موسٰی بھی میدان میں آجاتے ہیں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 13
1. جادوکی حقیقت کیاہے ؟سوره طه / آیه 65 - 69

موسٰی بھی میدان میں آجاتے ہیں :

 
جادوگر ظاہر اً متحد ہوگئے اور انہونے عزم بالجبر م کرلیاکہ موسٰی کے ساتھ مقابلہ کریں گے جس وقت میدان میں قدم رکھاتو انہونے کہا : ” اے موسٰی ! کیاتوپہلے جادوکے آلات پھینکے گایاہم پہلے پھنیکیں(قالوایاموسٰی اماان تلقی واماان نکون اوّل من القٰی ) ۔
بعض مفسرین کے یہ بیان کیاہے کہ جادو گروں کی یہ تحویز کہ موسٰی پہلے اقدام کریںیاوہ پہل کریں ،ان کی طرف سے یہ موسٰی کاایک قسم کااحترم تھااورشاید یہی چیز تھی ،کہ جس نے اس قصّہ کے بعد انہیں ایمان لانے کی توفیق فراہم کی ۔
لیکن یہ بات بہت بعید نظر آتی ہے کیونکہ وہ پوری قوّت کے ساتھ یہ کوشش کررہے تھے کہ موسٰی (علیه السلام) اور ان کے معجزے کو درہم بر ہم کردیں بنابریںیہ تعبیر اس لیے ہوکہ وہ عوام پر اپنی خود اعتمادی ظاہرکریں ۔
  
لیکن موسٰی (علیه السلام) نے جلد بازی نہ کی کیونکہ انہیں اپنی کامیابی کاپوری اطمینان تھااوراس سے قطع نظر ،اس قسم کے مقابلوں میںعموماً وہ بازی لے جاتاہے کہ جو پیش قدمی نہ کرے ۔انہوں نے ان سے کہا ”تم پہلے پھینکو“ ( قال بل القوا ) ۔
اس میں شک نہیں کہ حضرت موسٰی (علیه السلام) کی طرف سے ان کویہ دعوت ِ مقابلہ ،حق کے آشکار ہونے کی تمہید تھی اورجناب موسٰی (علیه السلام) کی نظر میںیہ کام نہ صرف یہ کہ کوئی امرقبیح نہیں تھا بلکہ ایک امرواجب کامقدمہ تھا ۔
جادوگر وں نے بھی اس بات کو قبول کرلیااور جتنی لاٹھیاں اور سیاںوہ جادوکرنے کے لیے اپنے ہمراہ لائے تھے ،ان سب کوایک ہی بار میدان میں ڈال دیا،اور اگرہم اس روایت کوکہ جس میںیہ بیان ہواہے کہ : وہ ہزاروں آدمی تھے ،قبول کرلیں ،تو اس کامفہوم یہ ہوگا،کہ انہوں نے ہزاروں لاٹھیاں اور سیاں کہ جن کے اندر ایک خاص قسم کامواد بھر اہواتھاایک لمحہ کے اندر میدان میں پھینک دیں ۔
”اچانک ان کی رسیاں اورلاٹھیاں ان کے جادوسے اس طرح نظر آئیں جیسے وہ حرکت کررہی ہوں،( فاذاحبالھم وعصیھم یخیل الیہ من سحرھماانھاتسعٰی ) ۔
ہاں ! چھوٹے بڑے ،رنگ برنگے مختلف شکلوں کے سانپ اچھلنے کودنے لگے۔قرآن کی دوسری آیات میں اس سلسلے میں ہے :
سحروااعین النّاس واسترھبوھم وجآء و بسحر عظیم (اعراف ،۱۱۶) ۔
انہوں نے لوگوں کی آنھکوں پرجادوکردیااور انہیںوحشت و گھبراہٹ میں ڈال دیا اور یہ ان کابہت ہی بڑا جادو تھا ۔
اور سوہ شعراء کی آیہ ۴۴ کی تعبیر کے مطابق :
جادو گروں نے پکارکرکہا : وقالوا بعذّة فرعون انا لنحن الغالبون
فرعوب کی عزّت کی قسم ہم کامیاب ہیں ۔
بہت سے مفسرین نے لکھاہے کہ انہوں نے بہت ساایسامواد جیسے ”پارہ “ ان رسیوں اورالاٹھیوں کے اندر بھراہواتھا،کہ جس سے سورج کی دھوپ میں اس مادہ کے گرم ہوجانے کی وجہ سے ،غیر معمولی دوڑبھاگ،اور مختلف قسم کی تیزحرکتیں ان میں شروع ہوگئیںیقینایہ حرکتیںچلنے بھرنے کی نہیں تھیں ،لیکن وہ بات جوجادوگروں نے لوگوں کو پہلے سے سمجھائی ہوئی تھی ،اس کے ساتھ یہ خاص منظر جووہاں وجود میں آیااس سے لوگوں کویوں لگاجیسے ان موجودات میں جن آگئی ہے اوروہ چل پھررہے ہیں” سحروااعین لناس “ کی تعبیر یعنی ”لوگوں کی آنکھوں پر جادوکردیا‘ ‘ بھی اسی معنی کی طرف اشارہ ہے اوراسی طرح ” یخیل الیہ “ یعنی موسٰی کویوں لگابھی ہوسکتاہے ، کہ اسی معنی کی طرف اشارہ ہو ۔
بہر حا ل بہت ہی عجیب منظر تھا ، جادوگرکہ جن کی تعداد بھی زیادہ تھی اوراس فن سے ان کی آگاہی بھی کمال درجہ کی تھی اور وہ اجسام کے طبعیاتی وکیمیائی خواص سے اس تفادہ کرنے کے طریقوں سے بھی اچھی طرح واقف تھے ،لہذا وہ حاضرین پراس طرح اثر انداز ہونے کے قابل ہوگئے کہ انہیںیہ یقین دلادیں کہ یہ تمام بے جان چیز یں ، جانداربن گئی ہیں ۔
خوشی کاایک شورفرعونیوں کی طرف سے بلند ہواکچھ لوگ خوف اور کھبرہٹ کی وجہ سے چیخنے لگے اور پیچے کی طرف ہٹ گئے ۔
 
” اس موقع پر موسٰی نے ایک خفیف ساخوف اپنے دل میں محسوس کیا“ : (فاوجس فی نفسہ خیفةً موسٰی ) ۔
”اوجس“ ”ایجاس “ کے مادہ سے اصل میں ” وجن “ (بروزن”حبس“) سے ہے جوایک پوشیدہ آواز کے معنی میں سے لیاگیاہے ، اس بناپر ” ایجاس “ ایک پوشیدہ اور اندرونی احساس کے معنی میں ہے ،اور یہ تعبیر اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ موسٰی کایہ اندرونی خوف ،بالکل معمولی اور خفیف ساتھا،اور وہ بھی اس وجہ سے نہیں تھا،کہ وہ جادوگروں کے جادوکے اثر سے ،جورعب انگیز منظر وجودمیں آیااتھااس کی کسی اہمیت کے قائل ہوئے تھے بلکہ انہیںخوف اس بات کاتھاکہ کہیں لوگ ا س منظر سے متاثر نہ ہوجائیںاس طرح سے کہ انہیںواپس لوٹاناآسان نہ رہے ۔
یایہ کہ اس پہلے کہ موسٰی کواپنی معجزہ دکھانے کی مہلت ملے ،کچھ لوگ اس میدان سے ہی چلے جائیں ،یا انہیںیہاں سے باہر نکال دیاجائے اور حق واضح نہ ہو سکے ۔
جیساکہ نہج البلاغہ کے چھٹے خطبے میں ہے :
لم یوجس موسٰی (ع) خیفة علی نفسہ بل اشفق من غلبة الجھال ودول الضلال
موسٰی نے ہر گز اپنے دل میں اپنے لیے خوف محسوس نہیں کیاتھابلکہ وہ اس بات سے ڈرے کہ جاہل غالب آجائیں اور گمراہ حکومت کامیاب ہوجائے (۱) ۔
جوکچھ بیان ہوچکاہے ،اب اس کے بعد میں،حضرت موسٰی (علیه السلام) کے خوف کے بارمیں جو دو سرے جوابات ذکر ہوئے ہیں،ہم ان کو بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں سمجھتے ۔
 
بہرحال اس موقع پرخداکی مدد اور نصرت موسٰی (علیه السلام) کے پاس آپہنچی اوروحی کے فرمان نے ان کی ذمّہ داری واضح کردی جیسا کہ قرآن کہتاہے :ہم نے اس سے کہا : خوف کواپنے قریب بھی نہ آنے دو یقینا تم ہی غالب رہوگے : ( قلنالاتخف انک انت الاعلیٰ) ۔
یہ جملہ پوری قاطیعت کے ساتھ موسٰی کواس کی کامیابی کے بارے میں دلی اطمینان دلارہاہے،(لفظ ” ان “ اور ضمیر کاتکراردونوں اس معنی میں پر ایک مستقل تاکید ہیں،اور اسی طرح اس جملے کاجملئہ اسمیہ ہونابھی ) اوراس طرح سے موسٰی نے اپنی قوّت قلب کوجولمحہ بھر کے لیے متزلزل ہوئی تھی ،پھر سے مجتمع کیا ۔
پھر ان سے فرمایاگیاجو کچھ تیرے دائیں ہاتھ میں ہے اسے نیچے ڈال دے جوکچھ انہونے بنایاہے یہ ان سب کونگل جائے گا (والق مافی یمینک تلقف ماصنعو ا ) ۔
چونکہ ان کاکام تو صرف جادوگرکامکروفریب ہے ۔(انماصنعو اکیدساحر) ۔
اور جادو گر جہاں کہیں بھی جائے گاکامیاب نہ ہوگا ۔( ولایفلح الساحرحیث اثی ) ۔
”تلف “ ” لقف “ کے مادہ سے (جو”وقف “ کے وزن پرہے ) نگلنے کے معنی میں ہے لیکن راغب نفردات میںیہ کہتاہے ،کہ یہ لفظ اصل میں کسی چیز کومہارت کے ساتھ پکڑ نے کے معنی میں ہے منہ کے ساتھ ہویاہاتھ کے ساتھ اور بعض ارباب نعت نے اسے “ تیزی کے ساتھ پکڑنے “ کے معنی میں سمجھا ہے جیسے فارسی میں اس جگہ ” ربودن “ استعمال ہوتاہے (۲) ۔
یہ بات خاص طور پرقابل توجہ ِ ہے کہ : یہ نہیںفرمایاکہ کہ ” اپناعصا پھینکو“ بلکہ فرمایا : ” جوکچھ تمہارے ہاتھ میں ہے اسے پھینکوں“ ۔یہ تعبیرشایدعصاسے بے اعتبائی سے ہواوراس بات کی طرف اشارہ ہوکہ عصاکی کوئی اہمیت نہیں ہے جوبات اہم ہے وہ خداکاارادہ اور اس حکم ہے اگر اس کا ارادہ ہوتو عصاتو آسان ہے ،اس سے چھوٹی اور حقیر چیزبھی اس قسم کی قدرت نمائی کرسکتی ہے۔
یہ نکتہ بھی قابل ِ ذکر ہے کہ زیربحث آیت،میں لفظ ”سحر “ پہلی مرتبہ نکرہ کی شکل میں اوربعد میں اسم معرفہ کی صورت میں الف لام جنس کے ساتھ آیاہے یہ فرق شایداس بناپرہوکہ پہلی مرتبہ تو مقصد یہ ہے کہ ان جادوگروں کے کام سے بے اعتنائی برتی جائے اورجملے کامفہوم یہ ہے کہ جو کام انہوں نے کیاہے وہ کسی جادوگرکے مکرسے زیادہ کچھ نہیں ہے لیکن دوسری مرتبہ اس حقیقت کوسمجھاناچاہتاہے کہ نہ صرف یہ جادو گر بلکہ ہرجادوگر،جس زمانے،اورجس جگہ پیداہو ، وہ کامیاب اورفلاح یافتہ نہیں ہوگا ۔

 

 


۱۔ حضرت علی علیہ اسلام نے یہ بات اس وقت فرمائی ہے جبکہ وہ لوگوں کے انحرا ف سے پریشان تھے و ہ اس حقیقت کی طرف اشارہ فرمارہے ہیں کہ میری پریشانی بھی اس بناء پر نہیں ہے کہ مجھے حق کے متعلق کچھ شک و شبہ ہے کیونکہ میں نے تو جس دن حق کودیکھا ہے ذرّہ بھر بھی مجھے شک اس میں نہیں ہوا ،بلکہ میں لوگوں کے انحراف کی وجہ سے پریشان ہوں ۔
۲۔اوردو میں اسے ” اچک لینا“کہتے ہیں ۔
1. جادوکی حقیقت کیاہے ؟سوره طه / آیه 65 - 69
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma