جنتی اور دوزخی

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 08
خود غرض انسان چند اہم نکات

جیسا کہ اشارہ ہو چکا ہے اس سورہ کی ابتدامیں قرآن نے پہلے مبدا اور معاد کے مسلہ کے بارے میں ایک اجمالی بحث کی ہے اور بعد میں اس کی تفصیل شروع کی ہے ۔
گزشتہ آیات میں مسئلہ مبداء کے بارے میں تشریح تھی اور زیر نظر آیات میں معاد اور دوسرے جہان میں لوگوں کی سر نوشت کے بارے میں تشریح نظر آتی ہے ۔ پہلے فرمایا گیا ہے : وہ لوگ جو ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے اور قیامت پر عقیدہ نہیں رکھتے اور اس بناء پر صرف دنیا وی زندگی پر خوش ہیں اور اسی پر تکیہ کئے ہوئے ہیں ( إِنَّ الَّذینَ لا یَرْجُونَ لِقاء َنا وَ رَضُوا بِالْحَیاةِ الدُّنْیا وَ اطْمَاٴَنُّوا بِھا
اور اسی طرح طرح وہ لوگ جو ہماری آیات سے غافل ہیں اور ان میں غور و فکر نہیں کرتے کہ ان کے دل بیدار ہوں اور ان میں احساس مسئولیت پیدا ہو

 (وَ الَّذینَ ہُمْ عَنْ آیاتِنا غافِلُونَ
” ان دونوں گروہوں کے رہنے کی جگہ آگ ہے ، ان اعمال کے سبب جو وہ انجام دیتے تھے ( اٴُولئِکَ مَاٴْواہُمُ النَّارُ بِما کانُوا یَکْسِبُونَ ) ۔
فی الحقیقت معاد اور قیامت پر ایمان نہ لانے کا سیدھا نتیجہ یہ ہے کہ انسان اس محدود زندگی اور عارضی مادی مقام و منصب سے دل بستگی پیدا کرتا ہے اور انھی پر بھروسہ کر لیتا ہے ۔ زندگی کے کاموں میں اس کا نتیجہ آلودگی کی صورت میں نکلتا ہے اور اس کا انجام آخر آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔
اسی طرح آیات الہی سے غفلت خدا سے بیگانگی کا سر چشمہ ہے اور خدا سے بیگانگی عدم احساس مسئولیت کا سر چشمہ ہے اور اس کے نتیجے میں انسان ظلم ، فساد اور گناہ سے آلودہ ہوتا ہے اور اس کا انجام آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔
لہذا مذکورہ دونوں گروہ ۔۔۔۔ یعنی وہ جو مبداء یا معاد پر یقین نہیں رکھتے یقیناً عمل کے لحاظ سے آلودہ ہوں گے اور دونوں گروہوں کا مستقبل تاریک ہے ۔
یہ دو آیات دوبارہ اس حقیقت کی تاکید کرتی ہیں کہ ایک معاشرے کی اصلاح اور اور ظلم و گناہ کی آگ سے نجات کے لئے خدا اور معاد ایمان کی بنیادوں کو قوی کرنا ناگزیر ہے کیونکہ خدا پر ایمان لائے بغیر وجود انسانی میں احساس مسئولیت پیدا نہیں ہوسکتا اور معاد قیامت کی طرف توجہ کئے بغیر سزا اور خوف پیدا نہیں ہو سکتا ۔ لہذا یہ دونوں اعتقادی ستون تمام اجتماعی اصلاحات کی بنیاد ہیں۔
اس کے بعد دونوں گروہوں کے مقابل ایک اور گروہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایاگیا ہے:جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے اچھے عمل کئے ، ان کے ایمان کی تقویت کے لئے خدا انھیں ہدایت کرتا ہے ( إِنَّ الَّذینَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ یَہْدیھِمْ رَبُّھُمْ بِإیمانِھِمْ
ہدایت الہی کا یہ نور جس کا سر چشمہ ان کا نور ایمان ہے ، ان کی زندگی کے تمام افق راشن کر دیتا ہے اس نور کے ذریعے ان میں ایسی روشن بینی پیدا ہو جاتی ہے کہ مادی مکاتب و نظریات ، شیطانی وسوسے ، گناہوں کی چمک دہک ، زور دولت اور اقتدار ان کی فکر و نظر میں نہیں جچتے اور وہ صحیح راستے کو چھوڑ کر بے راہ روی میں قدم نہیں رکھتے ۔
یہ تو ان کی دنیا کی حالت ہے ” اور دوسرے جہان میں خدا بہشت کے پر نعمت باغوں میں انھیں محلات عطا کرے گا کہ جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی (تَجْری مِنْ تَحْتِھمُ الْاٴَنْھارُ فی جَنَّاتِ النَّعیمِ
وہ ایک ایسے ماحول میں زندگی بسر کریں گے جو صلح و آشتی ، پاکیزگی اور عشق پروردگار سے معمور ہوگا اور جہاں طرح طرح کی نعمتیں ہوں گی جس وقت خدا کی ذات و صفات سے عشق ان کے وجود کو روشن کر دیگا تو وہ ” کہیں گے پروردگار ! تو ہر قسم کے عیب اورنقص سے منزہ اور پاک ہے “ (دَعْواھُمْ فیھا سُبْحانَکَ اللَّھُمّ)۔جب وہ ایک دوسرے سے ملیں گے تو صلح و صفائی کی باتیں کریں گے اور ان کا تحیہ سلام ہو گا ( َ وَ تَحِیَّتُھُمْ فیھا سَلامٌ)۔
اور آخر کار وہ وہاں خدا کی گونا گوں نعمتوں سے بہرہ ور ہوں گے تو اس کا شکرانہ ادا کریں گے اور کہیں گے کہ ” حمد و ثنا اس خدا کے لئے مخصوص ہے جو عالمین کا پروردگار ہے “ ۔( وَ آخِرُ دَعْواھُمْ اٴَنِ الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعالَمین

چند اہم نکات

۱۔ پروردگار سے ملاقات : سوال پیدا ہوتا ہے کہ لقاء الہی سے کیا مراد ہے جس کا ذکر زیر نظر پہلی آیت میں ہے مسلم ہے کہ ملاقات حسی تو نہیں ہے بلکہ مراد پروردگار کی جزا وسزا سے ملاقات ہے اور اس کے علاوہ ایک قسم شہود باطنی بھی ہے جق قیامت میں انسان کے اندر ذات مقدس الہی کے بارے میں پیدا ہوگا کیونکہ اس موقع پر وہ اس کی آیات اور نشا نیوں کو ہر مقام سے بڑھ کر واضح اور آشکاردیکھ پائے گا اور وہاں انسان معرفت کی نئی نظر اور قدرت حاصل کر لے گا۔۱
۲۔ یھدیھم ربھم بیمانھم کے بارے میں کچھ گفتگو : اس جملے میں ایمان کے سائے میں ہدایت انسانی کے مطلق گفتگو ہے ۔ یہ ہدایت دوسرے جہان کی زندگی سے مخصوص نہیں ہے بلکہ اس جہان میں بھی ایک مومن ایمان کی وجہ سے بہت سے اشتباہات، فریب کاریوں اور لغزشوں سے نجات حاصل کر لیتا ہے کیونکہ یہ بیماریاں ،حرص ، خود خواہی اور ہوا وہوس سے پیدا ہوتی ہیں اور اسی ایمان کے ذریعہ مومن دوسرے جہان میںاپنے لئے جنت کی طرف راستہ بنا لیتا ہے ۔ جیسا کہ قرآن کہتا ہے :یوم تری المومنین و المومنات یسعی نورھم بین ایدیھم و بایمانھم
اس دن تو صاحب ایمان مردوں اور عورتوں کو دیکھے گا کہ ان کے نور کی شعاع ان کے سامنے اور دائیں طرف چل رہی ہوگی ۔ (حدید ۔۔۔۱۲ )
نیز ایک حدیث میں رسول اللہ سے مروی ہے:
انّ الموٴمن اذا خرج من قبرہ صور لہ عملہ فی صورة حسنة فیقول لہ انا عملک فیکون لہ نوراً و قائداً الیٰ الجنة ۲
جب مومن اپنی قبر سے نکلے گا تو اس کے اعمال ایک پیاری صورت میں نمایاں ہوں گے اوراس سے کہیں گے کہ میں تیرا عمل ہوں اور ایک نور سا آئے گا جو اسے جنت کی طرف ہدایت کرے گا۔
۳۔ تجری من تحتھم الانھار کا مفہوم : زیر نظر آیات میں ” تجری من تحتھم الانھار “ آیا ہے جبکہ قرآن کی دیر آیات میں ” تجری من تحتھا الانھار “نظر آتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں دیگر مواقع پر ہے کہ ” جنت کے درختوں کے نیچے نہریں جاری ہوں گی “جبکہ زیر نظر آیت میں ہے کہ ” جنت والوں کے پیر کے نیچے نہریں جاری ہوں گی “ ممکن ہے یہ تعبیر اس طرف اشارہ ہوکہ اہل بہشت کے محلات بھی نہروں کے اوپر ہوں گے اور یوں یہ منظر نہایت حسین دکھائی دے گا ۔
یا پھر یہ اس طرف اشارہ ہے کہ جنت کی نہریں ان کے تابع فرمان ہوں گی اور ان کے قبضہٴ قدرت میں ہوں گی ۔ جیسا کہ فرعون کے واقعہ میں ہے ، وہ کہتا ہے
اٴ لیس لی ملک مصرو ھذہ الانھار تجری من تحتی ۔
کیا مصر کی حکومت میرے قبضہ میں نہیں اور یہ نہریں میرے حکم سے نہیں چلتیں ۔ (زخرف .۵۲)
یہ احتمال بھی ذکر کیا گیا ہے کہ یہ لفظ ” تحت “ ”بین ایدی “ کے معنی میں ہو یعنی ان کے سامنے نہریں جاری ہوں گی ۔
۴۔ اہل جنت کے لئے تین عظیم نعمتیں : یہ امر جاذب توجہ ہے کہ زیر بحث آخری آیت میں اہل بہشت کی تین حالتوں یا ان کے لئے تین نعمتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔
پہلی. ذات پروردگار کی طرف توجہ .. اس توجہ سے جو لزت انھیں حاصل ہو گی اس کا موازنہ کسی اور لذت سے نہیں کیا جا سکتا ۔
دوسری . وہ لذت جو مومنین کے ایک دوسرے سے صلح و تفاہم سے معمور اس ماحول میں ملاقات اور میل جول سے حاصل ہوگی اور یہ لذت خدا کی طرف متوجہ ہونے کی لزت کے بعد ہر چیز سے بہتر اور بر تر ہوگی ۔
تیسری  وہ لذت کہ جو انھیں طرح طرح کی نعمات بہشت سے بہرہ ور ہونے سے حاصل ہوگی اور پھر وہ انھیں خدا کی طرف متوجہ کرے گی اور وہ اس کی حمد ، سپاس اور شکر بجا لائیں گے ۔ ( غور کیجئے )

 

۱۱ ۔ وَ لَوْ یُعَجِّلُ اللَّہُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجالَھم بِالْخَیْرِ لَقُضِیَ إِلَیْھمْ اٴَجَلُھمْ فَنَذَرُ الَّذینَ لا یَرْجُونَ لِقاء َنا فی طُغْیانِھمْ یَعْمَھُونَ ۔
۱۲ ۔ وَ إِذا مَسَّ الْإِنْسانَ الضُّرُّ دَعانا لِجَنْبِہِ اٴَوْ قاعِداً اٴَوْ قائِماً فَلَمَّا کَشَفْنا عَنْہُ ضُرَّہُ مَرَّ کَاٴَنْ لَمْ یَدْعُنا إِلی ضُرٍّ مَسَّہُ کَذلِکَ زُیِّنَ لِلْمُسْرِفینَ ما کانُوا یَعْمَلُونَ ۔
ترجمہ
۱۱۔جس طرح لوگ اچھائیوں کو اپنے قبضے میں لینے کے لئے جلدی کرتے ہیں اگر خدا( ان کے اعمال کے بدلے ) انھیں سزادے تو ان کی زندگی اختتام کو پہنچ جائے ( اور سب کے سب ختم ہو جائیں ) لیکن وہ جو ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے انھیں ہم ان کی حالت پر چھوڑ دیں گے تا کہ وہ طغیان میں سر گردان پھریں ۔
۱۲۔ اور جس وقت کسی انسان کو کوئی نقصان ( اور پریشانی ) چھوئے تو جب وہ پہلو کے بل سویا ہوا بیٹھا ہو یا کھڑا ہو ( ہر حالت میں ہمیں) پکارتا ہے لیکن جب ہم اس کی پریشانی دور کر دیتے ہیں تو ایسے گزرتا ہے گویا اس نے کسی مشکل کے حل کے لئے کبھی ہمیں پکارا ہی نہ ہو ۔ اس طرح سے اسراف کرنے والوں کے لئے ان کے اعمال زینت دے جاتے ہیں ۔

 


۱ مزید وضاحت کے لئے تفسیر نمونہ جلد اول ص ۱۸۳ ( اردوترجمہ ) اور سورہ بقرہ کی ایة کی ۴۶ کے ذیل کی طرف رجوع کریں ۔
2 تفسیرفخر الدین رازی جلد ۱۷ ص ۴۰
خود غرض انسان چند اہم نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma