مختصر جواب:
مفصل جواب:
١۔ ابو نعیم اصفہانی نے امام صادق (علیہ السلام) سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا : « اذا انعم الله علیک بنعمة فاحببت بقاءها و دوامها، فأکثر من الحمد و الشکر علیها، فانّ الله عزوجل قال فى کتابه: (لَئِنْ شَکَرْتُمْ لاََزِیدَنَّکُمْ)،(1)و اذا استبطأت الرزق فأکثر من الاستغفار، فانّ الله تعالى قال فى کتابه: (اِسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ إِنَّهُ کانَ غَفّاراً * یُرْسِلِ السَّماءَ عَلَیْکُمْ مِدْراراً * وَیُمْدِدْکُمْ بِأَمْوال وَبَنِینَ وَیَجْعَلْ لَکُمْ جَنّات وَیَجْعَلْ لَکُمْ أَنْهاراً.« (2) ۔
جب بھی خداوند عالم تمہیں کوئی نعمت عطا فرمائے اور تم اس نعمت کو باقی رکھنا چاہو تو اس نعمت پر بہت زیادہ حمد و شکر کرو کیونکہ خداوند عالم نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے : « اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہاری نعمتوں میں اضافہ کروں گا « ۔اور جب بھی تمہیں روزی دیر سے ملے تو بہت زیادہ استغفار کرو کیونکہ خداوند عالم نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے : « اپنے پروردگار کی بارگاہ میں بہت زیادہ استغفار کرو کیونکہ وہ بہت زیادہ بخشنے والا ہے تاکہ وہ آسمان کی بابرکت بارشوں کو پے در پے بھیجتا رہے اور تمہاری بہت زیادہ مال اور اولاد سے مدد کرے اور سرسبز باغ اور جاری نہریں تمہارے اختیار میں دے ۔ اسے سفیان ! جب بھی سلطان یا غیر سلطان کی کوئی بات تمہیں محزون کرے تو «لا حول ولا قوة الا باللہ « کی کئی دفعہ تکرار کرو،کیونکہ یہ ذکر گشایش کی کنجی اور بہشت کے خزانوں کا ایک خزانہ ہے ...۔
٢۔ نیز امام (علیہ السلام) سے نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا : «
اصل الرجل عقلہ ، و حسبہ دینہ ، و کرمہ تقواہ ، والناس فی آدم مستوون « (٤) ۔
٣۔ نیز فرمایا : « یابن آدم ! مالک تاسف علی مفقود لایردہ الیک الفوت ، و مالک تفرح بموجود لا یترک فی یدیک الموت« (٥) ۔ اے آدم کے فرزند ! تمہیں کیا ہوگیا ہے جو ایسی کھوئی ہوئی چیز پر افسوس کرتے ہو جو زمانہ کے گزرنے کے بعد واپس نہیں آئے گی اور تمہیں کیا ہوگیا ہے جو ایسی موجود چیز پر خوش ہوتے ہو جو مرنے کے بعد تمہارے پاس نہیں رہے گی ۔
٤۔ فرمایا : « الغضب مفتاح کل شر « ۔ غصہ اور غضب ہر پلیدی کی کنجی ہے ۔
٥۔ فرمایا : « راس الغیر التواضع ، فقیل لہ : و ما التواضع ؟ فقال : ان ترضی من المجلس بدون شرفک ، و ان تسلم من لقیت ، و ان تترک المراء و ان کنت محقا « (٧) ۔
بہتری چیز تواضع ہے ، آپ سے عرض کیا گیا : تواضع کیا ہے ؟ فرمایا : مجلس میں کسی ایسی جگہ پر بیٹھنے سے راضی ہوجائو جوتمہارے شرف سے کم ہے اور جب بھی کسی کو دیکھو تو اس کو سلام کرو اور جنگ و جدال کو ترک کرو ، چاہے حق تمہارے ہی ساتھ کیوں نہ ہو ۔
٦۔ فرمایا : « من اراد عزّاً بلاعشیرة و هیبة بلاسلطان، فلیخرج من ذلّ المعصیة الى عزّ الطاعة« (٨) ۔
جو شخص بھی اپنے خاندان اور سلطان کی ہیبت کی بغیر عزت چاہتا ہے وہ معصیت کی ذلت سے خارج ہو اور اطاعت کی عزت میں داخل ہوجائے ۔
٧ ۔ فرمایا : « من یصحب صاحب السوء لایسلم، و من یدخل مدخل السوء یتّهم، و من لایملک لسانه یندم« (٩) ۔
جو شخص بھی بُرے انسان کے ساتھ رہے گا وہ کبھی بھی سالم نہیں رہے گا اور جو بھی غلط جگہ پر جائے گا اس پر الزام لگایا جائے گا اور جو بھی اپنی زبان کا مالک نہیں ہوگا وہ پشیمان ہوگا ۔
٨۔ فرمایا : «حکمة تحریم الربا ان لا یتمانع الناس المعروف « (١٠) ۔ سود کے حرام ہونے کی حکمت یہ ہے کہ لوگ اچھے کاموں کو نہ چھوڑیں ۔
٩۔ فرمایا : « کفارة عمل السلطان الاحسان الی الاخوان « (١١) ۔ سلطان کے لئے کام کرنے کا کفارہ یہ ہے کہ اپنے دینی بھائیوں کے ساتھ نیکی اور احسان کرو۔
١٠۔ فرمایا : « المومن اذا غضب لم یخرج عن حق ، و اذا رضی لم یدخلہ رضاہ فی باطل « (١٢) ۔ مومن جب بھی غضب کرتا ہے تو اس کا غضب اس کو حق سے خارج نہیں کرتا اور جب بھی راضی ہوتا ہے تو اس کی مرضی اس کو باطل میں داخل نہیں کرتی ۔
١١۔ فرمایا : « ثلاثة لایزید الله بها الرجل المسلم الاّ عزّاً: الصفح عمّن ظلمه، و الإعطاء لمن حرمه، و الصلة لمن قطعه « (١٣) ۔
تین چیزوں کی وجہ سے خداوند عالم مسلمانوں کی عزت کو زیادہ کرتا ہے : جس شخص نے اس پر ظلم کیا ہے اسے معاف کرنا ، جس نے اسے محروم کیا ہے اسے معاف کرنا اور جس نے اس سے صلہ رحم کو قطع کیا ہے اس سے صلہ رحم کرنا ۔
١٢ ۔ فرمایا : « الفقهاء أمناء الرسل مالم یأتوا ابواب السلاطین، فاذا رأیتم الفقهاء قد رکنوا الى ابواب السلاطین فاتّهموهم« (١٤ ) ۔
فقہاء اس وقت تک انبیاء کے امین ہیں جب تک وہ بادشاہوں کے دروازوں پر نہ جائیں اور جب بھی تم یہ دیکھو کہ وہ بادشاہوں کے دروازوں پر چلے گئے ہیں تو ان پر الزام لگائو ۔
١٣ ۔ فرمایا : « منع الجود سوء الظن بالمعبود « (١٥) ۔ بخشش کرنے سے منع کرنا خدا وند عالم کے ساتھ سوء ظن کرنا ہے ۔
١٤۔ فرمایا : «البنات حسنات و البنون نعم ، والحسنات یثاب علیھا و النعم مسئوول عنھا « (١٦) ۔ لڑکیاں نیکیاں اور لڑکے اللہ کی نعمتیں ہیں ، حسنات پر ثواب دیا جائے گا اور نعمتوں سے سوال کیا جائے گا ۔
١٥۔ فرمایا : لا زاد افضل من التقوی ، ولا شی ء احسن من الصمت ، و لا عدو اضر من الجھل ، ولا داء ادوی من الکذب « (١٧) ۔ تقوی سے بہتر زاد راہ نہیں ہے اور کوئی چیز خاموشی سے بہتر نہیں ہے اور نادانی سے زیادہ کوئی دشمن نہیں ہے اور جھوٹ کا کوئی علاج نہیں ہے (١٨) ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.