چند اہم نکات

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 12
اہم اسلامی احکام کا سلسلہ طالبان دنیا اور طالبان آخرت

۱۔ کیا دنیا و آخرت میں تضاد ہے؟:
بہت سی آیات میں دنیا اور اسی کے مادّی و مسائل کی تعریف کی گئی ہے ۔ بعض آیات میں مال دنیا کو ”خیر“ کہا گیا ہے (بقرہ۔ ۱۸۰) ۔ بہت سی آیات میں مادّی نعمتوں کو”فضل الله“کہا گیا ہے ۔ مثلاً:
<وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللهِ
ایک اور جگہ فرمایا گیا ہے:
<خَلَقَ لَکُمْ مَا فِی الْاٴَرْضِ جَمِیعًا
دنیا کی تمام نعمتیں تمہارے لیے پیدا کی گئی ہے ۔
بہت سے آیات انہیں ”سَخَّرَ لَکُمْ“ (انہیں تمہارے لیے مسخر کیا گیا ہے) کے حوالے سے ان کا ذکر آیا ہے ۔ اگر ہم ان آیات کو جمع کریں کہ جن میں مادّی وسائل کی تعریف کی گئی ہے تو آیات کا اچھا خاصا ذخیرہ ہو جائے ۔ لیکن مادّی نعمات کو اس قدر اہمیت دینے کے باوجود ایسے الفاظ آیات قرآن میں وجود ہیں جن میں ان کی تحقیر و تذلیل کی گئی ہے:
ایک مقام پر اسے متاع فانی شمار کیا گیا ہے:
<تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا
ایک جگہ اسے غرور غفلت کا سبب قرار دیا گیا ہے:
<وَمَا الْحَیَاةُ الدُّنْیَا إِلاَّ مَتَاعُ الْغُرُورِ
ایک موقع پر اسے لہو و لعب اور کھیل کود کا ذریعہ شمار کیا گیا ہے:
<وَمَا ھٰذِہِ الْحَیَاةُ الدُّنْیَا إِلاَّ لَھْوٌ وَلَعِبٌ
نیز ایک مقام پر اسے یادخدا سے غفلت کا سبب گردانا گیا ہے:
<رِجَالٌ لَاتُلْھِیھِمْ تِجَارَةٌ وَلَابَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللهِ
یہی دو قسم کی تعبیرات روایات اسلامی میں بھی نظر آتی ہیں ۔ ایک رُخ سے دنیا آخرت کی کھتی ہے، مردانِ خدا کا مرکز تجارت ہے، دوستان حق کی مسجد ہے، وحی پروردگار کے نزول کا مقام ہے اور پند و نصیحت کا گھر ہے ۔
امیر المومنین علی السلام فرماتے ہیں:
مسجد اٴحباء الله ومصلی ملائکة الله وم۰بط وحی الله ومتجر اٴولیاء الله-(۱)
جبکہ دوسری طرف اسے یاد خدا غفلت کا سبب اور متاع غرور وغیرہ بھی قرار دیا گیا ہے ۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ دو طرح کی آیت و ورایات ایک دوسرے سے متضاد ہیں؟
اس سوال کا جواب خود قرآن سے تلاش کیا جا سکتا ہے ۔ کیونکہ قرآن جہاں دنیا داور اس کی نعمتوں کی مذمت کرتا ہے تو اس کا تعلق ان لوگوں سے ہے جن کا مقصد فقط یہی زندگی ہے ۔ سورہ نجم کی آیہ ۲۹ میں ہیں:
<وَلَمْ یُرِدْ إِلاَّ الْحَیَاةَ الدُّنْیَا
وہ لوگوں کہ جو دنیاوں زندگی کے سوا کچھ نہیں چاہتے ۔
دوسرے لفظوں میں یہاں ان لوگوں کے بارے میں گفتگو ہے جو دنیا کے بدلے آخرت کو بیچ دیتے ہیں اور مادّی خواہشات کی تکمیل کے لیے کسی قسم کی غلط کاری اور جرم سے نہیں چوکتے ۔
سورہٴ توبہ آیہ ۳۸ میں ہے:
< اٴَرَضِیتُمْ بِالْحَیَاةِ الدُّنْیَا مِنَ الْآخِرَةِ
کیا تم آخرت کے بدلے دنیا وی زندگی قبول کرنے پر راضی ہو گئے ہو؟
زیر بحث آیات خود اس دعوی کی شہادت دیتی ہیں ۔ فرمایا گیا ہے:
<مَنْ کَانَ یُرِیدُ الْعَاجِلَةَ
یعنی ان کے پیش نظر یہی زود گزر مادّی زندگی ہے ۔
اصولی طور پر کھیتی یا مزکر تجارت و غیرہ کے الفاظ خود اسی پر زندہ شاہد ہیں ۔
مختصر یہ کہ مادّی دنیا کی نعمتیں سب کی سب الله کی نعمتیں ہیں ۔ ان کا وجود نظام خلقت میں یقیناً ضروری تھا اور ہے ۔ اگر انسان ان سے سعادت اور روحانی کمال تک پہنچنے کا وسیلہ سمجھ کر استفادہ کرے تو یہ ہر لحاظ سے قابل تحسین ہے ۔ لیکن اگر وسیلے کی بجائے انہی کو مقصد سمجھ لیا جائے اور انہیں معنوی اور انسانی قدروں سے الگ کر لیا جائے تو فطرتاً یہ امر غرور، طغیان، سرکشی،ظلم اور بیدادگری کا سبب ہوگا ۔ ایسی دنیا یقیناً ہر قسم کی برائی کا محل قرار پائے گی اور قابل مذمت ٹھہرے گی۔
حضرت علی علیہ السلام نے اپنے اس پُر مغزدار اور مختصر سے جملے میں کیا خوب فرمایا ہے:
من اٴبصر بھا بصرتہ ومن البصر الیھا اٴعمتہ
جو اس کے ذریعے چشم بصیرت سے دیکھے تو دنیا اسے آگہی بخشتی ہے اور خود دنیا کی طرف دیکھے تو یہ اسے اندھا کردیتی ہے ۔ (2)
در حقیقت مذموم اور ممدوح دنیا میں وہی فرق ہے جو ”الیھا“ اور ”بھا“میں ہے ۔ پہلی صورت میں دنیا مقصد ہے اور دوسری صورت میں دنیا وسیلہ ہے اور کسی اور تک پہنچے کا ذریعہ ہے ۔
۲۔ کا میابی میں کوشش کا دخل:
یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ قرآن کوشش کا ذکر کرتے ہوئے سست اور بیکار افراد کو تنبیہ کررہا ہے اور نہیں بیدار کر تے ہوئے کہہ رہا ہے کہ دوسری جہان کی سعادت وخوش بختی صرف اظہار ایمان اور گفتار سے حاصل نہیں ہو سکتی بلکہ سعادت وخوش بختی کا حقیقی عامل کوشش اور جستجو ہے ۔
یہ حقیقت بہت سی قرانی آیات سے معلوم ہوتی ہے ۔ذیل کی آیت میں انسان کو اپنے اعمال کا گیروی قرار دیا گیا ہے :
< کُلُّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ رَھِینَةٌ
ایک اور مقام پر فرمایاگیا ہے کہ انسان کا حصّہ وہی کچھ ہے جو وہ کوشش کرتاہے :
<وَاٴَنْ لَیْسَ لِلْإِنسَانِ إِلاَّ مَا سَعیٰ
بہت سی آیات قرآن میں ایمان کا ذکر کرنے کے بعد عمل صالح کا ذکر کیا گیا ہے ۔تاکہ یہ خیال خام ذہن سے نکل جائے کہ کو شش کے بغیر بھی کسی مقام تک پہنچا جا سکتا ہے ۔جب مادّی دنیا کی نعمات کوشش کے بغیر حاصل نہیں جا سکتی تو کیسے جاسکتی ہے کہ سعادت جاودانی اس کے بغیر ہاتھ لگ جائے گی ۔
۳۔امدادالٰہی:
”نمد“ ”امداد“ کے مادہ سے مدد دینے کے معنی میں ہے ۔مفردات میں راغب کہتا ہے :
لفظ ”امداد“ عام طور پر مفید اور موٴثر کمک کے لیے استعمال ہوتا ہے اور ”مد“ ناپسندیدہ کمک کے لیے ۔
بہر حال زیر بحث آیات کے مطابق خدا تعالیٰ اپنی نعمتوں کا کچھ حصہ تو سب کو دیتا ہے اور نیک اور بد سب اس سے استفادہ کرتے ہیں یہ نعمتوں کے اس حصے کی طرف اشارہ ہے جس پر دنیاوی زندگی کے بقا موقوف ہے اور جس کے بغیر کوئی باقی رہ سکتا ۔
دوسرے لفظوں میں خدا کا وہی مقام رحمانیت ہے جس کا فیض مومن و کافر کے لیے عام ہے لیکن اس کے علاوہ بھی ایسی لا متناہی نعمتیں ہیں جو صرف مومنین اور نیک لوگوں کے ساتھ مخصوص ہیں ۔

 

۲۲ لَاتَجْعَلْ مَعَ اللهِ إِلَھًا آخَرَ فَتَقْعُدَ مَذْمُومًا مَخْذُولً
۲۳ وَقَضَی رَبُّکَ اٴَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اٴَحَدُھُمَا اٴَوْ کِلَاھُمَا فَلَاتَقُلْ لَھُمَا اٴُفٍّ وَلَاتَنْھَرْھُمَا وَقُلْ لَھُمَا قَوْلًا کَرِیمًا
۲۴ وَاخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیَانِی صَغِیرًا
۲۵ رَبُّکُمْ اٴَعْلَمُ بِمَا فِی نُفُوسِکُمْ إِنْ تَکُونُوا صَالِحِینَ فَإِنَّہُ کَانَ لِلْاٴَوَّابِینَ غَفُورًا

ترجمہ

۲۲۔ اور الله کے ساتھ کسی اور کو معبود قرار نہ دے ورنہ مذموم و رسوا ہو جائے گا ۔
۲۳۔تیرے پروردگار نے حکم دیا ہے کہ اس کے علاوہ کسی کی پرستش نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو جب ان میں سے کوئی ایک یا دونوں تمہارے پاس بڑھا پے کو پہنچ جائیں تو ان کی ذرہ بھر اہانت بھی نہ کرو اور انہیں جھڑکو نہیں اور کریمانہ انداز سے لطیف و سنجیدہ گفتگوکرو۔
۲۴۔ اور لطیف و محبت سے ان کے سامنے خاکساری کا پہلو جھکائے رکھو۔ اور کہو۔ پروردگارا! جیسے انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی ہے اسی طرح تو بھی ان پر رحم فرما ۔
۲۵۔تمہارا پروردگار تمہارے دلوں کے نہاں خانہ سے آگاہ ہے(اگر تم نے اس سلسلے میں کوئی لغزش کی ہوا اور پھر اس کی تلافی کردی ہو تو وہ تمہیں معاف کردے گا کیونکہ)اگر تم صالح اور نیک ہوگے تو وہ توبہ کرنے والوں کو بخش دیتا ہے ۔

 


۱۔ نہج البلاغہ، کلماتِ قصار، جملہ۱۳۱-
2۔ نہج البلاغہ، خطبہ۳۸-

 

اہم اسلامی احکام کا سلسلہ طالبان دنیا اور طالبان آخرت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma