مختصر جواب:
مفصل جواب:
اغانی میں (مجالد بن سعید ہمدانی ، صقعب بن زہیر،فضیل بن خدیج اور حسن بن عقبہ مرادی سے )نقل ہوا ہے :
جس وقت »مغیرہ بن شعبہ » معاویہ کی طرف سے کوفہ کا حاکم ہوا تو وہ معاویہ کے حکم سے خطبوں اورتقریروں میں حضرت علی (علیہ السلام) اور ان کے اصحاب کو ناسزا کہتا تھا ،ان پر طعن و تشنیع کرتا اور عثمان کے قاتلوں پر لعنت کرتا اور اس کی مغفرت کی دعا کرتا اور اس کو اعتراضات سے پاک و پاکیزہ سمجھتا تھا۔
حجر بن عدی اس کے سامنے کھڑے ہو جاتے تھے اور کہتے تھے : اے مومنین ! ہمیشہ عدالت کو قائم کرو اور خدا کے لئے گواہی دو ،چاہے اس میں تمہیں نقصان ہی کیوں نہ ہو (١) ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ جس کی تم برائی کرتے ہو وہ اس سے بہتر ہے جس کی تم تعریف کرتے ہو اور جس کی تم تعریف کرتے ہو وہ اس برائی کے لائق ہے جس کی تم برائی کرتے ہو ۔
مغیرہ ان سے کہتا تھا : اے حجر ، وائے ہو تم پر ! اس کام کو ترک کردو اور بادشاہ کے ظلم اور اس کی طاقت سے ڈرو کیونکہ بہت سے حاکم تم جیسے لوگوں کو قتل کردیتے ہیں ، پھر وہ اس کو کچھ نہیں کہتے تھے ۔
ہمیشہ ایسا ہی ہوتا تھا یہاں تک کہ ایک روز مغیرہ اپنی عمر کے آخری حصہ میں منبر پر تقریر کررہا تھا اور حضرت علی (علیہ السلام) پر طعن و تشنیع اور ان کے چاہنے والوں کو ناسزا کہہ رہا تھا کہ حجر اپنی جگہ سے اٹھے اور ایک ایسی چیخ ماری کہ مسجد کے اندر ا ور باہر موجود تمام لوگوں نے اس چیخ کو سنا اور مغیرہ سے کہا : اے انسان ! تجھے نہیں معلوم کہ تو کس کا عاشق ہوگیا ہے ؟ کیا تو بوڑھا ہوگیا ؟ حکم دے کہ ہمارے حصہ اور روزی کو دیا جائے جسے تو نے بند کررکھا ہے کیونکہ تجھے اس کام کا حق نہیں ہے اور نہ ان کو یہ حق ہے جو تجھ سے پہلے تھے ، تو امیرالمومنین علی (علیہ السلام) کی برائی اور مجرموں کی تعریف کرنے کا عاشق ہوگیا ہے ۔
پھر ان کے ساتھ تیس لوگ اٹھے اور کہا : خدا کی قسم ، حجر صحیح کہتے ہیں ، حکم دے کہ بیت المال سے ہمارا حصہ دیا جائے ، کیونکہ ہمیں تیری ان باتوں سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا (٢) (٣)۔
جس وقت »مغیرہ بن شعبہ » معاویہ کی طرف سے کوفہ کا حاکم ہوا تو وہ معاویہ کے حکم سے خطبوں اورتقریروں میں حضرت علی (علیہ السلام) اور ان کے اصحاب کو ناسزا کہتا تھا ،ان پر طعن و تشنیع کرتا اور عثمان کے قاتلوں پر لعنت کرتا اور اس کی مغفرت کی دعا کرتا اور اس کو اعتراضات سے پاک و پاکیزہ سمجھتا تھا۔
حجر بن عدی اس کے سامنے کھڑے ہو جاتے تھے اور کہتے تھے : اے مومنین ! ہمیشہ عدالت کو قائم کرو اور خدا کے لئے گواہی دو ،چاہے اس میں تمہیں نقصان ہی کیوں نہ ہو (١) ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ جس کی تم برائی کرتے ہو وہ اس سے بہتر ہے جس کی تم تعریف کرتے ہو اور جس کی تم تعریف کرتے ہو وہ اس برائی کے لائق ہے جس کی تم برائی کرتے ہو ۔
مغیرہ ان سے کہتا تھا : اے حجر ، وائے ہو تم پر ! اس کام کو ترک کردو اور بادشاہ کے ظلم اور اس کی طاقت سے ڈرو کیونکہ بہت سے حاکم تم جیسے لوگوں کو قتل کردیتے ہیں ، پھر وہ اس کو کچھ نہیں کہتے تھے ۔
ہمیشہ ایسا ہی ہوتا تھا یہاں تک کہ ایک روز مغیرہ اپنی عمر کے آخری حصہ میں منبر پر تقریر کررہا تھا اور حضرت علی (علیہ السلام) پر طعن و تشنیع اور ان کے چاہنے والوں کو ناسزا کہہ رہا تھا کہ حجر اپنی جگہ سے اٹھے اور ایک ایسی چیخ ماری کہ مسجد کے اندر ا ور باہر موجود تمام لوگوں نے اس چیخ کو سنا اور مغیرہ سے کہا : اے انسان ! تجھے نہیں معلوم کہ تو کس کا عاشق ہوگیا ہے ؟ کیا تو بوڑھا ہوگیا ؟ حکم دے کہ ہمارے حصہ اور روزی کو دیا جائے جسے تو نے بند کررکھا ہے کیونکہ تجھے اس کام کا حق نہیں ہے اور نہ ان کو یہ حق ہے جو تجھ سے پہلے تھے ، تو امیرالمومنین علی (علیہ السلام) کی برائی اور مجرموں کی تعریف کرنے کا عاشق ہوگیا ہے ۔
پھر ان کے ساتھ تیس لوگ اٹھے اور کہا : خدا کی قسم ، حجر صحیح کہتے ہیں ، حکم دے کہ بیت المال سے ہمارا حصہ دیا جائے ، کیونکہ ہمیں تیری ان باتوں سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا (٢) (٣)۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.