مختصر جواب:
مفصل جواب:
اسلام نے لوگوں کو اتحاد اور ایک دوسرے سے جدا نہ ہونے کی دعوت دی ہے ، قرآن کریم نے واضح راہنمائی کے ذریعہ تمام انسانوں کو توحید کے ملاک پر جمع ہونے کی سفارش کی ہے اور تفرقہ کو راہ مستقیم سے دور ہونے کا سبب قرار دیا ہے ، خداوند عالم فرماتا ہے : «وَ لا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبیلِہِ « (١) ۔ اور دوسرے راستوں کے پیچھے نہ جاؤ کیونکہ وہ تمہیں راہ خدا سے دور کردیں گے ۔
رسول اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) بھی اسلام کی عزت و شوکت اورمسلمانوں کو مذہبی اقدار پر زندگی بسر کرنے کی دعوت دیتے تھے ، ہمیشہ اصولی و مبانی پر پابند ہونے کے متعلق گفتگو کرتے اوراپنی امت کو دین سازوں اور بدعت قائم کرنے والوں کے جال میں پھنسنے سے ڈراتے تھے اور ایسے نقصانات سے بچنے کا راستہ بتاتے تھے جس کی وجہ سے اختلافات اور تفرقہ اندازی ہوتی ہے ۔
یہ تمام سفارشیں اس وجہ سے تھیں کہ آسمانی آخری دین کے ماننے والے گزشتہ امتوں کے راستہ کو اختیار نہ کرلیں اور ان کی طرح سے جنگجو فرقوں میں مبتلا نہ ہوجائیں ۔
خداوند عالم فرماتا ہے : «وَ لا تَکُونُوا کَالَّذینَ تَفَرَّقُوا وَ اخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ ما جاء َہُمُ الْبَیِّناتُ « ۔ اور خبردار ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنہوں نے تفرقہ پیدا کیا اور واضح نشانیوں کے آجانے کے بعد بھی اختلاف کیا۔
لیکن ابھی کچھ ہی زمانہ گزرا تھا کہ اسلامی امت تقسیم ہوگئی اور مسلمان مختلف شاخوں میں تقسیم ہوگئے اور قرآن کریم کی نصیحتوں اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی راہنمائی کے برخلاف فرقہ واریت کی لہر نے پورے اسلامی معاشرہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
فرقہ واریت کی رشد ونمواور اس کے تسلسل نے بہت سے علماء اور دانشورں کو غور وفکر کرنے پر مجبور کردیا اور اس حقیقت کو ا ن کے لئے آشکار کردیا کہ ایک طرف تو مسلمانوں کے درمیان ایک دوسرے سے بدبینی اور جدائی کے اسباب کو ختم کیا جائے اور دوسری طرف اسلام کے اصلی منابع اور مآخذ میں دین کی اصل اہمیت کو اجاگر کیا جائے ۔
واضح ہے کہ ان دونوں باتوں سے بہترین نتائج اخذ کئے جاسکتے تھے اور امت اسلامی کو دشمنوں کے مقابلہ میں لاکر ایک صف میں کھڑا کرسکتے تھے ۔ لیکن افسوس کہ یہ سعی و کوشش ناکام ہوگئی اور بری عادت لکھنے والوں نے اتحاد کے بجائے جدائی اور تفرقہ کا نعرہ لگادیا اور نہ چاہتے ہوئے بھی دشمنوں کے ساتھ مل گئے اور بدصفت لوگوں کے ہم صدا ہو کر مسلمانوں کو دور کرنے اور فرقوں کی تشکیل کیلئے کھڑے ہوگئے (٣) ۔
رسول اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) بھی اسلام کی عزت و شوکت اورمسلمانوں کو مذہبی اقدار پر زندگی بسر کرنے کی دعوت دیتے تھے ، ہمیشہ اصولی و مبانی پر پابند ہونے کے متعلق گفتگو کرتے اوراپنی امت کو دین سازوں اور بدعت قائم کرنے والوں کے جال میں پھنسنے سے ڈراتے تھے اور ایسے نقصانات سے بچنے کا راستہ بتاتے تھے جس کی وجہ سے اختلافات اور تفرقہ اندازی ہوتی ہے ۔
یہ تمام سفارشیں اس وجہ سے تھیں کہ آسمانی آخری دین کے ماننے والے گزشتہ امتوں کے راستہ کو اختیار نہ کرلیں اور ان کی طرح سے جنگجو فرقوں میں مبتلا نہ ہوجائیں ۔
خداوند عالم فرماتا ہے : «وَ لا تَکُونُوا کَالَّذینَ تَفَرَّقُوا وَ اخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ ما جاء َہُمُ الْبَیِّناتُ « ۔ اور خبردار ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنہوں نے تفرقہ پیدا کیا اور واضح نشانیوں کے آجانے کے بعد بھی اختلاف کیا۔
لیکن ابھی کچھ ہی زمانہ گزرا تھا کہ اسلامی امت تقسیم ہوگئی اور مسلمان مختلف شاخوں میں تقسیم ہوگئے اور قرآن کریم کی نصیحتوں اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی راہنمائی کے برخلاف فرقہ واریت کی لہر نے پورے اسلامی معاشرہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
فرقہ واریت کی رشد ونمواور اس کے تسلسل نے بہت سے علماء اور دانشورں کو غور وفکر کرنے پر مجبور کردیا اور اس حقیقت کو ا ن کے لئے آشکار کردیا کہ ایک طرف تو مسلمانوں کے درمیان ایک دوسرے سے بدبینی اور جدائی کے اسباب کو ختم کیا جائے اور دوسری طرف اسلام کے اصلی منابع اور مآخذ میں دین کی اصل اہمیت کو اجاگر کیا جائے ۔
واضح ہے کہ ان دونوں باتوں سے بہترین نتائج اخذ کئے جاسکتے تھے اور امت اسلامی کو دشمنوں کے مقابلہ میں لاکر ایک صف میں کھڑا کرسکتے تھے ۔ لیکن افسوس کہ یہ سعی و کوشش ناکام ہوگئی اور بری عادت لکھنے والوں نے اتحاد کے بجائے جدائی اور تفرقہ کا نعرہ لگادیا اور نہ چاہتے ہوئے بھی دشمنوں کے ساتھ مل گئے اور بدصفت لوگوں کے ہم صدا ہو کر مسلمانوں کو دور کرنے اور فرقوں کی تشکیل کیلئے کھڑے ہوگئے (٣) ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.