مختصر جواب:
مفصل جواب:
علماء اہل سنت کی کتابوں میں بہت سی ایسی روایات ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اصحاب و تابعین کی سیرت عملی یہ تھی کہ وہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی قبر مبارک کی ہمیشہ زیارت کیا کرتے تھے ہم یہاں نمونے کے طور پر بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
۱۔مالک ابن انس عبد اللہ بن دینا رسے نقل کرتے ہیں: ابن عمر ،پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی قبر مبارک کے قریب کھڑے ہوئے کر آپ پر دورو سلام پڑھتے تھے اور ابو بکر وعمر کے لئے دعاکرتے تھے (۱) ۔
۲۔کتاب وفاء الوفا میں ابن عون سے نقل کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نافع سے معلوم کیا: کیا ابن عمر، پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی قبر مبارک پر سلام کرتے تھے ؟تو انہوں نے جواب میں کہا: ہاں میں نے ان کو سو مرتبہ سے زیادہ دیکھا ہے کہ وہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی قبر مبارک پر آتے تھے اور قبر کے نزدیک کھڑے ہوکر اس طرح کہتے تھے : ”السلام علی النبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) السلام علی ابی بکر، السلام علی ابی“ (۲) ۔
اورتقریبا اسی مضمون کومحی الدین نووی نے بھی تحریر کیا ہے (۳) ۔
۳۔ اس کے بعد وہ لکھتے ہیں : جو لوگ شام سے مدینہ کی طرف پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی زیارت کے لئے تشریف لائے ان میں سے ایک حضرت بلال بن ریاح ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے موٴذن تھے جیسا کہ ابن عساکر نے بہترین سند کے ساتھ اس روایت کوابو درداء سے بیان کیا ہے۔
اس کے بعد وہ حضرت بلال کے شام میں رہنے کا ذکر کرتے ہیں کہ اایک مرتبہ بلال نے خواب میں پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو دیکھا کہ آپ ان سے فرمایا:اے بلال یہ کیسی جفاء ہے جو تم کر رہے ہو کیا تمہارے لئے ابھی تک وہ وقت نہیں آیا کہ تم میری قبر کی زیارت کرو ؟
بلال خواب سے بیدار ہوئے اور بہت غمگین تھے ، آپ اپنی سواری پر سوار ہوئے اور مدینہ کے لئے روانہ ہوگئے، بلال ، پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی قبر مبارک کے قریب آئے اور گریہ کرنے لگے و نیز اپنے چہرے کو رسول اسلام کی قبر مبارک سے ملنے لگے کہ اچانک حسن و حسین تشریف لائے ، بلال نے ان کو اپنی گود میں لے لیا اور ان کو بوسہ دئیے، اس کے بعد حسنین علیہما السلام نے بلال سے کہا : ہمارا دل چاہتا ہے کہ ایک مرتبہ پھر آپ کی اذان سنیں اس کے بعد جناب بلال کی اذان کے واقعہ کو نقل کرتے ہیں(۴) ۔
۴۔فتح شام کے بعد جب عمر نے اہل بیت(علیہم السلام) سے مصالحت کرلی تو کعب الاحبار عمر کے قریب آئے اور اسلام قبو ل کیا ،کعب الاحبار کے اسلام قبول کرنے سے عمر کوبہت خوشی ہوئی ، عمر نے اس سے کہا: کیا تم چاہتے ہو کہ مدینہ میں میرے ساتھ سیر و تفریح کو چلو تاکہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی قبر کی زیارت کرو اور ان کی قبر سے بہر و مند ہو جاؤ ؟
کعب الاحبار نے کہا : اے امیر المومنین ! ہاں میں چاہتا ہوں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی زیارت کروں اور جس وقت عمر داخل مدینہ ہوئے تو انہوں نے سب سے پہلے مسجد رسول میں داخل ہوکر پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر درودو سلام پڑھا (۵) ۔
اس بناء پرجو یہ کہتے ہیں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے مرقد کی زیارت کرنا بدعت ہے کیونکہ غیر خدا کی تعظیم، شرک کا باعث ہے اور حرام ہے ان کی یہ تمام باتیں بے بنیاد ہیں کیونکہ وہ عمل ہر گز بدعت و حرام نہیں ہو سکتا جس کو خود اصحاب اور دیگر تابعین نے انجام دیا ہو (۶) ۔
۱۔مالک ابن انس عبد اللہ بن دینا رسے نقل کرتے ہیں: ابن عمر ،پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی قبر مبارک کے قریب کھڑے ہوئے کر آپ پر دورو سلام پڑھتے تھے اور ابو بکر وعمر کے لئے دعاکرتے تھے (۱) ۔
۲۔کتاب وفاء الوفا میں ابن عون سے نقل کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نافع سے معلوم کیا: کیا ابن عمر، پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی قبر مبارک پر سلام کرتے تھے ؟تو انہوں نے جواب میں کہا: ہاں میں نے ان کو سو مرتبہ سے زیادہ دیکھا ہے کہ وہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی قبر مبارک پر آتے تھے اور قبر کے نزدیک کھڑے ہوکر اس طرح کہتے تھے : ”السلام علی النبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) السلام علی ابی بکر، السلام علی ابی“ (۲) ۔
اورتقریبا اسی مضمون کومحی الدین نووی نے بھی تحریر کیا ہے (۳) ۔
۳۔ اس کے بعد وہ لکھتے ہیں : جو لوگ شام سے مدینہ کی طرف پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی زیارت کے لئے تشریف لائے ان میں سے ایک حضرت بلال بن ریاح ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے موٴذن تھے جیسا کہ ابن عساکر نے بہترین سند کے ساتھ اس روایت کوابو درداء سے بیان کیا ہے۔
اس کے بعد وہ حضرت بلال کے شام میں رہنے کا ذکر کرتے ہیں کہ اایک مرتبہ بلال نے خواب میں پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو دیکھا کہ آپ ان سے فرمایا:اے بلال یہ کیسی جفاء ہے جو تم کر رہے ہو کیا تمہارے لئے ابھی تک وہ وقت نہیں آیا کہ تم میری قبر کی زیارت کرو ؟
بلال خواب سے بیدار ہوئے اور بہت غمگین تھے ، آپ اپنی سواری پر سوار ہوئے اور مدینہ کے لئے روانہ ہوگئے، بلال ، پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی قبر مبارک کے قریب آئے اور گریہ کرنے لگے و نیز اپنے چہرے کو رسول اسلام کی قبر مبارک سے ملنے لگے کہ اچانک حسن و حسین تشریف لائے ، بلال نے ان کو اپنی گود میں لے لیا اور ان کو بوسہ دئیے، اس کے بعد حسنین علیہما السلام نے بلال سے کہا : ہمارا دل چاہتا ہے کہ ایک مرتبہ پھر آپ کی اذان سنیں اس کے بعد جناب بلال کی اذان کے واقعہ کو نقل کرتے ہیں(۴) ۔
۴۔فتح شام کے بعد جب عمر نے اہل بیت(علیہم السلام) سے مصالحت کرلی تو کعب الاحبار عمر کے قریب آئے اور اسلام قبو ل کیا ،کعب الاحبار کے اسلام قبول کرنے سے عمر کوبہت خوشی ہوئی ، عمر نے اس سے کہا: کیا تم چاہتے ہو کہ مدینہ میں میرے ساتھ سیر و تفریح کو چلو تاکہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی قبر کی زیارت کرو اور ان کی قبر سے بہر و مند ہو جاؤ ؟
کعب الاحبار نے کہا : اے امیر المومنین ! ہاں میں چاہتا ہوں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی زیارت کروں اور جس وقت عمر داخل مدینہ ہوئے تو انہوں نے سب سے پہلے مسجد رسول میں داخل ہوکر پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر درودو سلام پڑھا (۵) ۔
اس بناء پرجو یہ کہتے ہیں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے مرقد کی زیارت کرنا بدعت ہے کیونکہ غیر خدا کی تعظیم، شرک کا باعث ہے اور حرام ہے ان کی یہ تمام باتیں بے بنیاد ہیں کیونکہ وہ عمل ہر گز بدعت و حرام نہیں ہو سکتا جس کو خود اصحاب اور دیگر تابعین نے انجام دیا ہو (۶) ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.