۱۔ زمین اور آسمان بدل جائیں گے :

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 10
۲۔سورہ ابراہیم کا آغاز اور اختتامظالموں کی کمزور سازشیں

۱۔ زمین اور آسمان بدل جائیں گے : زیر نظر آیات میں ہم نے پڑھا ہے کہ قیامت میں یہ زمین کسی دوسری زمین میں اور اسی طرح آسمان دوسرے آسمانوں میں تبدیل ہو جائی گے ۔
کیا اس تبدیلی سے مراد ذاتی وجود کی تبدیلی ہے یعنی کیایہ زمین بالکل نا بود ہو جائے گی اور کوئی دوسری زمین خلق کع دی جائے گی اور قیامت اس زمین میں برپا ہوگی یعنی یہ کرہ خاکی اور یہ آسمان ویران ہو جائیں گے اور ان کے ویرانوں پر نئے زمین و آسمان پیدا ہوں گے جو اس زمین و آسمان کی نسبت تکامل و ارتقاء میں زیادہ ہوں گے ۔؟
قرآن مجید کی بہت سی آیات کا ظاہری مفہوم دوسرے معنی کی تائید کرتا ہے : ۔
سورہ فجر کی آیہ ۲۱۔ میں ہے :
کلا اذا دکت الارض دکاً دکاً
ایک ایسا وقت آئے گا کہ جب زمین درہم برہم ہو جائے گی۔
سورہٴ زلزال میں اس جہان کے اختتام اور قیامت کے آغاز کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے :
اذا زلزلت الارض زلزالھا و اخرجت الارض اثقالھا
جب زمین میں زلزلہ آئے گا اور وہ اپنے مخفی بوجھ اگل دے گی ۔
سورہٴ حاقہ کی آیہ ۱۴ اور ۱۵ میں ہے :
و حملت الارض والجبال فدکتا دکة واحدة فیومئذوقعت الواقعة
زمین اور پہاڑ اپنی جگہ سے اٹھالئے جائیں گےاور وہ درہم برہم ہو جائیں گے اور اس روز وہ عظیم واقعہ رونما ہوگا ۔
سورہٴ طٰہٰ کی آیات ۱۰۵ تا ۱۰۸میں ہے :

۱۰۵۔ وَ یَسْئَلُونَکَ عَنِ الْجِبالِ فَقُلْ یَنْسِفُھا رَبِّی نَسْفاً ۔
۱۰۶۔فَیَذَرُھا قاعاً صَفْصَفاً ۔
۱۰۷۔ لا تَری فیھا عِوَجاً وَ لا اٴَمْتاً ۔
۱۰۸۔یَوْمَئِذٍ یَتَّبِعُونَ الدَّاعِیَ لا عِوَجَ لَہُ وَ خَشَعَتِ الْاٴَصْواتُ لِلرَّحْمنِ فَلا تَسْمَعُ إِلاَّھَمْساً ۔


تجھ سے پہاڑوں کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔ کہہ دو: میرا پرودگار انہیں سر گرداں اور ریزہ ریزہ کردے گا اور پھر انہیں ہموار زمین کی صورت دے گا اس طرح کہ تجھے اس میں ٹیڑھ پن اور پستی و بلندی نظر نہیں آئے گی ۔ اس روز لوگ اس پکارنے والے کی پیروی کریں گے جس سے انحراف نہیں ہو سکے گا اور مہربان خدا کے سامنے آواز یں جھکی ہونگی اور تجھے دھیمی دھیمی آواز کے سوا کچھ سنائی نہ دے گا ۔

   

تفسیر

سورہ ٴ تکویر کی ابتداء میں چراغ آفتاب گل ہو جانے ، ستاروں کے تاریک ہو جانے اور پہاڑوں کے چلنے کا تذکرہ ہے ۔
نیز سورہٴ انفطار کے آغاز میں بھی آسمانوں کے پھٹ جانے ، ستاروں کے بکھر جانے اور مردوں کے قبروں سے اٹھنے ( غور کیجئے گا) کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے ۔
یہ آیات اورایسی بہت سی آیات کو مجموعی طور پر دیکھا جائے اور اسی طرح انسان کے قبروں سے اٹھنے ۱
کے متعلق آیات کو ملحوظ نظر رکھا جائے تو واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اس جہان کا موجودہ نظام اس صورت میں باقی نہیں رہے گالیکن یہ باکل نابود نہیں ہوگا بلکہ زمین درہم برہم ہو کر ہموار اور صاف ہوجائے گی اور لوگ گویا ایک نئی زمین پر قدم رکھیں گے ۔ البتہ واضح ہے کہ وہ زمین کامل تر اور عالی تر ہوگی کیونکہ اس عالم کی تمام چیزیں اس جہان کی نسبت زیادہ وسیع اور زیادہ کامل ہوں گی ۔
فطری امر ہے کہ ہمار اآج کا جہان قیامت کے مناظر قبول کرنے کی استعداد نہیں رکھتا اور قیامت اور دوسرے جہان میں ہماری زندگی کے لئے تنگ اور محدود ہے اور جیسا کہ ہم نے بارہا کہا ہے شاید اس جہان کی نسبت اس جہان سے اسی طرح ہے جیسے رحم مادر کی نسبت ہماری اس زندگی سے ۔
بعض آیات مین بتایا گیا ہے کہ قیامت کے دن اس دنیا کے دنوں کی نسبت بہت طویل ہوں گے ۲
یہ امر بھی اس حقیقت پر ایک اچھا شاہد ہے ۔
البتہ ہم اس جہان کی تفصیلات کی تصویر کشی اس جہان میں نہیں کر سکتے
جیسے شکم مادر میں بچہ سوجھ بوجھ بھی رکھتا ہو تو بھی باہر کی دنیا کی خصوصیات نہیں سمجھ سکتا ۔ ہم تو صرف اتنا جانتے ہیں اس جہان ایک عظیم تغیر ہوگا ۔ یہ جہان بالکل ویران ہوکر بالکل ایک نئے جہان میں بدل جائے گا ۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ مصادر اسلامی میں موجود متعدد روایات میں ہے کہ اس وقت زمین اور عرصہٴ محشر طیب و پاک اور سفید روٹی میں بدل جائے گا کہ انسان جسے کھا سکیں گے تا کہ ان کا حساب واضح ہو جائے اور ہر کوئی اپنے انجام کی طرف چل پڑے ۔
تفسیر نورالثقلین میں یہ روایات مختلف حوالوں سے درج کی گئی ہیں ۔ ۳
اہل سنت کے بعض مفسرین مثلاً قرطبی نے بھی اسی آیت کے ذیل میں ایسی روایات کی نشاندہی کی ہے ۔ 4
بعید نہیں کہ ان روایات سے مراد یہ ہو کہ اس جہان میں زمین بجائے اس کے کہ مٹی نے اسے ڈھانپ رکھا ہو ایک ایسا غذائی مادہ ااس پر محیط ہو کہ جو بدن انسانی کا حصہ بن سکتا ہو ۔ کیونکہ مٹی ایسی چیز نہیں جو بدن انسانی کا حصہ بن سکے بلکہ اس میں موجود غذائی مواد نباتات کے ذریعے باہر نکلتا ہے تا کہ بدن انسانی کا حصہ بننے کے قابل ہو سکے لیکن اس روز سطح زمین پر مٹی کی بجائے ایسا مادہ محیط ہوگا جو آسانی سے جزو بدن بن سکے ۔ اسے روٹی سے اس لئے تعبیر کیا گیا ہے کہ انسان کی غذا کا زیادہ حصہ روٹی پر ہہی مشتمل ہوتا ہے ( غور کیجئے گا ) ۔

 


۱ یٰٓس۔ ۵۱، قمر ۔۷ ،معارج ۔ ۴۳ ، حج ۔ ۷ وغیرہ۔
۲ معارج ۔ ۴ ۔
۳ ۔ تفسیر نور الثقلین جلد ۲ ص۵۵۵ تا ص ۵۷۷۔
4۔ تفسیر قرطبی جلد۵ ص ۳۶۱۳
۲۔سورہ ابراہیم کا آغاز اور اختتامظالموں کی کمزور سازشیں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma