معظم لہ کے کلام میں حضرت ابوالفضل العباس (علیہ السلام) کی عزت و معرفت

معظم لہ کے کلام میں حضرت ابوالفضل العباس (علیہ السلام) کی عزت و معرفت


ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ دین فروش نہ ہوں ، اس وادی میں ہم ایسے شخص کی اقتداء کریں جو بیچنے والا نہ ہو ، حسین بن علی علیہ السلام کی اقتداء کریں جو اپنی اور اپنے ساتھیوں کی جان کو دیدیتے ہیں ، لیکن دین کو نہیں دیتے ۔‌

کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے لشکر کے علمبردار حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام نے اپنی عبادت ، شجاعت اور غیرت کا مظاہرہ کیا ہے ، آپ نے ولایت اما م حسین علیہ السام کی ہر طرح سے حمایت کی ہے ۔ یقینا آپ کا مقام بہت ہی بلند و بالا ہے اور قیامت کے روز تمام شہداء آپ پر رشک کریں گے، آپ کی بہت سی خصوصیات ہیں جن کو ہم یہاں پر حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی (دام ظلہ) کے قیمتی نظریات سے استفادہ کرتے ہوئے آپ کے سامنے بیان کریں گے ۔

ولایت کی پشت پناہی

ہمیں اپنے آبائو اجداد کی قدر دانی کرنا چاہئے کہ انہوں نے ہمیں ولایت کی نعمت اور خاندان اہل بیت علیہم السلام سے آشنا کیا تاکہ ہم ان کی اتباع اور پیروی کرکے افتخار حاصل کرسکیں اور ان کی ہدایت کے سایہ میں زندگی بسر کرسکیں (١) ۔ اس الہی نعمت کی شرح میں حضرت ابوالفضل العباس (علیہ السلام) کی عملی سیرت کو واقعہ عاشورا میں ایک نمونہ کے طور پر بیان کرتے ہیں کہ جب نو محرم کی شام کو دشمنوں نے ایک دم سے امام حسین علیہ السلام کے خیام پر حملہ کیا تو امام علیہ السلام نے ان کے ساتھ گفتگو کرنے کیلئے اپنے بھائی قمر بنی ہاشم حضرت عباس علیہ السلام کو بیس سواروں کے ساتھ بھیجا ، لہذا حضرت عباس اپنے ساتھیوں کے ساتھ ان کے سامنے کھڑے ہوئے (٢) اور جب دشمن کی فوج سے نزدیک ہوگئے تو ان کو مخاطب کرکے فرمایا : اے لوگو ! ابوعبداللہ علیہ السلام تم سے ایک رات کی مہلت چاہتے ہیں (٣) ۔

امان نامہ کو قبول نہ کرنا

جس بزرگ اور راہنما نے ظلم و ستم کو قبول نہیں کیا اور تلوارں کی چھائوں میں موت کو ذلت پر ترجیح دی اور لوگوں کو درس عبرت دیا وہ حسین بن علی (علیہما السلام) تھے ، دشمنوں نے آپ کو اور آپ کے اصحاب کے لئے امان نامہ بھیجا ، لیکن انہوں نے ذلت کو قبول نہیں کیا (٤) (٥) امام حسین علیہ السلام ہی نہیں بلکہ ان تمام اصحاب نے جو ٦١ ہجری کے روز عاشورا شہید ہوئے (٦) ، امان نامہ کو قبول نہیں کیا ۔ اس حقیقت کی بارز مثال حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام(٧)  کا امان نامہ کوقبول نہ کرنا ہے جو شمر آپ کے لئے لے کر آیاتھا (٨)

نو محرم کو امان نامہ قبول نہ کرنے کے بارے میں کہنا چاہئے کہ جس وقت نو محرم کو شمر ، قمر بنی ہاشم حضرت عباس علیہ السلام کے لئے امان نامہ لایا (٩) تو حضرت عباس علیہ السلام نے بہت ہی شدت کے ساتھ اس کو لینے سے انکار کردیا (١٠) ۔ اسی طرح جس وقت زہیر قین نے حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام سے سیدالشھداء علیہ السلام کی مدد کرنے کے متعلق بات کی تو عباس علیہ السلام نے اس طرح کہا : کیا تم مجھے اپنے بھائی کی مدد پر غیرت دلاتے ہو ( میں اس سے بھی زیادہ ایثار اور فداکاری کے لئے تیار ہوں ) (١١) (١٢) ۔

لہذا دشمنوں نے ان کے جسموں کو مثلہ اور ٹکڑے ٹکڑے کردیا لیکن ان کی عزت و سربلندی اور روحی عظمت میں کمی نہیں آسکی (١٣) ایک عرب شاعر نے اس حقیقت کو کس طرح بیان کیا ہے :

قَدْ غَيَّرَ الطَّعْنُ مِنْهُمْ كُلَّ جارِحَةٍ

إِلَّا الْمَكارِمَ فِي أَمْنٍ مِنَ الْغِيَرِ

نیزوں اور تلواروں کی ضربتوں نے ان کے تمام جسموں کو تبدیل کردیا لیکن ان کی روحی عظمت اور بزرگواری کو کبھی بھی تبدیل نہیں کرسکے (١٤) ۔

شب عاشورا ، حضرت سیدالشہداء سے وفاداری

یقینا شب عاشورا میں اصحاب کا اعلان وفاداری کرنے کا منظر ایسا ہے جو تاریخ انسانیت میں سب سے بہترین منظر ہے (١٥) جس میں شب عاشورا حضرت عباس علیہ السلام کی معرفت و وفاداری نظر آتی ہے ، امام علیہ السلام کے صریح بیان کے بعد سب سے پہلے عباس بن علی نے امام علیہ السلام سے عرض کیا : کس لئے ہم آپ سے دستبردار ہوجائیں ؟ اس لئے کہ آپ کے بعد زندہ رہیں؟ خدا نہ کرے کہ کبھی ایسا دن دیکھوں (١٦) !!

پھر امام کے بھائیوں ، بیٹوں بھتیجوں ،عبداللہ بن جعفر (حضرت زینب ) کے بیٹوں نے جناب عباس کی پیروی میں اسی طرح کی باتیں کیں (١٧) ، امام علیہ السلام نے جب ان کی وفاداری ، استقامت اور شہامت کو دیکھا تو خوشحال ہوئے (١٨) ۔

حضرت زینب کبری علیہا السلام سے نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا : شب عاشور اپنے خیمہ سے باہر آئی تاکہ اپنے بھائی امام حسین اور ان کے انصار کے حال احوال سے خبردار ہوسکوں ۔ میں نے دیکھا کہ امام علیہ السلام اپنے خیمہ میں تنہا بیٹھے ہوئے اپنے خدا سے راز و نیاز کررہے ہیں اور قرآن کریم کی تلاوت فرمارہے ہیں ، میں نے سوچا کہ کیا ایسی رات میں میرے بھائی کا تنہا رہنا صحیح ہے ؟ خدا کی قسم ! اپنے بھائیوں اور چچاز اد بھائیوں کی اس وجہ سے سرزنش کروں گی لہذا میں عباس کے خیمہ میں آئی تو اچانک میں نے غرانے اور ہمہمہ کی آواز سنی ، وہیں خیمہ کے پیچھے کھڑی ہوگئی ، اندر کی طرف نظر ڈالی تو دیکھا کہ میرے چچا زاد بھائی اور بھتیجے عباس کے گرد حلقہ کئے ہوئے ہیں اور انہوں نے حمد و ثنائے الہی اور پیغمبر خدا پر سلام و درود کے ساتھ خطبہ دیا ،ایسا خطبہ جو میں نے امام حسین علیہ السلام کے علاوہ کسی سے نہیں سنا تھا اور آخر میں فرمایا : اے بھائیوں ! بھتیجو ! اور چچا کے بیٹو ! جب طلوع صبح نمودار ہوگی تو تم کیا کرو گے ؟ عرض کیا : جو آپ حکم دیں گے وہی کریں گے (١٩) ۔

عباس نے فرمایا : امام کے ان اصحاب کی امام سے کوئی رشتہ داری نہیں ہے اور یہ سنگین وزن اپنے مالکوں کے لئے اٹھاتے ہیں ۔ جب صبح کی سفیدی نمودار ہوگی تو سب سے پہلے جو میدان جنگ میں جائے گا وہ تم ہوں گے (٢٠) ۔ ہمیں ان سے پہلے قتل ہونا ہے تاکہ لوگ یہ نہ کہیں کہ اپنے اصحاب کو آگے بڑھا دیا اور جب وہ قتل ہوگئے تو پھر اپنی تلواروں سے موت میں تاخیر کرتے رہے ۔

بنی ہاشم نے اپنی جگہ سے اٹھ کر تلواروں کو غلاف سے نکالا اور میرے بھائی عباس کے سامنے کھڑے ہوکر کہا : ہم سب تمہارے حکم کے مطیع ہیں (٢١) ۔

حضرت عباس علیہ السلام کا پانی کی سبیل کرنا

امام حسین علیہ السلام کے لشکر کے علمبردار عباس بن علی علیہ السلام تھے جب انہوں نے دیکھا کہ ان کے تمام اصحاب وانصار اور چچا زاد بھائیوں کی شہادت ہوگئی تو بہت روئے اور خدا سے ملاقات کا شوق سامنے آیا ، آپ نے علم اٹھایا اوراپنے بھائی امام حسین علیہ السلام سے میدان میں جانے کی اجازت مانگی ، امام علیہ السلام نے اس قدر گریہ فرمایا کہ آپ کے محاسن آپ کے آنسؤوں سے تر ہوگئے اور فرمایا :

'' يا أَخي كُنْتَ الْعَلامَةَ مِنْ عَسْكَري وَ مُجْمِعَ عَدَدِنا، فَإِذا أَنْتَ غَدَوْتَ يَؤُلُ جَمْعُنا إِلَى الشِّتاتِ، وَ عِمارَتُنا تَنْبَعِثُ إِلَى الْخَرابِ '' ۔میرے بھائی ! تم ہمارے لشکر کے علمبردار ہو ، اگر تم چلے جائو گے تو ہمارے تمام افراد متفرق ہوجائیں گے ۔

عباس نے عرض کیا :'' فِداكَ رُوحُ أَخيكَ يا سَيِّدي! قَدْ ضاقَ صَدْري مِنْ حَياةِ الدُّنْيا، وَ أُريدُ أَخْذَ الثَّارِ مِنْ هؤُلاءِ الْمُنافِقِينَ '' ۔ آپ کا بھائی آپ پر قربان ! دنیا کی زندگی سے میرا سینہ تنگ ہوگیا ہے میں ان منافقوں سے انتقام لینا چاہتا ہوں !

امام علیہ السلام نے فرمایا : '' إِذا غَدَوْتَ إِلَى الْجِهادِ فَاطْلُبْ لِهؤُلاءِ الْأَطْفالِ قَليلًا مِنَ الْماء'' ۔ اگر تمہارا میدان میں جانے کا ارادہ ہے تو ان بچوں کے لئے پانی لادو ۔

عباس میدان میں گئے ،ان کو عذاب الہی سے ڈرایا اور نصیحت کی ، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا ، اپنے بھائی کے پاس واپس آئے اور پورا واقعہ سنایا ، اچانک بچوں کے العطش کی آواز کانوں میں گونجی ، فورا نیزہ اور مشک اٹھائی،گھوڑے پر سوار ہوئے اور فرات کی طرف روانہ ہوگئے ۔ چار ہزار سپاہیوں نے فرات کا محاصرہ کررکھا تھا اور سب نیزے لئے ہوئے کھڑے تھے لیکن آپ نے بہت ہی بہادری کے ساتھ دشمن کے لشکر کی صفوں کو چیرا اور ان میں سے اسی لوگوں کو واصل جہنم کیا اور فرات میں داخل ہوگئے ۔ ''فَلَمَّا أَرادَ أَنْ يَشْرَبَ غُرْفَةً مِنَ الْماءِ ذَكَرَ عَطَشَ الْحُسَيْنِ وَأَهْلِ بَيْتِهِ فَرَضَّ الْماءَ وَمَلَأَ الْقِرْبَةَ'' ۔(٢٧)  جس وقت کچھ پانی پینا چاہا تو امام حسین علیہ السلام اور اہل بیت کی پیاس یاد آگئی ، پانی کو پانی کے منہ پر مارا ، مشک کو پانی سے بھر کر کندھے پر رکھا اور خیمہ کی طرف روانہ ہوگئے اور اس طرح کہا : اے نفس! (عباس) حسین علیہ السلام کے بعد زندگی بسر کرنا ذلت اور خواری ہے ،خدا نہ کرے کہ کبھی ایسا دن دیکھوں۔ حسین علیہ السلام شربت شہادت نوش کریں اور میں ٹھنڈا پانی پیوں؟! ھیھات ! ایسا کردار میرے آئین میں نہیں ہے اور نہ کسی سچے شخص کا کردار ہے(٢٨) ۔

شہادت طلبی کے سایہ میں عزت حاصل کرنا

بعض بنی ہاشم کی شہادت کے بعد حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام نے اپنے بھائیوں(عبداللہ ،عثمان اور جعفر ) کو بلا کر فرمایا : جائو اور اپنی جان کو اپنے بھائی اور امام پر قربان کردو ،تاکہ خدا کی بارگاہ میں تمہارا مرتبہ بلند ہوجائے اور میں تمہارے دشمنوں سے انتقام لے سکوں (٢٩)۔

اسی طرح جب کربلا کے بہادر سردار کی شہادت کا وقت پہنچ گیا توفرمایا : مجھے اب کوئی ڈر نہیں ہے اس وقت تک جب تلواریں مجھے خاک و خون میں غلطاں کریں گی میں اپنی جان کو فرزند پیغمبر کے لئے سپر بنائے رکھوں گا ،میں وہی عباس ہوں جو امام کا سقا ہوں اور مجھے جنگ سے کوئی خوف وہراس نہیں ہے (٣٠) (٣١) ۔

یہی وجہ ہے کہ جب دشمن نے حضرت عباس (علیہ السلام) کے ہاتھ کاٹ دئیے تو آپ نے یہ رجز پڑھا :

وَاللَّهِ إنْ قَطَعْتُمُ يَميني‏

إِنِّي أُحامِي أَبَداً عَنْ دينِي‏

وَ عَنْ إِمامٍ صادِقِ الْيَقينِ‏

نَجْلِ الْنَّبِيِّ الطَّاهِرِ الْأَمينِ‏

خدا کی قسم ! اگر چہ تم نے میرے ہاتھ کاٹ دئیے لیکن میں ہمیشہ اپنے دین کی حمایت کروں گا اور صادق الایمان امام کی حمایت کروں گا جو پیغمبر اکرم کا پاک و پاکیزہ اور امین بیٹا ہے (٣٢) ۔

اس بنا ء پر کہنا چاہئے کہ ہر قدم پر ایک سبق ہے ، ایثار وفضلیت کا درس ، شجاعت وشہامت اور صبر و ہمت کا درس ہے ۔

یقینا اس بے نظیر اور فداکاری کے منظر کی گزارش دینے والا کون تھا ؟ کہ عباس دریا تک پہنچے، پانی نہیں پیا اور پیاسے ہی شہید ہوگئے؟ امام حسین علیہ السلام اور ان کے بچے دور سے یہ منظر دیکھ رہے تھے؟ ! یا امام کو الہام الہی سے خبر دی گئی تھی؟ یا ان فرشتوں نے خبر دی جو اس بے نظیر ایثار کا منظر دیکھ رہے تھے؟ یا پھر کسی اور طرح سے بات معلوم ہوئی ؟ جو بھی ہو تاریخ کی پیشانی پر ثبت ہوگیا اور حق کا راستہ تلاش کرنے والوں کیلئے ہمیشہ یادگار بن گیا (٣٣) ۔

آخری بات

ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ دین فروش نہ ہوں ،اس وادی میں ہمیں ایسے شخص کی اقتداء کرنا چاہئے جو بیچنے والا نہ ہو ، حسین بن علی علیہ السلام کی اقتداء کریں جو اپنی اور اپنے ساتھیوں کی جان کو دیدیتے ہیں ،لیکن دین کو نہیں دیتے ، اپنے بیوی بچوں کو اسیر ہونے دیتے ہیں لیکن اپنے عقیدہ سے دستبردار نہیں ہوتے (٣٤) ۔ ان کے بھائی ابوالفضل العباس (علیہ السلام) کی اقتداء کریں کہ جس وقت شمر ذی الجوشن ان کے لئے امان نامہ لایا تاکہ وہ اپنے دین کو دنیا کے ہاتھوں بیچ دیں تو وہ اس کو قبول نہیں کرتے اور اپنے عقیدہ اور دین کی حفاظت کرتے ہیں (٣٥) ۔

یہی وجہ ہے کہ حضرت عباس علیہ السلام کی شہادت کے بعد امام حسین علیہ السلام بہت ہی عجیب وغریب جملہ ارشاد فرماتے ہیں : ''الآن انکسر ظھری وقلت حیلتی'' ۔ اب میری کمر ٹوٹ گئی اور میں محدود ہوگیا (٣٦) ۔ اسی طرح امام زین العابدین علیہ السلام نے اپنے چچا جان کو دفن کرنے کے بعد گریہ کیا اور بہت ہی دردناک جملہ فرمایا : ''علی الدنیا بعدک العفا یا قمر بنی ھاشم و علیک منی السلام من شھید محتسب و رحمة اللہ و برکاتہ'' ۔ اے قمر بنی ہاشم ! تمہارے بعد دنیا بیکار ہے، میں آپ پر درود بھیجتا ہوں اور آپ کے لئے اللہ کی برکتیں اور حمتیں طلب کرتا ہوں (٣٧) (٣٨) حضرت عباس علیہ السلام کی فداکاری اور ایثار سب کے لئے واضح اور ثابت ہوگیا ۔

حوالہ جات:

١ ۔  سوگندھای پر بار قرآن ، صفحہ ٣٧١ ۔

٢ ۔  عاشورا ریشہ ھا، انگیزہ ھا، رویدادھا، پیامدھا ،صفحہ ٤٥٤ ۔

٣۔  عاشورا ریشہ ھا، انگیزہ ھا، رویدادھا، پیامدھا ،صفحہ ٣٩٠۔

٤ ۔  شرح نہج البلاغہ ،ابن ابی الحدید ، جلد ٣ ،صفحہ ٢٤٩ ۔

٥ ۔  عاشورا ریشہ ھا، انگیزہ ھا، رویدادھا، پیامدھا ،صفحہ ٣٢۔

٦ ۔  گزشتہ حوالہ ۔

٧ ۔  ارشاد مفید ، صفحہ ٤٤٠ ۔

٨ ۔  عاشورا ریشہ ھا، انگیزہ ھا، رویدادھا، پیامدھا ،صفحہ ٣٢ ۔

٩ ۔  عاشورا ریشہ ھا، انگیزہ ھا، رویدادھا، پیامدھا ،صفحہ ٤٤٧ ۔

١٠۔  عاشورا ریشہ ھا، انگیزہ ھا، رویدادھا، پیامدھا ،صفحہ ٤٤٨ ۔

١١ ۔  مقتل الحسین مقرم ،صفحہ ٢٠٩ ۔

٢ ١۔  عاشورا ریشہ ھا، انگیزہ ھا، رویدادھا، پیامدھا ،صفحہ ٤٤٨ ۔

١٣ ۔  عاشورا ریشہ ھا، انگیزہ ھا، رویدادھا، پیامدھا ،صفحہ ٣٣ ۔

١٤۔  عاشورا ریشہ ھا، انگیزہ ھا، رویدادھا، پیامدھا ،صفحہ ٣٣ ۔

١٥ ۔  عاشورا ریشہ ھا، انگیزہ ھا، رویدادھا، پیامدھا ،صفحہ٤٤٩ ۔

١٦ ۔  عاشورا ریشہ ھا، انگیزہ ھا، رویدادھا، پیامدھا ،صفحہ٣٩٦ ۔

١٧ ۔  عاشورا ریشہ ھا، انگیزہ ھا، رویدادھا، پیامدھا ،صفحہ ٣٩٦ ۔

١٨ ۔  گزشتہ حوالہ ۔

١٩ ۔  عاشورا ریشہ ھا، انگیزہ ھا، رویدادھا، پیامدھا ،صفحہ ٤٠٤ ۔

٢٠ ۔  عاشورا ریشہ ھا، انگیزہ ھا، رویدادھا، پیامدھا ،صفحہ ٤٠٤ ۔

٢١ ۔  عاشورا ریشہ ھا، انگیزہ ھا، رویدادھا، پیامدھا ،صفحہ ٤٠٤ ۔

٢٢ ۔  عاشورا ریشہ ھا، انگیزہ ھا، رویدادھا، پیامدھا ،صفحہ ٤٩٣ ۔

٢٣ ۔  گزشتہ حوالہ ۔

٢٤ ۔  عاشورا ریشہ ھا، انگیزہ ھا، رویدادھا، پیامدھا ،صفحہ ٤٩٣ ۔

٢٥ ۔  گزشتہ حوالہ ۔

٢٦ ۔  گزشتہ حوالہ ۔

٢٧ ۔  گزشتہ حوالہ ۔

٢٨ ۔  عاشورا ریشہ ھا، انگیزہ ھا، رویدادھا، پیامدھا ،صفحہ ٤٩٤ ۔

٢٩ ۔  عاشورا ریشہ ھا، انگیزہ ھا، رویدادھا، پیامدھا ،صفحہ ٤٨٩ ۔

٣٠ ۔  اعیان الشیعہ ، جلد ١ ، صفحہ ٦٠٨ ۔ مراجعہ کریں : مناقب ابن شہر آشوب ، جلد ٤ ، صفحہ ١٧٧ ۔ بحار الانوار ، جلد ٤٥ ، صفحہ ٤٠ ۔

٣١ ۔  عاشورا ریشہ ھا، انگیزہ ھا، رویدادھا، پیامدھا ،صفحہ ٤٩٤ ۔

٣٢ ۔  عاشورا ریشہ ھا، انگیزہ ھا، رویدادھا، پیامدھا ،صفحہ ٤٩٥ ۔

٣٣ ۔  عاشورا ریشہ ھا، انگیزہ ھا، رویدادھا، پیامدھا ،صفحہ ٤٩٦ ۔

٣٤ ۔  اخلاق اسلامی در نہج البلاغہ (خطبہ متقین) ، جلد ٢ ، صفحہ ٣٩٥ ۔

٣٥ ۔  گزشتہ حوالہ ۔

منابع و مآخذ:
تنظیم و ترتیب اور تحقیق   ایه اللہ العظمی مکارم شیرازی کے دفتر کی سایٹ کی طرف سے اہل قلم کی ایک جماعت
دفتر حضرت ایه اللہ العظمی مکارم شیرازی دام ظلہ www.makarem.ir
captcha