”اوی الفتیة“ کا مفہوم

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 12
سوره کهف / آیه 13 - 16 اصحاب کہف کا واقعہ شروع ہوتا ہے


۱۔ ”اوی الفتیة“ کا مفہوم:


۱۔ ”اوی “ ماٴوی“ کے سے لیا گیا ہے، اس کا معنی ہے ”امن وامان کی جگہ“ یہ اس طرف اشارہ ہے کہ فاسد اور بُرے ماحول سے بھاگ کر یہ جوان جب غار میں پہنچے تو انھیں سکون وآرام محسوس ہوا ۔
۲۔ ”فتیة“ ”فتیٰ“ کی جمع ہے، در اصل یہ نوخیز وسرشارجو ان کے معنی میں ہے البتہ کبھی کبھار بڑی عمر والے ان افراد کے لئے بھی بولا جاتا ہے کہ جن کے جذبے جوان اور سرشار ہوں، اس لفظ میں عام طور پر جوانمردی حق کے لئے ڈٹ جانے اور حق کے حضور سرِ تسلیم خم کرنے کا مفہوم بھی ہوتا ہے ۔
اس امر کی شاہد وہ حدیث ہے جو امام صادق علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے ۔
امام(علیه السلام) نے اپنے ایک صحابی سے پوچھا: ”فتی“ کس کو کہتے ہیں؟
اُس نے جواباً فرمایا:
اما علمت اٴن اصحاب الکھف کانوا کلھم کھوٴلاء فسماھم الله فتیة بایمانھم
کیا تجھے نہیں پتہ کہ اصحاب کہف پکی عمر کے آدمی تھے لیکن الله نے انھیں ”فتیہ“ کہا ہے اس لئے کہ وہ الله پر ایمان رکھتے تھے ۔
اس کے بعد مزید فرمایا:
مَن آمَنَ بِاللهِ واتقیٰ فھو الفتیٰ
جو الله پر ایمان رکھتا ہو اور تقویٰ اختیار کئے ہو وہ ”فتی“ (جوانمرد) ہے ۔(۱)
روضة الکافی میں امام صادق علیہ السلام سے ایسی ہی ایک اور حدیث بھی منقول ہے ۔(۲)
 


2۔ ”من لدنک رحمة“ کا مفہوم


اس کا معنی ہے: ”تیری طرف سے رحمت“ یہ تعبیر اس طرف اشارہ ہے کہ جب انھوں نے غار میں پناہ لی تو دیکھا کہ کچھ ان کے بس میں نہیں رہا اور تمام ظاہری اسباب بیکار ہوگئے ہیں، ایسے میں انھیں صرف رحمت الٰہی کی امید تھی۔


3۔ ”ضربنا علیٰ اٰذانھم“ کا مطلب


”ہم نے ان کے کانو ںپر پردہ ڈال دیا“ عربی میں یہ سُلانے کے لئے ایک لطیف کنایہ ہے ۔ کسی شخص کے کان پر پردہ ڈالنا ۔ گویا وہ کسی کی بات نہ سُنے اور اس پردے سے مراد نیند ہی کا پردہ ہے ۔
اسی بناپر حقیقی نیند وہی ہے جو انسان کے کانوں کو گویا بیکار کردے، یہی وجہ ہے کہ سوئے ہوئے کسی انسان کو بیدار کرنا ہو تو اسے آواز دیتے ہیں تاکہ قوتِ شنوائی پر اثر ہو اور وہ بیدار ہوجائے ۔


4۔ ”عدد سنین“ کا مطلب


اس کا معنی ہے ”متعدد سال“ یہ تعبیر اس طرف اشارہ ہے کہ وہ سالہا سال سوئے رہے، جیسا کہ اس واقعے کی تفصیل انشاء الله آئندہ آیات کی تفسیر میں آئے گی۔


5۔ ”بعثناکم“ کا مطلب


یہ تعبیر ان کے بیدار ہونے کے بارے میں آئی ہے، شاید یہ لفظ اس لئے آیا ہے کہ ان کی نیند لمبی ہوگئی تھی کہ گویا موت کی طرف تھی اور ان کی بیداری قیامت اور بعد از موت اٹھنے کی مانند تھی ۔


6۔ ”لنعلم“ کا مطلب


اس کا معنی ہے : تاکہ ہم جان لیں اس کا یہ مفہوم نہیں کہ خدا کوئی نیا علم حاصل کرنا چاہتا تھا ۔ ایسی تعبیریں قرآن میں بہت آئی ہیں ۔ ان کا مطلب ہے کہ خدا کو جو کچھ معلوم ہے وہ عملاً رونما ہوجائے یعنی ہم نے انھیں نیند سے بیدار کیا تاکہ یہ معنی عملی صورت اختیار کرلے کہ وہ اپنی نیند کے بارے میں ایک دوسرے سے سوال کریں گے ۔


7۔ ”ای الحزبین“ کا مفہوم


اس سلسلے کی وضاحت آئندہ آیات سے ہوجائے گی۔ بات یہ ہے کہ جب وہ جاگے تو انھوں نے سونے کی مقدار کے بارے میں اختلاف کیا، بعض سمجھتے تھے کہ وہ ایک دن سوئے ہیں، بعض کا خیال تھا وہ آدا دن سوئے ہیں حالانکہ وہ سالہا سال تک سوئے رہے تھے ۔
بعض نے کہا ہے کہ ان الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ”اصحاب رقیم“ اور تھے اور ”اصحاب کہف“ اور تھے ۔ یہ خیال بہت بعید ہے کہ اس کے بارے میں زیادہ گفتگو کی ضرورت نہیں ۔(3)

 

 



۱۔ و۲۔ نور الثقلین، ج۳، ص۲۴۴ ، ۲۴۵
3۔ یہ نظریہ ”اعلام القرآن“ کے صفحہ ۱۷۹ پر ذکر کیا گیا ہے ۔
سوره کهف / آیه 13 - 16 اصحاب کہف کا واقعہ شروع ہوتا ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma