نفس سے جہاد:

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 09
۲۔ اخلاص کی جزابرہانِ پروردگار سے کیا مراد ہے؟

ہم جانتے ہیں کہ اسلام میں افضل ترین جہاد جہادِبا نفس ہے جیسے پیغمبر ِ اکرم نے اپنی ایک مشہورحدیث میں ”جہادِ اکبر“ کا نام دیا ہے یعنی بڑے دشمن سے جہاد کہ جسے جہاد ِ اصغر کا نام دیا گیا ہے میں اصولی طور پر اس وقت تک کامیابی ممکن نہیں جب تک کہ حقیقی معنی میں انسان جہادِ اکبرکے مرحلے سے نہ گزرے ۔
قرآن مجید جہاد ِ اکبر کے میدان میں انبیاء اور دیگر اولیائے خدا سے مربوط بہت سے مناظر کی تصویر کشی کی گئی ہے، ان میں سے نہایت اہم حضرت یوسف (علیه السلام) کی سرگزشت اور زوجہ  مصر کے عشقِ سوازاں کی داستان میں ہے، اگر چہ اس کے تمام پہلوؤ ں کی قرآن نے اختصار کے سبب وضاحت نہیں کی تاہم ایک مختصر جملے” وھم بھا لولا ان را برھان ربہ“ کے ذریعے اس طوفان کی شدت کو بیان کیا ہے ۔
اس میدانِ مقابلہ سے حضرت یوسف (علیه السلام) رو سفید نکلے ، ان کی کامیابی کی تین وجوہ ہیں :
پہلی یہ کہ آپ (علیه السلام)نے اپنے تئیں خدا کے سپرد کیا اور اسکے لطف وکرم کی پناہ لی(قال معاذاللّٰہ
دوسری یہ کہ آپ ع نے  مصر کے احسانات کی طرف توجہ کی، جس کے گھرمیں آپ (علیه السلام) زندگی بسر کررہے تھے ۔
یا یہ کہ خدا کی لامتناہی نعمات کی طرف توجہ کی کہ جس نے انہیں وحشتناک کنویں کی تہ سے نکال کر امن وامان وسکون وآرام کے ماحول میں پہنچا دیا، اس امر نے آپ (علیه السلام) کو اس بات پر ابھارا کہ اپنے گزشتہ اور آئندہ پر زیادہ غور وفکر کریں اور اپنے آپ کو زود گزر طوفانوں کے حوالے نہ کریں ۔
تیسری یہ کہ یوسف (علیه السلام) کی کود سازی وبندگی کہ جس میں خلوص شامل تھا اور جو”انہ من عبادنا المخلصین“ سے معلوم ہوتی ہے نے آپ (علیه السلام) کو قوت بخشی کہ اس عظیم میدان میں کئی گنا وسوسوں کے مقابلے میں کہ جو اندر اور باہر سے آپ (علیه السلام) پر حملہ آور ہوتے تھے گھٹنے نہ ٹیک دیں ۔
اور یہ درس ہے تمام آزاد انسانوں کے لئے کہ جو جہادِ نفس کے میدان میں اس خطرناک دشمن پر غلبہ حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام دعائے صباح میں بہت دلکش پیرائے میں فرماتے ہیں:
وان خذلنی نصرک عند محاربة النفس والشیطان فقد وکلنی خذ لانک الیٰ حیث النصب والحرمان۔
بار الہا! اگر نفس اور شیطان سے مقابلے کے وقت ہم تیری نصرت سے محروم رہ جائیں تو یہ محرومیت ہمیں رنج وحرمان کے سپرد کردے گی اور ہماری نجات کی امید نہیں رہے گی ۔
ایک حدیث میں ہے:
ان النبی(ص)بعث سریة فلما رجعوا قال مرحباً بقوم قضوا الجھاد الاصغر وبقی علیھم الجھاد الاکبر، فقیل یا رسول اللّٰہ ماالجھاد الاکبر، قال جھاد النفس۔
رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم نے کچھ مسلمانوں کو ایک جنگ پر بھیجا، جب وہ (تھکے، ماندے اور مجروح بدن) واپس آئے تو فرمایا: آفرین ہے ان لوگوں پر کہ جنہوں نے جہادِ اصغر انجام دیا ہے لیکن اب جہادِ اکبر کی ذمہ داری ان پر باقی ہے ۔
انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ جہادِ اکبر کیا ہے؟
فرمایا: نفس کے ساتھ جہاد۔(1)
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
المجاھد من جاھد نفسہ۔
حقیقی مجاہد وہ ہے جو نفس کی سرکش خواہشوں کے خلاف جہاد کرے ۔(2)
امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے:
من ملک نفسہ اذا رغب، واذا رھب، واذا اشتھی، واذا غضب، واذا رضی، حرم اللّٰہ جسدہ علی النار۔
جو شخص چند حالت میں خود پر کنٹرول رکھے ۔
جب اسے کسی کی طرف رغبت ہو،جب خوف میں ہو،جب شعلہ شہوت بھڑکتا ہو،جب عالمِ غیض وغضب میں ہو اورجب کسی پر خوش ہو۔ (اپنے ارادے سے ان جذبات کو اس طرح کنٹرول میں رکھے کہ یہ اسے حکمِ خدا سے منحرف نہ کردیں)تو خدا اس کا بدن جہنم پر حرام کردے گا ۔( 3)

 

 


1۔وسائل الشیعہ، ج ۱۱،ص ۱۲۲۔
2۔وسائل الشیعہ، ج ۱۱،ص ۱۲۴۔
3-وسائل الشیعہ، ج ۱۱،ص ۱۲۳۔
 

 

۲۔ اخلاص کی جزابرہانِ پروردگار سے کیا مراد ہے؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma