تمام مخلفین سے منطقی طرزِ عمل

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 12
”وسیلہ“ کیا ہے؟قیامت یقینی ہے

گزشتہ آیات میں مبداء ومعاد کے بارے میں گفتگو تھی اور دو اہم عقائد کے بارے میں دلائل پیش کئے گئے تھے، زیرِ بحث آیات میں مخالفین خصوصاً مخالفین مشرکین کے ساتھ گفتگو اور استدلال کے آداب سکھائے گئے ہیں کیونکہ مکتب جتنا عالی ہو اور منطق جتنی قوی ہو اگر بحث وگفتگو صحیح طریقے اور لطف ومحبت کی بجائے خشونت وسختی پر مبنی ہوگی تو بے اثر ہوکر رہ جائے گی۔
لہٰذا پہلی آیت میں فرمایا گیا ہے: میرے بندوں سے کہہ دو کی ایسی گفتگو صحیح کریں جو بہت اچھی ہو (وَقُلْ لِعِبَادِی یَقُولُوا الَّتِی ھِیَ اٴَحْسَنُ) ۔ ان کی گفتگو مضمون کے لحاظ سے، طرزِ بیان کے لحاظ سے، اخلاق کے حوالےں سے، انسانی آداب کے حوالے سے سے بہترین ہو۔
کیونکہ اگر انھوں نے ”قولِ احسن“ کو ترک کردیا اور کلام میں خشونت، سختی اور ہٹ دھرمی ہوئی تو شیطان ان کے درمیان فتنہ وفساد اٹھادے گا

 (إِنَّ الشَّیْطَانَ یَنزَغُ بَیْنَھُمْ) ۔
اور یہ بات کبھی فراموش نہ کرو کہ شیطان کمین لگائے بیٹھا ہے اور چین سے نہیں بیٹھا ”کیونکہ شیطان شروع ہی سے نوعِ انسان کا کھُلا دشمن ہے“

 (إِنَّ الشَّیْطَانَ کَانَ لِلْإِنسَانِ عَدُوًّا مُبِینًا) ۔
اس آیت میں لفظ ”عباد“ سے کون لوگ مراد ہیں اس سلسلے میں مفسّرین میں دو مختلف نظریے ہیں ۔ بعض قرائن سے ان میں سے ہر ایک کی تائید ہوتی ہے ۔
۱۔ ”عباد“ مراد مشرک بندے ہیں اگرچہ انھوں نے غلط راہ اختیار کررکھی ہے لیکن الله تعالیٰ نے انسانی جذبات کی تحریک کے لئے انھیں ”عبادی“ (میرے بندے) سے یاد کیا ہے اور انھیں دعوت دی ہے کہ وہ ”احسن“ یعنی توحید اور نفی شرک کا راستہ اختیار کریں اور شیطانی وسوسوں سے خبردا ر ہیں ۔ گویا ان آیات کا مقصد یہ ہے کہ توحید ومعاد کے دلائل پیش کرنے کے بعد مشرکین کے دلوں کواپیل کی جائے تاکہ ان میں سے جو تھوڑی بہت آمادگی رکھتے ہیں وہ بیدار ہوجائیں اور راہِ راست پر آجائیں ۔
یہ سورہ مکّی ہے اور اس وقت ابھی جہاد کا حکم نازل نہیں ہوا تھا اور اس صورت میں منطق و استدلال کے علاوہ ان سے مقابلے کا اور کوئی راستہ نہ تھا اس حوالے سے اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے ۔
۲۔ دوسرا نظریہ یہ ہے کہ لفظ ”عبادی“ مومنین کی طرف اشارہ ہے اور انہیں دشمنوں سے بحث کرنے کا طریقہ سکھایا گیا ہے کیونکہ بعض اوقات نو وارد مومنین اپنے پہلے والے طرز عمل ہی کا مظاہرہ کرتے، اپنے عقیدے کے ہر مخالف سے سخت رویہ اختیار کرتے، انہیں صراحت سے اہلِ جہنم، اہلِ عذاب، بدبخت اور گمراہ کہتے پھرتے اور اپنے تئیں اہل نجات قرار دیتے ۔ اس سے رسول اللہ کی دعوت کے بارے میں مخالفین میں ایک منفی ردّ عمل جنم لیتا ۔
اس سے قطع نظر بعض اوقات مخالفین رسول اللہ کے بارے میں جو تو ہین آمیز الفاظ استعمال کرتے اس پر بھی مومنین بے اختیار ہوکر انہیں سخت سست کہتے تھے ۔ جیسا کہ گزشتہ آیات میں گزرچکا ہے ۔ مخالفین رسول اللہ کے لیے مسحور، مجنون، کاہن اور شاعر جیسے الفاظ کہتے تھے ۔ نتیجہ یہ ہوتا کہ بعض مومنین بھی ان سے جھگڑ پڑتے اور جو منہ میں آتا کہہ ڈالتے ۔ قرآن مومنین کو اس طرز عمل سے روکتا ہے اور انہیں دعوت دیتا ہے کہ نرمی و لطافت سے جواب دیں اور بحث و گفتگو میں بہترین الفاظ استعمال کریں تاکہ شیطانی نقصان سے بچ جائیں ۔
اس تفسیر کے مطابق لفظ ”بینہم“(ان کے درمیان )کا مفہوم یہ ہوگا کہ شیطان کوشش کرتا ہے کہ مومنین اور مخالفین کے درمیان فتنہ و فساد پیدا کردے یا کوشش کرتا ہے کہ مومنین میں غیر محسوس طور پر نفوذ کرے اور انہیں فتنہ و فساد پر ابھارے ۔ کیونکہ ”ینزغ“”نزغ“ کے مادہ سے فساد کروانے کی نیّت سے کسی کام میں مداخلت کرنے کے معنی میں ہے ۔
لیکن تمام قرائن کو ملحوظِ نظر رکھا جائے تو دوسری تفسیر ظاہر آیت سے زیادہ میل کھاتی ہوئی معلوم ہوتی ہے کیونکہ عام طور پر لفظ ”عبادی“ قرآن میں مومنین کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔
علاوہ ازیں بعض مفسرین نے اس آیت کی جوشانِ نزول نقل کی ہے اس میں ہے کہ مکّہ میں مشرکین اصحاب رسول کو اذیت دیتے تھے تو گا ہے دل تنگی کے عالم میں اصحاب رسول اللہ سے اصرار کرتے تھے کہ ہمیں جہاد کی اجازت دی جائے (یا پھر گفتگو میں سخت کلامی اور جیسا سوال ویسا جواب کی اجازت دی جائے) اس پر رسول خدا فرماتے تھے کہ ابھی تک مجھے ایسا کوئی حکم نہیں دیا گیا ۔ اس موقع پر مذکورہ بالا آیات نازل ہوئیں اور انہیں حکم دیا گیا کہ صرف منطقی گفتگو سے جواب دینے کا اسلوب جاری رکھیں ۔ (۱)
بعد والی آیت مزید کہتی ہے: تمہارا پروردگار تمہارے حالات سے زیادہ آگاہ ہے ۔ اگر وہ چاہے تو اپنی رحمت تمہارے شامل حال کردے اور اگر چاہے تو تمہیں سزادے (رَبُّکُمْ اٴَعْلَمُ بِکُمْ إِنْ یَشَاٴْ یَرْحَمْکُمْ اٴَوْ إِنْ یَشَاٴْ یُعَذِّبْکُمْ ) ۔
پہلی آیت کی دو تفسیروں کے پیشِ نظر اس آیت کی بھی دو تفسیریں ممکن ہیں:
پہلی یہ کہ اے مشرکین اور اے تہی از ایمان لوگو! تمہارا خدا وسیع رحمت بھی رکھتا ہے اور دردناک عذاب بھی۔ تمہیں وہ جس لائق سمجھے گا وہ سلوک کرے گا ۔ کیا ہی بہتر ہے کہ تم اس وسیع رحمت کے سائے میں آجاؤ اور اس کے عذاب سے بچو۔
دوسری یہ کہ اے اہلِ ایمان! یہ گمان نہ کرو بس تمہی اہلِ نجات ہو اور دوسرے سب اہلِ جہنم ہیں ۔ خدا تمہارے اعمال اور قلوب سے زیادہ آگاہ اور باخبر ہے اگر چاہے تو تمہارے گناہوں کے سبب تمہیں عذاب دے اور چاہے تو اپنی رحمت تمہارے شامل حال کردے ۔ اپنی حالت پر کچھ غور و فکر کرو اور اپنے اور دوسروں کے درمیان عدل و انصاف سے فیصلہ کرو۔
بہر حال آیت کے آخر میں روئے سخن پیغمبر اکرم کی طرف ہے ۔ آپ کی دلجوئی کی گئی ہے اور مشرکین کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے آپ کے انتہائی رنج کو دور کرنے کے لیے فرمایا گیا ہے: ہم نے تجھے ان پر وکیل نہیں بنایا کہ تم یہ سمجھو کہ انہیں لازمی طور پر ایمان لانا چاہیے (وَمَا اٴَرْسَلْنَاکَ عَلَیْھِمْ وَکِیلًا) ۔ تیری ذمہ داری تو یہ ہے کہ نہیں کھُلے بندوں حق کی طرف دعوت دو اور اپنی جد و جہد جاری رکھو۔ اگر وہ ایمان لے آئیں تو بہت خوب وگرنہ تجھے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا توُ نے تو اپنا فریضہ ادا کردیا ۔
اس جملے میں مخاطب اگر چہ رسول اللہ کی ذات ہے لیکن بعید نہیں کہ قرآن کے ایسے دیگر بہت سے مقامات کی طرح مراد تمام مومنین ہوں ۔ یہ بات دوسری تفسیرکی تائید میں ایک اور قرینہ ہے کیونکہ قرآن کہتا ہے کہ تم مسلمانوں کی ذمہ داری حق کی طرف دعوت دینا ہے چاہے وہ ایمان لائیں یا نہ لائیں لہٰذا گفتگو میں سختی اور توہین و ہتک کا طریقہ اختیار کرنے اور اس طرح حد سے زیادہ جوش و خروش دکھانے کی کوئی ضرورت نہیں ۔
اگلی آیت اس سے بھی بڑھ کر بات کرتی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے: خدا تمہارے ہی حالات سے آگاہ نہیں بلکہ ”تیرا پروردگار آسمان اور زمین کے سب باسیوں کی نسبت زیادہ آگاہ ہے اور زیادہ علم رکھتا ہے“(وَرَبُّکَ اٴَعْلَمُ بِمَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ) ۔
اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے: ہم نے بعض نبیوں پر فضیلت بخشی ہے اور داؤد کو زبور عطا کی ہے( وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِیِّینَ عَلیٰ بَعْضٍ وَآتَیْنَا دَاوُودَ زَبُورًا) ۔
یہ جملہ در حقیقت مشرکین کے ایک اعتراض کا جواب ہے ۔ وہ نہایت تحقیر انداز میں کہتے تھے کہ کیا خدا کے پاس اور کوئی شخص نہ تھا کہ اس نے ایک یتیم محمد کو نبوت کے لیے انتخاب کیا اور اسے کیا ضرورت پڑی تھی کہ اسے تمام انبیاء کا سردار اور خاتم النبیین قرار دے دے ۔
قرآن کہتا ہے کہ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے ۔خدا ہر شخص کے انسانی مقام اور قدر و یمت سے آگاہ ہے اور انہی عام لوگوں میں سے اپنے انبیاء کو منتخب کرتا ہے اور اس نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ کسی کو خلیل کے اعزاز سے نوازا، کسی کو کلیم اللہ کا مقام عطا کیا کسی کو ”روح اللہ“ قرار دیا اور پیغمبر اسلام کو ”حبیب اللہ“ کی حیثیت سے چن لیا ۔ خلاصہ یہ کہ اس نے بعض کو بعض پر فضیلت بخشی ہے اور یہ فضیلت اس نے ان معیاروں کے مطابق عطا کی ہے جنہیں وہ خود جانتا ہے اور جو اس کی حکمت کے مطابق ہیں ۔
رہا یہ سوال کہ سب انبیاء میں سے یہاں صرف حصرت داؤد(ص) کو زبور عطا کرنے کی بات کیوں کی گئی ہے، ہو سکتا ہے اس کی وجہ یہ پہلو ہوں:
۱۔ کتبِ انبیاء میں حضرت داؤد کی زبور کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ وہ تمام ترمناجات، دعاؤں اور پند و نصیحت پر مشتمل ہے اور تمام تر ”قول احسن“اور اچھی گفتگو کا نمونہ ہے کہ جس کا حکم پہلی آیات میں دیا گیا ہے ۔یہ کتاب اس حکم سے سب سے زیادہ مناسبت رکھتی ہے ۔
۲۔ زبورِ داؤد میں صالحین اوذ نیک بندوں کی حکومت کی خبردی گئی ہے اور فرمایا گیا ہے کہ اگر چہ وہ لوگ ظاہراً تہی دست، فقرا ور یتیم ہوں ہوگے ۔ (2)
”--- کیونکہ شریر منطق ہوجائیں گے لیکن اللہ پر توکل کرنے والے زمین کے وارث ہوں گے ۔ہاں ایک عرصے بعد ثرید یاقی نہ رہے گا تو اس کے بارے میں سوچ بچا کرے گا اور وہ نہیں ہوگا لیکن اہلِ حکمت (صالحین) زمین کے وارث ہوں گے ۔“
اسی مزمور کے بائسویں اور انتیسویں جملے میں اس سے بالکل مشابہ تعبیرات موجود ہیں ۔ یہی بات قرآن مجید کی سورہ انبیاء کی آیہ ۱۰۵ میں ہے:
ولقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکران الارض یرثھا عبادی الصالحون
ہم نے زبور میں یہ بات رقم کی ہے کہ کچھ عرصے بعد ہمارے نیک بندے زمین کے وارث ہوں گے ۔
اور یہ بات رسول اللہ اور سچے مومنین کی دعوت سے بالکل ہم آہنگ ہے کہ جو بہت تہی دست تھے اور یہ مشرکین کے اعتراض کا جواب ہے ۔
۳۔ حضرت داؤد علیہ السلام اگر چہ وسیع حکومت کے مالک تھے لیکن خدا تعالیٰ اس بات کو ان کے لیے اعزاز و افتخار قرار نہیں دیتا بلکہ کتابِ زبور کو ان کے لیے اعزاز شمار کرتا ہے تاکہ مشرکین جان لیں کہ ایک انسان کی عظمت کا معیار مال و دولت اور ظاہری اقتدار و حکومت نہیں ہے لہٰذا یتیم اور غریب ہونا تحقیر و تذلیل کی دلیل نہیں ہے ۔
۴۔ یہودی کہتے تھے کہ موسیٰ(ص) کے بعد کسی کتاب کا نازل ہونا ممکن نہیں ہے ۔ اس پر قرآن انہیں جواب دیتا ہے کہ جبکہ ہم نے داؤد کو زبور عطا کی تو تم نزولِ قرآن کے بارے میں کیوں تعجب کرتے ہو (البتہ حضرت داؤد علیہ السلام کی کتاب احکام کی کتاب نہ تھی بلکہ اخلاق کی کتاب تھی لیکن جو کچھ بھی تھی تورات کے بعد اور خدا کی طرف سے نازل ہوئی تھی) ۔
بہرحال کوئی مانع نہیں کہ زیرِ بحث آیت میں تمام انبیاء اور تمام کتب میں سے حضرت داؤد(ص) اور زبور کا انتخاب ان مذکورہ چاروں پہلوؤں کی بناء پر ہو۔
بعد والی آیت میں پھر مشرکین کے بارے میں گفتگو ہے ۔ گزشتہ مباحث کو جاری رکھتے ہوئے پیغمبراکرم سے فرمایا گیا ہے: ان سے کہو کہ خدا کے علاوہ جن معبودوں کو لاءِ پرستش سمجھتے ہیں انہیں صدا دیں ۔نہ ان کے بس میں یہ ہےکہ وہ تمہاری مشکلات اور مصائب دور کرسکیں اور نہ ہی ان میں کوئی تغیّر و تبدیل پیدا کرسکتے ہیں(قُلْ ادْعُوا الَّذِینَ زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِہِ فَلَایَمْلِکُونَ کَشْفَ الضُّرِّ عَنکُمْ وَلَاتَحْوِیلًا) ۔
در حقیقت یہ آیت قرآن کی دیگر بہت سی آیات کی طرح مشرکین کے عقیدے اور منطق کو اس حوالے سے باطل قرار دیتی ہے کہ معبودوں کی پرستش یا تو حصول مفاد کے لیے ہے یا دفعِ نقصان کے لیے جبکہ ان کے تو بس میں نہیں کہ کسی کی مشکل کو ٹال سکیں یہاں تک کہ وہ تو کسی مشکل میں کوئی تبدیلی بھی پیدا نہیں کرسکتے یعنی اس کی شدت میں کمی بھی نہیں کرسکتے کہ جس سے ان کی کوئی قدرت ظاہر ہوسکے ۔لہٰذا ”فلایملکون کشف الضر“ کے بعد ”ولا تحویلاً“ اس طرف اشارہ ہے کہ وہ نہ تو مشکلات کی پوری تاثیر رطرف کرسکتے ہیں نہ ان میں تغیّر کرکے کچھ تھوڑی تاثیر کم کرسکتے ہیں ۔
”زعمتم“”زعم“کے مادہ اور عام طور پر غلط خیال و تصّور کو کہا جاتا ہے ۔ اسی لیے ابنِ عباس سے منقول ہے کہ جہاں کہیں قرآن میں لفظ ”زعم“ استعمال ہوا ہے جھوٹ اور کذب (اور بے بنیاد عقیدے) کے معنی میں ہے ۔
مفردات میں راغب کہتا ہے:
الزعم حکایة قول یکون مظنة للکذب---
زعم نقلِ قول (یا عقیدے) ہے کہ جس میں جھوٹ کا احتمال ہو یہ قرآن میں جن جن مواقع پر استعمال ہوا ہے وہاں مذمت و سرزنش کا پہلو لیے ہوئے ہے ۔
لفظ ”کشف“اصل میں کسی چیز سے پردہ، لباس یا ایسی کسی چیز کو ہٹانے کے معنی میں ہے اور یہ جو ”کشف الضر‘ ‘غم اندوہ، بیماری یا پریشانی برطرف ہونے کے موقع پر بولا جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ غم و اندوہ، بیماری یا پریشانی انسانی بدن اور روح پر گویا پردے کی طرح آگرتی ہے اور آسائش، آرام اور سکون کہ جو حقیقی چہرہ ہے، اسے چھپا دیتی ہے لہٰذا غم، دکھ اور پریشانی کے دور ہونے کو ”کشف الضر“ کہا جاتا ہے ۔
اس نکتے کی طرف بھی توجہ ضروری ہے کہ اس آیت میں ”الذین“ کی تعبیر یہ بات بیان کرتی ہے کہ مراد اللہ کے علاوہ سب معبود نہیں ہیں بلکہ فرشتے، حضرت عیسی(ص) اور ان جیسے معبود مراد ہیں (کیونکہ ”الذین“ عام طور پر ذوی العقول کی جمع کے لیے بولاجاتا ہے) ۔
بعد والی آیت در حقیقت پہلی آیت میں جو کچھ کہا گیا ہے اس کے لیے دلیل ہے ۔ یہ آیت کہتی ہے: جانتے ہو کہ تمہاری مشکلوں کو اذنِ پروردگار کے بغیر ٹالنے پر کیوں قادر نہیں ہیں، اس لیے کہ وہ تو خود اپنی مشکلات بارگاہِ الٰہی میں پیش کرتے ہیں ۔ وہ خود کوشش کرتے ہیں کہ اس کی پاک ذات کا تقرب حاصل کریں اور وہ جو کچھ بھی چاہتے ہیں اسی سے چاہتے ہیں ”وہ ایسے افراد ہیں جو خدا کو پکارتے ہیں اور اس کے تقرب کے لیے اس کی اطاعت کو وسیلہ بناتے ہیں“(اٴُوْلٰئِکَ الَّذِینَ یَدْعُونَ یَبْتَغُونَ إِلیٰ رَبِّھِمْ الْوَسِیلَةَ) ۔”ایسا وسیلہ جو قریب ترین ہو“ ( اٴَیُّھُمْ اٴَقْرَبُ) ۔”اور اس کے امیدوار ہیں“(وَیَرْجُونَ رَحْمَتَہُ) ۔”اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں“( وَیَخَافُونَ عَذَابَہُ) ۔”کیونکہ تیرے پروردگار کا عذاب اس قدر شدید ہے کہ سب اس سے بچتے ہیں اور وحشت زدہ ہیں“(إِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ کَانَ مَحْذُورًا) ۔
اسلام کے عظیم مفسّرین نے ”ایھم اقرب“ کے مختلف تفسیریں کی ہیں:
بعض کہتے ہیں : یہ اولیا ء خدا فرشتے ہوں یا انبیاء ، ان میں سے جسے بھی معبود سمجھا گیا جتنا وہ اللہ کے زیادہ نزدیک ہو اتناہی مزید بارگاہ الٰہی میں تقرب کے درپے ہوتا ہے ۔ کیونکہ ان کے پاس اپنی طرف سے کچھ بھی ہے خدا کی طرف سے ہے اور ان کا مقام و منزلت جتنا بلند ہوتا جاتا ہے ان کی طرف سے اطاعت و بندگی اتنی ہی زیادہ ہوتی جاتی ہے ۔ (3)
بعض کا نظریہ ہے کہ جملے کا مفہوم یوں ہے: وہ کوشش کرتے ہیں کہ تقربِ پروردگار میں ایک دوسرے پر سبقت لے جائیں ۔ گویا اطاعت پروردگار اور تقرب الٰہی کے راستے میں وہ ایک روحانی مقابلے میں شریک ہیں اور ہر ایک کی کوشش ہے کہ اس میدان میں دوسرے پر بازی لے جائے ۔ وہ لوگ جو ایسے ہوں کیا معبود ہوسکتے ہیں اور کیا وہ خدا سے ہٹ کر کوئی ذاتی حیثیت رکھتے ہیں؟۔ (4)
رہی یہ تفسیرکہ وہ ہر اس وسیلہ سے تقرب الٰہی چاہتے ہیں جو خدا کے زیادہ قریب ہو، بہت بعید احتمال ہے کیونکہ ”ایہم“ میں ”ہم“ کی ضمیر کہ جو عام طور پر جمع مذکر کے لیے ہوتی ہے اس معنی سے مناسبت نہیں رکھتی بلکہ اس طرح تو ”ایہا“ ہونا چاہیٴے تھا ۔ (5)

 


۱۔ مجمع البیان اور تفسیر قرطبی، زیر بحث آیات کے ذیل میں ۔
2۔ کتاب مزامیر داؤد (زبور)جس صورت میں آج ہماری دسترس میں ہے اس کے مزمور ۳۷ کمیں ہے:
3۔ اس تفسیر کے مطابق ”ایہم“”یبتغون“ کی ضمیر کا بدل ہے یاکسی مخدوف کا مبتداء ہے اور تقدیر میں اس طرح تھا:
”ایہم اقرب“ ہو اکثر دعاءً وابتغاءً للوسیلة
4۔ اس صورت میں ”ایہم“صرف”یبتغون“ کی ضمیر کا بدل ہی ہوسکتا ہے ۔
5۔ اس سے قطع نظر”ایہم اقرب“ مبتداء اور خبر کی صورت میں ہے حالانکہ اس معنی کے مطابق مفعول کی صورت میں یا مفعول سے بدل کی شکل میں ہونا چاہیے ۔ (غور کیجئے گا) ۔

 

”وسیلہ“ کیا ہے؟قیامت یقینی ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma