ایک دوسرے کو دھمکیاں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 09
مدین کے تباہ کاروں کا انجامہٹ دھرموں کی بے بنیاد منطق

یہ عظیم پیغمبر۔ حضرت شعیب (علیه السلام) کہ انتہائی جچے تُلے، بلیغ اور دلنشین کلام کی وجہ سے جن کا لقب” خطیب الانبیاء“ ہے،(۱) ان کا کلام ان لوگوں کی روحانی ومادی زندگی کی راہیں کھولنے والا تھا، انھوں نے بڑے صبر، حوصلے، متانت اور دلسوزی کے ساتھ ان سے تمام باتیں کیں لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس گمراہ قوم نے انھیں کس طرح سے جواب دیا ۔
انھوں نے چار جملوں میں جو ڈھٹائی، جہالت اور بے خبری کا مظہرتھے آپ کو جواب دیا ۔
پہلے وہ کہنے لگے: اے شعیب!تمھاری زیادہ تر باتیںہماری سمجھ میں نہیں آتیں(قَالُوا یَاشُعَیْبُ مَا نَفْقَہُ کَثِیرًا مِمَّا تَقُولُ )، بنیادی طور پر تیری باتوں کا کوئی سر پیر ہی نہیں، ان میں کوئی خاص بات اور منطق ہی نہیں کہ ہم ان پر کوئی غور وفکر کریں، لہٰذا ان میں کوئی ایسی چیز نہیں جس پر ہم عمل کریں اس لئے تم اپنے آپ کو زیادہ نہ تھکاؤ اور دوسرے لوگوں کے پیچھے جاؤ۔
دوسرایہ کہ ہم تجھے اپنے مابین کمزور پاتے ہیں( وَإِنَّا لَنَرَاکَ فِینَا ضَعِیفًا )، لہٰذا اگر تم یہ سوچتے ہو کہ تم اپنی بے منطق باتیں طاقت کے بل پر منوا لو گے تو یہ بھی تمھاری غلط فہمی ہے ۔
یہ گمان نہ کرو کہ اگرہم تم سے پوچھ گچھ نہیں کرتے یہ تمھاری طاقت کے خوف سے ہے” اگر تیری قوم وقبیلے کا احترام پیشِ نظر نہ ہوتا تو ہم تجھے بدترین طریقے سے قتل کردیتے اور تجھے سنگسار کرتے (وَلَوْلَارَھْطُکَ لَرَجَمْنَاک) ۔
یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ انھوں نے حضرت شعیب(علیه السلام) کے قبیلے کو ”رھط“ کے لفظ سے یاد کیا کہ جس کا لغتِ عرب میں تین سے کم تعداد سے لے کر سات یا دس یا بعض کے بقول زیادہ سے زیادہ چالیس افراد پر اطلاق ہوتا ہے، یہ اس طرف اشارہ ہے کہ تیری قبیلے کی بھی ہماری نظر میں کوئی طاقت نہیں بلکہ دوسرے لحاظ ہیں جو ہمیں اس کام سے روکتے ہیں، یہ بالکل اس طرح ہے جیسے ہم کسی سے کہتے ہیں کہ اگر تیری قوم اور خاندان کے ان چار افراد کا لحاظ نہ ہو تو ہم تیرا حق تیرے ہاتھ پر رکھ دیتے جب کہ در اصل اس کی قوم اور خاندان کے وہی چار افراد نہیں ہیں بلکہ مقصد یہ ہے کہ وہ طاقت کے لحاظ سے اہمیت نہیں رکھتے ۔
آخر میں انہوںنے کہا: تُوہمارے لئے کویہ طاقتور اور ناقبلِ شکست شخص نہیں ہے ( وَمَا اٴَنْتَ عَلَیْنَا بِعَزِیزٍ)، اگرچہ تو اپنے قبیلے کے بزرگوں میں شمار ہوتا ہے لیکن جو پپروگرام تیرے پیشِ نظر ہے اس کی وجہ سے ہماری نگاہ میں تیری کوئی وقعت اور منزلت نہیں ہے ۔
حضرت شعیب(علیه السلام) ان کی باتوں کے نشتروں اور توہین آمیز رویّے سے (سیخ پا ہوکر) اٹھ کر نہ چلے گئے بلکہ آپ نے اسی طرح انھیں پُر منطق اور بلیغ پیرائے میں جواب دیا: اے قوم! کیا میرے قبیلے کے یہ چند افراد تمھارے نزدیک خدا سے زیادہ عزیز ہیں(قَالَ یَاقَوْمِ اٴَرَھْطِی اٴَعَزُّ عَلَیْکُمْ مِنَ الله)، تم میرے خاندان کی خاطر جو تمھارے بقول چند نفر سے زیادہ نہیں ہیں مجھے آزار نہیں پہنچاتے ہو، تو کیوں خدا کے لئے تم میری باتوں کو قبول نہیں کرتے ہو، کیا عظمتِ خدا کے سامنے چند افراد کی کوئی حیثیت ہے؟
کیا تم کدا کے کسی احترام کے قائل ہو” جب کہ اسے اور اس کے فرمان کوتم نے پسِ پشت ڈال دیا ہے ( وَاتَّخَذْتُمُوہُ وَرَائَکُمْ ظِھْرِیًّا) ۔ (2)
آخر میں حضرت شعیب (علیه السلام) کہتے ہیں:یہ خیال نہ کرو کہ خدا تمھارے اعمال کو نہیں دیکھتا اور تمھاری باتیں نہیں سنتا، یقین جانو کہ میرا پروردگار ان تمام اعمال پر محیط ہے جو تم انجام دیتے ( إِنَّ رَبِّی بِمَا تَعْمَلُونَ مُحِیط) ۔
بلیغ سخنور وہ ہے جو اپنی باتوں میں مدِّ مقابل کی تمام تنقیدوں کا جواب دے، قومِ شعیب (علیه السلام) کے مشرکین نے چونکہ اپنی باتوں کے آخر میں ضمناً انھیں سنگسار کرنے کی دھمکی دی تھی اور ان کے سامنے اپنی طاقت کا اظہار کیا تھا لہٰذا ان کی دھمکی کے جواب میں حضرت شعیب (علیه السلام) نے اپنا موقف اس طرح سے بیان کیا:اے میری قوم! جو کچھ تمھارے بس میں ہے کرگزرواور اس میں کوتاہی نہ کرو اور جو کچھ تم سے ہوسکتا ہے اس میں رُو رعایت نہ کرو (وَیَاقَوْمِ اعْمَلُوا عَلیٰ مَکَانَتِکُم)(3) ،مَیں بھی اپنا کام کروں گا ( إِنِّی عَامِلٌ )لیکن تم جلد سمجھ جاؤ گے کہ کون رسوا کن عذاب میں گرفتار ہوتا ہے اور کون جھوٹا ہے،مَیں یا تم (سَوْفَ تَعْلَمُونَ مَنْ یَاٴْتِیہِ عَذَابٌ یُخْزِیہِ وَمَنْ ھُوَ کَاذِب) ۔اور اب جب معاملہ اس طرح ہے تو تم بھی انتظار کرو اور مَیں بھی انتظار کرتا ہوں( وَارْتَقِبُوا إِنِّی مَعَکُمْ رَقِیبٌ) ۔ (4)
تم اپنی طاقت، تعداد، سرمائے اوراثرورسوخ سے مجھ پر کامیابی کے انتظار میں رہو اور میں بھی انتظار میں ہوں کہ عنقریب دردناک عذابِ الٰہی تم جیسی گمراہ قوم کے دامن گیر ہو اور تمھیں صفحہ ہستی سے مٹا دے ۔
 

۹۴ وَلَمَّا جَاءَ اٴَمْرُنَا نَجَّیْنَا شُعَیْبًا وَالَّذِینَ آمَنُوا مَعَہُ بِرَحْمَةٍ مِنَّا وَاٴَخَذَتْ الَّذِینَ ظَلَمُوا الصَّیْحَةُ فَاٴَصْبَحُوا فِی دِیَارِھِمْ جَاثِمِینَ۔
۹۵ کَاٴَنْ لَمْ یَغْنَوْا فِیھَا اٴَلَابُعْدًا لِمَدْیَنَ کَمَا بَعِدَتْ ثَمُودُ۔

ترجمہ
۹۴۔اور جب ہمارا فرمان آپہنچا تو ہم نے شعیب کو اور ان پر ایمان لانے والوں کو اپنی رحمت کے ذریعے نجات دی اور جنھوں نے ظلم کیا تھا انھیں (آسمانی) صیحہ نے آلیا اور وہ اپنے گھروں میں منہ کے بَل گرے (اور مرگئے) ۔
۹۵۔اس طرح کہ گویا وہ ان گھروں میں رہتے ہی نہ تھے، دور ہو مدین(رحمت خدا سے) جیسے کہ قوم ِ ثمود دور ہوئی ۔

 


۱۔ سفینة البحار،مادہ ”شعیب“۔
۱۔ عربی زبان میں جب کسی چیز کے بارے میں اپنی بے اعتنائی کا اظہار کرتے ہیں تو کہتے ہیں” جعلتہ تحت قدمی“یا”جعلتہ دبرا ذنی“ یا”جعلتہ وراء ظھری“ یا” جعلتہ ظھریا“ (یعنی وہ میرے زیرِ پا ہے یا مَیں نے اسے پسِ پشت ڈال رکھا ہے وغیرہ) اور ”ظھری“ کا مادہ”ظھر“ (بروزن”قہر“ )ہے اور”ی“ یہاں یاء نسبت ہے اور ”ظ“ کے نیچے زیر ان تبدیلیوں کی بناء پر ہے جو کبھی اسمِ منسوب میں کی جاتی ہے ۔
2۔ ”مکانة“ مصدر یا اسم مصدر ہے اور یہ کسی چیز پر قدرت رکھنے کے معنی میں ہے ۔
4۔ ”رقیب“ کا معنی ہے محافظ، نگران اور نگہبان، یہ دراصل”رقبہ“ سے لیا گیا ہے جس کا معنی ہے”گردن“ یہ معنی اس کے لئے ہے کہ گردن کا محافظ اور نگران اس کی حفاظت کرتا ہے جو اس کی محافظت میں ہو (یہ اس سے کنایہ ہے کہ اس کی جان کی محافظت کرتا ہے) یا اس بنا پر کہ وہ گردن اونچی رکھتا ہے تاکہ پاسداری اور حفاظت کا کام انجام دے سکے ۔

 

مدین کے تباہ کاروں کا انجامہٹ دھرموں کی بے بنیاد منطق
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma