حضرت موسیٰ (ع) کے خلاف جنگ کا دوسرا مرحلہ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 08
طاغوت ِ مصر سے حضرت موسیٰ (ع) کے جہاد کا تیسرا مرحلہ موسیٰ (ع)اور ہارون (ع)کے جہاد کا ایک پہلو

ان آیات میں مقابلے کا اگلا مرحلہ بیان کیا گیا ہے ۔ ان میں حضرت موسیٰ اور ان کے بھائی کے خلاف فرعون کے عملی اقدام کی بات کی گئی ہے ۔
جب فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کے کچھ معجزات مثلاًید بیضا اور بہت بڑ ااژدہا کو حملہ کرتے دکھا اور اسے نظر آیا کہ موسیٰ (ع) کا دعویٰ بلا دلیل نہیں اور یہ دلیل کم از کم اس کے اطرافیوں یا دوسروں میںسے بعض پر اثر انداز ہو گی تو اس نے عملی طور پر جواب دینے کا فیصلہ کیا ۔ قرآن کہتا ہے : فرعون نے پکارا کے کہا کہ تم آگاہ جادو گروں کو میرے پاس لے آوٴ تاکہ ان کے ذیعے میں موسیٰ والی مصیبت اپنے سے دور کرسکوں (وَقَالَ فِرْعَوْنُ ائْتُونِی بِکُلِّ سَاحِرٍ عَلِیمٍ) ۔
وہ جانتا تھا کہ ہر کام میں اس کے راستے سے داخل ہونا چاہئیے اور ا س کے ماہروں سے مدد لینا چاہئےے ۔
کیا واقعاً حضرت موسیٰ کی دعوت کی حقانیت میں شک رکھتا تھا اور اس طریقے سے انھیں آزمانا چاہتا تھا یا وہ جانتا تھا کہ موسیٰ خدا کی طرف سے ہیں لیکن اس کا خیال تھا کہ جادو گروں کے شور وغل سے لوگوں کا مطمئن کیا جا سکتا ہے اور وقتی طور پر عامة الناس کے افکار کو موسیٰ کے اثر و نفوذ سے بچایا جا سکتا ہے کہ موسیٰ خارق عادت کام کا انجام دیتا ہے تو ہم بھی اس جیسے کام کی انجام دہی سے عاجز نہیں ہیں اور ا س خیال تھا کہ اگر اس کا ملوکا نہ ارادہ اس طرح سے پورا ہو جائے تو یہ چیز سہل اور آسان ہے ۔
دوسرا احتمال زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے نیز حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے میں کھڑا ہوا تھا ۔
بہر حال جب مقابلے کے معین تاریخی دن کہ جس دن کے لئے لوگوں کو شرکت کی عام دعوت دی گئی تھی ، جادو گر اکھٹے ہو ئے تو حضرت موسیٰ (ع) نے ان کی طرف رخ کیا اور کہا : پہلے جو کچھ تم لاسکتے ہوں میدان میں لے آوٴ ( فَلَمَّا جَاءَ السَّحَرَةُ قَالَ لَھُمْ مُوسَی اٴَلْقُوا مَا اٴَنْتُمْ مُلْقُونَ ) ۔
القو ماانتم ملقون“ کااصلی معنی یہ ہے کہ جوکچھ تم پھینک سکتے ہو پھینکو اور یہ اشارہ ہے ان مخصوص رسیوں اور لاٹھیوں کی طرف جو اندر سے خالی تھیں اور انھوں نے ان میں خاص کیمیائی مواد ڈال رکھا تھا کہ جسے سورج کی روشنی میں رکھا جائے تو اس میں حرکت اور جوش پیدا ہوتا ہے ۔ اس بات کی شاہد وہ آیات ہیں جو سورہ اعراف اور شعراء میں آئی ہیں ۔ سورہ شعراء کی آیت ۴۳ اور ۴۴ میں ہے ۔
قال لھم موسیٰ القوا ماانتم ملقون فالواحبالھم و عصیھم و قالو بعزة فرعون انا لنحن الغالبون۔
موسیٰ نے ان سے کہا جو پھینک سکتے ہو پھینکو ، پھر انھوں نے میدان میں اپنی رسیاں اور لاٹھیاں پھینکیں اور کہنے لگے فرعون کی عزت کے صدقے ،ہم کامیاب ہیں ۔
بہر حال انھوںنے اپنی تمام قدرت مجتمع کی او رجو کچھ وہ اپنے ساتھ لائے تھے انھوں نے میدان کے بیچ میں ڈال دئیے ” تو اس وقت موسیٰ نے ان سے کہا کہ جو کچھ تم لے کر آئے ہو یہ جادو ہے او رخدا جلدی ہی اسے باطل کردے گا ( فَلَمَّا اٴَلْقَوْا قَالَ مُوسَی مَا جِئْتُمْ بِہِ السِّحْرُ إِنَّ اللهَ سَیُبْطِلُہُ) ۔
تم فاسد اور مفسد افراد ہو کیونکہ ایک جابر ، ظالم اور سر کش کی خدمت انجام دے رہے ہو اور تم نے اپنے علم کو اس خود غرض حکومت کی بنیادوں ک ومضبوط کرنے کے لئے فروخت کردیا ہے اور یہ خود تماہرے مفسد ہونے پر ایک بہترین دلیل ہے اور خدا مفسدین کے عمل کی اصلاح نہیں کرتا (إِنَّ اللهَ لاَیُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِینَ) ۔
در حقیقت جو شخص بھی عقل ہوش اور دانش رکھتا تھا، حضرت موسیٰ کے جادو گروں پر غلبہ حاصل کرنے سے پہلے بھی اس حقیقت کو سمجھ سکتا تھا کہ ان کاعملبے بنیاد ہے کیونکہ وہ ظلم کی بنیادوں کو مستحکم کرنے کے لئے کام کررہے تھے ۔ کوں نہیں جانتا تھا کہ فرعون غاصب، غارت گر ، ظالم اور مفسد ہے ت وکیا ایسی طاقت کے خدمتگزار اس ظلم و فساد میں شریک نہ تھے کیا ممکن تھا کہ ان کا عمل ایک صحیح اور خدائی عمل قرار پا سکے ۔ ہر گزش نہیں ۔ لہٰذا واضح ہے کہ خدا ایسی مفسدانہ کوششوں کو باطل کردے گا۔
کیا ”سیبطلہ“ ( خدا نے جلد باطل کردے گا ) اس بات کا دلیل ہے کہ جادو ایک حقیقت ہے لیکن خدا اسے باطل کرسکتا ہے یا س جملے سے مراد یہ ہے کہ خدا اس کے باطل ہونے کو واضح کردے گا ۔
سورہ اعراف کی آیہ ۱۱۶ میں ہے :۔
فلما القوا سحروا اعین الناس و استرھبو ھم ۔
یعنی ۔ جادو گروں کے جادو نے لوگوں کی آنکھوں کو متاثر کیا اور انھیں وحشت میں ڈال دیا ۔
لیکن یہ تعبیر اس بات کے منافی نہیں کہ ان کے پاس مرموز وسائل تھے جیسا کہ ” سحر“ کے لغوی معنی میں پوشیدہ ہے ۔ انھوں نے معنوی طور پر مختلف اجسام کے طبیعی اور کیمیائی خواص سے استفادہ کیا اور اس سے ان رسیوں اور لاٹھیوں میں واقعاً حرکات پیدا کردیں البتہ یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ جیسا کہ ظاہرا ً معلوم ہوتا تھا معاملہ اس کے بر عکس تھا یہ رسیاں اور لاٹھیاں زندہ موجودات نہیں بن گئی تھیں ۔ جیسا کہ قرآن سورہ طٰہٰ کی آیت میں کہتا ہے :
فاذا حبالھم و عصیھم یخیل الیہ من سحر ھم انھا تسعیٰ
اس وقت رسیاں اور لاٹھیاں جادو گروں کے جادو کی وجہ سے یوں لگتی تھیں جیسے وہ زندہ موجودات ہیں جو دوڑرہی ہیں ۔
لہٰذا جادو جا ایک حصہ تو حقیقت پر مبنی ہے اور دوسرا وہم و خیال ہے ۔
زیرنظر آخری آیت میں فرمایا گیا ہے کہ موسیٰ نے اس سے کہا کہ اس مقابلے میں ہمیں اعتماد ہے کہ کامیابی ہماری ہے کیونکہ خدا کا وعدہ ہے کہ وہ حق کو آشکار کرے گا اور شکست دینے والی منطق اور غالب آنے والے معجزات کے ذریعے اپنے پیغمبروں کی مدد کرے گا اور یوں ایل فساد و باطل کو رسوا اور ذلیل کرے گا اگر چہ مفسد فرعون اور ا س کے حواری اسے ناپسند کرت ے ہیں ( وَیُحِقُّ اللهُ الْحَقَّ بِکَلِمَاتِہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُجْرِمُونَ ) ۔
” بکلماتہ“ سے مراد یا تو انبیاء ِبر حق کی کامیابی کے لئے خدائی وعدہ ہے یا اس کے قاہر اور قوی معجزات ہیں ۔ ۱

 

۸۳۔ فَمَا آمَنَ لِمُوسَی إِلاَّ ذُرِّیَّةٌ مِنْ قَوْمِہِ عَلَی خَوْفٍ مِنْ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِھِمْ اٴَنْ یَفْتِنَھُمْ وَإِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِی الْاٴَرْضِ وَإِنَّہُ لَمِنْ الْمُسْرِفِینَ ۔
۴ ۸۔وَقَالَ مُوسَی یَاقَوْمِ إِنْ کُنْتُمْ آمَنْتُمْ بِاللهِ فَعَلَیْہِ تَوَکَّلُوا إِنْ کُنْتُمْ مُسْلِمِینَ۔
۸۵۔ فَقَالُوا عَلَی اللهِ تَوَکَّلْنَا رَبَّنَا لاَتَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِلْقَوْمِ الظَّالِمِینَ۔
۸۶۔ وَنَجِّنَا بِرَحْمَتِکَ مِنْ الْقَوْمِ الْکَافِرِینَ۔

ترجمہ

۸۳۔ ( شروع میں ) کوئی شخص موسیٰ پر ایمان نہ لا یا اور مگر صرف اس کی قوم کی اولاد میںسے ایک گروہ ۔ ( وہ بھی ) فرعون اور اس کے حواریوں کے خوف سے کہیں وہ ( انھیں دباوٴ ی اگمراہ کن پرپیگنڈہ سے ) ان کے دین سے منحرف نہ کردیں ۔ فرعون زمین میں بالا دستی اور طغیان کے لئے کوشاں تھا اور وہ زیادتی کر نے والوں میں سے تھا ۔
۸۴۔ موسیٰ نے کہا : اے میری قوم ! اگر تم ایمان لائے ہو تو اس پر توکل کرواگر اس کے فرمان کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہو۔
۸۵۔ انھوںنے کہا ہم صرف خدا پر بھروسہ رکھتے ہیں ۔ پر ور دگار ! ہمیں ظالم گروہ کے زیر اثر قرار نہ دے ۔
۸۶۔ اور ہمیں اپنی رحمت سے کافر گروہ (کے ہاتھ )سے نجات دے ۔

 


۱ ۔حضرت موسیٰ کے فرعون اور فرعونیوں سے مقابلے کے بارے میں تفصیلات اور اس سلسلے میں کئی اہم نکات پر ہم جلد شش میں سورہ اعراف کی آیہ ۱۱۳کے بعد سے تفصیل سے بحث کرچکے ہیں ۔ نیز جاوٴ اور اس کی حقیقت کے بارے میں ہم پہلی جلد میں سورہ ٴ بقرہ کی آیہ ۱۰۲ کے ذیل میں بحث کرچکے ہیں ۔ رجوع کیجئے ۔

 

طاغوت ِ مصر سے حضرت موسیٰ (ع) کے جہاد کا تیسرا مرحلہ موسیٰ (ع)اور ہارون (ع)کے جہاد کا ایک پہلو
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma