تقسیم او ر نکتہ چینی کرنے والے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 11
۱۔ قرآن کریم خدا کی عظیم نعمت ہےسوره حجر / آیه 85 - 91

تقسیم او ر نکتہ چینی کرنے والے:

 


انسان ہمیشہ سے ایک صحیح آئیڈیا لوجی اور عقیدہ نہ ہو نے کی مصیبت میں گرفتار رہا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں وہ مبداء و معاد کے نظریے کاپابند نہیں رہا ، قوم لوط ، قوم شعیب اور قوم ِ صالح جیسی قومیں کہ جو اس ابتلاء میں گرفتار تھیں کے حالات تفصیل سے بیان کرنے کے بعد اب قرآن مسئلہ توحید اور معاد کی طرف لوٹتا ہے اور ایک ہی آیت میں ان دونوں امور کی طرف اشارہ کرتا ہے جو کچھ آسمان و زمین میں ہے اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اسے ہم نے بغیر حق کے پیدا نہیں کیا ( وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضَ وَمَا بَیْنَھُمَا إِلاَّ بِالْحَقِّ) ۔ان پر جو نظام حاکم ہے وہ بھی حق ہے اور ان کا مقصد تخلیق بھی حق ہے لہٰذا یہ عجیب و غریب نظم و نسق اور دقیق و منظم آفرینش دانا و توانا خالق پر واضح دلیل ہے کہ وہ بھی حق ہے بلکہ حقیقت ِ حق وہی ہے اور ہر حق اسی وقت تک حق ہے جب تک اس کے وجود ِ بے پایاں کےسا تھ ہم آہنگ ہے اور جو کچھ اس کے سوا ہے اور اسے تعلق نہیں رکھتا وہ باطل و فضول ہے ۔
یہ توحیدکے بارے میں تھا ۔ اس کے بعد معاد اور قیامت کے بارے میں فرمایا گیاہے ۔وعدہ کی گھڑی ( قیامت)آخر کار آکے رہے گی ( وَإِنَّ السَّاعَةَ لَآتِیَةٌ) ۔اگر چہ دیر سے آئے ، آخر کار ضرور آئے گی ۔
بعید نہیں کے پہلا جملہ دوسرے جملے کی دلیل کے طورپر ہو کیونکہ یہ وسیع و عریض جہان تبھی حق ہو گا جب صرف یہ چند روزہ دکھ درد سے بھری ہو ئی زندگی کے لئے نہ پیدا کیا گیا ہو بلکہ اس کے لئے کوئی ایسا نہایت اعلیٰ ہدف پیش نظر ہو جو اس عظیم آفرینش کی توجیہ کرسکے ۔ لہٰذا آسمان و زمین اور عالم ہستی کا حق ہونا خود اس بات کی دلیل ہے کہ آگے قیامت اور معاد موجود ہے ورنہ آفرینش و خلقت فضول تھی ( غور کیجئے گا) ۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو حکم دیتا ہے کہ ان کی ہٹ دھرمیوں نادانیوں ، تعصب ، کارشکنیوں اور سخت سے سخت مخالفوں کے باوجود ملائمت اور محبت کا مظاہرہ کرو”اور ان کے گنا ہوں سے صرف نظر کرواور انھیں بخش دو ،خوبصورتی کے ساتھ جس بخشش میں ملامت تک نہ ہو ( فَاصْفَحْ الصَّفْحَ الْجَمِیلَ) ۔کیونکہ لوگوں کے دلوں میں مبداء اور معاد کا عقیدہ راسخ کرنے کی دعوت کے لئے تمہارے پاس واضح دلیل موجود ہے لہٰذا تمہیں سختی اور خشونت کی کوئی ضرورت نہیں ۔ منطق و عقل تمہارے پاس ہے علاوہ ازیں جاہلوں کے ساتھ سختی سے تعصب ہی میں اضافہ ہوتا ہے ۔
صفح“ ہر چیز کے چہرے کوکہتے ہیں مثلاًصفحہٴ صورت۱
اسی لئے ”فاصفح“ منھ پھیر نے اور صرف نظر کرنے کے معنی میں آیا ہے اور کسی سے منھ پھیر نا چونکہ بعض اوقات بے اعتبائی ، اظہار ناراضگی وغیرہ کے لئے ہوتا ہے اور بعض اوقات بزر گانہ عفو و در گذر کے لئے اس لئے زیر بحث آیت میں فوراً اسے لفظ ”جمیل“ کے ساتھ موصوف کیا گیا ہے تاکہ دوسرا معنی دے سکے
امام علی بن موسی رضا علیہ السلام سے ایک روایت میں ہے کہ آپ نے اس آیت کی تفسیر کے بارے میں فرمایا:
العفو من غیر عتاب
اس سے مراد مواخذہ اور سر زنش کے بغیر عفو و در گذر ہے ۔ ۲
ایسی ہی ایک حدیث امام زین العابدین علیہ السلام سے بھی نقل ہو ئی ہے ۔ ۳
اگلی آیت ،جیسا کہ آپ مفسرین نے لکھا ہے در حقیقت در گذراور ” صفح“ ۔جمیل“ کے لئے ضروری ہونے کی دلیل کے طور پر ہے ارشاد ہوتا ہے : تیرا پروردگار پیدا کرنے والا اورآگاہ ہے ۔( إِنَّ رَبَّک ھُوَ الْخَلاَّقُ الْعَلِیمُ) ۔
وہ جانتا ہے کہ تمام لوگ ایک جیسے نہیں ہیں وہ ان کے اندر ونی اسرار، میلانات ، سطح فکر اور مختلف قسم کے احساسات و جذبات سے باخبر ہے ان سب سے یہ توقع نہ رکھو کہ وہ ایک جیسے ہوں بلکہ ان سے عفو و درگذر سے جذبے سے پیش آوٴ تاکہ تدریجا ً ان کی تربیت ہو اور وہ راہ حق کی طرف آئیں ۔
البتہ اس گفتگو کا یہ مطلب نہیں کہ لوگ اپنے طرز عمل اور اعمال میں مجبور ہیں بلکہ یہ صرف ایک تربیتی قانون کی طرف اشارہ ہے اور یہ فکر و نظر اور صلاحتوں میں اختلاف کی نشان دہی کی گئی ہے ۔
اس نکتہ کا ذکر بھی ضروری ہے کہ بعض کا یہ خیال ہے کہ حکم رسول اللہ کی مکی زندگی سے مخصوص ہے اور آ پ کی مدینہ ہجرت کے بعد جب مسلمان کچھ طاقتور ہو گئے تو اس کی جگہ جہاد کے حکم نے لے لی لیکن اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ یہ حکم مدنی سورتوں میں بھی آیا ہے ( مثلاً سورہ ٴ بقرہ ، سورہ ٴنور، سورہ ٴ تغابن اور سورہٴ مائدہ کہ جن میں سے بعض میں رسول اللہ کو صفح و عفو کا حکم دیا گیا ہے اور بعض میں مومنین کو)واضح ہو جاتا ہے کہ یہ ایک عمومی اور ابدی حکم ہے اور اتفاقاً یہ حکم جہاد کے حکم کے منافی نہیں کیونکہ ان دونوں میں سے ہر ایک کا اپنا اپنا مقام ہے ایک مقام پر عفو در گذر کے ذریعے آگے بڑھنے کی ضرورت ہوتی ہے اور جہاں عفو و درگذر سے دوسرے کی جراٴت و جسارت اور بڑھ جائے اور وہ اس سے سوء استفادہ کرے تو وہاں شدت عمل کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے ۔
اس کے بعدرسول اللہ کی دلجوئی کی گئی ہے اور انھیں تسلی دی گئی ہے کہ دشمنوں کی سختی ، کثرت اور فراوان مادی وسائل سے ہرگز پریشان نہ ہوں ، کیونکہ خدا نے خود پیغمبر پر وہ انعامات کئے ہیں جن کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتی ، فرمایا گیا ہے : ہم نے تجھے سورہ ٴ حمد اور عظیم قرآن دیا ہے ( وَلَقَدْ آتَیْنَاکَ سَبْعًا مِنْ الْمَثَانِی وَالْقُرْآنَ الْعَظِیمَ) ۔
ہم جانتے ہیں کہ ” سبع“کا معنی لغت میں ”سات“ ہے اور”متعدد“” دو دو“ کوکہتے ہیں بہت سے مفسرین نے اور روایات میں ” سبع من المثانی“ کو سورہٴ حمد کے لئے کنایہ مراد لیا ہے کیونکہ مشہور قوم کے مطابق سورہ ٴ حمد سات آیات پر مشتمل ہے اور اس لئے کہ اس کی اہمیت اور اس کے مضامین کو عظمت بہت زیادہ ہے یہ دو مرتبہ رسول اللہ پر نازل ہوئی یا یہ کہ یہ دو حصوں پر مشتمل ہے آدھا خدا کی حمد و ثنا اور آدھا حصہ بندوں کی طرف سے تقاضا و التجا ء ہے یا یہ کہ یہ ہر نماز میں دو مرتبہ پڑ ھی جاتی ہے ان پہلووٴں کے پیش نظر اس پر لفظ ”مثانی “ یعنی کئی دو دو کا اطلاق ہوا ہے4
بعض مفسرین نے یہ احتمال بھی ذکر کیا ہے کہ ”سبع“ قرآن کی ابتدائی بڑی سات سورتوں کی طرف اشارہ ہے اور مثانی خود قرآن کی طرف اشارہ ہے کیونکہ قرآن رسول اللہ پر دو مرتبہ نازل ہوا ایک مربتہ سارے کا سارا اکھٹا اور ایک مرتبہ تدیرجا ًضرورت کے ماتحت مختلف اوقات میں ، اس لحاظ سے معنی یہ ہوگا : پورے قرآن کی سات اہم سورتیں ہیں ۔
ان مفسرین نے سورہ زمر کی آیہ ۲۳ کو بھی اس مفہوم کے لئے شاہد قرار دیا ہے ار شاد خدا وندی ہے :۔
اللہ نزل احسن الحدیث کتاباًمتشابھا مثانی
خد اوہی ہے جس نے بہترین حدیث کو نازل فرمایا کہ جس کے مضامین و مفاہیم ہم آہنگ اور ایک دوسرے سے مشابہ ہیں وہ کتاب کہ جو دو مرتبہ نازل ہوئی ۔
لیکن پہلی تفسیر زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے خصوصاً ان بہت سے روایات کی بناپر جو اہل بیت سے نقل ہوئی ہیں جن میں اس کا مطلب سورہٴ حمد بتایا گیاہے ۔
مفردات میں راغب میں لفظ ” مثانی “ قرآن کا پہلا اطلاق اس لحاظ سے صحیح جاناکہ اس کی آیات بار بار پڑھی جاتی ہیں اور یہی تجوید و تکرار قرآن کو حوادث سے محفوظ رکھتا ہے ۔
علاوہ ازیں ہر زمانے میں حقیقت ِقرآن کا نیا تکرار اور نئی تجلی سامنے آتی ہے جس کا تقاضا ہے کہ اسے مثانی کہا جائے ۔

بہر حال سورہ حمد کے بعد قرآن عظیم کا ذکر جب کہ سورہ ٴحمد بھی اس کا جزو ہے اس سورہ کی اہمیت و عظمت کی دلیل ہے کیونکہ اکثر ہوتا ہے کہ کسی چیز کے ایک حصے کا ذکر اس کے ساتھ ساتھ اس کی اہمیت کی وجہ سے کیا جاتا ہے ایسا عربی ،فارسی اور دیگر زبانوں میںبہت ہے ۔
خلاصہ یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول سے یہ حقیقت بیان کرتا ہے تو ایسے عظیم سرمایہ کا حامل ہے قرآن جیسا سرمایہ جو تمام عالم ہستی کی عظمت رکھتا ہے وہ سرمایہ جو سراسر نور ، برکت ، درس اور لائحہ عمل ہے راہیں کھولنے والا ہے ۔ خصوصاً سورہ ٴ حمد کہ جس کا مفہوم اور مضموم اس قدر بلند ہے کہ لحظہ بھر میں انسان کا رشتہ خدا سے جوڑ دیتا ہے اور اس کی روح کو خدا کے آستانہ پر تعظیم و تسلیم اور رازو نیاز کے لئے ایستادہ کردیتا ہے ۔
اس عظیم نعمت کا تذکرہ کرنے کے بعد پیغمبر اکرم کو چار حکم دئے گئے ہیں ۔ پہلے فرمایا گیا ہے : یہ مادی نعمتیں جو ہم نے کافروں دی ہیں ان پر ہر گز نگاہ نہ ڈالنا ( لاَتَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ إِلَی مَا مَتَّعْنَا بِہِ اٴَزْوَاجًا مِنْھُمْ) 5
یہ مادی نعمتیں پایہ دار نہیں ہوتی ہیں اور پھر درد سر بھی ہیں یہاں تک کہ اچھے حالات میں بھی انسان کے لئے ان کی حفاظت مشکل ہو جاتی ہے لہٰذا یہ کوئی ایسی چیز نہیں جو تیری آنکھوں کو متوجہ کرے ۔ان کے مقابلے میں عظیم روحانی نعمت قرآن جو خدا نے تجھے دی ہے وہ بہت اہم ہے ۔
اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے : یہ مال و ثروت اور مادی نعمتیں ان کے ہاتھ میں ہیں اس پر ہر گز غمگین نہ ہو( وَلاَتَحْزَنْ عَلَیْھِمْ) ۔
درحقیقت پہلا حکم مادی نعمتوں کی طرف آنکھ نہ اٹھانے کے لئے ہے اور دوسرا ان سے محرومی پر غم نہ کھانے کے لئے ہے ۔
ولاتحزن علیھم “ کی تفسیرکے بارے میں یہ احتمال بھی ذکر کیا گیا ہے کہ اس کا مطلب ہے :
اگر وہ تجھ پر ایمان نہیں لاتے تو غم نہ کھاوٴں کیونکہ ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔
لیکن اگر پہلی تفسیر قبل کے جملوں کے ساتھ زیادہ مناسبت رکھتی ہے ۔
بہر حال سوہ طٰہٰ آیہ ۱۳۱میں اس کی واضح نظیر موجود ہے ۔
لاتمدن عینیک الیٰ ما متعنا بہ ازواجاًمنھم زہرة الحیٰوة الدنیا لنفتنھم فیہ و رزق فیہ و رزق بک خیر و ابقیٰ
ان میں سے بعض کو نعمتیں دی ہیں ان پر نظر نہ ڈال یہ دنیاوی زندگی کے پھول ہیں ( ناپائیدار پھول ،جو بہت جلد مر جھاکر بکھر جائیں گے ) لہٰذا ہم چاہتے ہیں کہ انھیں اس کے ذریعہ آزمائیں۔ خدا نے جو تجھے روزی دی ہے وہ تیرے لئے بہتر او ر زیادہ پائیدار ہے ۔
، تیسرا حکم تواضع ، فروتنی اور مومنین سے نرمی کر نے کے بارے میں ہے فرمایا گیا ہے :اپنے بال و پر مومنین کے لئے پھیلادے اور نیچے جھکالے ( وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِلْمُؤْمِنِینَ) ۔
یہ تعبیر تواضع اور محبت کے لئے خوبصورت ہے جیسے پرندے اپنے بچوں سے اظہار محبت کرتے ہیں انھیں اپنے پروبال کے نیچے چھپا لیتے ہیں یہ انتہائی محبت کا منظر ہوتا ہے اس طرح وہ دشمنوں سے انھیں بچا لیتے ہیں اور بکھر جانے سے روکتے ہیں در اصل کنایہ کی صورت میں یہ جچی تلی مختصر تعبیر بہت سے مطالب کی حامل ہے ۔
ضمناً مذکورہ احکام کے بعد یہ جملہ ممکن ہے اس طرف اشار ہ ہو کہ مبادا مادی نعمتوں کے حامل ہونے کی وجہ سے کافروں سے انکساری کرو یہ انکساری اور محبت مومنین کے لئے ہونا چاہئیے اگر چہ مال دنیا دے ان کا ہاتھ خالی ہو ۔
آخر میں پیغمبر اکرم کو چوتھا حکم دیتے ہوئے فرمایاگیا ہے :ان بے ایمان دولت مندوں کے مقابلے میں مضبوطی سے کھڑے ہوجاوٴاور انھیں کھلے بندوں کہہ دو کہ میں واضح ڈرانے والاہوں ( وَقُلْ إِنِّی اٴَنَا النَّذِیرُ الْمُبِینُ) ۔
کہہ دو کہ میں تمہیں متنبہ کرتا ہوں کہ خدا نے فرمایا ہے کہ میں تم پر عذاب نازل کروں گا جیسے کہ میں نے تقسیم کرنے والے نازل کیا ہے (کَمَا اٴَنْزَلْنَا عَلَی الْمُقْتَسِمِینَ) ۔وہی تقسیم کرنے والے جنہوں نے آیات الہٰی کو بانٹ دیا ( الَّذِینَ جَعَلُوا الْقُرْآنَ عِضِینَ) ۔6
جو کچھ ان کے مفاد میں تھا وہ لے لیا اور جوکچھ ان کے نقصان میں تھا اسے ایک طرف رکھ دیا ۔درحقیقت ہوا یہ کہ بجائے اس کے کہ کتاب خدا اور اسکے احکام ان کے رہبر و راہنما ہوتے اسے انھوں نے اپنے برے مقاصدکے لئے وسیلہ بنالیا ۔ایک لفظ ان کے مفاد میں ہوتا ہے اس سے چمٹ جاتے اور ہزار الفاظ ان کے ضرر میں ہوتے تو انھیں ایک طرف رکھ دیتے۔

 



۱۔قاموس میں فیروز آبادی نے لکھا ہے :پہاڑکا دامن ، تلوار پہنائی اور چوڑائی اور صورت کو بھی ”صفح“ کہتے ہیں ۔ نیز کسی چیز کے کنارے اور چہرے کو بھی ”صفح “کہتے ہیں ۔
۲۔ نورالثقلین ، ج۳، ص ۲۷۔
۳۔نور الثقلین ، ج۳ ،ص۲۷۔
4س۔پیغمبر اکرم ﷺ کی ایک حدیث میں ہے :
خدا فرماتا ہے :میں نے نماز ( سور ہٴ حمد )اپنے اور اپنے بندوں کے درمیاں دو حصوں میں تقسیم کیا ہے ایک حصہ مجھ سے مربوط ہے ہے دوسرابندوں سے ۔( مجمع البیان ، جلد۱،صفحہ۱۷۔
5۔’ازواجاً“ متعنا“ کا مفعول ہے اور ”منھم “ایک عمومی مقدر فعل کے متعلق جار مجرور ہے اور اس سارے کا معنی ہو گا ۔ ”کفار کے مختلف گروہ
6۔”عضین “ ”عضة“ کی جمع ہے جس کا معنی ہے ”متفرق“ کسی چیز کے حصہ کو بھی ”عضہ“ کہتے ہیں لہٰذا”عضین “کا معنی ہوا ”حصے “یا ”ٹکڑے“ ۔
۱۔ قرآن کریم خدا کی عظیم نعمت ہےسوره حجر / آیه 85 - 91
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma