اہل ذکر کون ہیں ؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 11
سوره نحل/ آیه 45 - 47 نہیں جانتے تو پوچھ لو

ایک اہم نکتہ


اہل ذکر کون ہیں ؟ اہلبیت علیہم السلام کے ذرائع سے مروی متعدد روایات میں ہے کہ اہل ذکر آئمہ اہلِ بیت ہیں ۔
ان میںسے ایک روایت امام علی بن موسی رضا علیہ السلام سے مروی ہے ۔ اس آیت کے بارے میں آپ سے پوچھا گیا تو فرمایا:
نحم اھل الذکر و نحن المسئولون
ہم ہے اہل ذکر اور ہم ہی سوال کیا جانا چاہئیے ۱
ایک اور روایت میں ہے کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے اس آیت کی تفسیر کے بارے میں فرمایا:
الذکر القرآن ، وآل الرسول اھل الذکر و ھم المسئولون
ذکر قرآن ہے اور آلِ رسول اہل ِ ذکر ہیں اور انھیں سے سوال کیا جانا چاہئیے ۔ ۲
بعض روایات میں ہے کہ ذکر خود رسول اللہ ہیں اور ان کے اہل بیت اہل الذکر ہیں ۔ ۳
اس مضمون کی اور بھی کئی روایات ہیں ۔
اہل سنت کی تفاسیر اور کتب میں بھی اسی مضمون کی بہت سی روایات ہیں ان میں سے ایک روایت ابن ِ عباس سے مروی ہے جسے اہل سنت کی مشہوربارہ تفاسیر میں زیر بحث آیت کی تفسیر کے ضمن میں نقل کیا گیا ہے ۔ ابن عباس کہتے ہیں :
ھو محمد و علی و فاطمہ و الحسن و الحسین ھم اھل الذکر و العقل و البیان
محمد ، علی ، فاطمہ، حسن ، اور حسین ہی اہل ذکر ، اہل عقل اور اہل بیان ہیں ۔ 4
بارہ تفاسیر سے مندرجہ ذیل تفاسیر مراد ہیں :
۱۔ تفسیر ابو یوسف ۲۔ تفسیر ابن حجر ۳۔ تفسیر مقاتل بن سلیمان ۴۔ تفسیر وکیع بن جراح
۵۔ تفسیر یوسف بن موسیٰ ۶۔ تفسیر قتادہ ۷۔ تفسیر حرب الطائی ۸۔ تفسیر سدی
۹۔ تفسیر مجاہد ۱۰۔ تفسیر مقاتل بن حیان ۱۱۔ تفسیر ابو صالح ۱۲۔تفسیر محمد بن موسیٰ الشیرازی
اسی آیت کی تفسیر میں جابر جعفی کی ایک حدیث ثعلبی کی کتاب میں مرقوم ہے ۔ وہ کہتا ہے :۔
لما نزلت ھٰذہ الاٰیة قال علی (علیه السلام) نحن اھل الذکر
جس وقت یہ آیت نازل ہوئی ، حضرت علی (علیه السلام) نے فرمایا: ”اہم اہل ِ ذکر ہیں “۔(مذکورہ بالا مدر ک کی طرف رجوع کریں )
آیات قرآن کی تفسیر میں معین مصادیق پر مبنی روایات سے یہ ہمارا پہلا سابقہ نہیں ہے ایسا مصداق آیت کے وسیع مفہوم کو کبھی محدود نہیں کرتا۔
اسی طرح یہاں بھی جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں ذکر ہر قسم کی آگاہی ، یا د آوری اور اطلاع کے معنی میں ہے اور اہل ذکر کے مفہوم میں ہر سطح کے آگاہ اور باخبر افراد شامل ہیں لیکن قرآن مجید چونکہ یا د آوری ، علم اور آگہی کا زیادہ واضح نمونہ ہے لہٰذا اس پر ”ذکر“ کا اطلاق ہوا ہے ۔ اسی طرح رسول اللہ کی ذات بھی اس کا واضح مصداق ہے اسی طرح آئمہ معصومین کہ جوآنحضرت کے اہل ِ بیت اور آپ کے علم کے وارث ہیں وہ ” اہل الذکر “ کا واضح ترین مصداق ہیں ۔
اس کے سارے مسئلے کو قبول کرلیا جائے تو یہ آیت کے عمومی مفہوم کے منافی نہیں اور نہ ہی اس بات کے منافی ہے کہ اہل کتاب کے علماء کے بارے میں نازل ہوئی ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے علماء ِ اصول اور فقہاء نے اس سے اجتہاد او ر تقلید کرنا چاہئیے ۔
اس موقع پر ایک روایت کے حوالے سے ایک سوال ابھر تا ہے ۔ روایت عیون الاخبار میں امام علی بن موسیٰ رضا علیہ السلام سے مروی ہے روایت کے مطابق جو لوگ اس آیت کی تفسیر میں کہتے تھے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ یہود و نصاریٰ کی طرف رجوع کرو اور ان پر آپ نے اعتراض کیا اور فرمایا:
سبحان اللہ ! کیسے ممکن ہے کہ ہم علماء یہود و نصاریٰ کی طرف رجوع کریں کیونکہ اس طرح تو یقینا وہ ہمیں اپنے مذہب کی طرف دعوت دیں گے ۔
پھر فرمایا:
اہل ذکر ہم ہیں ۔5
اس سوال کا جواب واضح ہے اور وہ یہ کہ امام نے یہ بات ان لوگوں سے کہی ہے جو آیت سے یہ مراد سمجھتے ہیں کہ ہر دور میں صرف علماء ِ اہل کتاب کی طرف رجوع کیا جائے حالانہ یہ بات ہر زمانے کے لئے نہیں ہے ۔ مثلاًامام علی بن موسیٰ رضا علیہ السلام کے زمانے میں لوگوں کی ہر گز یہ ذمہ داری نہ تھی کہ وہ حقائق جاننے کے لئے یہودی اور عیسائی علماء کے پاس جائیں ایسے زمانے میں علماء اسلام مرجع ہیں اور علماء اسلام کے سید و سردار آئمہ اہل بیت علیہم السلام ہیں ۔
دوسرے لفظوں میں پیغمبر اکرم کے زمانے کے مشرکین کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ اس مسئلے سے آگاہی کے لئے کہ اللہ نبی نوعِ بشر میں سے تھے ، علماء اہل کتاب کی طرف رجوع کریں بلکہ چاہئیے کہ ہر مسئلہ اس مسئلے سے آگاہ افراد سے پو چھا جائے اور یہ ایک بدیہی بات ہے ۔
بہر حال زیر بحث آیت میں ایک بیادی اسلامی اصول بیان کیا گیا ہے یہ آیت مادی و روحانی تمام پہلووٴں پ رمحیط ہے اور تمام مسلمانوں کو تاکید کرتی ہے کہ جو چیز وہ نہیں جانتے اس کے بارے میں آگاہ افراد سے پوچھیں اور جن مسائل سے جو لوگ آگاہ نہیں ہیں وہ ان میں دخل اندازی نہ کریں ۔ اس طرح سے قرآن نے نہ صرف اسلامی دینی مسائل میں ” تخصص“ (۔specilaliza Tion)کی ضرورت ک وباقاعدہ قانونی طورپر تسلیم کیا ہے بلکہ تمام شعبوں، تمام مواقعاور تمام علاقوں میں اس کے لئے تاکید کی ہے اس بناء پر تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ ہر زمانے میں ہر شعبے اور ہر موضوع پر ان کے پاس آگاہ اور ماہر افراد موجود ہوں ۔ تاکہ نہ جاننے والے ان کی طرف رجوع کریں ۔
اس نکتے کا ذکر نا بھی ضروری ہے کہ ہمیں ایسے متخصصین اور ماہرین کی طرف رجوع کرنا چاہیئے جن کی صداقت ، بے غرضی اور دوستی ثابت ہو ۔ کیا ہم کبھی کسی ایسے ماہر ڈاکٹرکی طرف رجوع کریں گے خود جس کے کام سے ہم مطمئن نہ ہوں ۔
یہی وجہ ہے کہ تقلید اور مر جعیت کی بحث میں اجتہادیااعلمیت کے ساتھ عدالت کو بھی قرار دیا جاتا ہے  یعنی مرجع تقلید اسلامی مسائل کا عالم و آگاہ ہو ، صاحبِ تقویٰ بھی ہو ۔

 


۱۔تفسیر نور الثقلین جلد۳ ص ۵۵تا ۵۶۔

۲۔ ۔تفسیر نور الثقلین جلد۳ ص ۵۵تا ۵۶۔
۳۔۔تفسیر نور الثقلین جلد۳ ص ۵۵تا ۵۶۔
4۔ احقاق الحق جلد ۳ ص۴۸۲۔
5۔ تفسیر نور الثقلین جلد ۳ ص ۵۷۔
سوره نحل/ آیه 45 - 47 نہیں جانتے تو پوچھ لو
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma