دو عظیم طوفانی واقعات

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 12
چند اہم نکاتمعراج اور دور حاضر کا علم اور سائنس

اس سورت کی پہلی آیت میں رسول الله کے مسجد الحرام سے مسجد الاقصیٰ کے اعجاز آمیز سفر کا ذکر تھا ۔ ایسے واقعات کا عموماً مشرکین اور مخالفین انکار کردیتے تھے، وہ کہتے تھے کہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہمارے درمیان میں سے ایک پیغمبر مبعوث ہو اور پھر اسے یہ سب اعزاز واکرام حاصل ہو، لہٰذا زیر بحث آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ نے اپنی کتاب کی طرف دعوت دی تھی تاکہ واضح ہوجائے کہ رسالت کا پروگرام کوئی نئی چیز نہیں اور تاریخ شاہد ہے بنی اسرائیل نے بھی ایسی مخالفت اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا تھا جیسی اب مشرکین کررہے ہیں، ارشاد ہوتا ہے: ہم نے موسیٰ کو آسمانی کتاب عطا کی (وَآتَیْنَا مُوسَی الْکِتَابَ) اور ہم نے بنی اسرائیل کے لئے وسیلہ ہدایت قرار دیا (وَجَعَلْنَاہُ ھُدًی لِبَنِی إِسْرَائِیلَ) ۔
اس میں شک نہیں کہ کتاب سے یہاں مراد ”تورات“ ہے کہ جو بنی اسرائیل کی ہدایت کے لئے الله تعالیٰ نے حضرت موسیٰ(ع) پر نازل فرمائی تھی ۔ اس کے بعد بعثتِ انبیاء کا بنیادی مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: ان سے ہم کہا کہ میرے غیر کو سہارا نہ بناوٴ (اٴَلاَّ تَتَّخِذُوا مِنْ دُونِی وَکِیلًا) ۔(۱)
”’عمل میں توحید“ ”عقیدے میں توحید“ کی علامت ہے اور یہ امر توحید کی بنیادی باتوں میں سے ہے جو شخص عالمِ کائنات میں موٴثر حقیقی صرف الله کو جانتا ہے وہ اس کے غیر پر تکیہ نہیں کرے گا اور جو کسی اور سہارا بناتے ہیں یہ ان کے اعتقادِ توحید کی کمزوری کی دلیل ہے ۔
آسمانی کتب کی عالی تجلیاتِ ہدایت دلوں کو نورِ توحید سے روشن کردیتی ہے اور اس کے سبب انسان ہر غیر الله سے کٹ کر خدا سے وابستہ ہوجاتا ہے اور اسی پر تکیہ کرتا ہے ۔
بنی اسرائیل کو جن نعماتِ الٰہی سے نوازا گیا بالخصوص کتابِ آسمانی میں روحانی نعمت، اگلی آیت میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے تاکہ ان کے احساساتِ تشکر کو ابھارا جائے، ارشاد ہوتا ہے: اے ان لوگوں کی اولاد کہ جنھیں ہم نے نوح کے ساتھ کشتی میں سوار کیا نھا (ذُرِّیَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ) ۔(۲)
”َوقلنا لھم لا تَتَّخِذُوا مِنْ دُونِی وَکِیلًا“
اور ہم نے ان سے کہا کہ میرے سوا کسی کو پناہ گا نہ بناوٴ۔
یہ بہت بعید معلوم ہوتا ہے اور ”إِنَّہُ کَانَ عَبْدًا شَکُورًا“ہے ہم آہنگ نہیں ہے (عور کیجئے گا) ۔
یہ بات مت بھولو کہ ”نوح ایک شکر گزار بندہ تھا“(إِنَّہُ کَانَ عَبْدًا شَکُورًا ) ۔
تم کہ جو اصحاب نوح کی اولاد ہوا اپنے با ایمان بزرگوں کی پیروی کیوں نہیں کرتے ہو؟ کیوں کفرانِ نعمت کی راہ اپنا تے ہو؟
”شکور“ مبالغے کا صسغہ ہے اور اس کا معنی ہے ”زیادہ شکر گزار“۔
بنی اسرائیل کو اصحاب نوح کی اولاد شاید اس لیے کہا گیا ہے کہ مشہور تواریخ کے مطابق حضرت نوح علیہ السلام کے تین بیٹے تھے ۔ ان کے نام ”سام“ ”حام“ اور ”یافث“ تھے ۔ طوفان نوح کے بعد بنی نوع انسان انہی کی اولاد میں سے ہیں اور بنی اسرائیل بھی اس لحاظ سے انہی کی اولاد سے ہیں ۔
اس میں شک نہیں کہ تمام انبیاء اللہ کے شکر گزار بندے تھے لیکن حضرت نوح علیہ السلام کی کچھ ایسی خصوصیات احادیث میں مذکورہ ہیں کہ جن کے باعث انہیں خاص طور پر ”عبداً شکوراً“ کے لفظ سے نوازا گیا ہے ۔ ان کے بارے میں روایات میں ہے کہ جب وہ لباس پہنتے، پانی پیتے، کھانا کھاتے یا انیں کوئی بھی نعمت نصیب ہوتی تو فوراً ذکر خدا کرتے اور شکر الٰہی بجالاتے ۔
ایک حدیث میں امام باقر علیہ السلام اور امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے:
حضرت نوح ہر روز صبح اور عصر کے وقت یہ دعا پڑھتے تھے:
اللّٰہم انی اشہدک ان ما اصبح او امس بی من نعمة فی دین او دنیا فمنک، وحدک لا شریک لک، لک الحمد و لک الشکر بہا علی حتّی ترضی، و بعد الرضا ۔
خداوندا !میں تجھے گواہ بناتا ہوں کہ جو بھی نعمت مجھے صبح و شام پہنچتی ہے وہ نعمتِ دین ہو یا نعمت دنیا، وہ نعمتِ روحانی ہو یا نعمتِ مادی ۔ سب تیری طرف سے ہے تو ایک اکیلا ہے، تیرا کوئی شریک نہیں، حمد وثنا تیرے لیے مخصوص ہے اور شکر بھی تیرے ہی لیے ہے ۔ میں تیرا اس قدر شکر کرتا ہوں کہ تو مجھ سے راضی ہو جا اور تیری رضا کے بعد بھی میں تیرا شکر کرتا ہوں ۔
اس کے بعد امام نے مزید فرمایا کہ:---
ایسا تھا نوح کا شکر۔(3)
اس کے بعد بنی اسرائیل کی داستان انگیز تاریخ کے ایک گوشے کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے: ہم نے تورات میں بنی اسرائیل کو بتادیا تھا کہ تم زمین میں دو دفعہ فساد کرو گے اور بڑی سرکشی کا ارتکاب کرو گے (وَقَضَیْنَا إِلیٰ بَنِی إسْرائِیلَ فِی الْکِتَابِ لَتُفْسِدُنَّ فِی الْاٴَرْضِ مَرَّتَیْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا کَبِیرًا) ۔
”قضاء“ کے اگر چہ بہت سے معانی ہیں لیکن یہاں یہ لفظ ”بتانے“ کے معنی میں آیا ہے ۔
نیز بعد کی آیت کے قرینے سے لفظ ”الارض“ سے یہاں مراد فلسطین کی مقدس زمین ہے کہ جس میں مسجد الاقصیٰ واقع ہے ۔
آئندہ آیات میں ان دو عظیم حوادث کا ذکر ہے جو اللہ کی طرف سے سزا کے طور پر رونما ہوئے ۔ ارشاد ہوتا ہے: جب پہلے وعدے کا مرحلہ آپہنچا اور تم فساد، خونریزی اور ظلم کے مرتکب ہوئے او ہم اپنے بندوں میں سے ایک جنگ آزماگروہ تمہاری طرف بھیجیں گے تاکہ وہ تمہارے اعمال کی سزا کے طور پر تمہاری سرکوبی کرے (فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ اٴُولَاھُمَا بَعَثْنَا عَلَیْکُمْ عِبَادًا لَنَا اٴُولِی بَاٴْسٍ شَدِیدٍ) ۔
یہ روز آور لوگ اس طرح سے تم پر حملہ کریں گے کہ تمہارے افراد کو پکڑنے کے لیے گھر گھر کی تلاشی لیں گے(فَجَاسُوا خِلَالَ الدِّیَارِ) ۔
اور یہ ایک قطعی اور ناقابلِ تغیر وعدہ ہے ( وَکَانَ وَعْدًا مَفْعُولًا) ۔
اس کے بعد ایک مرتبہ پھر اللہ کا لطف و کرم تمہارے شاملِ حال ہوا اور ہم نے تمہیں اس حملہ آور قوم پر غلبہ عطا کیا (ثُمَّ رَدَدْنَا لَکُمْ الْکَرَّةَ عَلَیْھِمْ) ۔
اور ہم نے تمہیں بہت مال و ثروت سے نوازا اور کثرت اولاد سے تمہیں تقویت بخشی (وَاٴَمْدَدْنَاکُمْ بِاٴَمْوَالٍ وَبَنِینَ) ۔ اس قدر کہ تمہری تعداد دشمن سے زیادہ ہوگئی ( وَجَعَلْنَاکُمْ اٴَکْثَرَ نَفِیرًا) ۔(4)
یہ الطاف الٰہی تمہارے لیے ہے کہ شاید تم ہوش میں آؤ، اپنی اصلاح کرو ، برائیوں کو ترک کر دو اور نیکیوں کا راستہ اختیار کرو کیونکہ ”اگر نیکی کرو گے تو اپنے آپ ہی سے بھلائی کرو گے اور اگر بدی کرو گے تو اپنے آپ ہی سے کرو گے (إِنْ اٴَحْسَنتُمْ اٴَحْسَنتُمْ لِاٴَنفُسِکُمْ وَإِنْ اٴَسَاٴْتُمْ فَلَھَا) ۔
یہ ایک دائمی اصول ہے کہ نیکیاں اور برائیاں آخر کار خود انسان کی طرف لوٹتی ہیں ۔ اگر کوئی ضرب لگاتا ہے تو در اصل وہ اپنے جسم پر لگاتا ہے اور اگر کوئی کسی کی خدمت کرتا ہے تو در حقیقت اپنی ہی خدمت کرتا ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ نہ اس سزا نے تمہیں بیدار کیا اور نہ بارِ دیگر نعماتِ الٰہی حاصل ہونے نے ۔تم پھر بھی سرکشی کرتے رہے اور راہِ ظلم و تجاوز اختیار کیے رہے ۔ تم نے زمین پر بہت فساد پیدا کردیا اور غرور و تکبر میں حد سے گزرگئے ۔
پھر اللہ کے دوسرے وعدے کی تکمیل کا مرحلہ آپہنچا تو ایک اور زبر دست جنگجو گروہ تم پر مسلط ہوجائے گا اور وہ تمہارا یہ حال کرے گا کہ تمہارے چہرے غمزدہ ہوجائیں گے (فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الْآخِرَةِ لِیَسُوئُوا وُجُوھَکُمْ) ۔
یہاں تک کہ وہ تمہاری عظیم عبادت گاہ بیت المقدس کو تمہارے ہاتھ سے چھین لیں گے ”اور اس مسجد میں داخل ہوجائیں گے جیسے پہلی مرتبہ دشمن اس میں داخل ہوئے تھے“ (وَلِیَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ کَمَا دَخَلُوہُ اٴَوَّلَ مَرَّةٍ) ۔
وہ اسی پر بس نہیں کریں گے بلکہ ”ان کے سارے آباد شہر اور زمین اجاڑ کے رکھ دیں گے“( وَلِیُتَبِّرُوا مَا عَلَوْا تَتْبِیرًا) ۔
اس کے باوجود توبہ اور خدا کی طرف بازگشت کے دروازے تم پر بند نہیں ہوئے پھر بھی ”ممکن ہے اللہ تم پر رحم کرے“(عَسیٰ رَبُّکُمْ اٴَنْ یَرْحَمَکُمْ) ۔
اور اگر ہماری طرف لوٹ آؤ تو ہم بھی اپنے لطف ں کرم کا رخ پھر تمہاری جانب کردیں گے اور اگر تم نے فساد اور اکڑپن کو نہ چھوڑا تو پھر تمہیں ہم شدیدعذاب میں مبتلا کردیں گے ( وَإِنْ عُدْتُمْ عُدْنَا) ۔
اور پھر یہ تو دنیا کی سزا ہے جبکہ ”جہنم کو ہم نے کافروں کے لیے سخت قید خانہ قرار دیا ہے“( وَجَعَلْنَا جَھَنَّمَ لِلْکَافِرِینَ حَصِیرًا) ۔(5)

 


۱۔ ترکیب نحوی کے اعتبار سے بعض مفسرین نے ”اٴَلاَّ تَتَّخِذُوا مِنْ دُونِی وَکِیلًا“ کو ”لئلاَّ تَتَّخِذُو----“ سمجھا ہے اور بعض نے ”اٴن“ کو زائد اور ”قلنا لھم“ کو مقدر سمجھا ہے کہ جو مجموعی طور پر یوں ہوگا:
۲۔ ”ذُرِّیَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ“جملہٴ ندائیہ ہے اور تقدیر میں ”یا ذریة من حملنا مع نوح“ تھا رہا یہ احتمال کہ ”ذریة“ ”وکیلا“کا بدل ہے یا ”تتخذوا“ کا مفعول ثانی ہے ۔
3۔ مجمع البیان زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔
4۔ ”نفیر“ اسم جمع ہے اس کا معنی ہے ”لوگوں کا ایک گروہ“ بعض کہتے ہیں کہ یہ ”نفر“ کی جمع ہے اور در اصل یہ ”نفر“ (بوزن ”عفو“)کے مادہ سے کوچ کرنے اور کسی چیز کو سامنے لانے کے معنی میں ہے، اسی وجہ سے اس گروہ کو ”نفیر“ کہتے ہیں کہ جو کسی چیز کی طرف حرکت کرنے کی طاقت رکھتا ہو۔
5۔ ”حصیر“ ”حصر“ کے مادہ سے ”قید“ کے معنی میں ہے اور ہر وہ جگہ جس سے نکلنے کی راہ نہ ہوا سے ”حصیر“کہتے ہیں چٹائی کو بھی حصیر اس لیے کہتے ہیں کہ اس کے مختلف حصے باہم بنے ہوئے اور محصور ہوتے ہیں ۔

 

چند اہم نکاتمعراج اور دور حاضر کا علم اور سائنس
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma