مختصر جواب:
مفصل جواب:
اہل سنت کے فقہاء اور متکلمین حکومت کو مشروعیت دینے کے اسباب میں سے ایک سبب عام لوگوں یا اہل حل و عقد کی بیعت کو بھی جانتے ہیںاور ان کا خیال ہے کہ خلافت اور زعامت بیعت کے ذریعہ جائز ہوجاتی ہے یہاں پر اہل سنت کے علماء کی رائے کو بیان کرتے ہیں:
۱۔ ابوالحسن علی بن محمد ماوردی(متوفی ۴۵۰ھ)کہتا ہے :
اگر اہل حل و عقد، امام کو معین کرنے کی جستجو کریں اور کسی ایسے شخص کو تلاش کرلیں جس میں امامت کے تمام شرائط بطور اکمل پائے جاتے ہوں اور پھر اس کی بیعت کرلیں تو امامت اس کے لئے ثابت ہوجاتی ہے ، اسی وجہ سے تمام لوگوں پر واجب ہے کہ وہ اس کی بیعت کریں اور اس کی اطاعت کو لازم جانیں(۴)۔
۲۔ قاضی عبدالجبار معتزلی(متوفی ۴۱۵ھ) کہتا ہے :
اگر بعض اہل حد و عقد ، کسی کو امام کے عنوان سے معین کردیں تو وہ لوگوں کا امام ہے اور بقیہ لوگوں پر واجب ہے کہ اس کی امامت کو قبول کرلیں ،اسی وجہ سے امت کے باقی لوگوں کے اس کی بیعت نہ کرنے سے کوئی اثر نہیںپڑتا کیونکہ عقد امامت صرف اہل حل و عقد کی بیعت سے کامل ہوجاتا ہے(۱)۔
۳۔ ابن تیمیہ(متوفی ۷۲۸ھ) کہتا ہے :امامت سے مراد صرف قدرت و سلطنت حاصل کرنا ،اگر کسی کی بیعت کرلی جائے تو یہ قدرت و سلطنت اس کیلئے ثابت ہوجاتی ہے اور وہ لوگوں کا امام بن جاتاہے(۲)۔
۴۔ ڈاکٹرمحمد خالدی اردنی کہتا ہے:تمام مسلمانوں پر بیعت واجب ہے اور یہ ہر مسلمان(مرد ،عورت)کا حق ہے کیونکہ صرف بیعت ہی کسی کو حاکم بنانے اورعزل کرنے کا شرعی راستہ ہے ۔ اور چونکہ خلیفہ کو معین کرنا واجب ہے اور یہ کام بغیر بیعت کے کامل نہیں ہوتا لہذا مقدمہ واجب(جو کہ بیعت ہے)بھی واجب ہے(۳)۔
۵۔ ڈاکٹر طہ حسین کہتا ہے :امر خلافت کامل طور سے بیعت(لوگوں کی مرضی)کے اوپر استوار ہے لہذا در حقیقت خلافت ایک ایساعقد ہے جو حاکموں اور لوگوں کے درمیان قائم ہوتا ہے(۴)۔(۵)۔
۱۔ ابوالحسن علی بن محمد ماوردی(متوفی ۴۵۰ھ)کہتا ہے :
اگر اہل حل و عقد، امام کو معین کرنے کی جستجو کریں اور کسی ایسے شخص کو تلاش کرلیں جس میں امامت کے تمام شرائط بطور اکمل پائے جاتے ہوں اور پھر اس کی بیعت کرلیں تو امامت اس کے لئے ثابت ہوجاتی ہے ، اسی وجہ سے تمام لوگوں پر واجب ہے کہ وہ اس کی بیعت کریں اور اس کی اطاعت کو لازم جانیں(۴)۔
۲۔ قاضی عبدالجبار معتزلی(متوفی ۴۱۵ھ) کہتا ہے :
اگر بعض اہل حد و عقد ، کسی کو امام کے عنوان سے معین کردیں تو وہ لوگوں کا امام ہے اور بقیہ لوگوں پر واجب ہے کہ اس کی امامت کو قبول کرلیں ،اسی وجہ سے امت کے باقی لوگوں کے اس کی بیعت نہ کرنے سے کوئی اثر نہیںپڑتا کیونکہ عقد امامت صرف اہل حل و عقد کی بیعت سے کامل ہوجاتا ہے(۱)۔
۳۔ ابن تیمیہ(متوفی ۷۲۸ھ) کہتا ہے :امامت سے مراد صرف قدرت و سلطنت حاصل کرنا ،اگر کسی کی بیعت کرلی جائے تو یہ قدرت و سلطنت اس کیلئے ثابت ہوجاتی ہے اور وہ لوگوں کا امام بن جاتاہے(۲)۔
۴۔ ڈاکٹرمحمد خالدی اردنی کہتا ہے:تمام مسلمانوں پر بیعت واجب ہے اور یہ ہر مسلمان(مرد ،عورت)کا حق ہے کیونکہ صرف بیعت ہی کسی کو حاکم بنانے اورعزل کرنے کا شرعی راستہ ہے ۔ اور چونکہ خلیفہ کو معین کرنا واجب ہے اور یہ کام بغیر بیعت کے کامل نہیں ہوتا لہذا مقدمہ واجب(جو کہ بیعت ہے)بھی واجب ہے(۳)۔
۵۔ ڈاکٹر طہ حسین کہتا ہے :امر خلافت کامل طور سے بیعت(لوگوں کی مرضی)کے اوپر استوار ہے لہذا در حقیقت خلافت ایک ایساعقد ہے جو حاکموں اور لوگوں کے درمیان قائم ہوتا ہے(۴)۔(۵)۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.