چادر اہم اسلامی اصول

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 12
چند اہم نکات۳۔ کائنات میں نظم و حسا ب کا انسانی زندگی پر اثر:

گزشتہ آیات میں معادو قیامت اور حساب و کتاب کے بارے میں گفتگو تھی۔اسی مناسب سے زیر بحث آیات میں انسان کے اعمال کے حساب و کتاب کے ابرے میں بات کی گئی۔ گفتگو قیامت میں اس معاملے کی کیفیت سے شروع ہوتی ہے ۔ ارساد ہوتا ہے: ہر شخص کے اعمال کو ہم نے اس کے گلے کا ہار بنادیا ہے

( وَکُلَّ إِنسَانٍ اٴَلْزَمْنَاہُ طَائِرَہُ فِی عُنُقِہِ) ۔
”طائر“پرندے کے معنی میں ہے لیکن عربوں کے درمیان معمول تھا کہ وہ پرندوں کے ذریعے نیک یابد فال نکالتے تھے اور ان کی حرکت کی کیفیت سے نتیجہ نکالتے تھے ۔یہاں اس چیز کی طرف اشارہ ہے ۔ مثلاً اگر ایک پرندہ ان کی دائیں طرف اڑرہا ہوتا تو ایک اسے نیک فال سمجھتے اور اگر بائیں طرف اڑرہا ہوتا تو اسے بد فال خیال کرتے ۔اسی لیے یہ لفظ زیادہ تر فال بد کے معنی میں استعمال ہوتا ہے حالانکہ ”تفال“زیادہ تر نیک فال کے لیے بولا جاتا ہے ۔
آیات قرآن میں بھی بارہا” تطیر“ فال بد کے معنی میں آیا ہے ۔مثلاً:
<وَإِنْ تُصِبْھُمْ سَیِّئَةٌ یَطَّیَّرُوا بِمُوسیٰ وَمَنْ مَعَہُ
فرعوں والوں کو کوئی پر یشانی لایق ہوتی تو وہ اسے موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کی نحوست سمجھتے تھے ۔ (اعراف۔۱۳۱)
نیز سورہ نمل کی آیت ۴۷ میں ہے:
<قَالُوا اطَّیَّرْنَا بِکَ وَبِمَنْ مَعَکَ
قوم صالح کے مشرکین کہنے لگے: ہم تجھے اور تیرے ساتھیوں کو منحوس اور فال بد سمجھتے ہیں ۔
اسلامی احادیث میں”تطیر“سے منع کیا گیا ہے اور اس کے مقابلے میں ”توکل علی الله‘ ‘کی ہدایت فرمائی گئی ہے ۔
بہر حال زیر بحث آیت میں بھی”طائر“اس معنی کی طرف اشارہ ہے یا پھر یہ قسمت کے معنی میں ہے کہ جو نیک و بد فال کے قریب قریب ہے ۔
قرآن در حقیقت کہتا ہے کہ نیک و بد فال اور اچھی بری قسمت کوئی چیز نہیں ۔یہ تو تمہارے اعمال ہیں کہ جنہیں تمہاری گردن میں لٹکایا جائے گا ۔
”الزمناہ“(ہم نے لازم قرار دیا ہے اس کو) اور”فی عنقہ“(اس کی گردن میں )کی تعبیر اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کے اعمال اور ان کے نتائج دنیا اور آخرت میں اس سے جدا نہیں ہوتے اور ہر حالت میں اسے ان کا مسئول اور ذمہ دار ہونا چاہئے ۔جو کچھ ہے عمل ہے باقی سب باتیں ہیں ۔بعض مفسرین نے لفظ ”طائر“کے انسانی اعمال پر اطلاق سے یہ احتمال بھی ذکر کیا ہے کہ انسان کے اچھے برے اعمال گویا ایک پرندے کی مانند ہیں کہ جو اس کے وجود سے پرواز کرتا ہے ۔ اسی لیے ان پر ”طائر“کا اطلاق ہوا ہے ۔
زیر بحث آیت میں لفظ”طائر“اچھائی اور برائی سے انسان کے حصے کے معنی میں ہے یا دلیل اور رہنما کے معنی میں ہے یا نامہ اعمال کے معنی میں ہے یا برکت و نحوست کے معنی میں ہے ۔
ان میں سے بعض تفاسیر سے تو وہی مفہوم نکلتا ہے جس کا ذکر ہم پہلے کرچکے ہیں جبکہ بعض تفاسیر آیت کے مفہوم سے بہت دور ہیں ۔
اس کے بعد قرآن مزید کہتا ہے: روزِ قیامت ہم اس کے لیے کتاب نکالیں گے کہ جسے وہ اپنے سامنے کھلا ہوا پائے گا(وَنُخْرِجُ لَہُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ کِتَابًا یَلْقَاہُ مَنشُورًا) ۔
واضح ہے کہ”کتاب“سے مراد انسان کے نامہ اعمال کے علاوہ کوئی چیز نہیں ہے ۔ وہی نامہ اعمال کہ جو اس دنیا میں بھی موجود ہے کہ جس میں اس کے اعمال ثبت ہوئے ہیں ۔ فرق یہ ہے کہ یہاں وہ نامہ اعمال پوشیدہ اور وہاں کھلا ہوا سامنے رکھا ہوگا ۔ ”نخرج“‘ (نکالیں گے) اور ”منشور“ (کھلا ہوا) کی تعبیر اسی معنی کی طرف اشارہ ہے کہ جو اس جہان میں مخفی ہے وہاں آشکار اور کھلاہوا ہوگا ۔
نامہ اعمال اور اس کی حقیقت کے بارے میں آئندہ صفحات میں ہم مزید گفتگو کریں گے ۔
تو اس وقت اس سے کہا جائے گا: اپنا نامہ اعمال خود پڑھ لے(اقْرَاٴْ کِتَابَک) ۔ اپنا حساب کتاب کرنے کے لیے آج تو خود ہی کافی ہے (کَفیٰ بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیبًا )
یعنی مسائل اس قدر واضح ہیں کہ جائے کلام نہیں ہے ۔جو شخص بھی اس نامہ اعمال کودیکھے گا خود فیصلہ کر سکے گا، چا ہے وہ خود مجرم ہی کیوں نہ ہو کیونکہ یہ نامہ اعمال خود اسی کے اعمال یا اعمال کے آثار کا مجموعہ ہے لہٰذا کرئی ایسی چیز نہیں کہ جس کا انکار ہوسکے ۔
اگر میں اپنی ریکارڈ شدہ آواز سنوں یا کرئی اچھایا برا کام کرتے ہوئے کھینچی گئی اپنی تصویر دیکھوں تو کیا اسکا انکار کر سکتا ہوں ۔ نامہ اعمال کی کیفیت روز قیامت اس سے بھی زیادہ اضح اور باریک تفصیلات کے ساتھ ہوگی۔
اگلی آیت میں حساب اور جزاء کے بارے میں چار اصولی احکام بیان کیے گیے ہیں:
۱۔ جو شخص ہدایت پالے تو اس نے اپنے ہی فائدے میں ہدایت پائی ہے اور اس کا نتیجہ خود اسی کو حاصل ہوگا ( مَنْ اھْتَدیٰ فَإِنَّمَا یَھْتَدِی لِنَفْسِہِ) ۔
۲۔ اور جوشخص گمراہی کا راستہ اپنا لے تو وہ اپنے ہی نقصان میں گمراہ ہوا ہے اور اس کے برے نتائج خود اسی کے دامن گیر ہوں گے

 (وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْھَا) ۔
ان دو احکام کی نظیر اسی سورت کی ساتویں آیت میں بھی گزرچگی ہے ۔
۳۔ کوئی شخص دوسرے کے گناہ کا بوجھ اپنے دوش پر نہیں اٹھائے گا اور کسی کو دوسرے کے جرم کی سزا نہیں دی جائے گی ( وَلَاتَزِرُ وَازِرَةٌ وزَر اٴُخْری)
”وزر“کا معنی ہے”بھاری بوجھ“ یہ لفظ مسئولیت اور جوابد ہی کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے کیونکہ روحانی اعتبار سے یہ بھی انسان کے کندھے پر ایک بھار بوجھ کی مانند ہی ہے”وزیر “کو بھی اسی لیے ”وزیر “کہتے ہیں کہ سر براہ مملکت یا عوام کی طرف سے اس کے کندھے پر ایک بھاری بوجھ ہوتا ہے ۔یہ ایک عمومی قانون ہے کہ کوئی شخص دوسرے کے گناہ کا بوجھ اپنے کندھے پر نہیں اٹھائے گا ۔
البتہ یہ قانون سورہٴ نحل کی آیت ۲۵ کے مفہوم کے منافی نہیں ہے کہ جس میں ہے کہ گمراہ کرنے والے افراد سے ان لوگوں کے بارے میں بھی جوابدہی ہوگی جنہیں انہوں نے گمراہ کیا ہے کیونکہ دوسروں کو گمراہ کرنا بھی بذات خود گناہ ہے یا گمراہ کرنے والے مثل فاعل شمارہوں گے لہٰذا در حقیقت یہ ان کے اپنے گناہوں کا بوجھ ہے ۔ دوسرے لفظوں میں یہاں ”سبب“ کام انجام دینے والے کے حکم میں ہے ۔
متعدد روایات کے مطابق جو اچھی یا بری رسم کی بنیاد رکھے گا وہ جزااور سزا میں اس رسم کی پیروی کرنے والوں کا شریک ہے ۔ جو کچھ ہم نے سطور بالا میں کہا ہے یہ روایات اس سے متضاد نہیں ہیں کیونکہ کسی سنت یا رسم کی بنیاد رکھنے والا در حقیقت عمل کے بنیادی اسباب میں سے ہے اور عمل میں شریک ہے ۔
۴۔آخر میں چو تھا حکم یوں بیان کیا گیا ہے: ہم کسی شخص یا قوم کو اس وقت تک سزا نہیں دیتے جی تک ان کے لیے کوئی پیغمبر مبعوث نہ کریں تا کہ وہ پوری طرح انہیں ا ن کی ذمہ داریوں سے آگاہ کرکے ان پر حجت تمام کردے (وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِینَ حَتَّی نَبْعَثَ رَسُولًا ) ۔
مفسرین میں اس سلسلے میں اختلاف ہے کہ یہاں عذاب سے مراد ہر قسم کا دنیاوی یا اخروی عذاب ہے یا خصوصیت سے”عذابِ استیصال“ ہے (یعنی طوفان نوح کی طرح کا ہولناک عذاب) ۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ آیت کا ظاہری مفہوم مطلق ہے اور اس میں ہر قسم کا عذاب شامل ہے ۔
نیز اس بارے میں بھی مفسرین میں اختلاف ہے کہ یہ حکم شرعی مسائل کہ جنہیں نقلی دلائل سے معلوم کیا جاتا ہے کے لیے مخصوص ہے یا اصولی و فرعی اور عقلی و نقلی تمام مسائل سے مربوط ہے ۔ البتہ اگر ہم آیت کے ظاہری مفہوم کو دیکھیں تو مطلق ہے ۔ لہٰذا کہنا چاہئے اصول و فروع دین سے مربوط تمام عقلی و نقلی احکام اس میں شامل ہے ۔
آیت کے ظاہری مفہوم کے لحاظ سے اس گفتگو کا مفہوم یہ ہے کہ وہ مسائل بھی جن کے بارے میں عقل مستقلاً اچھا یا برا ہونے کا فیصلہ رکھتی ہے(مثلاً عدل کا اچھا ہونا اور ظلم کا برا ہونا) الله تعالیٰ اپنے لطف و کرم سے ان کے بارے میں بھی کسی کو اس وقت تک سزا نہیں دیتا جب تک خدا کے پیغمبر نہ آئیں اور حکم نقل کے ذریعے حکم عقل کی تائید نہ کریں ۔ (غور کیجئے گا) ۔
لیکن یہ بات بہت بعید معلوم ہوتی ہے کیونکہ عقل جن امور کے بارے میں مستقل فیصلہ رکھتی ہے وہ بیان شرعی کے محتاج نہیں ہیں اور ایسے امور کے لیے حکم عقل اتمام حجت کے لیے کافی ہے لہٰذا ہمارے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہم مستقلات عقلی کو اس آیت سے مستثنیٰ سمجھیں اور اگر ایسا نہ سمجھیں تو پھر عذاب کے اس جملے میں عذابِ استیصال کا معنی لینا ہوگا ۔اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ الله تعالیٰ اپنے لطف اور کرم کی وجہ سے ظالموں اور منحرفوں کواس وقت تک نابود نہیں کرے گا جب تک انہیں سعادت کی تمام راہیں بتانے والا پیغمبر ان میں مبعوث نہ کرے ۔وہ پیغمبر ان سے مستقلات عقلی کے بارے میں بھی شرعی حکم بیان کرے گا اور عقل و نقل دونوں حوالوں سے اتمام حجت کرے گا(غور کیحئے گا) ۔

 

چند اہم نکات۳۔ کائنات میں نظم و حسا ب کا انسانی زندگی پر اثر:
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma