زوجہ مصر کی رسوائی

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 09
چند اہم نکات۳۔ متین وپاکیزہ کلام

یوسف (علیه السلام) کی انتہائی استقامت نے زوجہ  کو تقریباً مایوس کردیا، یوسف (علیه السلام) اسی معرکے میں اس ناز وادا والی اور سرکش ہَوا وہَوس والی عورت کے مقابلے میں کامیاب ہوگئے تھے، انہوں نے محسوس کیا کہ اس لغزش گاہ میں مزید ٹھہرنا خطرناک ہے، انہوں نے اس محل سے نکل جانے کا ارادہ کیا، لہٰذا وہ تیزی سے قصر کے دروازے کی طرف بھاگے تاکہ دروازہ کھول کر نکل جائیں، زوجہ  بھی بے اعتناء نہ رہی وہ بھی یوسف (علیه السلام) کے پیچھے دروازے کی طرف بھاگی تاکہ یوسف (علیه السلام) کو باہر نکلنے سے روکے، اس نے اِس مقصد کے لئے یوسف کی قمیص پیچھے سے پکڑ لی اور اسے اپنی طرف کھنچا اس طرح سے کہ قمیص پیچھے سے لمبائی کے رخ پھٹ گئی( وَاسْتَبَقَا الْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِیصَہُ مِنْ دُبُر
”استباق“ لغت میں دو یا چند افراد کے ایک دوسرے کے سبقت لینے کے معنی میں ہے اور ”قد“ لمبائی کے رخ پھٹنے کے معنی میں ہے جیسا کہ ”قط“ عرض میں پھٹ جانے کے معنی میں، اس لئے حدیث میں ہے :
کانت ضربات علی بن ابی طالب (علیه السلام) ابکاراً کان اذا اعتلی قد ، واذا اعترض قط۔علی ابن ابی طالب (علیه السلام) کی ضربیں اپنی نوع میں نئی اور انوکھی تھیں، جب اوپر سے ضرب لگاتے تو نیچے چیر دیتے اور جب عرض میں ضرب لگاتے تو دو نیم کردیتے ۔(۱)
لیکن جس طرح ہوا یوسف دروازے تک پہنچ گئے اور دروازہ کھول لیا،اچانک  مصر کو دروازے پیچھے دیکھا ، جس طرح قرآن کہتا ہے: ان دونوں نے اس عورت کے آقا کو دروازے پر پایا( وَاٴَلْفَیَا سَیِّدَھَا لَدَی الْبَابِ ) ۔
”الفیت“ ”الفاء“ کے مادہ سے اچانک پانے کے معنی میں ہے اور شوہر کو ”سید “ سے تعبیر کرنا جیسا کہ بعض مفسرین نے کہا ہے اہل ِ مصر کے رواج کے مطابق تھا، وہاں کی عورتیں اپنے شوہر کو ”سید“ کہہ کر مخاطب کرتی ہیں، آج کی فارسی زبان میں بھی عورتیں اپنے شوہر کا ”آقا“ سے تعبیر کرتی ہیں ۔
اب جب کہ زوجہ  نے ایک طرف اپنے تئیں رسوائی کے آستانے پر دیکھا اور دوسری طرف انتقام کی آگ اس کی روح میں بھڑک اٹھی تو پہلی بات جو اسے سوجھی یہ تھی کہ اس نے اپنے آپ کو حق بجانب ظاہر کرتے ہوئے اپنے شوہر کی طرف رخ کیا اور یوسف پر تہمت لگائی: اس نے پکار کر کہا جو شخص تیری اہلیہ سے خیانت کا ارادہ کرے اس کی سزا زندان یا دردناک عذاب کے سواکیا ہوسکتی ہے(قَالَتْ مَا جَزَاءُ مَنْ اٴَرَادَ بِاٴَھْلِکَ سُوئًا إِلاَّ اٴَنْ یُسْجَنَ اٴَوْ عَذَابٌ اٴَلِیمٌ
یہ امر قابلِ توجہ ہے کہ اس خیانت کار عورت نے جب تک اپنے آپ کو رسوائی کے آستانے پر نہیں دیکھا تھا، بھول چکی تھی کہ وہ  مصر کی بیوی ہے لیکن اِس موقع پر اس نے ”اھلک“ (تیری گھر والی)کا لفظ استعمال کرکے  کی غیرت کو ابھارا کہ مَیں تیرے ساتھ مخصوص ہوں لہٰذا کسی دوسرے کو نہیں چاہیئے کہ میری طرف حرص کی آنکھ سے دیکھے، یہ گفتگو حضرت موسیٰ (علیه السلام) کے زمانے کے فرعونِ مصر کی گفتگو سے مختلف نہیں کہ وہ تختِ حکومت پر بھروسے کے وقت کہتا تھا:
الیس لی ملک مصر ۔
کیا مصر کی سلطنت کا مَیں مالک نہیں ہوں(زخرف:۵۱)۔
لیکن جب اس نے دیکھا کہ تخت وتاج خطرے میں ہے اور میرے اقبال کا ستارا ڈوب رہا ہے تو کہا:
یریدان ان یخرجٰکم من ارضکم ۔
یہ دونوں بھائی(موسیٰ وہارون)چاہتے ہیں کہ تمہیں تمہاری سرزمین سے نکال دیں ۔(طٰہٰ:۶۳)
دوسرا قابلِ توجہ نکتہ یہ ہے کہ  مصر کی بیوی نے یہ ہرگز نہیں کہا کہ یوسف میرے بارے میں برا ارادہ رکھتا تھا بلکہ  مصر سے اس کی سزا کے بارے میںبات کی،اس طرح سے کہ اصل مسئلہ مسلم ہے اور بات صرف اس کی سزا کے بارے میں ہے ، ایسے لمحے میں جب وہ عورت اپنے آپ کو بھول چکی تھی اس کی یہ جچی تلی گفتگو اس کی انتہائی حیلہ گری کی نشانی ہے ۔(2)
پھر یہ کہ پہلے وہ قید خانے کے بارے میں بات کرتی ہے اور بعد میں گویا وہ قید پر بھی مطمئن نہیں ہے ایک قدم اور آگے بڑھاتی ہے اور ”عذاب الیم“ کا ذکر کرتی ہے کہ جو سخت جسمانی سزا اور قتل تک بھی ہوسکتی ہے ۔
اس مقام پر حضرت یوسف (علیه السلام) نے کاموشی کو کسی طور پر جائز نہ سمجھا اور صراحت سے زوجی  مصر کے عشق سے پردہ اٹھایا، انہوں نے کہا: اس نے مجھے اصرار اور التماس سے اپنی طرف دعوت دی تھی ( قَالَ ھِیَ رَاوَدَتْنِی عَنْ نَفْسِی
واضح ہے کہ اس قسم کے موقع پر ہر شخص ابتداء میں بڑی مشکل سے باور کرسکتا ہے کہ ایک نوخیزجوان غلام کہ جو شادہ شدہ نہیں بے گناہ ہو اورایک شوہر دار عورت کہ جو ظاہراً باوقار ہے گنہگار ہو، اس بناء پر الزام زوجہ  کی نسبت زیادہ یوسف کے دامن پر لگتا تھا لیکن چونکہ خدا نیک اور پاک افراد کا حامی ومدد گار ہے، وہ اجازت نہیں دیتا کہ یہ نیک اور پارسا مجاہد نوجوان تہمت کے شعلوں کی لپیٹ میں آئے لہٰذا قرآن کہتا ہے:اور اس موقع پر اس عورت کے اہلِ خاندان میں سے ایک گواہ نے گواہی دی کہ اصلی مجرم کی پہچان کے لئے اس واضح دلیل سے استفادہ کیا جائے کہ اگر یوسف کا کرتہ آگے کی طرف سے پھٹا ہے تووہ عورت سچ کہتی ہے اور یوسف جھوٹا ہے( وَشَھِدَ شَاھِدٌ مِنْ اٴَھْلِھَا إِنْ کَانَ قَمِیصُہُ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَھُوَ مِنَ الْکَاذِبِینَ
اور اگر اس کاکُرتہ پیچھے سے پھٹا ہے وہ عورت جھوٹی اور یوسف سچاہے( وَإِنْ کَانَ قَمِیصُہُ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ فَکَذَبَتْ وَھُوَ مِنَ الصَّادِقِینَ
اس سے زیادہ مضبوط دلیل اور کیا ہوگی ۔ کنونکہ زوجہ  کی طرف سے تقاضا تھا تو وہ یوسف کے پیچھے دوڑی ہے اور یوسف اس سے آگے دوڑ رہے تھے کہ وہ ان کے کُرتے سے لپٹی ہے، تو یقینا وہ پیچھے سے پھٹا ہے اور اگر یوسف نے  کی بیوی پر حملہ کیا ہے اور وہ بھاگی ہے یا سامنے سے اپنا دفاع کیا ہے تو یقینا یوسف کا کُرتہ آگے سے پٹھا ہے ۔
یہ امر کس قدر جاذبِ نظر ہے کہ کُرتہ پھٹنے جا سادہ سا مسئلہ بے گناہی کا تعین کردیتا ہے، یہی چھوٹی سی چیز ان کی پاکیزگی کی سَند اور مجرم کی رسوائی کا سبب ہوگئی ۔
 مصر نے یہ فیصلہ کہ جو بہت ہی جچا تُلا تھا بہت پسند کیا، یوسف کی قمیص کو غور سے دیکھا، اور جب اس نے دیکھا کہ یوسف کی قمیص پیچھے سے پھٹی ہے (خصوصاً اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ اس دن تک اس نے کبھی یوسف سے کوئی جھوٹ نہیں سنا تھا) اس نے اپنی بیوی کی طرف رخ کیا اور کہا: یہ کام تم عورتوں کے مکر وفریب میں سے ہے، بے شک تم عورتوں کا مکر وفریب عظیم ہے ( فَلَمَّا رَاٴَی قَمِیصَہُ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ قَالَ إِنَّہُ مِنْ کَیْدِکُنَّ إِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیمٌ
اس وقت  مصر کوخوف ہوا کہ یہ رسوا کن واقعہ ظاہر نہ ہوجائے اور مصر میں اس کی آبرو نہہ جاتی رہے، اس نے بہتر سمجھا کہ معاملے کو سمیٹ کر دبا دیا جائے، اس نے یوسف کی طرف رخ کیا اور کہا: اے یوسف تم صرفِ نظر کرو اوراس واقعے کے بارے میں کوئی بات نہ کہو(یُوسُفُ اٴَعْرِضْ عَنْ ھٰذَا )، پھر اس نے بیوی کی جانب رُخ کیا اور کہا:تم بھی اپنے گناہ سے استغفار کرو کہ تم خطا کاروں میں سی تھی (وَاسْتَغْفِرِی لِذَنْبِکِ إِنَّکِ کُنتِ مِنَ الْخَاطِئِین)۔(3)
بعض کہتے ہیں کہ یہ بات کہنے والا  مصر نہ تھا بلکہ وہی شاہد تھا لیکن اس احتمال کے لئے کوئی دلیل موجود نہیں ہے خصوصاً جب کہ یہ جملہ  مصر کی گفتگو کے بعد آیا ہے ۔
 


۱۔ مجمع البیان، زیرِ بحث آیت کے ذیل میں ۔
2۔ یہ کہ ”ما جزا“میں لفظ ”ما“ نافیہ ہے یا استفہامیہ ، اس سلسلے میں مفسرین میں اختلاف ہے لیکن دونوں صورتوں میں اس کے نتیجے میں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔
3۔ اس جملے میں”من الخاطئین“ کہ جو جمع مزکر ہے کہا گیا ہے : کہ ”من الخاطئات“ کہ جو جمع مونث ہے، ایسا اس لئے ہے کہ بہت مواقع پر تغلیب کے طور پر جمع مذکر کا دونوں پر اطلاق کیا جاتا ہے یعنی تو خطا کاروں کے زمرے میں ہے ۔

 

چند اہم نکات۳۔ متین وپاکیزہ کلام
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma