حق وباطل کے کے معرکوں میں باطل کا لشکر عام طور پر مقدار وسازوسامان کے کے لحاظ سے زیادہ بہتر ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود کم تعداد اور کم وسائل کے ہوتے ہوئے حق کا لشکر حیران کن کامیابی حاصل کرتا ہے، بدر، احزاب اور حنین کی جنگیں اس کی مثالیں ہیں، خود ہمارے زمانے میں ہم نے دیکھا کہ مستضعف حلقوں نے سُوپر طاقتوں کے خلاف اپنی انقلابی جد وجہد میں کامیابیاں حاصل کی ہیں ۔
یہ اس لئے ہے کہ حامیانِ حق خاص روحانی طاقت کے حامال ہوتے ہیں، یہی طاقت ایک ”انسان“ سے ایک ”امت“ بناتی ہے ۔
زیرِ بحث آیات میں کامیابی کے تین اہم عوامل بتائے گئے ہیں، مسلمانوں نے آج کل ان عوامل سے زیادہ تر دوری اختیار کر رکھی ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ مستکبر دشمنوں سے مسلسل ہزیمتیں اٹھا رہے ہیں ۔
۱و۲۔کاموں میں سچائی کے ساتھ داخل ہونا اور نکلنا اور یہ طرزِ عمل مسلسل اختیار کئے رکھنا ۔
”رَبِّ اٴَدْخِلْنِی مُدْخَلَ صِدْقٍ وَاٴَخْرِجْنِی مُخْرَجَ صِدْقٍ“
۳۔ قدرت الٰہی پر بھروسہ اور خود اعتمادی نیز دوسروں سے ہر قسم کی وابستگی اور انحصار کا خاتمہ۔
<وَاجْعَلْ لِی مِنْ لَدُنْکَ سُلْطَانًا نَصِیرًا
لہٰذا کامیابی کے لئے سچائی کی سیاست سے زیادہ موثر کوئی چیز نہیں اور استقلال، غیر پر عدمِ انحصاراور توکل علی اللہ سے بہتر وبرتر کوئی سہارا نہیں، مسلمان ان دشمنوںکے خلاف کیونکر کامیابی حاصل کرسکتے ہیں جنہوں نے ان کے وسائلِ حیات لوٹ لئے ہیں جب کہ وہ فوجی، اقتصادی اور سیاسی لحاظ سے خود انہی دشمنوں سے وابستہ ہیں، اور انہی پر انحصار کرتے ہیں ، وہ ہتھیار جو ہم نے ایک دشمن سے خریدا ہے اس کی مدد سے اس دشمن پر ہم کیسے کامیابی حاصل کر سکتے ہیں ۔ یہ کیسا خام خیال اور غلط اندازِ فکر ہے ۔