۳۔ ایک سوال کا جواب

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 12
سورہٴ کہف کی فضیلت۲۔ تکبیر کیا ہے؟


۳۔ ایک سوال کا جواب:


یہاں ایک سوال سامنے آتا ہے ۔ وہ یہ کہ زیر بحث آیات میں صفات سبیلہ کے ساتھ خدا حمد کیونکر آئی ہے جبکہ ہم جانتے ہیں کہ حمد صفاتِ ثبوتیہ یعنی علم و قدرت وغیرہ کے ساتھ آنی چاہیٴے ۔ ولد، شریک اور ولی کی نفی جیسی صفات کے ساتھ تسبیح مطابقت رکھتی ہے نہ کہ حمد۔
اس سوال کے جواب میں کہا جاسکتا ہے کہ صفات ثبوتیہ اور صفاتِ سبیلہ کا مقام اگر چہ ایک دوسرے سے جدا ہے اور صفات ثبوتیہ حمد کے ساتھ مطابقت رکھتی ہیں اور صفاتِ سبیلہ تسبیح کے ساتھ لیکن عینیت خارجی میں یہ ایک دوسرے کی لازم و ملزوم ہیں ۔ خدا سے جہل کی نفی اثباتِ علم کے ساتھ ہے جیسا کہ اس کی ذاتِ پاک کے لیے اثبات علم، جہل کی نفی کے ساتھ ہم آہنگ ہے ۔ لہٰذا کوئی مانع نہیں کہ کبھی لازم کو بیان کیا جائے اور کبھی ملزوم کو ۔ جیسا کہ اس سورہ کی ابتداء میں ایک اثباتی امر کیلئے تسبیح آئی ہے:
سُبْحَانَ الَّذِی اٴَسْریٰ بِعَبْدِہِ لَیْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الْاٴَقْصیٰ
منزہ ہے وہ خدا کہ جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد اقصیٰ کی طرف لے گیا ۔


پروردگارا! ہمارے دل کو نورِ علم و ایمان سے سرشار کردے تاکہ ہم تیری عظمت کے سامنے ہمیشہ جھُکے رہیں، تیرے وعدوں پر ایمان رکھیں اور تیرے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کردیں، تیرے وعدوں پر ایمان رکھیں اور تیرے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کردیں، تیرے علاوہ کسی کی پرستش نہ کریں اور تیرے عیر کا سہارا نہ لیں ۔
بار الٰہا! ہمیں توفیق دے کہ ہم زندگی بھر کبھی اعتدال سے باہر نہ نکلیں اور ہر قسم کی افراط و تفریط سے پرہیز کریں ۔
خداوندا! ہم تیری حمد کرتے ہیں ۔ تجھے یگانہ و یکتا سمجھے برتر سمجھتے ہیں، اس سے برتر کہ تیری توصیف کی جاسکے ۔ تو بھی ہمیں بخش دے ۔ ہمارے قدم اپنی راہمیں استوار کر اور اخلی و خارجی دشمنوں پر ہمیں کامیابی فرما اور ہماری کامیابیوں کو قیام مہدی موعود (ہماری جانیں ان پر فدا)کی آخری کامیابی کے ساتھ متصل کردے اور اس تفسیر کی ایسی تکمیل کی توفیق دے کہ جس سے تو توراضی و خشنود ہو ۔
سورہ بنی اسرائیل اختتام کو پہنچی

سورہٴ کہف
اس سورہ کی
۱۱۰ آیتیں ہیں
آیت ۲۸ کے سوا سب مکی ہیں
سورہٴ کہف کی فضیلت
رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلّم اور آئمہ اہل بیت علیہم السلام سے اس سورہ کی فضیلت کے بارے میں بہت سی روایات مروی ہیں، ان روایات میں سے اس سورہ کے مضامین کی بہت زیادہ اہمیت ظاہر ہوتی ہے ۔چند ایک روایات ذیل میں درج کی جارہی ہیں:
۱۔ رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا: کیا تمھیں ایسی سورہ کا تعارف کراوٴں کہ جو نازل ہوئی تو ستّر ہزار فرشتے اس کی نگرانی کررہے تھے اور اس کی عظمت سے زمین وآسمان معمور تھے ۔
صحابہ نے عرض کی: جی ہاں ۔
آپ نے فرمایا: وہ سورہٴ کہف ہے، جو شخص جمعہ کے روز اس کی تلاوت کرے گا آئندہ جمعہ تک الله اسے بخش دے گا (ایک اور روایت کے مطابق آئندہ جمعہ تک الله اسے گناہ سے محفوظ رکھے گا) اور اسے ایسا نور عطا کرے گا کہ جو آسمان تک ضوفشاں ہوگا اور وہ شخص دجّال کے فتنے سے محفوظ رہے گا ۔(1)
۲۔ ایک اور روایت نبی اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم ہی سے منقول ہے، آپ نے فرمایا: جو شخص سورہٴ کہف کی دس آیات حفظ کرے گا اسے دجّال نقصان نہیں پہنچاسکے گا اور جو شخص اس سورہ کی آخری آیات حفظ کرے گا روزِ قیامت یہ اس کے لئے روشنی بن جائیں گی۔(2)
۳۔ امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے: جو شخص ہر شب جمعہ سورہٴ کہف کی تلاوت کرے گا دنیا سے وہ شہید جائے گا اور شہداء کے ساتھ مبعوث ہوگا اور روزِ قیامت شہداء کی صف میں شمار ہوگا ۔(3)
ہم نے بارہا کہا ہے کہ قرآنی سوروں کی عظمت، ان کے روحانی اثرات اور اخلاقی برکات ان کے مضامین ومفاہیم کے لحاظ سے ہیں یعنی ان اثرات وبرکات کے حصول کے لئے ان مفاہیم پر ایمان لانا اور ان پر عمل کرنا ہوگا ۔

اس سورہ کے مضامین کا ایک نہایت اہم حصّہ چند با عظمت نوجوانوں کی داستان پر مشتمل ہے، ان نوجوانوں نے اپنے زمانے کے طاغوت اور دجّال کے خلاف قیام کیا، نتیجتاً ان کی جان خطرے میں پڑگئی اور وہ گویا موت کی سرحد تک آپہنچے لیکن الله تعالیٰ نے ان کی حفاظت کی، اس کی سچّی داستان کی طرف توجہ کی جائے تو ہوسکتا ہے وہ دل جو آمادہ ہو ان میں نورِ ایمان چمک اٹھے گا اور انھیں گناہوں، دجّالوں اور فاسد ماحول کی برائیوں سے بچالے ۔
اس سورہ میں عذابِ دوزخ کا ایسا تذکرہ ہے کہ انسان لرز کے رہ جاتا ہے، اس میں بتایا گیا ہے کہ کیسا بُرا انجام مستکبرین کے انتظار میں ہے ۔
اسی طرح اس سورہ میں ایک نہایت عمدہ مثال کے ذریعے علمِ الٰہی کی وسعت بیان کی گئی ہے ۔
اگر انسانان تمام امور کی طرف توجہ کرے تو ہو سکتا ہے شیاطین کے فتنوں سے محفوظ رہے، اس کے دل میں ایک روشنی چمک اٹھے اور وہ عصیاں وگناہ سے بچ جائے جس کے نتیجے میں آخرکار شہداء کے ساتھ محشور ہو ۔
سورہٴ کہف کے مضامین
یہ سورہ الله کی حمد وستائش سے شروع ہوتی ہے اور توحید، ایمان اور عملِ صالح کے ذکر پر تمام ہوتی ہے ۔
دیگر مکّی سورتوں کی طرح اس سورہ کے مضامین بھی زیادہ تر مبداء ومعاد اور بشارت وانذار پر مشتمل ہیں، نیز اس میں ایک اہم مسئلے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس کی ان سخت دنوں میں مسلمانوں کو ضرورت تھی، مسلمانوں کو سمجھایا گیا ہے کہ حق پرست اگرچہ کتنے کم کیوں نہ ہوں اور حق پرستوں کو ماحول کی خرابی میں منحل نہیں ہونا چاہیے، اگرچہ اکثریت ظاہراً کتنی ہی قوی اور طاقتور کیوں نہ ہو اور حق پرستوں کو ماحول کی خرابی میں منحل نہیں ہونا چاہیے اور اس بُرے ماحول کے خلاف قیام کرنا چاہیے، ان تھوڑے افراد میں جب تک طاقت ہو مقابلہ کریں اور طاقت نہ ہونے کی صورت میں انھیں چاہیے کہ ہجرت کرجائیں ۔
اس میں دو افراد کی ایک اور داستان بھی ہے، ان میں سے ایک بہت زیادہ خوشحال اور دولت مند تھا لیکن ایمان کی دولت سے محروم تھا جبکہ دوسرا تہی دست تھا مکر مومن تھا، یہ تہی دست اپنی عزت وقار کو برقرار رکھتے ہوئنے ہمیشہ اس امیر شخص کو نصیحت وارشاد کیا تھا لیکن جب اس پر کوئی اثر نہ ہوا تو اس سے بیزاری کا اعلان کردیا اور کامیابی کا راستہ بھی ہی ہے ۔
یہ واقعہ بیان کرنے کا ایک مقصد یہ تھا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ ابتدائی حالات کی مشکلات سے دوچارہیں یا آئندہ کبھی جن مسلمانوں کو ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑے وہ جان لیں کہ سرمایہ داروں کا جوش و خروش وقتی ہوتا ہے، جیسا ایک با ایمان شخص کی تنگدستی۔
اس سورہ میں اگر چہ حضرت خضر(علیه السلام)کا نام نہیں آیا تاہم اس میں حضرت موسٰی(علیه السلام) اور حضرت خضر(علیه السلام) ایک واقعہ مذکورہ ہے ۔ اس واقعے کے مطابق بعض کام ایسے تھے جو ظاہراً تو ٹھیک نہ معلوم ہوتے تھے مگر باطناً مصلحت پر مبنی تھے، حضرت موسی(علیه السلام)ٰ ان پر نہ کرسکے لیکن حضرت خضر(علیه السلام)نے وضاحت کی تو انہیں ان کی گہرائی کا پورا علم ہوا اور پھر اپنی بے تابی پر پشیمان ہوئے ۔
اس واقعے میں بھی سب کے لیے یہ درس ہے کہ واقعات کو صرف ظاہری نظر سے نہ دیکھا کریں بلکہ ان کی گہرائی پر نظر کریں ۔
اس سورہ میں حضرت ذوالقرنین کی داستان بھی مذکور ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ انہوں نے کیسے دنیا کے مشرق و مغرب کی سیر کی۔ دنیا کی مختلف قوموں سے ملے کہ جن کے رسم و رواج مختلف تھے ۔ آخر کار وہ کچھ لوگوں کی مدد سے یا جوج و ماجوج کی سازش کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کے راستے میں آہنی دیوار کھڑی کرکے ان کے نفوذ کو ختم کردیا ۔ (اس واقعے کی پوری تفصیل انشاء اللہ سورت کے ذیل میں آئے گی)۔
یہ واقعہ بیان کرنے کا مقصدیہ ہے کہ مسلمان دنیا کے مشرق و مغرب میں نفوذ کے لیے پوری بصیرت کے ساتھ اپنے آپ کو تیار کریں اور ہر طرح کے یاجوج و ماجوج کا مقابلہ کرنے کے لیے آپس میں متحد ہوجائیں ۔
یہ بات قابل غور ہے کہ اصحاب کہف، موسیٰ(علیه السلام) و خضر کا واقعہ اور خضر کا واقعہ اور حضرت ذوالقرنین کی داستان کہ جس کا اس سورہ میں ذکر ہے دیگر قرآنی واقعات کے بر خلاف ان کا قرآن میں کسی اور جگہ کوئی ذکر نہیں آیا ۔ صرف سورہ انبیاء کی آیہ ۹۶ میں یاجوج وماجوج کے مسئلے کی طرف اشارہ ہوا ہے تا ہم حضرت ذوالقرنین کا نام اس میں نہیں آیا ۔ بہرحال یہ بات اس سورہ کی خصوصیات میں سے ہے ۔
بہر کیف اس سورہ کے مضامین ہر لحاظ سے ثمر بخش اور ترتیب کنندہ ہے ۔

 



۱، 2، 3۔ مجمع البیان
سورہٴ کہف کی فضیلت۲۔ تکبیر کیا ہے؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma