چند اہم نکات

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 12
سعادت کا بالکل سیدھا راستہدو عظیم طوفانی واقعات

۱۔ بنی اسرائیل کے دو تاریخی فسادات:
زیر نظر آیات میں بنی اسرائیل کے دو اجتماعی انحرافات کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے ۔ یہ انحرافات فساد اور سرکشی پر منتج ہوئے ۔ ان میں سے ہر ایک کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان پر سخت زور آور لوگوں کو مسلط کردیا تاکہ وہ انہیں سخت سزادیں اور کیفرِ کردار تک پہنچائیں ۔
بنی اسرائیل کی تاریخ بہت داستان انگیز ہے ۔ وہ تاریخ کے بہت سے نشیب و فراز سے گزرے ہیں کبھی انہیں کامیابی نصیب ہوئی اور کبھی وہ شکست سے دوچار ہوئے لیکن قرآن یہاں کن حوادث کی طرف اشارہ کررہا ہے، اس سلسلے میں مفسرین میں بہت اختلاف ہے ۔ اس سلسلے میو ہم بطور نمونہ چند ایک کا ذکر کرتے ہیں:
۱۔ بنی اسرائیل کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلا شخص جس نے ان پر حملہ کیا اور بیت المقدس کو تباہ کردیا وہ بخت النصر تھا ۔ یہ بابل کا حکمران تھا ۔ اس حملے کے بعد بیت المقدس ستر برس تک اسی طرح برباد رہا یہاں تک کہ پھر یہودی اٹھے اور انہوں نے اس کی تعمیر نو کی ۔
دوسرا شخص جس نے ان پر حملہ کیا وہ قیصرِ روم ”اسپیانوس“ تھا ۔ اس نے اپنے وزیر ”طرطوز“ کو اس کام پر مامور کیا ۔ اس نے بیت المقدس کو تباہ کرنے اور بنی اسرائیل کو کمزور اور قتل کرنے میں پوری قوت صرف کر دی ۔ یہ واقعہ تقریباً سو سال قبل مسیح پیش آیا ۔
لہٰذا ممکن ہے کہ وہ دو داقعات جن کی طرف قرآن حکیم میں اشارہ کیا گیا ہے یہی ہوں کہ جو بنی اسرائیل کی تاریخ میں بھی آئے ہیں کیونکہ بنی اسرائیل کی تاریخ میں پیش آنے والے دوسرے واقعات اس قدر سنگین اور شدید نہیں تھے کہ ان کی حکومت بالکل ملیا میٹ ہوگئی ہو بخت النصر کے حملے نے ان کی طاقت و شوکت کو بالکل تہس نہس کرکے رکھ دیا ۔ ”کورش“ کے زمانے تک ان کی صورتِ حال اسی طرح رہی ۔ اس کے بعد پھر بنی اسرائیل بر سر اقتدار آئے ۔ ان کی حکومت اسی طرح برقرار رہی یہاں تک کہ پھر قیصرِ روم نے ان پر حملہ کیا اور ان کی حکومت کو ختم کردیا ۔ پھر ایک طویل مدت وہ در بدر رہے (اور اب پھر کچھ عرصہ پیشتران لوگوں نے انسانیت کُش سامراجی قوتوں کی مدد سے ایک حکومت قائم کی ہے اور اب وہ اس کی توسیع کے لیے کوشاں ہیں) ۔(1)
۲۔ طبری اپنی تفسیر میں نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلمنے فرمایا:
پہلے فساد سے مراد زکریا اور بہت سے انبیاء کا قتل ہے اور پہلے وعدے سے مراد بخت النصر کے ذریعے اللہ کی طرف سے ان سے انتقام لینے کا وعدہ ہے اور دوسرے فساد سے مراد وہ شورش ہے جو انہوں نے ”آزادی“ کے بعد ایران کے ایک بادشاہ کی سرکردگی میں برپا کی اور یہ لوگ فساد اور خرابی کے مرتکب ہوئے جبکہ دوسرے وعدے سے مراد بادشاہِ روم ”انطیاخوس“ کا حملہ ہے ۔
ایک حد تک تو یہ تفسیر پہلی تفسیر پر منطبق کی جاسکتی ہے لیکن اس کا راوی قابلِ اعتماد نہیں ہے نیز حضرت زکریا علیہ السلام کی تاریخ کو بخت النصر اور اسپیانوس یا انطیا خوس کے زمانے پر منطبق نہیںکیا جاسکتا بلکہ بعض کے بقول بخت النصر ”ارمیا“ یا دانیال پیغمبر کا ہم عصر تھا اور یہ زمانہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے دور سے تقریباً چھ سو برس پہلے کا ہے لہٰذا کیونکر ممکن ہے کہ بخت النصر نے حضرت یحییٰ کے خون کے انتقام کے لیے قیام کیا ہو؟
۳۔ بعض دوسرے مفسرین نے کہا ہے کہ حضرت داؤد(ع) اور حضرت سلیمان (ع) کے زمانے میں ایک مرتبہ بیت المقدس تعمیر ہوا اور بخت النصر نے اسے تباہ و برباد کردیا ۔ یہی وہ پہلا وعدہ ہے جس کی طرف قرآن نے اشارہ کیا ہے ۔ اس کے بعد بیت المقدس ہخامنشی بادشاہوں کے زمانے میں تعمیر ہوا ۔ پھر اسے طیطوس رومی نے برباد کیا (توجہ رہے کہ ہوسکتا ہے یہ ”طیطوس“ وہی ”طرطوز“ ہوجس کا سطورِ بالا میں ذکر آچکا ہے) ۔ اس شہر کی یہی حالت رہی، یہاں تک کہ خلیفہ ثانی کے زمانے میں اسے مسلمانوں نے فتح کیا ۔(2)
یہ تفسیر بھی مندرجہ بالا دو تفسیروں سے کوئی زیادہ اختلاف نہیں رکھتی ۔
۴۔ مندرجہ بالا تفاسیر اور دیگر تفاسیر کہ جو کم و بیش ان سے ہم آہنگ ہیں، کے مقابلے میں ایک اور تفسیر بھی ہے ۔ اس کا احتمال سید قطب نے اپنی تفسیر فی ذکر کیا ہے ۔ یہ تفسیر مذکورہ تفسیروں سے بالکل مختلف ہے ۔ اس تفسیر کے مطابق یہ واقعات گزشتہ زمانے میں اور نزولِ قرآن کے زمانے میں پیش نہیں آئے بلکہ ان کا تعلق نزول قرآن سے بعد کے زمانے سے ہے ۔ احتمالاً ان کا پہلا فساد ہٹلر کے زمانے سے مربوط ہے کہ جب ہٹلر کی قیادت میں جرمن کے نازیوں نے یہودیوں کے خلاف قیام کیا ۔(3)
لیکن۔ اس تفسیر میں یہ اشکال ہے کہ ان واقعات میں سے کسی واقعے میں بھی فتح مند قوم بیت المقدس میں داخل بھی نہیں ہوئی چہ جائیکہ بیت المقدس برباد ہوتا ۔
۵۔ ایک احتمال اور بھی بعض حضرات کی طرف سے ذکر ہوا ہے اور وہ یہ کہ یہ دونوں واقعات دوسری جنگِ عظیم کے بعد کے ہیں جبکہ صیہونزم کی بنیاد پڑی اور اسلامی ممالک کے قلب میں اسرائیل نامی حکومت تشکیل دی گئی بنی اسرائیل کے پہلے فساد اور سرکشی سے یہی مراد ہے اور پہلے انتقام سے مراد یہ ہے کہ جب ابتداء میں اسلامی ممالک اس سازش سے آگاہ ہوئے تو انہوں نے اس کے مقابلے کے لیے قیام کیا نتیجتاً انہوں نے بیت المقدس اور فلسطین کے کچھ شہر اور قبضے یہودیوں کے چنگل سے آزاد کروالیے اور مسجدِ اقصیٰ سے یہودی اثر و نفوذ بالکل ختم ہوگیا ۔
دوسرے فساد سے مراد درندہ صفت سامراجی طاقتوں کے سہارے بنی اسرائیل کا وہ حملہ ہے جس کے نتیجے میں انہوں نے بہت سے اسلامی علاقوں پر قبضہ جمالیا اور بیت المقدس اور میجد اقصیٰ کو اپنے زیر نگین کرلیا ۔
اس بنا پر مسلمانوں کو بنی اسرائیل پر دوسری کامیابی کا انتظار کرنا چاہیے، مسجد اقصیٰ کو ان کے چنگل سے آزاد کروانا چاہیے اور اسلامی سرزمین سے ان کے اثر و نفوذ کا پوری طرح خاتمہ کردینا چاہیٴے ۔ ساری دنیا کے مسلمان اسی روز کے منتظر ہیں اور اللہ نے اسی کے لیے مسلمانوں سے فتح و نصرت کا وعدہ کیا ہے ۔(4)
ان کے علاوہ بھی کچھ تفاسیر ہیں کہ جن کے ذکر کی کوئی ضرورت نہیں ۔
چوتھی اور پانچویں تفسیر کے مطابق آیات میں جو ماضی کے صیغے استعمال ہوئے ہیں ان سب کو مضارع کی حالت میں ہونا چاہیے تھا البتہ عربی ادب کے لحاظ سے جہاں فعل حروفِ شرط کے بعد آئے وہاں یہ معنی بعید نہیں ہے ۔ لیکن یہ آیت:
ثم رددنا لکم الکرة علیہم و امددناکم با موال و بنین وجعلنا کم اکثر نفیراً
ظاہری اعتبار سے اس بات کی غماز ہے کہ کم از کم بنی اسرائیل کا پہلا فساد اور اس کا انتقام گزشتہ زمانے میں وقوع پذیر ہوا ہے ۔
ان تمام چیزوں سے قطع نظر ایک اہم مسئلہ اس مقام پر لائق توجہ ہے ۔ اس آیت پر غور کیجیے:
بعثنا علیکم عباداً لنا اولی باٴس شدید
ہم اپنے بندوں میں سے ایک زور آور گروہ تم پر مسلط کریں گے ۔
ظاہراً یہ آیت نشاندہی کرتی ہے کہ انتقام لینے والے افراد با ایمان بہادر تھے کہ جو ”عباد“”لنا“ اور ”بعثنا“ کے اہل تھے ۔ یہ وہ بات ہے کہ جس کا ذکر بہت سی مذکورہ تفاسیر میں نہیں آیا ۔
البتہ اس بات کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ لفظ ان کے علاوہ بھی استعمال ہوا ہے ۔ مثلا ۔ ہابیل اور قابیل کے واقعے میں ہے:
< فَبَعَثَ اللهُ غُرَابًا یَبْحَثُ فِی الْاٴَرْضِ
اللہ نے ایک کوّا بھیجا کہ جو زمین کو کریدتا تھا ۔(مائدہ۔۳۱)
نیز یہی لفظ زمین و آسمان کے عذاب کے لیے استعمال ہوا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے:
< قُلْ ھُوَ الْقَادِرُ عَلیٰ اٴَنْ یَبْعَثَ عَلَیْکُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِکُمْ اٴَوْ مِنْ تَحْتِ اٴَرْجُلِکُمْ۔(انعام۔۶۵)
اسی طرح لفظ ”عباد“اور ”عبد“ قابل مذمت افراد کے لیے بھی استعمال کیا گیا ہے ۔ مثلاً سورہٴ فرقان کی آیت ۵۸ میں یہ لفظ گنہگاروں کے
لیے استعمال ہوا ہے:
<وَکَفیٰ بِہِ بِذُنُوبِ عِبَادِہِ خَبِیرًا
نیز سورہ شورایٰ کی آیت ۲۷میںسرکشوںکے لیے یہ لفظ اس پیرائے میں استمال ہوا ہے:
<وَلَوْ بَسَطَ اللهُ الرِّزْقَ لِعِبَادِہِ لَبَغَوْا فِی الْاٴَرْضِ
اسی طرح سورہ مائدہ کی آیت۱۱۸میںخطا کاروں اور منکرین توحید کے بارے میںفرماگیا ہے:
<إِنْ تُعَذِّبْھُمْ فَإِنَّھُمْ عِبَادُکَ
لیکن ۔ ان تمام چیزوں کے باوجو اس بات کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اگر یقینی قرینہ موجود نہ ہوتو زیربحث آیات کاظاہری اسلوب یہی کہتا ہے کہ انتقام لینے والے اہلِ ایمان ہیں ۔
بہرحال مندرجہ بالا آیات اجمالاً ہم سے کہتی ہیں کہ بنی اسرائیل نے دومرتبہ فساد بر پا کیا اور سرکشی اختیار کی اور اللہ نے ان سے سخت انتقام لیا ۔ اس بات کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بنی اسرائیل، ہم اور تمام انسان اس سے عبرت حاصل کریں اور یہ جان لیں کہ ظلم و ستم اور فساد انگیزی خدا کی بارگاہ میں سزا کے بغیر نہیں رہ سکتی اور جب ہمیں اقتدار یاقوت حاصل ہو تو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ دردناک حوادث ہمارے انتظار میں ہیں لہٰذا گزشتہ لوگوں کی تاریخ سے ہمیں سبق حاصل کرنا چاہیٴے ۔
۲۔ جو کام بھی کرو گے اپنے ساتھ ہی کرو گے:
زیر بحث آیات میں اس بنیادی اصول کی نشاندہی کی گئی ہے کہ تمہاری اچھائیاں اور برائیاں خود تمہاری طرف لوٹتی ہیں ۔ اگر چہ ظاہراً اس جملے کے مخاطب بنی اسرائیل ہیں لیکن واضح ہے کہ اس مسئلے میں بنی اسرائیل کو کوئی خصوصیت حاصل نہیں ہے ۔ یہ تو پوری تاریخ انسانی کے لیے ایک دائمی قانون ہے اور خود تاریخ اس کی شاہد ہے ۔(5)
بہت سے ایسے لوگ تھے جنہوں نے غلط اور برے کاموں کی بنیاد رکھی، ظالمانہ قوانین بنائے اور غیر انسانی بدعتوں کو رواج دیا اور آخر کار ان کا نتیجہ خود ان کے لیے کھودا تھا خود اس میں جا گرے ۔
خاص طور پر زمین پر فتنہ و فساد برپا کرنا، برتری جتانا اور اپنے تئیں بڑا سمجھنا (علواً کبیراً)ایسے امور ہیں کہ جن کا اثر اسی جہان میں انسان کا دامن آپکڑتا ہے ۔ اسی بناء پر بنی اسرائیل بارہا سخت شکست سے دوچار ہوئے ، پراگندہ ہوئے اور انہیں رسوا کن انجام کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ انہوں نے زمین پر فتنہ و فساد برپا کیا ۔
اس وقت بھی صیہونی یہودیوں نے دوسروں کی زمین غضب کرنے، دوسروں کو بدر آوارہٴ وطن کرنے اور ان کی اولاد کوقتل و برباد کرنے کا ہمل شروع کررکھا ہے ۔ یہاں تک کہ انہوں نے اللہ کے گھر بیت المقدس کی حرمت کا بھی پاس نہیں کیا ۔ عالمی سطح پر ان کا طرز عمل یہ ہے کہ وہ کسی قانون اور اصول کی پرواہ نہیں کرتے ۔اگر کوئی ایک فلسطینی مجاہدان کی طرف رائفل کی ایک گولی چلاتا ہے تو اس کے بدلے وہ مہاجر کمپوں، بچوں کے اسکولوں اور ہسپتالوں پر وحشیانہ بمباری کرتے ہیں اور اپنے ایک شخص کے بدلے بعض اوقات سینکڑوں بے گناہوں کو خاک و خون میں تڑپا دیتے ہیں اور اپنے ایک شخص کے بدلے بعض اوقات سینکڑوں بے گناہوں کو خاک و خون میں تڑپا دیتے ہیں اور بہت سے گھروں کو تباہ و برباد کردیتے ہیں ۔
وہ اپنے آپ کو کسی بین الاقوامی قانون کا پابند نہیں سمجھتے اور اعلانیہ سب کو پاؤں تلے روندیتے ہیں ۔
اس میں شک نہیں کہ یہ تمام تر قانون سکنی، بے انصافی اور خلافِ انسانیت کردار اس لیے ہے کہ اسرائیل کو انسان کش عالمی طاقت امریکہ کی سرپرستی حاصل ہے لیکن یہ امر بھی قابل تردید و شک نہیں کہ خود یہ قوم سراپا ظلم و بربریت ہے اور تمام تر انسانی اقدار کو پامال کرنے پر اپنی مثال آپ ہے ۔ ان کا یہ طرز عمل بذاتِ خود زمین پر فساد برپا کرنے، بڑا بننے کی خواہش اور ظلم و استکبار کا مصداق ہے ۔ انہیں اب انتظار کرنا چاہیے کہ پھر ”عباداً لنا اولی باٴس شدید“ کے مصداق لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے اور ان پر غلبہ پائیں گے اور ان کے بارے میں اللہ کا قطعی وعدہ عملی شکل اختیار کرے گا ۔
۳۔ آیات کی تطبیق اسلامی تاریخ پر:
متعدد روایات میں زیر نظر آیات کو مسلمانوں کی تاریخ میں پیش آنے والے حوادث پر منطبق کیا گیا ہے ۔ ان کے مطابق پہلا فساد اور ظلم حضرت علی علیہ السلام کی شہادت ہے اور دوسرا امام حسن علیہ السلام کی شہادت جبکہ ”بعثنا علیکم عباداً لنا اولی باٴس شدید“ کے مصداق مہدی قائم علیہ السلام اور ان کے انصار ہیں ۔
بعض دوسری روایات کے مطابق یہ ایک ایسی قوم کی طرف اشارہ ہے جو حضرت مہدی علیہ السلام سے پہلے قیام کریگی ۔(10)
یہ واضح ہے کہ ان احادیث کا یہ مفہوم ہر گز نہیں ہے کہ زیر بحث آیات ی تفسیر اپنے لفظی مفہوم کے مطابق نہیں ہے کیونکہ یہ آیات پوری صراحت کے ساتھ بنی اسرائیل کے بارے میں گفتگو کررہی ہیں بلکہ ان روایات سے مراد یہ ہے کہ اس امت میں بھی ایسے فسادات اور مظالم کی ایسی ہی سزا ہوگی ۔
یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ مذکورہ بالا طرزِ عمل اگر چہ بنی اسرائیل کے بارے میں ہے لیکن یہ ایک عمومی قانون ہے جو تمام اقوام و ملل کیلئے ہے اور ساری تاریخ انسانی پر جاری و ساری ایک عمومی سنت ہے ۔

 

1۔ تفسیر المیزان، ج ۱۳ ص ۴۶۔
2۔ تفسیر ابوالفتوح رازی، ج ۷ حاشیہ ص ۲۰۹ از قلم عالمِ معظم شعرانی مرحوم۔
3۔ تفسیر فی ظلال، ج ۵ ص ۳۰۸۔
4۔ مجلہ مکتب اسلام شوارہ ۱۲ سال ۱۲ و یک سال ۱۳ بحث تفسیر آقائی ابراہیم انصاری ۔
5۔ نور الثقلین ج ۳، ص ۱۳۸-
سعادت کا بالکل سیدھا راستہدو عظیم طوفانی واقعات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma