زنا کا فلسفہ حرمت

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 12
چند اہم نکاتچھ اہم احکام

(الف) اس سے خاندانی نظام درہم برہم ہوجاتا ہے ۔ ماں باپ اور اولاد کے درمیان رابطہ ختم ہوجاتا ہے جبکہ یہ وہ رابطہ ہے جو نہ صرف معاشرے کی شناخت کا سبب ہے بلکہ خود اولاد کی نشود و نما کا موجب بھی ہے ۔ یہی رابطہ ساری عمر محبت کے ستونوں کو قائم رکھتا ہے اور انہیں دوام دیتا ہے ۔
مختصر یہ کہ جس معاشرے میں غیرشرعی اور بے باپ کی اولاد زیاد ہ ہو اس کے اجتماعی روا بط سخت تزلزل کا شکا ر ہو جاتے ہیں کیونکہ ان روابط کی بنیاد خاندانی روابط ہیں ۔
اس مسئلے کی اہمیت سمجھنے کے لیے لحظہ بھر اس امر پر غور کرنا کافی ہے کہ اگر سارے انسانی معاشرے میں زنا جائز اور مباح ہوجائے اور شادی بیاہ کا قانون ختم کردیا جائے تو ان حالات میں غیر مشخص اور بے ٹھکانہ اولاد پیدا ہوگی۔ اس اولاد کو کسی کی مدد اور سرپرستی حاصل نہ ہوگی۔ اسے نہ پیدائش کے وقت کوئی پوچھے گا نہ بڑا ہوکر۔
اس سے قطع نظر برائیوں، سختیوں اور مشکلوں میں محبت کا اثر تسلیم شدہ ہے جبکہ ایسی اولاد اس محبت سے محروم ہوجائے گی اور انسانی معاشرہ پوری طرح تمام پہلوؤں سے حیوانی درندگی کی شکل اختیار کرلے گا ۔
(ب) یہ شرمناک اور قبیح عمل ہوس باز لوگوں کے درمیان طرح طرح کے جھگڑوں اور کشمکشوں کا باعث بنے گا ۔ وہ واقعات کہ جو بعض افراد نے بد نام محلوں اور غلط مراکز کی داخلی کیفیت کے بارے میں لکھے ہیں ان سے یہ حقیقت اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ جنسی بے راہ رویاں بدترین جرائم کو جنم دیتی ہیں ۔
(ج) یہ بات علم اور تجربے نے ثابت کردی ہے کہ زنا طرح طرح کی بیماریاں پھیلنے کا سبب بناہے ۔ اس کے آثارِ بد اور برے نتائج کی روک تھام کے لیے آج کے دور میں بہت سے ادارے قائم ہیں اور بہت سے اقدامات کیے گئے ہیں مگر اعداد و شمار نشاندہی کرتے ہیں کہ کس قدر افراد اس راستے میں اپنی صحت و سلامتی گنوا بیٹھے ہیں ۔
(د) اکثر اوقات یہ عمل اسقاطِ حمل، قتل اولاد اور انقطاع نسل کا سبب بنتا ہے کیونکہ ایسی عورتوں ایسی اولاد کی نگہداری کے لیے ہرگز تیار نہیں ہوتیں اور اصولاً اولاد ان کے لیے ایسا منحوس عمل جاری رکھنے میں بہت بڑی رکاوٹ ہوتی ہے لہٰذا وہ ہمیشہ اسے پہلے سے ختم کردینے کی کوشش کرتی ہیں ۔
یہ مفروضہ بالکل موہومی ہے ایسی اولاد حکومت کے زیر کنٹرول اداروں میں رکھی جاسکتی ہے ۔ اس مفروضے کی ناکامی عملی طور پر واضح ہوچکی ہے اور ثابت ہوچکا ہے کہ اس صورت میں بِن باپ کی اولاد کی پرورش کس قدر مشکلات کا باعث ہے اور نتیجتاً بہت ہی نامرغوب اور غیر پسندیدہ ہے ۔ ایسی اولاد سنگدل، مجرم، بے حیثیت اور ہر چیز سے عاری ہوتی ہے ۔
(ہ) یہ بات فراموش نہیں کرنا چاہیئے کہ شادی بیاہ کا مقصد صرف جنسی تقاضے پورے کرنا نہیں بلکہ تشکیل حیات میں اشتراک، روحانی محبت، فکری سکون، اولاد کی تربیت اور تمام حالاتِ زندگی میں ہمکاری شادی کے نتائج میں سے ہیں اور ایسا بغیر اس کے نہیں ہوسکتا کہ عورت اور مرد باہم مخصوص ہوں اور عورتیں دوسروں پر حرام ہوں ۔
امام علی بن ابی طالب علیہ السلام ایک حدیث میں فرماتے ہیں:
میں نے پیغمبر اکرم صلی ا للهعلیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ نے فرمایا:
فی الزناست خصال:ثلث فی الدنیا و ثلث فی الاٰخرة، فاٴما اللّواتی فی الدنیا فیذھب بنورالوجہ، و یقطع الرزق، ویسرع الفناء۔ و اٴما اللّواتی فی الاٰخرة فغضب الرب و سوءِ الحساب و الدخول فی النار، اٴو الخلود فی النار۔
زنا کے چھ بُرے اثرات ہیں: ان میں سے تین کا تعلق دنیا سے ہے اور تین کا تعلق آخرت سے ہے ۔ دُنیاوی بُرے اثرات یہ ہیں کہ یہ عمل انسان کی نورانیت گنوادیتا ہے، روزی منقطع کردیتا ہے اور جلد فنا سے ہمکنار کردیتا ہے ۔ اُخروی آثار یہ ہیں کہ یہ عمل پروردگار کے غضب، حساب کتاب میں سختی اور آتشِ جہنم میں دخول یا دوام کا سبب بنتا ہے ۔ (۱)
(۳) اگلی آیت میں ایک اور حکم ہے ۔ یہ حکم انسانوں کے خون کے احترام کے بارے میں ہے اور قتل نفس کی انتہائی حرمت کا ترجمان ہے ۔ قرآن کہتا ہے: جس شخص کا خون خدا نے حرام قرار دیا ہے اسے سوائے حق کے قتل نہ کرو (وَلَاتَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِی حَرَّمَ اللهُ إِلاَّ بِالْحَقِّ ) ۔
انسان کے خون کا احترام اور قتل نفس کی حرمت ایسے مسائل ہیں جن میں تمام آسمانی شریعتیں، دین اور انسانی قوانین متفق ہیں اور اس قتل کو ایک بہت بڑا جرم اور گناہ شمار کرتے ہیں لیکن اسلام نے اس مسئلے کو بہت ہی زیادہ اہمیت دی ہے یہاں تک کہ ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا ہے ۔ قرآن کہتا ہے:
<مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ اٴَوْ فَسَادٍ فِی الْاٴَرْضِ فَکَاٴَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیعًا
جو کسی کو نہ جان کے بدلے اور نہ فساد فی الرض کی سزا میں قتل کردے تو اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر ڈالا ۔ (مائدہ۔۳۲)
یہاں تک کہ قرآن کی بعض آیات سے تو معلوم ہوتا ہے کہ دائمی عذابِ جہنم کہ جو کفار کے لیے مخصوص ہے قاتل کے لیے بھی بیان ہوا ہے اور ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ ممکن ہے یہ تعبیر اس بات کی دلیل ہو کہ وہ افراد جن کے ہاتھ بے گناہ افراد کے خون سے رنگین ہوتے ہیں وہ دنیا سے ایمان کے ساتھ نہیں جائیں گے بہر حال قرآن کہتا ہے:
<وَمَنْ یَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُہُ جَھَنَّمُ خَالِدًا فِیھَا
جس کسی نے کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کردیا تو اس کی جزاء جہنم ہے کہ جس میں وہ ہمیشہ رہے گا ۔ (نساء/ ۹۳)
یہاں تک کہ جو افراد لوگوں کے سامنے ہتھیار کھینچتے ہیں ان کے لیے اسلام میں محارب کی حیثیت سے سنگین سزا مقرر ہوئی ہے جس کی تفصیل فقہی کتب میں آئی ہے اس سلسلے میں ہم سورہٴ مائدہ آیہ ۳۳کے ذیل میں اشارہ کر آئے ہیں ۔
نہ صرف قتل کرنا بلکہ کسی شخص کو کم سے کم اور چھوٹا آزار پہنچانے پر بھی اسلام میں سزا موجود ہے ۔
یہ بات بڑے اطمینان سے کہی جاسکتی ہے کہ خون، جان اور انسان کے مقام کا یہ سب احترام جو اسلام میں ہے کسی اور دین و آئین میں موجود نہیں ہے ۔
لیکن بالکل اسی وجہ سے کچھ ایسے مواقع آتے ہیں کہ خون کا احترام اٹھ حاتا ہے اور ان افرا د کے لیے ہے جو قتل یا اس جیسے گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ اسی لیے زیر بحث آیت میں پہلے حرمت قتل نفس کا بنیادی اور عمومی قانون بیان کیا گیا اور اس کے فوراً بعد”الّابالحق“ کہہ کر ایسے افراد کو مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے ۔
پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم نے ایک مشہور حدیث میں فرمایا ہے:
لایحل امرء مسلم یشھد اٴن لا الٰہ الّا الله واٴنّ محمداً رسول الله الّا باٴحدی الثلاث: النفس بالنفس، والزانی المحصن، والتارک لدینہ المفارق للجماعة-
کسی مسلمان کا خون کہ جو ”لا الہ الا الله“ اور ” محمد رسول الله“ کی گواہی دیتا ہو حلال نہیں ہے مگر تین مواقع پر۔ ایک یہ کہ وہ قاتل ہو، زانی محصن ہو اور وہ جو اپنا دین چھوڑ کر مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہوجائے ۔ (2)
قاتل کے بارے میں حکم تو واضح ہے ۔ اس کے قصاص میں معاشرے کی حیات اور انسانوں کی حفظِ جان کی ضمانت اور اگر اولیاءِ مقتول کو حقِ قصاص نہ دیا جائے تو قاتلوں کوشہ ملے گی اور معاشرے کا امن وامان تباہ ہوجائے گا ۔
باقی رہا زانی محصن تو اس کا قتل ایک ایسے انتہایی قبیح گناہ کے بدلے میں ہے جو قتل کے برابر ہے ۔نیز مرتد کا قتل اسلامی معاشرے میں حرج مرج کو روکتا ہے اور جیسا کہ ہم نے کہا ہے یہ ایک سیاسی حکم ہے، تا کہ نظام اجتماعی کی حفاظت کی جاسکے کیونکہ ارتداد نہ صرف اجتماعی امن و امان کے لیے خطرہ ہے بلکہ خود نظام اسلام کے لیے بھی خطرہ ہے ۔
اصولی طور پر اسلام کسی شخص کو مجبور نہیں کرتا کہ وہ یہ دین قبول کرے ۔ دوسرے ادیان سے اسلام منطقی بنیادپر معاملہ کرتا ہے اور آزاد بحث و مباحثہ کا تامل ہے لیکن اگر کسی نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کر لیا او راسلامی معاشرے کا جز بن گیا اور اس طرح مسلمانوں کے اسرار سے آگاہ ہوگیا ۔اب اگر وہ دین سے پلٹ جانا چاہے اور عملی طور پر نظام اسلام کی بنیاد کمزور کرنا چاہے اور اسلامی معاشرے کے ستون گرانا چاہے تو یقیناً یہ عمل ناقابل برداشت ہے اور ان شرائط کے ساتھ اس کی سزا قتل ہے ۔ (3)
البتہ اسلام میں انسانوں کے خون کا احترام مسلمانوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ وہ غیر مسلمان جو مسلمانوں سے بر سرجنگ نہیں ہیں اور ان سے دامن و سلامتی کی زندگی بسر کرتے ہیں ان کی جان و مال ائر نا موس بھی محفوظ ہے اور ان پر تجاوز کرنا حرام اور ممنوع ہے ۔اس کے بعد قرآن اولیاء مقتول کے حق قصاص کے بارے میں کہتا ہے: جو شخص مظلوم مارا جائے اس کے ولی کو ہم نے(قاتل سے قصاص لینے کا) تسلط دیا ہے (وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہِ سُلْطَانًا) ۔
لیکن اسے بھی نہیں چاہیے کہ ان حالات میں وہ اپنے حق سے زیادہ کا مطالبہ کرے اور قتل میں اسراف کرے کیونکہ وہ مدد دیا گیا ہے (فَلَایُسْرِفْ فِی الْقَتْلِ إِنَّہُ کَانَ مَنصُورًا) ۔
جی ہاں! اولیاءِ مقتول جب تک حد اسلام کے اندر رہتے ہیں اور اپنی حد سے تجاوز نہیں کرتے وہ نصرت الٰہی کے زیر سایہ ہیں یہ جملہ ان اعمال کی طرف اشارہ ہے زمانہٴ جاہلیت میں تھے اور بعض اوقات آج کل بھی ہوتے ہیں ۔ کبھی ایک شخص کے قتل کے علاوہ اور بہت سے بے گناہ افراد قتل کردیئے جاتے ہیں ۔ جیسے زمانہٴ جاہلیت کی رسوم میں تھا کہ جب کسی قبیلے کا کوئی معروف آدمی قتل ہوجاتا تو مقتول کا قبیلہ قاتل کے قتل پر قناعت نہ کرتا بلکہ ضروری سمجھتا کہ قاتل کے قبیلے کا سردار معروف شخص قتل کرے چاہے اس قتل میں اس کا کوئی حصّہ نہ ہو۔ (4)
ہمارے زمانے میں بھی بعض اوقات ایسے جرائم ہوتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں ۔ اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں ۔ خصوصاً غاصب اسرائیل کا یہی کردار ہے ۔ جب کوئی فلسطینی مجاہدان میں سے کسی کو قتل کردے تو وہ فوراً فلسطینی بچوں اور عورتوں پر بم برسانے لگتے ہیں اور بعض اوقات ایک شخص کے بدلے بیسیوںبے گناہ افراد کو خاک و خون میں تڑپا دیتے ہیں ۔
عراق کی بعث پاڑٹی کی طرف سے ہمارے اسلامی ملک پر مسلط کردہ جنگ میں بھی یہی صورتِ حال دیکھتے ہیں ۔آئندہ تاریخ ان کے بارے میں فیصلہ کرے گی ہم یہ معاملہ اسی کے سپرد کرتے ہیں ۔
اسلام میں عدالت کی اس قدر اہمیت ہے کہ اسے قاتل تک کے لیے ملحوظ رکھا گیا ہے ۔ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام اپنی وصیتوں میں فرماتے ہیں:
یا بنی عبد المطلب لا الفینکم تخوضون دماء المسلمین خوضاً تقولون قتل امیرالمومنین، الّا لا تقتلن بی الّا قاتلی، انظروا اذا انامت من ضربتہ ھذہ فاضربوہ، ولا تمثلوا بالرجل۔
اے اولادِ عبد المطلب!مبادا میری شہادت کے بعد مسلمانوں کا خون بہا نے لگو اور کہو کہ امیرالمومنین مارے گئے ہیں اور اس بہانے سے لوگوں کا خون بہانے لگو۔ آگاہ رہو کہ صرف میرا قاتل (عبدالرحمن بن ملجم مرادی) قتل ہوگا ۔ پوری طرح غور کرنا کہ جب میں اس ضرب سے شہید ہوجاؤں کہ جو مجھ پر لگائی گئی ہے تو اسے صرف ایک ضرب کاری لگانا اور قتل کے بعد اس کا مثلہ نہ کرنا (ناک کان وغیرہ نہ کاٹنا) ۔ (5)
(۴) اگلی آیت میں اس سلسلہٴ احکام کا چوتھا حکم ہے ۔ پہلے یتیموں کے مال کی حفاظت کی اہمیت بتائی گئی ہے ۔ اس میں وہی لب ولہجہ اختیار کیا گیا ہے جو منافی ٴ عفت عمل کے بارے میں گزشتہ آیات میں اختیار کیا گیا ہے ۔ ارشاد فرمایا ہے: یتیموں کے مال کے قریب نہ جاوٴ (وَلَاتَقْرَبُوا مَالَ الْیَتِیمِ)
نہ صرف یہ کہ یتیموںکا مال نہ کھاوٴ بلکہ اس کے حریم و حدود کو بھی محترم سمجھو۔ لیکن ممکن تھا کہ نا آگاہ لوگ اس حکم کو منفی حوالے سے دیکھتے اور یتیموں کا مال بے سرپرست چھوڑنے کے لیے اسے سند بنالیتے اور یوں یتیموں کا مال حوادث کے رحم و کرم پر رہ جاتا لہٰذا فوراً بلافاصلہ استثناء فرمایا گیا ہے: مگر نہایت اچھے طریقے سے(إِلاَّ بِالَّتِی ھِیَ اٴَحْسَنُ) ۔
ا س جامع اور واضح تعبیر کے مطابق یتیموں کے اموال میں ہر ایسا تصرف جائز ہے جو ان کی حفاظت، اصلاح اور اضافے کی نیت سے ہو اور جس میں قبل ازیں ان کے ضروری پہلووٴں کا اتلاف نہ ہونے کی منصوبہ بندی کرلی گئی ہو بلکہ ایسا تصرف ان یتیموں کی ایک خدمت ہے جو اپنے مفادات کی حفاظت نہیں کرسکتے ۔ البتہ یہ کیفیت یتیم کے فکری واقتصادی رشد تک پہنچنے کے وقت تک ہونا چاہئے ۔ جیسا کہ زیرِ بحث آیت جاری رکھتے ہوئے قرآن کہتا ہے: اس زمانے تک کہ ان میں یہ طاقت پیدا ہوجائے(حَتَّی یَبْلُغَ اٴَشُدَّہُ) ۔
”اشد“ مادہ ”شدّ“ (بروزن ”جَد“) سے محکم گرہ کے معنی میں ہے ۔ بعد ازاں اس کے مفہوم میں وسعت پیدا ہو گئی اور اب یہ لفظ ہر قسم کے جسمانی و روحانی استحکام کے لیے بولا جاتا ہے ۔ یہاں” اشد“ سے مراد حدّ بلوغ کو پہنچنا ہے لیکن جسمانی و بلوغت کافی نہیں بلکہ فکری و اقتصادی بلوغت ہونا چاہیے ۔ اس طرح سے کہ یتیم اپنے اموال کی حفاظت کرسکے یہ تعبیر اسی لیے منتخب کی گئی ہے کہ یقینی طور پر آزما کر دیکھ لیا جائے ۔
اس میں شک نہیں کہ ہر معاشرے میں مختلف حوادث کے باعث یتیم موجود ہوتے ہیں ۔ انسانی اقدار اور دیگر حوالوں سے ضروری ہے کہ یہ یتیم تمام پہلووں سے معاشرے کے خیر خواہ افراد کی سرپرستی میں ہوں ۔ اسی لیے اسلام نے اس مسئلے کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے ۔ اس کا کچھ حصہ ہم سورہٴ نساء کی آیہ ۲ کے ذیل میں ذکر کر آئے ہیں( تفسیر نمونہ جلد ۳ کی طرف رجوع فرمائیں) ۔
جس چیز کا ہمیں یہاں اضافہ کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ بعض روایات میں یتیم وسیع تر معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ ان افراد کو بھی یتیم کہا گیا ہے جو اپنے امام اور پیشوا سے جدا ہوچکے ہیں اور ایک مادی حکم سے معنوی استفادہ کیا گیا ہے ۔
(۵) اس کے بعد ایفائے عہد کا مسئلہ ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے: اپنا عہد وفا کرو کیونکہ ایفائے عہد کے بارے میں سوال کیا جائے گا (وَاٴَوْفُوا بِالْعَھْدِ إِنَّ الْعَھْدَ کَانَ مَسْئُولًا) ۔
بہت سے معاشرتی روابط، اقتصادی نظام اور سیاسی مسائل عہد و پیمان کے گرد گھومتے ہیں ۔ اگر عہد و پیمان متز لزل ہوجائے اور اعتماد اٹھ جائے تو معاشرے کا نظام تیزی سے در ہم برہم ہوجائے اور اس پر وحشتناک حرج و مرج مسلط ہوجائے ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن آیات میں ایفائے عہد پر بہت زور دیا گیا ہے ۔
عہد و پیمان کا مفہوم بہت وسیع ہے ۔ اس میں افراد کے درمیان جو اقتصادی اور کار و باری پیمان ہوتے ہیں وہ بھی شامل ہیں اور شادی بیاہ وغیرہ کے پیمان بھی شامل ہیں ۔ ان میں وہ معاہدے بھی شامل ہیں جو اقوام وملل اور حکومتوں کے درمیان ہوتے اور ان سے بڑھ کر خدائی پیمان اور آسمانی رہبروں کے اپنی امتوں سے کیے گئے پیمان یا امتوںکی طرف سے ان سے باندھے گئے پیمان بھی اس میں شامل ہیں ۔ (6)
(۶)آخری زیرِ بحث آیت میں آخری حکم ناپ تول میں عدالت کے بارے میں ہے ۔ اس کے ذریعے حقوق الناس کی حغاظت اور کم فروشی کا سدِّ باب مقصود ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے: جب کسی پیمانہ سے کوئی چیز ناپو تو اس کا حق ادا کرو (وَاٴَوْفُوا الْکَیْلَ إِذَا کِلْتُمْ) ۔ اور صحیح اور سیدھے ترازو سے وزن کرو (وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیمِ) ۔ کیونکہ یہ کام تمہارے فائدے میں ہے اور اس کا انجام سب سے بہتر ہے (ذٰلِکَ خَیْرٌ وَاٴَحْسَنُ تَاٴْوِیلًا) ۔

 


۱۔ تفسیر مجمع البیان ج ۶ ص ۴۱۴-
2۔ تفسیر فی ضلال، ج۵، ص۳۲۳ بحوالہ صحیح بخاری وصحیح مسلم-
3۔ ارتداد اور اس کی سخت سزا کے بارے میں سورہٴ نحل کی آیہ۱۰۶ کے ذیل میں تفسیر نمونہ کی جلد ۱۱ میں ہم تفصیلی بحث کرچکے ہیں ۔
4۔ تفسیر روح المعانی از آلوسی، زیرِ بحث آیت کے ذیل میں-
5۔ نہج البلاغہ، حصّہ مکتوبات نمبر۴۷-
6۔ ایفائے عہد اور قسم پوری کرنے کی اہمیت کے بارے میں تفسیر نمونہ جلد ۱۱ سورہٴ نحل آیہ ۹۱ تا ۹۴ کے ذیل میں ہم تفصیلی بحث کرچکے ہیں ۔

 

چند اہم نکاتچھ اہم احکام
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma