ، خصوصاً جب کہ اس نے مجھ جیسے ابتدائی طالب علم سے یہ جواب سنا جب کہ میں نے ابھی تازہ تازہ ہی تحصیلِ علم کا سلسلہ شروع کیا تھا ۔( المنار ج۱۱ ص ۷۸) ۔


۱۲۳۔ یَااٴَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا قَاتِلُوا الَّذِینَ یَلُونَکُمْ مِنْ الْکُفَّارِ وَلْیَجِدُوا فِیکُمْ غِلْظَةً وَاعْلَمُوا اٴَنَّ اللهَ مَعَ الْمُتَّقِینَ۔
ترجمہ
۱۲۳۔ اے ایمان والو! ان کفار کے ساتھ جنگ کرو جو تمہارے زیادہ قریب ہیں ( اور دور کا دشمن تمہیں نزدیک کے دشمن سے غافل نہ کردے ) اور وہ تمام میں شدت او رسختی محسوس کریں اور جان لو خدا پر ہیز گاروں کے ساتھ ہے ۔

 


۱۔ قر طبی کے مطابق یہ تفسیر طبری نے اپنی تفسیر میں انتخاب کی ہے ۔ بعض مفسرین نے بھی احتمال کے طور پر آیت کے ذیل میں اسے ذکر کیا ہے ۔
۲ ۔ توجہ رہے کہ ہمارے نزدیک کسی لفظ کا ایک سے زیادہ معانی میں استعمال صحیح ہے ۔

 

قریب کے دشمن کی خبر جہالت اور دشمن کے خلاف جہاد
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma