عذاب الٰہی کے چارہ مرحلے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 12
طالبان دنیا اور طالبان آخرت چند اہم نکات

گزشتہ آیات میں سے آخری میں بیان کیا گیا تھا کہ” ہم کسی فرد یا کروہ کو انبیاء بھیجنے اور اپنے احکام بیان کرنے کے بغیر ہرگز سزا نہیں دیتے“۔ اب زیر بحث پہلی آیت میں ہی بنیادی بات ایک اور پیرائے میں بیان کی گئی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے: جب ہم کسی قوم کو ہلاک کرنے کا مصمم ارادہ کر لیتے ہیں تو پہلے ہم مترفین اور دولت کے نشے میں غرق لوگوں سے اپنے احکام بیان کرتے ہیں ۔ اس کے بعد جب وہ اطاعت نہیں کرتے بلکہ مخالفت کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور عذاب کے مستحق ہو جاتے ہیں تو ہم ان کی شدت سے سر کوبی کرتے ہیں اور انہیں ہلاک کردیتے ہیں (وَإِذَا اٴَرَدْنَا اٴَنْ نُھْلِکَ قَرْیَةً اٴَمَرْنَا مُتْرَفِیھَا فَفَسَقُوا فِیھَا فَحَقَّ عَلَیْھَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاھَا تَدْمِیرًا) ۔ (۱)
اس آیت کے مفہوم کے بارے میں بہت سے مفسرین نے متعدد احتمالات ذکر کیے ہیں لیکن ہماری نظر میں آیت ظاہری معنی کے اعتبار سے ایک سے زیادہ واضح تفسیر نہیں رکھتی۔ اور وہ یہ کہ الله تعالیٰ اتمام حجت اور اپنے احکام بیان کرنے سے پہلے ہرگز کسی سے مواخذہ نہیں کرتا اور نہ کسی کو عذاب دیتا ہے بلکہ پہلے اپنے احکام بیان کرتا ہے اگر لوگ اطاعت کریں اور ان احکام کو اپنا لیں تو خوب، اسی میں ان کی دنیا و آخرت کی سعادت ہے اور اگر وہ فسق و فجور کریں اور مخالفت پر اٹھ کھڑے ہوں اور احکام کو پاوٴں تلے روند ڈالیں تو یہ وہ مقام ہے جہاں وہ عذاب کے مستحق ہوجاتے ہیں اور پھر اس کے بعد ان کے لیے ہلاکت ہے ۔
اگر آیت میں صحیح طور پر غور و فکریں تو اس کام کے لیے چار مراحل واضح طور پر بیان ہوئے ہیں:
(۱) اوامر(و نواھی)کا مرحلہ
(۲)مخالفت تور فسق وفجور کا مرحلہ
(۳)عذاب کے استحقاق کا مرحلہ
(۴)ہلاکت ما مرحلہ
فاء تفریح کے ساتھ یہ تمام مرحلے دوسرے پر عطف ہوئے ہیں ۔
یہاں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ صرف”مترفین“(۲)کو حکم کیوں دیا گیا ہے ۔
اس سوال کے جواب میں ایک نکتے کی طرف توجہ کی جائے تومعاملہ واضح ہوجا تا ہے اور وہ یہ کہ بہت سے معاشروں (مراد غلط قسم کے معاشرے ہیں) میں معاشرے کی باگ ڈور مترفین ہی کے قبضے میں ہوتی ہے اور لوگ ان کے تابع اور پیرو ہوتے ہیں ۔ علاوہ ازیں اس میں ایک اور نکتے کی طرف اشارہ ہے وہ یہ کہ معاشرے کی زیادہ تر برائیوں کا سرچشمہ مترفین اور خدا کو بھولے ہوئے دولت مندہی ہوتے ہیں جو نازد نعمت، عیش و عشرت اور ہوا و ہوس میں مستغرق ہوتے ہیں ۔ ہر اصلاحی، انسانی اور اخلاقی آواز انہیں بُری لگتی ہے ۔ لہٰذا یہی لوگ انبیاء کے مقابلے میں پہلی صف میں ہوتے تھے اور ان کی دعوت کہ جو عدل و انصاف کے لیے اور مستضعفین کی حمایت میں ہوتی تھی اسے ہمیشہ اپنے بر خلاف سمجھتے تھے ۔ان وجوہ کی بناء پر خصوصیت سے انہی کا ذکر کیا گیا ہے کیونکہ فساد اور برائی کی اصلی جڑ یہی لوگ ہیں ۔
ضمنا ۔ ”دمرنا“ اور ”تدمیر“’، ”دمار“کے مادہ سے ہلاکت کے معنی میں ہیں ۔
بہرحال مندرجہ بالا آیت تمام اہل ایمان کے لیے تنبیہ ہے کہ وہ خبردار رہیں اور اپنی حکومت مترفین اور نفسانی خواہشوں میں سرمست دولت مندوں کے ہاتھ میں نہ دیں اور ان کے پیچھے نہ لگیں کیونکہ یہ لوگ آخر کار ان کے معاشرے کو ہلاک و نابود ی سے ہمکنار کریں گے ۔
اس کے بعد والی آیت میں اس مسئلے کے کئی ایک نمونوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے: کتنے ہی لوگ تھے جو نوح کے بعد کی صدیوں میں آئے اور (اسی سنت کے مطابق )ہلاک اور نابود ہوگئے(وَکَمْ اٴَھْلَکْنَا مِنَ الْقُرُونِ مِنْ بَعْدِ نُوحٍ)
اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے:یہ نہیں ہوسکتا کہ کسی فرد یا یا گرو ہ کا ظلم اور گناہ علم خدا کی تیز بین نگاہ سے مخفی رہ جائے ”خدا اپنے بندوں کے گناہ سے کافی یعنی پورا آگاہ ہے ان کے لیے بینا ہے“(وَکَفیٰ بِرَبِّکَ بِذُنُوبِ عِبَادِہِ خَبِیرًا بَصِیرًا)
”قرون“ ”قرن“کی جمع ہے ۔ اس کا معنی ہے وہ لوگ جو ایک زمانے میں زندگی گزاریں ۔بعد ازاں یہ لفظ ایک زمانے اور ایک دَور کے لیے استعمال ہونے لگا ۔
ایک”قرن“کتنے سال کا ہوتا ہے، اس سلسلے میں مختلف نظریات ہیں ۔ بعض چالیس سال کا کہتے ہیں، بعض اَسّی سال کا، بعض سو سال کا اور بعض اس سے بھی زیاد ہ، ایک سو بیس سال کا کہتے ہیں ۔ لیکن بناکہے واضح ہے کہ یہ ایک امر اعتبار ہے جو مختلف صورتوں میں مختلف ہوتا ہے البتہ ہمارے زمانے میں معمول یہ ہے کہ لفظ”قرن“کا اطلاق سو سال پر ہوتا ہے ۔ (3) ۔
نیز یہ کہ نوح علیہ السلام کے بعد کے قرنوں کا خصوصی ذکر کیوں کیا گیا ہے ۔ ہوسکتا ہے یہ اس لیے ہو کہ حضرت نوح علیہ السلام سے پہلے انسانی زندگی انتہائی سادہ تھی۔ یہ سب اختلاف خصوصاً معاشرے کی”مترف“اور ”مستضعف“ کی طبقاتی تقسیم بہت کم تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ بہت کم عذاب الٰہی میں گرفتار ہوئے ۔
”خبیر“ و ”بصیر“(آگاہ و بینا) کا اکھٹا ذکر اس طرف اشارہ ہے کہ ”خبیر“ نیت اور عقیدے سے آگاہ کے معنی میں ہے اور ”بصیر“ اعمال وکردار کودیکھنے والے کے معنی ہے ۔ لہٰذا خدا تعالیٰ لوگوں کے اعمال کے باطنی وجود اور اسباب پر بھی مطلع ہے اور خود اعمال کو بھی جانتا ہے اور ایسی ہستی ہرگز کسی پر ظلم روا نہیں رکھتی اور اس کی حکومت میں کسی کا حق صنائع نہیں ہوتا ۔

 

۱۸ مَنْ کَانَ یُرِیدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَہُ فِیھَا مَا نَشَاءُ لِمَنْ نُرِیدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَہُ جَھَنَّمَ یَصْلَاھَا مَذْمُومًا مَدْحُورًا
۱۹ وَمَنْ اٴَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعیٰ لَھَا سَعْیَھَا وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَاٴُوْلٰئِکَ کَانَ سَعْیُھُمْ مَشْکُورًا
۲۰ کُلًّا نُمِدُّ ہَؤُلَاء وَھٰؤُلَاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّکَ وَمَا کَانَ عَطَاءُ رَبِّکَ مَحْظُورًا
۲۱ انظُرْ کَیْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلیٰ بَعْضٍ وَلَلْآخِرَةُ اٴَکْبَرُ دَرَجَاتٍ وَاٴَکْبَرُ تَفْضِیلًا

ترجمہ

۱۸۔ جو شخص (صرف)جلد گزر جانے والی( مادی دنیا)طلب کرتا ہے تو ہم اسے اس قدر دے دیتے ہیں، جو ہم چاہیں اور جس مقدار کا اس کے بارے میں ارادہ کریں اس کے لیے دوزخ قرار دیں گے کہ وہ اس کی جلادینے والی آگ میں جلے گا( جبکہ وہ درگاہ الٰہی سے)راندہ اور مذموم ہوگا ۔
۱۹۔ اور جو شخص صرف آخرت کو چاہے اور اپنی سعی اور تلاش اس کے لیے انجام دے اور وہ ایمان بھی رکھتا ہو تو ( خدا کی طرف سے) اسے اس وتلاش جزا ملے گی۔
۲۰۔ ان میں سے ہرگروہ کو تیرے پروردگار کی عطا میں سے حصہ اور مدد ملے گی اور تیرے پروردگار کی عطا و بخشش کبھی کسی سے ممنوع قرار نہیں دی گئی۔
۲۱۔ دیکھو کس طرح ہم نے بعض کو(دنیا میں ان کی سعی اور تلاش کی وجہ سے)بعض دوسروں پر برتری عطا کی ہے اور آخرت کے درجات اور اس کی فضیلتیں تو اس کہیں زیادہ ہیں ۔

 


۱۔ ”قول“ کا لفظ اگرچہ وسیع معنی ہے لیکن ایسے موقع پر حکم، عذاب کے معنی میں ہے ۔
۲۔ ”مترفین“ ”ترفہ“ کے مادہ سے فراواں نعمت کے معنی میں ہے یعنی وہ نعمتوں کے پلے ہوئے اور دولت مند جو خدا سے بے خبر ہیں ۔
3 سورہء یونس کی آیت ۱۳ کے ذیل میں بھی ہم نے اس موضوع کی طرف اشارہ کیا ہے (تفسیر نمونہ، ج۸، ص۱۹۸ اردو ترجمہ)-
 
طالبان دنیا اور طالبان آخرت چند اہم نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma