معاشروں کی تباہی کا سبب

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 09
تفسیرنماز کی انتہائی اہمیت

گزشتہ مباحث کی تکمیل کے لیے ان دو آیات میں ایک ایسا اہم نکتہ بیان کیا گیا ہے کہ جو معاشروں کی تباہی سے نجات کا ضامن ہے اور وہ یہ کہ ہر معاشرے میں جب تک صاحبانِ عقل و فکر کا ایک متعہد اور ذمہ دار گروہ موجود ہے کہ جو مفاسد کو دیکھ کر ساکت اور خاموش ہوکر نہیں بیٹھ جاتا بلکہ ان کے خلاف مقابلے کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور فکری و مکتبی حوالے سے لوگوں کی رہبری و رہنمائی اس کے ہاتھ میں ہوتی ہے ۔ تو اس صورت میں یہ معاشرہ تباہی اور نابودی کی طرف نہیں جاسکتا ۔
لیکن جب بے اعتنائی اور سکوت ہر سطح اور ہر طبقے میں حکم فرما ہو اور فساد اور برائی کے عوامل کے مقابلے میں معاشرے کا کوئی دفاع نہ ہو اور اس کا کوئی حامی و مددگا رنہ ہو تو پھر فساد اور اس کے پیچھے پیچھے نابودی و تباہی یقینی ہے ۔
پہلی آیت میں ان گزشتہ اقوام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو طرح طرح کی مصیبتوں میں گرفتار تھیں، ارشاد ہوتا ہے: تم سے پہلے کے قرنوں، امتوں اور قوموں میں ایسے نیک پاک طاقتور اور صاحب شعور لوگ کیوں نہیں تھے کہ جو زمین میں فساد کو پھیلنے سے روکتے (فَلَوْلَاکَانَ مِنَ الْقُرُونِ مِنْ قَبْلِکُمْ اٴُوْلُوا بَقِیَّةٍ یَنْھَوْنَ عَنْ الْفَسَادِ فِی الْاٴَرْضِ) ۔
اس کے بعد استثناء کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: مگر تھوڑے سے افراد کو جنھیں ہم نے نجات دی (إِلاَّ قَلِیلًا مِمَّنْ اٴَنْجَیْنَا مِنْھُمْ) ۔
یہ چھوٹا سا گروہ اگرچہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرتا رہا، لیکن یہ لوگ لوط (علیه السلام) اور ان کے چھوٹے سے خاندان کی مثل نوح(علیه السلام) اور ان کے چند ایمان لانے والوں کی طرح اور صالح(علیه السلام) اور ان کے چند پیروکاروں کی مانند، اتنے کم اور اس قدر تھوڑے تھے کہ جو پورے معاشرے کی اصلاح نہ کرسکے ۔
بہرحال ظالم کہ جن کی معاشرے میں کثرت تھی ناز ونعمت اور عیش نوشی کے پیچھے لگے رہے اور بادہٴ غرور اور نعمتوں اور لذّتوں میں اس طرح سے مست ہوئے کہ طرح طرح کے گناہوں میں جاپڑے (وَاتَّبَعَ الَّذِینَ ظَلَمُوا مَا اٴُتْرِفُوا فِیہِ وَکَانُوا مُجْرِمِینَ) ۔
اس کے بعد اس حقیقت پر زرو دینے کے لئے اگلی آیت میں مزید فرمایا گیا ہے: یہ تم دیکھ رہے ہو کہ خدا نے اس قوم کو دیارِ عدم کی طرف بھیج دیا تو یہ اس اس بناء پر تھا کہ ان کے درمیان اصلاح کرنے والے نہ تھے، کیونکہ خدا کسی قوم وملت اور شہر ودیار کو اس کے ظلم کی وجہ سے نابود نہیں کرتا اگر وہ اصلاح کی طرح قدم اٹھالے ( وَمَا کَانَ رَبُّکَ لِیُھْلِکَ الْقُریٰ بِظُلْمٍ وَاٴَھْلُھَا مُصْلِحُونَ) ۔ کیونکہ عام طور پر ہر معاشرے میں ظلم اور برائی ہوتی ہے لیکن اہم یہ ہے کہ لوگ اس ظلم اور برائی کا احساسکریں اور خدا انھیں اصلاح کے لئے اقدام کی مہلت دیتا ہے اور قانونِ آفرینش ان کے لئے حقِ حیات کا قائل ہے لیکن جب یہ احساس ختم ہوجاتا ہے ، معاشرے بے پرواہی اور لااُبالی کا شکار ہوجاتے ہیں اور ظلم وفساد پوری طرح چھاجاتا ہے تو یہ ایسی منزل ہوتی ہے کہ سنتِ فطرت کے مطابق ان کے لئے زندہ رہنے کا حق نہیں رہتا، اس حقیقت کو ایک مثال واضح سے بیان کیا جاسکتا ہے ۔
انسانی بدن میں ایک قوتِ مدافعت موجود ہوتی ہے، یہ قوتِ مدافعت خون کے سفید گلبول کی صورت میں ہوتی ہے، جب یہ ہَوا، آب وغذا اور چمڑے کی خراش وغیرہ کے ذریعے بیرونی جراثیم بدن کے اندر حملہ آور ہوتے ہیں تو خون کے یہ سفید ذرّات سپاہیوں کی طرح ان کے مقابلے میں قیام کرتے ہیں اور انھیں نابود کرتے ہیں یا کم از کم ان کے پھیلاوٴ کو روکتے ہیں، ظاہر ہے کہ اگر کسی دن لاکھوں سپاہیوں کا یہ عظیم لشکر کمزور پڑجائے اور بدن کا دفاع نہ کرسکے تو بدن مضر جراثیموں کے تخت وتاراج کا میدان بن جائے گا اور طرح طرح کی بیماریاں اس پر حملہ آور ہوجائیں گی ۔
پورے انسانی معاشرے کی بھی یہی کیفیت ہے، اگر مدافع قوت اور محافظ لشکر کہ جسے ”اولوا بقیة“ کہا گیا ہے ہٹ جائے تو اجتماعی بیماری کے حامل جراثیم کہ جو معاشرے کے گوشہ وکنار میں موجود ہوتے ہیں بڑی تیزی سے نشو ونما پاتے ہیں اور کثرت حاصل کرکے معاشرے کو سرتاپا بیمار کردیتے ہیں ۔
”اولوا بقیة“ کا اثر معاشروں کی بقاء کے لئے اتنا حساس ہے کہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کے بغیر معاشروں سے حقِ حیات سلب ہوجاتا ہے اور یہ وہی چیز ہے جس کی طرف مندرجہ بالا آیات اشارہ کرتی ہیں ۔
”اولوا بقیة“ کون ہیں؟
”اولوا“ کا معنی ہے ”صاحبان“ اور ”بقیة“ کا معنی ہے باقی ماندہ، لُغت عرب میں عموماً یہ تعبیر ”اولوا الفضل“ (صاحبانِ فضیلت اور نیک پاک شخصیات) کے معنی میں استعمال ہوتی ہے کیونکہ عام طور پر انسان بہتر اجناس اور زیادہ نفیس چیزوں کو سنبھال رکھتا ہے اور وہ اس کے پاس رہ جاتی ہیں، اسی لئے یہ لفظ نفاست اور نیکی کا مفہوم بھی رکھتا ہے اس کے علاوہ اجتماعی مقابلوں میں جو لوگ زیادہ ضعیف ہوجاتے ہیں میدان اور منظر سے جلدی ہٹ جاتے ہیں یا نابود ہوجاتے ہیں اور وہ افراد باقی رہ جاتے ہیں جو فکر ونظر اور جسمانی قوت کے اعتبار سے زیادہ قوی ہوتے ہیں، اسی بناپر باقی رہ جانے والے طاقتور اور قوی ہوتے ہیں، اس لئے عربوں میں ضرب امثل ہے:
فی الزوایا خبایا وفی الرجال بقای.
گوشہ وگنار میں ابھی چھپے ہوئے مسائل موجود ہیں اور مردوں میں سے باقی ماندہ شخصیتیں موجود ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ لفظ ”بقیة“ جو قرآن میں تین مواقع پر آیا ہے اسی مفہوم کا حامل ہے، طالوت وجالوت کے واقعہ میں قرآن مجید میں ہے:
<إِنَّ آیَةَ مُلْکِہِ اٴَنْ یَاٴْتِیَکُمْ التَّابُوتُ فِیہِ سَکِینَةٌ مِنْ رَبِّکُمْ وَبَقِیَّةٌ
حکومتِ طالوت کی حقانیت کی نشانی یہ ہے کہ صندوقِ عہد تمھارے ہاتھ آئے گا وہی صندوق کہ جس میں موسیٰ وہارون کے خاندان کی نفیس یادگار ہے اور تمھارے سکون کی پونجی ہے ۔ (قبرہ/۲۴۸)
نیز حضرت شعیب علیہ السلام کے واقعہ میں زیرِ بحث سورہ میں ہم نے پڑھا ہے کہ حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا:
<بَقِیَّةُ اللهِ خَیْرٌ لَکُمْ إِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ
بقیة الله تمھارے لئے بہتر ہے ۔ (ہود/۸۶)
نیز یہ جو بعض تعبیرات میں حضرت مہدی موعود علیہ السلام کو ”بقیة الله“ کہا گیا ہے وہ بھی اسی امر کی طرف اشارہ ہے کہ کیونکہ وہ خدا کی طرف سے ایک عظیم اور پُرفیض ذخیرہ ہیں کہ جنھیں اس جہان سے ظلم وستم کی بساط الٹنے اور عدل وداد کا پرچم گاڑنے کے لئے باقی رکھا گیا ہے ۔
یہاں سے واضح ہوجاتا ہے کہ یہ قیمتی شخصیتیں، بُرائی کے خلاف کام کرنے والے افراد اور ”اولوابقیة“ انسانی معاشروں پر کتان بڑا حق رکھتے ہیں کیونکہ یہ اقوام وملل کی بقاء اور ہلاکت سے نجات کا وسیلہ ہیں ۔
مندرجہ آیت میں جو دوسرا قابلِ توجہ نکتہ ہے وہ یہ ہے کہ قرآن کہتا ہے کہ جب تک کسی شہر اور آبادی کے رہنے والے مصلح ہیں خدا اسے نابود نہیں کرتا ”مصلح“ اور ”صالح“ میں جو فرق ہے اس کی طرف توجہ کرنے سے یہ نکتہ واضح ہوجاتا ہے کہ صرف صالحیت اور اچھا ہونا ضامن بقاء نہیں بلکہ اگر معاشرہ صالح نہ ہو لیکن اصلاح کی کوشش کرے تو وہ بھی بقاء وحیات کا حق رکھتا ہے لیکن جب نہ صالح ہوں نہ مصلح تو پھر سنتِ افرینش کےلحاظ سے اس کے لئے حقِ حیات نہیں ہے اور وبہت جلد ختم ہوجائے گا ۔
دوسرے لفظوں میں جب معاشرہ باقی رہ جاتا ہے لیکن اگر ظالم ہو اور اصلاح کے لئے قدم نہ اٹھائے تو وہ باقی نہیں رہ سکتا ۔
ایک اور نکتہ یہ ہے کہ مندرجہ بالا آیات میں ظلم وجُرم کا ایک سرچشمہ ہوس رانی، لذّت پرستی اور عیش ونوش کی پیروی کو قرار دیا گیا ہے جسے قرآن میں ”اتراف“ سے تعبیر کیا جاتا ہے ، یہ بے قید وبے عیش کوشی اور لذّت پرستی طرح طرح کے انحرافات کا سرچشمہ ہے جو معاشرے کے خوشحال طبقوں میں پیدا ہوتے ہیں کیونکہ شہوت کی مستی انھیں حقیقی انسانی اقدار اور اجتماعی حقائق کے ادراک سے روک دیتی ہے اور عصیان وگناہ میں غرق کردیتی ہے ۔

۱۱۸ وَلَوْ شَاءَ رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ اٴُمَّةً وَاحِدَةً وَلَایَزَالُونَ مُخْتَلِفِینَ
۱۱۹ إِلاَّ مَنْ رَحِمَ رَبُّکَ وَلِذٰلِکَ خَلَقَھُمْ وَتَمَّتْ کَلِمَةُ رَبِّکَ لَاٴَمْلَاٴَنَّ جَھَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ اٴَجْمَعِینَ

ترجمہ

۱۱۸۔ اور اگر تیرا پروردگار چاہتا تو سب لوگوں کو(بغیر کسی اختلاف کے) ایک ہی امت قرار دیتا لیکن وہ ہمیشہ مختلف ہیں ۔
۱۱۹۔ مگر یہ کہ جس پر تیرا پروردگار رحم کرے اور اسی (رحمت کو قبول کرنے اور اس کے زیرِ سایہ حصولِ کمال) کے لئے انھیں پیدا کیا گیا ہے اور تیرے پروردگار کا فرمان قطعی ہے کہ وہ جہنم کو جنّوں اور انسانوں (میں سے سرکشوں اور نافرمانوں) سے بھر دے گا ۔

تفسیرنماز کی انتہائی اہمیت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma