مختصر جواب:
مفصل جواب:
اس بزرگ شجاعت کا دوسرا امتیاز یہ ہے کہ آپ کی اس شہادت نے تمام عام مسلمانوں بلکہ دنیا کی پوری تاریخ کے آزاد افراد کی فکروں پر بہت گہرا اثر ڈالا ہے ۔
بہت ہی جرائت کے ساتھ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ قیام عاشورا کا یہ پہلو پوری تاریخ میں بے نظیر ہے ۔ یعنی پوری دنیا میں ایسا قیام اور انقلاب نہیں مل سکتا جو ازاد فکر لوگوں کے لئے اس قدر نمونہ عمل اور ظالموں کے ساتھ جنگ کرنے کا سبب قرار پائے ، وہ بھی اس وقت سے لے کر آج تک سب میں ظلم کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک عجیب جوش و خروش پایا جاتا ہے ۔
دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے : یہ ا نقلاب زمان اور مکان سے زیادہوسیع انقلاب ہے ،انقلاب عاشورا کا اثر ورسوخ طول و عرض اور عمق میں بہت ہی تعجب خیز ہے ۔
یقینا بہت کم انقلاب (امام حسین (علیہ السلام) کے انقلاب کی طرح) ملیں گے جو شکست کے روز ہی سے فاتح اور کامیاب ہوں اور مغلوب ہونے کے دن ہی سے غالب ہوجائیں اور جس وقت سے دشمن دیکھتا ہے کہ ہمارے مخالفوں کا کام ختم ہوگیا اسی دن وہ دشمن مر جاتا ہو ۔
توماس کارلایل (١) لکھتا ہے : کربلا کی ٹریجڈی سے جو بہترین سبق حاصل کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ امام حسین اور آپ کے اصحاب ، خداوند عالم پر بہت محکم ایمان رکھتے تھے ، انہوں نے اپنے عمل سے واضح کردیا کہ جس جگہ حق باطل کے سامنے روبرو ہوتا ہے تو کثرت کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اور تعداد کی کمی کے باوجود امام حسین کی فتح میرے لئے تعجب کا باعث ہے (٢) ۔
ان پاک سرشرت افراد کو قتل کرنے سے نہ صرف ابوسفیان کے بیٹوں کی حکومت کے استوار ہونے میں مدد ملی بلکہ اس کے نابود ہونے میں عجلت کا باعث بنی اور وہ تیزی کے ساتھ اپنی نابودی کی طرف گامزن ہوگئے ۔
لوگوں کے اعتراضات اور عاشورا کے بعد خونی انقلابوں کے قائم ہونااس خونی انقلاب اور عاشورا کی حقیقی کامیابی کی طاقت کو بیان کرتے ہیں (اس کتاب کے پانچویں حصہ میں اس متعلق تفصیل سے بحث کریں گے ) ۔
مصر کا معاصر مصنف عباس محمود عقاد (٣) نے لکھا ہے :اس روز کربلا کے واقعہ میں یزید کو اپنے مدمقابل پر مطلق فاتح اور کامیاب دیکھتے ہیں اور اس روز حسین (علیہ السلام) کو مغلوب اور شکست کھانے والے سمجھتے ہیں لیکن بہت کم مدت کے بعد بہت ہی تعجب خیز حالت کے ساتھ یہ علامتیں اور نشانیاں تبدیل ہوجاتی ہیں اور ترازو کے پلّوں میں حیرت انگیز تبدیلی دکھائی دیتی ہے ، یہاں تک کہ جھکا ہوا پلّہ آسمان کے اوپر دکھائی دیتا ہے اور اٹھا ہوا پلّہ زمین کے اندر دکھائی دیتا ہے اور تعجب کی بات یہ ہے کہ یہ حقیقت اس قدر واضح اور آشکار ہے کہ نفع اور نقصان اٹھانے والے پلّوں کو تشخیص دینے میں کوئی چیز باقی نہیں رہ گئی ہے (٤) ۔
اس غم انگیز حادثہ کی تاثیر اور اثر و رسوخ کا دوسرا منظر یہ ہے کہ صدیاں گزرجانے کے بعدآپ کے چاہنے والے لاکھوں اور کروڑوں افراد ہر سال ماہ محرم خصوصا ٩ اور ١٠محرم کو آپ کی اور آپ کے اصحاب کی یاد میں عزاداری قائم کرتے ہیں اور آپ کی عزت و عظمت کو بیان کرتے ہیں اور اس سلسلہ میں بہت زیادہ پیسہ خرچ کرتے ہیں ، زحمتوں اور مشقتوں کو برداشت کرتے ہیں ، بچے ،جوان، بوڑھے ، مرد اور عورتیں بہت ہی ذوق و شوق کے ساتھ آپ کی عزاداری قائم کرتے ہیں ۔
دشمنت کشت ، ولی نور تو خاموش نگشت
آری آن جلوہ کہ فانی نشود ، نور خدا ست
بہت ہی جرائت کے ساتھ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ قیام عاشورا کا یہ پہلو پوری تاریخ میں بے نظیر ہے ۔ یعنی پوری دنیا میں ایسا قیام اور انقلاب نہیں مل سکتا جو ازاد فکر لوگوں کے لئے اس قدر نمونہ عمل اور ظالموں کے ساتھ جنگ کرنے کا سبب قرار پائے ، وہ بھی اس وقت سے لے کر آج تک سب میں ظلم کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک عجیب جوش و خروش پایا جاتا ہے ۔
دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے : یہ ا نقلاب زمان اور مکان سے زیادہوسیع انقلاب ہے ،انقلاب عاشورا کا اثر ورسوخ طول و عرض اور عمق میں بہت ہی تعجب خیز ہے ۔
یقینا بہت کم انقلاب (امام حسین (علیہ السلام) کے انقلاب کی طرح) ملیں گے جو شکست کے روز ہی سے فاتح اور کامیاب ہوں اور مغلوب ہونے کے دن ہی سے غالب ہوجائیں اور جس وقت سے دشمن دیکھتا ہے کہ ہمارے مخالفوں کا کام ختم ہوگیا اسی دن وہ دشمن مر جاتا ہو ۔
توماس کارلایل (١) لکھتا ہے : کربلا کی ٹریجڈی سے جو بہترین سبق حاصل کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ امام حسین اور آپ کے اصحاب ، خداوند عالم پر بہت محکم ایمان رکھتے تھے ، انہوں نے اپنے عمل سے واضح کردیا کہ جس جگہ حق باطل کے سامنے روبرو ہوتا ہے تو کثرت کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اور تعداد کی کمی کے باوجود امام حسین کی فتح میرے لئے تعجب کا باعث ہے (٢) ۔
ان پاک سرشرت افراد کو قتل کرنے سے نہ صرف ابوسفیان کے بیٹوں کی حکومت کے استوار ہونے میں مدد ملی بلکہ اس کے نابود ہونے میں عجلت کا باعث بنی اور وہ تیزی کے ساتھ اپنی نابودی کی طرف گامزن ہوگئے ۔
لوگوں کے اعتراضات اور عاشورا کے بعد خونی انقلابوں کے قائم ہونااس خونی انقلاب اور عاشورا کی حقیقی کامیابی کی طاقت کو بیان کرتے ہیں (اس کتاب کے پانچویں حصہ میں اس متعلق تفصیل سے بحث کریں گے ) ۔
مصر کا معاصر مصنف عباس محمود عقاد (٣) نے لکھا ہے :اس روز کربلا کے واقعہ میں یزید کو اپنے مدمقابل پر مطلق فاتح اور کامیاب دیکھتے ہیں اور اس روز حسین (علیہ السلام) کو مغلوب اور شکست کھانے والے سمجھتے ہیں لیکن بہت کم مدت کے بعد بہت ہی تعجب خیز حالت کے ساتھ یہ علامتیں اور نشانیاں تبدیل ہوجاتی ہیں اور ترازو کے پلّوں میں حیرت انگیز تبدیلی دکھائی دیتی ہے ، یہاں تک کہ جھکا ہوا پلّہ آسمان کے اوپر دکھائی دیتا ہے اور اٹھا ہوا پلّہ زمین کے اندر دکھائی دیتا ہے اور تعجب کی بات یہ ہے کہ یہ حقیقت اس قدر واضح اور آشکار ہے کہ نفع اور نقصان اٹھانے والے پلّوں کو تشخیص دینے میں کوئی چیز باقی نہیں رہ گئی ہے (٤) ۔
اس غم انگیز حادثہ کی تاثیر اور اثر و رسوخ کا دوسرا منظر یہ ہے کہ صدیاں گزرجانے کے بعدآپ کے چاہنے والے لاکھوں اور کروڑوں افراد ہر سال ماہ محرم خصوصا ٩ اور ١٠محرم کو آپ کی اور آپ کے اصحاب کی یاد میں عزاداری قائم کرتے ہیں اور آپ کی عزت و عظمت کو بیان کرتے ہیں اور اس سلسلہ میں بہت زیادہ پیسہ خرچ کرتے ہیں ، زحمتوں اور مشقتوں کو برداشت کرتے ہیں ، بچے ،جوان، بوڑھے ، مرد اور عورتیں بہت ہی ذوق و شوق کے ساتھ آپ کی عزاداری قائم کرتے ہیں ۔
دشمنت کشت ، ولی نور تو خاموش نگشت
آری آن جلوہ کہ فانی نشود ، نور خدا ست
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.