شرک اور مشرکین سے دوری کا نتیجہ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 13
سوره مریم / آیه 51- 53 سوره مریم / آیه 46- 50

شرک اور مشرکین سے دوری کا نتیجہ :


گزشتہ آیات میں حضرت ابرہیم (علیه السلام) کی ان کے چچا کی ہدایت کے سلسلہ میں منطقی باتیں جو خاص لطف و محبت کی آمیز ش رکتھی تھیں گزرچکی ہیں آب آزر کے جوابات بیان کرنے کی نوبت ہے تاکہ ان دونوں کاآپس میں موازنہ کرنے سے حقیقت اور واقعت ظاہر ہوجائے ْْْْْْْْْقرآن کہتا ہے کہ نہ صرف ابرہیم(علیه السلام) کی دل سوزیاں اور ان کامدلل بیا ن آزر کے دل پر اثر انداز نہ ہوسکا بلکہ وہ ان باتوں کو سن کرسخت پرہم ہوا،اور اس نے کہا: ”اے ابرہیم کیاتو میرے خداؤسے رو گردان ہے (قال ارغب انت عن اٰلھتی یا ابراھیم ) ۔
اگر تو اس کام سے باز نہیں آئے گا تو میں تجھے سنگسار کردوں گا ( لئن لم تنتہ لارجمنک ) ۔
”اور تو اب مجھ سے دور ہوجا میں پھر تجھے نہ دیکھوں (واھجر نی ملیا ) ۔قابل توجہ بات یہ ہے کہ اولاآزر یہ تک کہنے کے لیے تیار نہیں تھا کہ بتوں کے انکار ،یا مخالفت اور ان کے بارے میں بدگمانی کاذکر زبان پر لائے ،بلکہ بس اتناکہا : کیاتو بتوں سے روگردان ہے ؟تاکہ کہیں ایسانہ ہو کہ بتوں کے حق میں جسارت ہوجائے ثانیاابراہیم کو تہدید کرتے وقت اسے سنگسار کرناقتل کرنے کی ایک تہدید کی وہ بھی اس تاکید کے ساتھ کہ جو ” لام “ اور ”نون “ تاکیدثقیلہ سے جو ”لارجمنک “ میںوارد ہے ، اور ہم جانتے ہیں کہ سنگسارکرنا قتل کرنے کی ایک بدترین قسم ہے ثالثا اس مشروط تہدید اور دھمکی پر ہی قنانعت نہیں کی بلکہ اس حالت میں جناب ابرہیم (علیه السلام) کو ایک ناقبل برداشت و جود شمار کرتے ہوئے ان سے کہا کہ تو ہمیشہ کے لیے میری نظروں سے دور جا (ملینا )مفردات میں راغب کے کہنے کے مطابق ”املا“ کے ماد ہ سے طولانی مہلت دینے کے معنی میں ہے اور یہاں اس کا مفہوم یہ کہ طولانی مدّت کے لیے ہمیشہ کے لیے مجھ سے دور ہوجا ۔
یہ تعبیر بہت ہی تو ہین آمیز ہے ،کہ جسے سخت مزاج افراد اپنے مخافین کے لیے استعمال کرتے ہیں ، اور فارسی زبان میں اس کی جگہ ”گورت راکم کن “میں کہتے ہیں ،یعنی نہ صرف اپنے آپ مجھ سے ہمیشہ کے لئے چھپالے بلکہ کسی اسی جگہ چلے جاؤ کہ میں تمہاری قبر تک کو بھی نہ دیکھو ں ۔
بعض مفسرین نے ”لارجمنک “ کو سنگسار کرنے ک معنی میں نہیں لیا بلکہ انہونے اس کی تفسیر بدگمانی کرنے یا مہتم کرنے کے معنی میں کی ہے لیکن یہ تفسیر بعیدنظر آتی ہے ۔ قرآن کریم کی تمام آیات کامطالعہ ، کہ جو اسی تعبیر کے ساتھ وارد ہوئی ہیں ، اسی بات کی گواہی دیتا ہے کہ جو ہم نے کہی ہے ۔
لیکن ان تمام باتوں کے باوجود حضرت ابرہیم (علیه السلام) نے تمام پیغمبروں اور آسمانی رہبر وں کی مانند اپنے عصاب پر کنٹرول رکھا، اور تندی اور تندی اور تیزی اور شدید خشونت دسختی کے مقابلہ میں انتہائی بزرگواری کے ساتھ ” تجھ پر سلام “ (قال سلام علیک ) ۔
ممکن ہے کہ یہ سلام الودعی اور خداحافظی کاسلام ہو ، کیونکہ اس کے بعد کے جملے چند جملوں کے کہنے کے بعد حضرت ابرہیم (علیه السلام) نے آزر کو چھوڑ دیا یہ بھی ممکن ہے کہ یہ ایساسلام ہو کہ جو دعوی اور بحث کو ترک کرنے کے لیے کہاجاتا ہے جیسا کہ سورہ قصص کی آیہ ۵ ۵ میں ہے :
لنااعمالناولکم اعمالکم سلام علیکم لانبتقی الجاھلین
اب جبکہ تمہارے بات قبول نہیں کرتے ہو ، تو ہمارے اعمال ہمارے لئے ہیں اور تمہارے اعمال تمہار ے لیے ، تم پر سلام ہے ہم جاہلوں کے ہواخواہ نہیں ہے ۔
اس کے بعد مزید کہا : میںعنقریب تیرے لیے اپنے پروردگار سے بخشش کی درخوست کروں گا ، کیونکہ و ہ میرے لیے رحیم و لطیف اور مہر بان ہے ۔(ساستغفرلک ربی انہ کان بی حفیا) ۔
حقیقت میں حضرت ابراہیم (علیه السلام) نے آرزو کی خشونت و سخی اور تہدید و دھمکی کے مقابلے میں اسی جیساجواب دینے کے بجائے اس کے برخلاف جواب دیا اور اس کے لیے پروردگارعالم سے استفادہ کرنے اوراس کے لیے بخشش کی دعاکرنے کا وعد ہ کیا ۔
پہاں پر ایک سوال پیداہوتا ہے کہ ابراہیم (علیه السلام) نے اس سے استغفار کا وعدہ کیوں کیا حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ ہر گز ایمان نہیں لایا اور مشرکین کے لیے استغفار سورہ توبہ کی صریح آیت کے مطابق ممنوع ہے ۔
اس سوال کاجوب ہم سورہ توبہ کی اسی آیت کے ذیل میں تفصیل کے ساتھ بیا ن کرچکے ہیں ( ۱) ۔
اس کے بعد یہ فرما یا کہ : میں تم سے ( تجھ سے اور بت پرست قوم سے ) کنارہ کشی کرتاہوں اوراسی طرح ان سے بھی کہ جنہیں تم خداکے علاوہ پکار تے ہو ،یعنی بتوں سے بھی (کنارہ کشی کرتا ہوں ) (واعتزلکم وماتدعون من دون اللہ ) ۔
اور میں تو صرف اپنے پروردگار کو پکارتاہوں اور مجھے امید ہے کہ میرے پروردگار کی بارگاہ میں قبول ہوئے بغیر نہیں رہے گی۔(وادعواربی عسٰے ان لااکون بدعاء ربی شقیا)
یہ آیت ایک طرف حضرت ابراہیم (علیه السلام) کے آزر کے مقابلے میں ادب کی نشاندہی کرتی ہے ۔کہ اس نے کہا کہ مجھ سے دورہوجا تو ابراہیم (علیه السلام) نے بھی اسے قبول کرلیا اور دوسری طرف ان کی اپنے عقیدہ میں قابلیت اور یقین کو واضیح کرتی ہے ۔یعنی وہ واضح کررہے ہیں کہ میری تم سے یہ دوریاس بناء پر نہیں ہے کہ میں نے پنے توحید پر اعتقادراسخ سے دستبرداری اختیار کرلی ہے ۔بلکہ اس بناپر ہے کہ میں تمہارے نظریے کو حق تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں،لہذامیں اپنے عقیدے پراسی طر ح قائم ہوں ۔
ضمنی طورپر یہ کہتے ہیں کہ اگر میں اپنے خداسے دعاکروں تو وہ میری دعاکو قبول کرتا ہو ں لیکن تم بیچارے تو اپنے سے زیادہ بیچاروں کوپکارتے ہو ۔اور تمہاری دعاہرگز قبول نہیں ہوتی یہاں تک کہ وہ تو تمہاری باتو کو سننے تک نہیں ۔
ابراہیم (علیه السلام) نے اپنے قول کی وفاکی اوراپنے عقیدہ پر جتنازیاد ہ سے زیاد ہ استقامت کے ساتھ رہاجاسکتا ہے ،باقی رہے ۔ہمیشہ توحید کی منادی کرتے رہے ۔اگر چہ اس وقت ک تمام فاسداور برے معاشرے نے ان کے خلاف قیام کیا لیکن وہ جناب بالاآخر اکیلے نہ رہے اور تمام قرون و اعصاارمیں بہت سے پیروکار پیداکرلیے اس طورپر کہ دنیاجہاں کے تمام خداپرست لوگ ان کے وجود پر فخر کرتے ہیں ۔
قرآن اس بارے میں کہتاہے : جس وقت ابرہیم نے ان بت پرستوں سے اور ان تمام چیزوں سے کہ جن کی وہ اللہ کے سواپرستش کیا کرتے تھے کنارہ کشی اختیار کرلی تو ہم نے اسے اسحاق سابیٹا اور یعقوب ساپوتا عطافرمایا اور ان میں سے ہریک کو ہم نے عظیم پیغمبر قرار دیا (فلمااعتزلھم ومایعبدون من دون اللہ وھبنالہ اسحق و یعقوب و کلاجعلنانبیا) ۔
اگر چہ بہت زیادہ مدت گزرجانے کے بعد خداوند تعالیٰ نے ابرہیم (علیه السلام) کو اسحق اور یعقوب( اسحق کا بیٹا ) عطافرمایا لیکن بہر حال یہ بزرگ انعان اسحق جیسابیٹا اور یعقوب جیسا پوتا ، کہ ان میں سے ہر ایک عالی مقام پیغمبرتھا اسی استقامت کا نتیجہ تھا کہ جو ابراہیم (علیه السلام) نے بتوں سے مبارزہ اوراس دین باطل سے کنار کشی کرنے میں اپنی طرف سے دکھائی ۔
علاوہ ازیں ہم نے انہیں اپنی رحمت کاایک حصہ بخشا ۔(ووھبنالھم من رحمتنا ) ۔
وی ززخاص رحمت کو جو خالصین و امخلصین ،مردان مجاہد اور راہ خدامیں مبارزہ کرنے والوں ہی کا حصّہ ہے ،
اور بالاآخر ”ہم نے اس باپ اور اس کے بیٹوں کے لیے تمام امتوں کے درمیانیک مام ‘ اچھی زبان اور اعلی مقام قرار دیا “
واجعل لی السان صدق فی الاٰخرین
خدایا!میرے لیے آئندہ آنے والی امتوں میں لسان صدق ( سچی زنان ) قراردے ۔
واقع میںوہ چاہتے تھے کہ حضرت ابرہیم اور ان کی اولاد کو اس طرح انسان معشرے میں سے نکال دیا جائے کہ ان کی کوئی خبر اوران کامعمولی سابھی اثر باقی رہے اوروہ ہمیشہ کے لیے بھلادیے جائےں لیکن اس کے برعکس خداتعالیٰ نے ان کے ایثار ، فداکاری اوراس رسالت کی ادائیگی میں ان کی استقامت کی وجہ سے کہ جو ان کے ذمہ تھی ، ان کی شہر کو ایسابام عروج تک پہنچایاکہ ہمیشہ دنیاجہاں کے لوگوں کی زبان پر ان کاتذکرہ تھا اوراب تک ہے وہ خداشناسی وجہاد ، پا کیزگی و تقویٰ ،اور مبارزہ ع جہاد کے اسوہ اور نمونہ کے طورپر پہچانے جاتے ہیں ۔
” لسان “ (زبان) ایسے موقع پر ایک ایسی ”یاد “ کے معنی میں ہے جو انسان کی لوگوں کے درمیا ن رہ جائے اورجب ہم اسکی ”صدق “ کی طرف اضافت کریں اور (لسان الصدق )کہیں تو اس کامعنی اچھی یاد ،نیک نامی اور لوگوں کے دلوں میں اچھا مقام ہے ، اور جس وقت ”علیا “ کے لفظ کے ساتھ کہ جو عالی اور عمدہ کے معنی میں ہے ضمیمہ ہوجائے تواس کامفہوم یہ ہوگا کہ کسی کی بہت ہی اچھی یاد لوگوں کے دریمان رہ جائے ۔
یہ بات کیے بغیر ہی واضح ہے کہ احضرت ابرہیم (علیه السلام) اس درخواست سے یہ نہیں شاہتے کہ اپنے دل کی خوہش کو پورا کریں ،بلکہ ان کا اصل مقصد یہ ہے کہ دشمن ان کی تاریخ زندگی کو کہ جو نہایت سازتھی فراموشی کی بھٹی میں نہ ڈال سکیں اور وہ زندگی جو عالم کے لوگوں کے لیے نمونہ بن سکتی ہے اسے کہیں ہمیشہ کے لیے لوگوں کے دلوں سے محونہ کردیں ۔
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام سے ایک روایت میںیہ بیاہواہے :۔
لسان الصدق للمسرء یجعلہ اللہ فی الناس خیر من المال یا کلہ و یورثہ :
اچھی یاداور نیک نامی کہ جو خداکسی شخص کے لیے لوگوں کے درمیا ن قرار دے ،اس فراواں دولت و ثروت سے بہتری و برترہے کہ جس سے انسان خود بھی فائدہ اٹھائے اوراس اسے میراث کے طورپر بھی چھوڑجائے (۲) ۔
اصولی طور پر ، روحانی پہلو ؤ ں سے قطع نظر بھی بعض اوقات اچھی شہرت لوگوں کے درمیان خودانسان کے لیے اوراس کی اولاد کے لیے عظیم سرمایا یہ ہوسکتی ہے کہ جس کے ہم نے بکثرت نمونہ دیکھے ہیں ۔
یہاں ایک سوال سامنے آتاہے کہاس آیت میں حضرت اسمعیل (علیه السلام) کے وجود کی نعمت ، کہ جو حضرت ابراہیم (علیه السلام) کے پہلے فرزند بزرگور تھے ، کیوں بالکل ہی بیا ن نہیں ہوئی جب کہ حضرت یعقوب (علیه السلام) کانام جو کہ حضرت ابراہیم (علیه السلام) کے پوتے تھے صراحت کے ساتھ آیا ہے ۔
لیکن قرآن میں ایک دوسر ے مقام پر ، حضرت ابراہیم (علیه السلام) کے انعامات کے ضمن میں اسمعیل (علیه السلام) کے وجود کابیان ہواہے جہاں وہ حضرت ابراہیم (علیه السلام) کی زبان سے کہتا ہے :
الحمدللہ الذی و ھب لی علی الکبر اسمٰعیل و اسحق ۔
شکر ہے اس خداکا کہ جس نے مجھے بڑ ھاپے میں اسمٰعیل اوراسحق بخشے ۔(ابرہیم ۔۳۹) ۔
اس سوال کاجواب اس طرح ہے کہ وہ اس کے بعد کی دوتین آیات میں حضرت اوسمٰعیل (علیه السلام) کا نام ان کی بعض صفات کے ساتھ مستقل طورپر آیا ہے ، اوپر والی آیت سے مقصود یہ ہے کہ اولاد ابرہیم میں نبوت کے جاری رہنے اورتسلسل کو بیان کرے اور نشاندہی کرے کہ کس طرح یہ حسن شہرت ،نیک نامی اور ان کی عظیم تاریخ ،ان نبیاء کے ذریعے کہ جو ان کی اورلاد میں سے یکے بعد دیگر آئے ، تحقیق پذیر ہوئی اور ہم جانتے ہیں کہ طویل اور ارمیں حضرت اسحق اور احضرت یعقوب (علیه السلام) کی اولاد میں سے پیغمبرآئے ہیں ،اگر چہ اسمٰیل کی اولاد میں سے بھی تمام پیغمبر وں میں سے سب سے بزر گ ترین پیغمبر اسلام نے عرصہ ہستی میں قدم رکھا لیکن تسلسل اور ایکے بعد دیگر ے آتے رہنا اولاد ادسحق میں ہی تھا ۔
اس لیے سورہ منکبوت لہ آ یہ ۲۷ ،میں بیان ہوا ہے :
ووھبنا لہ اسحق و یعقوب و جعلنا فی ذریتہ النبوةوالکتاب
ہم نے اسے اسحق و یعقوب بخشے اوراس کی ذریت اور آسمانی کتاب قراردی ۔


۱۔تفسیرنمونہ جلد ۸،ص ۱۲۸، اردوترجمہ ۔
۲۔اصول کافی (مطابق نقل تفسیر نوراثقلین ، جلد ۳ ، ص ۳۳۹۔
سوره مریم / آیه 51- 53 سوره مریم / آیه 46- 50
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma