ہت دھرم ہر گز ایمان نہیں لائیں گے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 10
چند اہم نکات یاد الٰہی باعث ِ تسکین دل ہے

ان آیات میں ہم پھر نبوت کی بحث کی طرف لوٹتے ہیں ۔ ان میں مشرکین کی گفتگو کا ایک اور حصہ پیش کیا گیا ہے نیز نبوت کے بارے میں ان کی گفتگو کا واضح جواب دیا گیا ہے ۔
پہلے فرمایا گیاہے : جیسے ہم نے گزشتہ انبیاء کو گزشتہ قوموں کی ہدایت کے لئے بھیجا تھا تجھے بھی ایک امت کے درمیان بھیجا ہے کہ جس سے پہلے امتیں آئیں اور چلی گئیں (لتتلو ا علیھم الذی اوحینا الیک)حالانکہ وہ ”رحمن “ (وہ خدا کہ جس کی رحمت اور وسیع و عام فیض مومن و کافر اور یہودو نصاریٰ سب پر محیط ہے ) کا انکار کرتے ہیں (وھم یکفرون بالرحمن ) ۔
۔کہہ دو : اگر تم انکا رکرتے ہو تو رحمن کہ جن کا فیض و رحمت عام ہے ، میرا پر وردگار ہے ( قل ھو ربی )اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے ، میں اس پر توکل کرتا ہوں اور میری باز گشت اسی طرف ہے ( لاالہ الاھو علیہ توکلت والیہ متاب) ۔
اس کے بع دان بہانہ تراش افراد کے جواب میں کہ جو ہر چیز پر اعتراض کرتے ہیں ، فرماتا ہے : یہاں تک کہ اگر قرآن کے ذریعے پہاڑ چلنے لگ جائیں اور زمین ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے اور اس کے ذریعے مردوں سے گفتگو بھی ہو پھر بھی یہ ایمان نہیں لائیں گے ( وَلَوْ اٴَنَّ قُرْآنًا سُیِّرَتْ بِہِ الْجِبَالُ اٴَوْ قُطِّعَتْ بِہِ الْاٴَرْضُ اٴَوْ کُلِّمَ بِہِ الْمَوْتَی ) ۔
لیکن یہ تمام کام خد اکے اختیار میں ہے او روہ جتنا ضروری سمجھتا ہے انجام دیتا ہے (بَلْ لِلَّہِ الْاٴَمْرُ جَمِیعًا ) ۔
مگر تم لوگ حق کے طالب نہیں ہو،گر ہو تے تو جس قدر اعجاز کی نشانیاں اس پیغمبر سے صادر ہوئی ہیں ایمان لانے کے لئے کاملاً کافی ہیں ، یہ تو سب بہانے ہیں ۔
اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے : کیا وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں نہیں جانتے کہ اگر خدا چاہے تو تمام لوگوں کو جبراً ہدایت کردے (اٴَفَلَمْ یَیْئَسْ الَّذِینَ آمَنُوا اٴَنْ لَوْ یَشَاءُ اللهُ لَھَدَی النَّاسَ جَمِیعًا) ۔
۱۔”اٴَفَلَمْ یَیْئَس“”یاٴس“ کے مادہ سے ناامیدی کے معنی میں ہے مگر بہت سے مفسرین نے کہا ہے کہ یہاں علم کے معنی میں ہے لیکن ( فخر رازی کے مطابق )” کچھ لوگوں “ کے بقول کہیں نہیں دیکھا گیا کہ ” یئست“ ” علمت“ کے معنی میں ہو ۔ مفردات میں راغب کی گفتگو سے یہ نتیجہ نکتا ہے کہ ”یاٴس“ یہاں اپنے اسی مشہور معنی میں ہے لیکن ہر مایوسی کے لئے ضروری ہے کہ اس کام کے نہ ہوسکنے کا علم ہو ۔ اس بناء پر ان کے یاٴس کے ہونے کا لازمہ ان کا علم ہے لیکن راغب کی اس گفتگو کا ماحصل یہ ہے کہ یہاں یاٴس وجود علم کے معنی میں نہیں بلکہ عدم کے علم کے معنی میں ہے اور یہ مفہوم آیت کے مفہوم سے مطابقت نہیں رکھتا اس بناء پر حق وہی ہے جو مشہور مفسرین نے کہا ہے اور ا س کے لئے اقوالِ عرب سے بھی شواہد پیش کیے گئے ہیں اور ان کے نمونے فخررازی نے اپنی تفسیر میں پیش کئے ہیں ۔(غور کیجئے) ۔
یہ اس طرف اشارہ ہے کہ خدا تعالیٰ داخلی یا خارجی طور پر جبری طریقے سے منکرین اور ہٹ دھرم افراد تک کو بھی ایمان لانے پر آمادہ کرسکتا ہے کہ کیونکہ وہ ہر چیز پر قادر ہے اور اس کی قدرت کے سامنے کوئی کام مشکل نہیں ہے لیکن وہ ہر گز ایسا نہیں کرے گا کیونکہ ایسا جبری ایمان بے وقعت ہے۔ ایسا ایمان اس معنویت اور کمال سے محروم ہے جس کی انسان کو ضرورت ہے ۔
اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے : اس کے باوجود کفار ہمیشہ اپنے اعمال کے سبب تباہ کن مصائب کے حملے سے دو چار ہیں یہ مصائب مختلف بلاوٴں کی صورت میں نازل ہوتے ہیں اور کبھی ان پر مجاہدین ِ اسلام کے تباہ کن حملوں کی صورت میں آتے ہیں ( وَلاَیَزَالُ الَّذِینَ کَفَرُوا تُصِیبُہُمْ بِمَا صَنَعُوا قَارِعَةٌ) ۔
یہ مصائب اگر ان کے گھروں پر نازل نہ ہوں تو ان کے گھروں کے آس پاس نازل ہو ں گے (اٴَوْ تَحُلُّ قَرِیبًا مِنْ دَارِھِمْ ) تاکہ وہ عبرت حاصل کریں ، حرکت میں آئیں اور خدا کی طرف لوٹ آئیں ۔
یہ تنبیہیں اسی طرح جاری رہیں گی یہاں تک کہ خدا کا آخری حکم آپہنچے(حتَّی یَاٴْتِیَ وَعْدُ اللهِ ) ۔
یہ آخری حکم ہو سکتا ہے موت کی طرف یا روز قیامت کی طرف اشارہ ہو یابقول بعض کے فتح مکہ کی طرف اشارہ ہو کہ جس نے دشمن کی ساری طاقت کو درہم بر ہم کرکے رکھ دیا ۔
بہر حال خد اکاو عدہ حتمی ہے ” خدا کبھی بھی اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرے گا“ ( إِنَّ اللهَ لاَیُخْلِفُ الْمِیعَادَ) ۔
زیر نظر آخری آیت پیغمبر اکرم کی طرف روئے سخن کئے ہوئے کہتی ہے : صرف تمہی نہیں ہو کہ جسے اس کا فر گروہ کے طرح طرح کے تقاضوں اور من پسند معجزوں کی فرمائش کے ذریعے تمسخر اور استہزاء کا سامنا کرنا پڑا ہے بلکہ یہ تو پوری تاریخ انبیاء میں ہوتا رہا ہے ”اور تجھسے پہلے بھی بہت سے رسولوں کا تمسخر اڑایا گیا ہے “( وَلَقَدْ اسْتُھْزِءَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِکَ ) ۔
لیکن ہم نے ان کافروں کو فوراً عذاب نہیں کیا بلکہ ” ہم نے انہیں مہلت دی “ (فَاٴَمْلَیْتُ لِلَّذِینَ کَفَرُوا ) ۔
اس لئے کہ شاید بیدار ہوجائیں اور شاید راہ حق کی طرف پلٹ آئیں یا کم از کم ان پر کافی اتمام حجت ہو جائے کیونکہ اگر وہ بد کار اور گنہگار ہیں تو خدا کی مہربانی اور اس کا لطف و کرم اور حکمت بھی تو موجود ہے ۔
بہر حال یہ مہلت اور تاخیر اس معنی میں نہیں کہ ان کی سزا اور کیفر کردار کو فراموش کردیا جائے لہٰذا” اس مہلت کے بعد ہم نے انہیں گرفت کی اور تونے دیکھا کہ ہم نے انہیں کس طرح سزا دی “ یہ انجام تیری ہٹ دھرم قوم کے بھی انتظار میں ہے (ثُمَّ اٴَخَذْتُھُمْ فَکَیْفَ کَانَ عِقَابِ) ۔

 

چند اہم نکات یاد الٰہی باعث ِ تسکین دل ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma