سرزمینِ مصر کی جانب

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 09
مصر کے محل میں۶۔ صبرِ جمیل کیا ہے؟

یوسف (علیه السلام) نے کنویں کی وحشت ناک تاریکی اور ہولناک تنہائی میں بہت تلخ گھڑیاں گزاریں لیکن خدا پر ایمان اور ایمان کے زیرِ سایہ ایک اطمینان نے ان کے دل میں نورِ امید کی کرنیں روشن کردی تھیں اور انہیں ایک توانائی بخشی تھی تاکہ وہ اس ہولناک تنہائی کو برداشت کریں اور آزمائش کی اس بھٹی سے کامیابی کے ساتھ نکل آئیں، اس حالت میں وہ کتنے دن رہے یہ خدا جانتا ہے، بعض مفسرین نے تین دن لکھا ہے اور بعض نے دو دن، بہرحال ایک قافلہ آپہنچا“ (وَجَائَتْ سَیَّارَةٌ)۔(۱)
اور اس قافلے نے وہیں نزدیک ہی پڑاؤ ڈالا، واضح ہے کہ قافلے کی پہلی ضرورت یہی ہوتی ہے کہ وہ پانی حاصل کرے، اس لئے”انہوں نے پانی پر مامور شخص کو پانی کی تلاش میں بھیجا( فَاٴَرْسَلُوا وَارِدَھُم)(۲)، ” اُس نے اپنا ڈول کنویں میں ڈالا“( فَاٴَدْلَی دَلْوَہُ
یوسف کنویں کی تہ میں متوجہ ہوئے کہ کنویں کے اوپر سے کوئی آواز آرہی ہے، ساتھ ہی دیکھا کہ ڈول اور رسی تیزی سے نیچے آرہی ہے، انہوں نے موقع غنیمت جانا اور اس عطیہ الٰہی سے فائدہ اٹھایا اور فوراً اس سے لپٹ گئے، بہشتی(۳)نے محسوس کیا کہ اس کا ڈول اندازے سے زیادہ بھاری ہے، جب اس نے زور لگاکر اسے اوپر کھینچا تو اچانک اس کی نظر ایک چاند سے بچے پر پڑی، وہ چِلّایا: خوشخبری ہو، یہ تو پانی کے بجائے بچہ ہے (قَالَ یَابُشْریٰ ھٰذَا غُلَامٌ
آہستہ آہستہ قافلے میں سے چند لوگوں کو اس بات کا پتہ چل گیا لیکن اس بنا پر کہ دوسروں کو پتہ نہ چلے اور یہ خود ہی مصر میں اس خوبصورت بچے جو ایک غلام کے طور پر بیچ دیں ”اسے ا نہوں نے ایک اچھا سرمایہ سمجھتے ہوئے دوسروں سے مخفی رکھا“(وَاٴَسَرُّوہُ بِضَاعَةً )(۴)
البتہ اس جملے کی تفسیر میں کچھ اور احتمال بھی ذکر کئے گئے ہیں :
ایک یہ کہ یوسف (علیه السلام) جن کے ہاتھ لگا انہوں نے اس کا کنویں سے ملنا مخفی رکھا اور کہا کہ یہ سرمایہ ہمیں کنویں کے مالکوں نے دیا ہے تاکہ اسے ان کے لئے مصر میں بیچ دیں ۔
دوسرا یہ کہ یوسف (علیه السلام) کے بعض بھائی جواس کی خبر لینے کے لئے یا اس کو غذا دینے کے لئے کبھی کبھی کنویں کے پاس آیا کرتے تھے جب انہیں اس واقعے کا پتہ چلا تو انہوں نے اس بات کو چھپایا کہ یوسف ان کا بھائی ہے، صرف یہ کہا کہ یہ ہمارا غلام ہے جو بھاگ آیا ہے اور یہاں چھپا بیٹھا ہے اور انہوں نے یوسف کی دھمکی دی کہ اصل معاملے سے پردہ اٹھائے گا تو قتل کردیا جائے گا ۔
لیکن پہلی تفسیر زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے ۔
آیت کے آخر میں ہے : جو کچھ وہ انجام دیتے ہیں خدا اس سے آگاہ ہے(وَاللهُ عَلِیمٌ بِمَا یَعْمَلُونَ
آخر کار انہوں نے یوسف (علیه السلام) کو تھوڑی سی قیمت پر بیچ دیا ( وَشَرَوْہُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ دَرَاھِمَ مَعْدُودَة
یوسف (علیه السلام) کو بیچنے کے بارے میں اختلاف ہے، بعض انہیں یوسف کے بھائی سمجھتے ہیں، لیکن آیات کا ظاہر ی مفہوم یہ ہے کہ یہ کام قافلے والوں نے کیا ، کیونکہ زیرِ نظر آیت میں بھائیوں کے بارے میں کوئی بات نہیں ہوئی اور ان سے قبل کی آیت کے اختتام پر بھائیوں سے متعلق بحث ختم ہوگئی ہے اور جمع کی ضمیریں ”ارسلوا“، ”اسروہ“ اور ”شروہ“ سب ایک ہی طرف لوٹتی ہیں (یعنی، قافلے والے)۔
یہاں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ انہوں نے حضرت یوسف (علیه السلام) کو تھوڑی سی قیمت پر کیوں بیچ دیا، قرآن نے اسے ”بثمن بخس“سے تعبیر کیاہے کیونکہ حضرت یوسف (علیه السلام) کا کم از کم ایک قیمتی غلام سمجھے جاسکتے تھے ۔
لیکن یہ معمول کی بات ہے کہ ہمیشہ چور یا ایسے افراد جن کے ہاتھ کوئی اہم سرمایہ بغیر کسی زحمت کے آجائے تو وہ اس خوف سے کہ کہیں دوسروں کو معلوم نہ ہوجائے اسے فورا ًبیچ دیتے ہیں اوریہ فطری بات ہے کہ اس جلد بازی میں وہ زیادہ قیمت حاصل نہیں کرسکتے ۔
”بخس“ اصل میں کسی چیز کو ظلم کے ساتھ کم کرنے کے معنی میں، اسی لئے قرآن کہتا ہے :
ولاتبخسوا الناس اشیائھم ۔
لوگوں کی چیزوں کو ظلم کے ساتھ کم نہ کرو۔(ہود:۸۵)
اس بارے میں کہ انہوں نے حضرت یوسف (علیه السلام) کو کتنے داموں میں بیچا اور پھر یہ رقم آپس میں کس طرح تقسیم کی، اس سلسلے میں بھی مفسرین کے درمیان اختلاف ہے، بعض نے یہ رقم ۲۰ درہم ، بعض نے ۲۲ درہم ، بعض نے ۴۰ درہم اور بعض نے ۱۸ درہم لکھی ہے اور طرف توجہ کرتے ہوئے کہ بیچنے والوں کی تعداد دس بیان کی جاتی ہے، اس ناچیز رقم میں سے ہر ایک کا حصہ واضح ہوجاتا ہے ۔
آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے-:یوسف کو بیچنے کے بارے میں وہ بے اعتناء تھے ( وَکَانُوا فِیہِ مِنَ الزَّاھِدِین
یہ جملہ درحقیقت گزشتہ جملے کی علت بیان کرنے کے لئے ہے، یہ اس طرف اشارہ ہے کہ اگر انہوں نے یوسف کر تھوڑی سی رقم پر بیچ دیا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اس معاملے سے کوئی دلچسپی نہ رکھتے تھے اور اس کے بارے میں بے اعتناء تھے ۔
ایسا یا اس لئے تھا کہ یوسف (علیه السلام) کو قافلے والوں نے بے مول لیا تھا اور انسان جو چیز معمولہ قمیت پر لے عموما کم قیمت پر ہی بیچتا ہے اور یا وہ ڈرتے تھے کہ مبادا ان کارازفاش ہواور کوئی مدعی پیداہوجائے اور یا اس بناء پر کہ انہیں یوسف (علیه السلام) میں غلام ہونے کی نشانیاں نظر نہیں آتی تھیں بلکہ آزادی اور حریت کے آثار ان کے چہرے سے ہویدا تھے، اسی بنا پر نہ بیچنے والے ان میں کوئی دلچسپی رکھتے تھے نہ خریدار۔

 

۲۱ وَقَالَ الَّذِی اشْتَرَاہُ مِنْ مِصْرَ لِامْرَاٴَتِہِ اٴَکْرِمِی مَثْوَاہُ عَسیٰ اٴَنْ یَنفَعَنَا اٴَوْ نَتَّخِذَہُ وَلَدًا وَکَذٰلِکَ مَکَّنَّا لِیُوسُفَ فِی الْاٴَرْضِ وَلِنُعَلِّمَہُ مِنْ تَاٴْوِیلِ الْاٴَحَادِیثِ وَاللهُ غَالِبٌ عَلیٰ اٴَمْرِہِ وَلَکِنَّ اٴَکْثَرَ النَّاسِ لَایَعْلَمُونَ ۔
۲۲ وَلَمَّا بَلَغَ اٴَشُدَّہُ آتَیْنَاہُ حُکْمًا وَعِلْمًا وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِینَ ۔

ترجمہ

۲۱۔اور وہ شخص جس نے اسے سر زمینِ مصر سے خریدا اس نے اپنی بیوی سے کہا: اس کے مقام ومنزلت کی تکریم کرنا شاید ہمارے لئے مفید ہو یا اسے ہم اپنے بیٹے کے طور پر اپنا لیں، اس طرح ہم نے یوسف کو اس سرزمین میں متمکن کردیا، (ہم نے یہ کام کیا)تاکہ وہ خواب کی تعبیر سیکھ لے، خدا اپنے کام پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ۔
۲۲۔اور جب وہ بلوغ وقوّت کے مرحلے میں داخل ہوا تو ہم نے اسے ”حکم“ اور ”علم“ عطا کئے اور ہم اس طرح نیک لوگوں کو جزاء دیتے ہیں ۔

 


 

۱۔کاروان کو ”سیارة“ اس لئے کہتے ہیں کیونکہ وہ ہمیشہ حرکت میں رہتا ہے ۔
۲۔”وارد“ پانی لانے والے کے معنی میں ہے، اصل میں یہ لفظ ”ورود“ سے لیا گیا ہے جس کا معنی جیسے کہ راغب نے مفردات میں کہا ہے پانی کا قصد کرنا اگر چہ بعد میں اس کے معنی میں وسعت پیدا ہوگئی اور ہر ورود و دخول کے مفہوم میں استعمال ہونے لگا ہے ۔
۳۔”بہشتی“ اردو میں پانی بھرنے والے کو کہتے ہیں ۔(مترجم)
۴۔بضاعة“ اصل میں ”بضع“ (بروزن”نظر“) کے مادہ سے گوشت کے ایک ٹکڑے کے معنی میں ہے کہ جسے جدا کرلیا جائے، بعدازاں اس معنی میں وسعت پیدا ہوگئی اور یہ لفظ مال اور سرمایہ کے اہم حصے کے لئے بھی استعمال ہونے لگا”بضاعة“ بدن کے ٹکڑے کے معنی میں ہے اور ”حسن البضع“ موٹے اور پرگوشت انسان کے معنی میں آیا ہے اور ”بضع“ (بروزن”حزب“)تین سے لے کر دس تک کے عدد کے معنی میں آیا ہے ۔
مصر کے محل میں۶۔ صبرِ جمیل کیا ہے؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma