ایک اور مرحلہ آیا ۔ ابراہیم کی اپنے چچا آزر سے بحث ہونے لگی ۔ کبھی بہت مضبوط انداز سے ، محبت کے سلیقے سے اور کبھی تنبیہ و سر زنش کے لہجے میں ، آپ نے اسے بت پرستی کے بارے میں خبر دار کیا اور اس سے کہا : تو ایسی چیز کی پرستش کیوں کرتا ہے جو نہ سن سکتی ہے ، نہ دیکھ سکتی ہے اور نہ ہی تیری کوئی مشکل حل کر سکتی ہے ؟
آپ (علیه السلام) نے چچا سے کہا : اگر تو میری پیروی کے تو میں تجھے سیدھی راہ کی طرف ہدایت کروں ۔ مجھے ڈر ہے کہ اگر تو شیطان کی پیروی کرتا ہے تو کہیں تجھے عذاب الہی دامن گیر نہ ہو جائے ۔
یہاں تک کہ ان کا چچا ان نصیحتوں کے جواب میں انہیں سنگسار کرنے کی دھمکی دیتا ۔ آپ (علیه السلام) ” سلام علیک “ کہتے ہوئے اسے جواب دیتے ہیں : میں تمہارے لئے استغفار کروں گا ۔
اس طرح آپ کوشش کرتے کہ اس سنگ دل کے دل میں کوئی گنجائش نکل آئے ۔ (مریم ۔ ۴۷ )