۱۔ طبقاتی تفاوت۔ معاشرے کی عظیم مشکل ہے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 12
۲۔ دونوں جہانوں کی زندگی کا موازنہپاک دل غریب لوگ

۱۔ طبقاتی تفاوت۔ معاشرے کی عظیم مشکل ہے:

 

صرف یہی آیات نہیں کہ جو معاشرے کی امیر اور غریب کی تقسیم کے خلاف جنگ کررہی ہیں بلکہ قرآن کی ایسی بہت سی آیات ہیں ۔ ان میں سے بعض کا مطالعہ ہم کرچکے ہیں اور بعض آئندہ آئیں گی ۔
وہ معاشرہ کہ جس میں ایک گروہ (جو ظاہر ہے اقلیت میں ہوگا)بڑی خوشحال زندکی گزار رہا ہو، ناز و نعمت میں غرق ہو، اسراف میں ڈوبا ہو اور ساتھ ہی طرح طرح کے مفاسد اور برائیوں میں آلودہ ہوجبکہ وسرا گروہ جو کہ اکثریت میں ہے زندگی کی ابتدائی ضروریات سے بھی محروم ہو ۔ یہ وہ معاشرہ ہے کہ جسے نہ اسلام پسند کرتا ہے اور نہ وہ حقیقی انسانی معاشرے کا رنگ رکھتا ہے ۔
ایسے معاشرے میں کبھی سکون و اطمینان نہیں ہوسکتا ۔ اس پر ہمیشہ ظلم و ستم، لوٹ کھسوٹ اور استعمار و استبداد کی حکمرانی ہوگی ۔ ایسے معاشرے میں آزادیاں سلب ہوں گی ۔ خونین جنگین عموماً ایسے ہی معاشروں سے اٹھی ہیں اور ایسے معاشرے سے پریشانیاں کبھی ختم نہیں ہوسکتیں ۔
اصولی طور پر یہ سب نعماتِ الٰہی آخر کیوں چند لوگوں کے ہاتھ میں ہوں اور معاشرے کی اکثریت طرح طرح کی محرومیوں، درد و رنج، بھوک اور بیماریوں میں ایڑیاں رگڑ رہی ہو ۔ یقینا ایسا معاشرہ، کینہ، بغض، دشمنی، حسد، غرور، ظلم خود پرستی، استکبار اور تباہی کے ایسے ہی عوامل سے پر ہوگا ۔ یہ جو ہم دیکھتے ہیں کہ تمام عظیم انبیاء خصوصاً پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایسے نظام کے خلاف شدت اور مسلسل جہاد کیا تو اس کی بھی یہی وجہ ہے ۔
ایسے معاشرے میں دولت مندوں کی محفلیں ہمیشہ تہی دستوں کی محفلوں سے الگ ہوتی ہیں ۔ ان کے حلے الگ ہوتے ہیں، سیر و تفریح کے مراکز جدا ہوتے ہیں اور مل بیٹھنے کی جگہیں جدا ہوتی ہیں ۔ (اگر غریبوں کے لیے بھی کوئی تفریح کی جگہ ہو تو وہاں کے طورطریقے بھی مختلف ہوتے ہیں) ۔ یہاں تک کہ ان کے قبرستان بھی جدا جدا ہیں ۔
یہ تفاوت اور تفریق کہ جو انسانی تقاضوں کے خلاف ہے اور تمام انسانی قوانین کی روح کے خلاف ہے کسی مردِ خدا کے لیے قابلِ برداشت نہ تھی اور نہ ہے ۔ زمانہ جاہلیت میں شدت سے یہ تفریق موجودہ تھی ۔ یہاں تک کہ وہ لوگ رسولِ اسلام کا سب سے بڑا عیب یہی سمجھتے تھے کہ سلمان و بوذر جیسے پا برہنہ اور تہی دست لوگوں نے آپ کو گھیر رکھا ہے ۔
حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے میں بھی بت پرست اشراف اور ”بڑے لوگ“آپ(ع) پر یہی اعتراض کرتے تھے کہ : ”پست لوگوں“(اراذل)نے کیوں تیری پیروی کی ہے؟
کیونکہ دل کے یہ اندھے بڑائی اور پستی کا معیار درہم و دینار کو سمجھتے تھے ۔ قرآنی الفاظ میں:
<فَقَالَ الْمَلَاٴُ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْ قَوْمِہِ مَا نَرَاکَ إِلاَّ بَشَرًا مِثْلَنَا وَمَا نَرَاکَ اتَّبَعَکَ إِلاَّ الَّذِینَ ھُمْ اٴَرَاذِلُنَا۔(ہود۔۲۷)
ہم نے دیکھا ہے کہ ان خود پرست بے ایمان لوگوں کو با ایمان غربیوں کے ساتھ چند لمحے بھی بیٹھنا گوارا نہیں ۔
اور تاریخ اسلام شاہد ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ و آلہ و سلم نے کیسے ان خود پرستوں کو ایک طرف کر کے محروم لوگوں کو مواقع فراہم کیے اور ان کے ذریعے ایک حقیقی تو حیدی معاشرہ تشکیل دیا ۔ وہ معاشرہ کہ جس میں صلاحیتیں بیدار ہوئیں اور معاشرے میں انسانی و قار کا معیار، انسانی کمالات، انسانی قدریں ۔ تقویٰ، علم، ایمان، جہاد اور عمل صالح قرار دیا ۔
آج بھی ایسے معاشروں کی تشکیل کی ضرورت ہے ۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ پیغمبر اسلام کے طرز عمل کو نمونہ بنایا جائے ۔ تعلیم و تربیت اور صحیح قوانین کی بنیاد پر طبقاتی فکرو نظر کا خاتمہ کردیا جائے اور ان صحیح قوانین کو پوری طرح سے رائج کیا جائے چاہے عالمی استکبار کو یہ بات پسند آئے یا نہ آئے اور وہ اس کی مخالفت کے لیے ہی کیوں نہ اٹھ کھڑے ہوں ۔ ہمیں جد و جہد کرنا چاہئے کیونکہ اس کے بغیر ایک صحیح و سالم حقیقی انسانی معاشرہ ہرگز تشکیل نہیں پاسکتا ۔

۲۔ دونوں جہانوں کی زندگی کا موازنہپاک دل غریب لوگ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma