مختصر جواب:
مفصل جواب:
با عظمت انسان برزخ میں زند ہ رہتے ہیں اور ہمارا ارتباط ان سے باقی رہتا ہے اس صورت میں ان سے دعا کی درخواست کرنا دونوں حالتوں میں یعنی دنیوی و برزخی میں ایک منطقی شئی ہے او استغفارکی درخواست سے مربوط آیت ان دونوں حالتوںپر دلالت کرتی ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے ۔”ولو انھم اذظلمواانفسھم جاؤک فاستغفرلھم الرسول لوجدوا توابا رحیما “(۱)۔
اے رسول جب یہ لوگ اپنے نفسوں پر ظلم کرتے ہیں تو آپ کے پاس آتے ہیں اور خود بھی اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے ہیں اور رسول بھی انکے لئے استغفارکرے تو خدا وند عالم کو توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پائیں گے ۔
پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی دعا کے مستجاب ہونے کی علت کو آپ کی روح پاک اور کریم نفس اور آپ کے مقام کو خداوندعالم کے نزدیک تلاش کرنا چاہئے۔
اس معنوی کرامت کی وجہ سے خدا وند عالم انکی دعا کو قبول کر لیتا ہے کیونکہ وہ دعا جو پاک روح اور اس دل سے جس میں ہر وقت اللہ کی یاد ہو جو اللہ کے ایمان سے بھرا ہوا ہو، بغیر کسی چوں و چرا کے مستجاب ہوتی ہے اس میں حیات مادی اور حیات برزخی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس پر قرآن مجید کی آیات شاہد ہیں جو زمانہ حیات رسول سے مربوط نہیں ہے کیونکہ پوری دنیا کے مسلمان صحابہ و تابعین سے لیکر آج تک اس بات پر عمل پیرا ہیں اور اپنے لئے باب رحمت کو کھلا ہوا سمجھتے ہیں اور روضہ رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ) کے ائرین اب بھی ان پر درود و سلام بھیجتے ہیں اور پیغمبر اسلام سے درخواست کرتے ہیں ان سے اپنے لئے شفاعت طلب کرتے ہیں کوئی بھی شخص کسی بھی زمانے میں جب بھی آپ کے حرم مطہر سے مشرف ہوتا تھا تو زائرین کو ایسی حالت میں پاتا تھا کہ وہ آپ سے طلب حاجت و طلب و شفاعت کرتے ہیں اب ہم یہاں پر نمونے کے طور پر بعض اہل سنت کا کلام ذکر کرتے ہیں کہ جنہوں نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے مرنے کے بعد بھی ان سے توسل کرنے کو ذکر کیا ہے:
۱۔محیی الدین نووی : جو اہل سنت کے برجستہ محدث ہیں ہیں اور کتاب صحیح مسلم کی شرح بھی کی ہے وہ لکھتے ہیں: زائرین، رسول خدا کی طرف منھ کرکے ان سے توسل کریں اوراپنے لئے ان سے توسل کریں اور ان کے وسیلہ سے اپنے لئے شفاعت طلب کریں۔
اور اس سے بھی اچھی بات وہ ہے جوماوردی، قاضی ابو الطیب اورہمارے دیگر اساتید نے عقبی سے نقل کی ہیں ۔
عقبی کہتا ہے: میں ایک روز پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی قبر مبارک پر موجود تھا کہ بیابان سے ایک شخص آیا اور کہنے لگا :
”السلام علیک یا رسول اللہ سمعت اللہ یقول : ”ولو انھم اذظلمواانفسھم جاؤک فاستغفرلھم الرسول لوجدوا توابا رحیما“وقد جئتک مستغفرا من ذنبی مستشفعا بک الی ربی “(۲) میرا سلام ہو آپ پر اے خدا کے بھیجے ہوئے رسول میں نے سنا ہے کہ خدا وند عالم فرماتا ہے : اے رسول جب یہ لوگ اپنے نفسوں پر ظلم کرتے ہیں تو آپ کے پاس آتے ہیں اور خود بھی اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے ہیں اور رسول بھی انکے لئے استغفارکرے تو خدا وند عالم کو توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پائیں گے ۔اے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ)اس وقت میں آپ کے پاس آیا ہوں میں اپنے گناہوں سے استغفار کرتا ہوں اورآپ کو اپنے خدا کے حضور میں شفیع قرار دیتا ہوں ۔
۲۔ ابن قدامہ حنبلی صاحب کتاب”مغنی “ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی زیارت کے آداب میں اس مطلب کو واضح کرتے ہیں کہ زیارت پیغمبر اسلام مستحب ہے اور پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو کوئی بھی مجھ پر سلام کرے میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں ۔ پھر اس نے عتبی سے اس اعرابی کے واقعہ کو نقل کیا ہے جس کو ہم نے اوپر بیان کیا ہے اور اسکااس واقعہ کو ذکر کرنے کا ھدف یہ تھا کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی اس طرح سے زیارت کرنا مستحب ہے ۔
۳۔ غزالی (متوفی ۵۰۵) مدینہ منورہ کی زیارت کی فضیلت سے متعلق فصل میں انحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی زیارت کی کیفیت کو تفصیل سے بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں :”جس وقت پیغمبر اسلام پر درود وسلام پڑھکر فارغ ہو جاؤ تو قبر مبارک رسول اکرم کی طرف. رخ کرکے خدا کی حمد ثناء کرے اور ان پر بے شماردرود و سلام پڑھے اور اس کے بعد اس آیت کی (ولو انھم ) کی تلاوت کریں اور کہے۔ (اللھم انا سمعنا قولک واطعناامرک وقصدنانبییک مستشفعن بہ الیک فی ذنوبنا وما اثقل ظہورنا من اوزارانا(۳)۔ پروردگارا ! ہم نے تیرے کلام کو سنا ہے ہم تیرے امر کی اطاعت کرتے ہوئے تیرے پیغمبر کی خدمت میں آئے ہیں تاکہ انکو تیری بارگاہ میں اپنے گناہوں کی بخشش کے لئے شفیع قرار دیں کیونکہ ہماری پشت گناہ سے جھکی ہوئی ہے(۴)۔
اے رسول جب یہ لوگ اپنے نفسوں پر ظلم کرتے ہیں تو آپ کے پاس آتے ہیں اور خود بھی اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے ہیں اور رسول بھی انکے لئے استغفارکرے تو خدا وند عالم کو توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پائیں گے ۔
پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی دعا کے مستجاب ہونے کی علت کو آپ کی روح پاک اور کریم نفس اور آپ کے مقام کو خداوندعالم کے نزدیک تلاش کرنا چاہئے۔
اس معنوی کرامت کی وجہ سے خدا وند عالم انکی دعا کو قبول کر لیتا ہے کیونکہ وہ دعا جو پاک روح اور اس دل سے جس میں ہر وقت اللہ کی یاد ہو جو اللہ کے ایمان سے بھرا ہوا ہو، بغیر کسی چوں و چرا کے مستجاب ہوتی ہے اس میں حیات مادی اور حیات برزخی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس پر قرآن مجید کی آیات شاہد ہیں جو زمانہ حیات رسول سے مربوط نہیں ہے کیونکہ پوری دنیا کے مسلمان صحابہ و تابعین سے لیکر آج تک اس بات پر عمل پیرا ہیں اور اپنے لئے باب رحمت کو کھلا ہوا سمجھتے ہیں اور روضہ رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ) کے ائرین اب بھی ان پر درود و سلام بھیجتے ہیں اور پیغمبر اسلام سے درخواست کرتے ہیں ان سے اپنے لئے شفاعت طلب کرتے ہیں کوئی بھی شخص کسی بھی زمانے میں جب بھی آپ کے حرم مطہر سے مشرف ہوتا تھا تو زائرین کو ایسی حالت میں پاتا تھا کہ وہ آپ سے طلب حاجت و طلب و شفاعت کرتے ہیں اب ہم یہاں پر نمونے کے طور پر بعض اہل سنت کا کلام ذکر کرتے ہیں کہ جنہوں نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے مرنے کے بعد بھی ان سے توسل کرنے کو ذکر کیا ہے:
۱۔محیی الدین نووی : جو اہل سنت کے برجستہ محدث ہیں ہیں اور کتاب صحیح مسلم کی شرح بھی کی ہے وہ لکھتے ہیں: زائرین، رسول خدا کی طرف منھ کرکے ان سے توسل کریں اوراپنے لئے ان سے توسل کریں اور ان کے وسیلہ سے اپنے لئے شفاعت طلب کریں۔
اور اس سے بھی اچھی بات وہ ہے جوماوردی، قاضی ابو الطیب اورہمارے دیگر اساتید نے عقبی سے نقل کی ہیں ۔
عقبی کہتا ہے: میں ایک روز پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی قبر مبارک پر موجود تھا کہ بیابان سے ایک شخص آیا اور کہنے لگا :
”السلام علیک یا رسول اللہ سمعت اللہ یقول : ”ولو انھم اذظلمواانفسھم جاؤک فاستغفرلھم الرسول لوجدوا توابا رحیما“وقد جئتک مستغفرا من ذنبی مستشفعا بک الی ربی “(۲) میرا سلام ہو آپ پر اے خدا کے بھیجے ہوئے رسول میں نے سنا ہے کہ خدا وند عالم فرماتا ہے : اے رسول جب یہ لوگ اپنے نفسوں پر ظلم کرتے ہیں تو آپ کے پاس آتے ہیں اور خود بھی اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے ہیں اور رسول بھی انکے لئے استغفارکرے تو خدا وند عالم کو توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پائیں گے ۔اے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ)اس وقت میں آپ کے پاس آیا ہوں میں اپنے گناہوں سے استغفار کرتا ہوں اورآپ کو اپنے خدا کے حضور میں شفیع قرار دیتا ہوں ۔
۲۔ ابن قدامہ حنبلی صاحب کتاب”مغنی “ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی زیارت کے آداب میں اس مطلب کو واضح کرتے ہیں کہ زیارت پیغمبر اسلام مستحب ہے اور پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو کوئی بھی مجھ پر سلام کرے میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں ۔ پھر اس نے عتبی سے اس اعرابی کے واقعہ کو نقل کیا ہے جس کو ہم نے اوپر بیان کیا ہے اور اسکااس واقعہ کو ذکر کرنے کا ھدف یہ تھا کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی اس طرح سے زیارت کرنا مستحب ہے ۔
۳۔ غزالی (متوفی ۵۰۵) مدینہ منورہ کی زیارت کی فضیلت سے متعلق فصل میں انحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی زیارت کی کیفیت کو تفصیل سے بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں :”جس وقت پیغمبر اسلام پر درود وسلام پڑھکر فارغ ہو جاؤ تو قبر مبارک رسول اکرم کی طرف. رخ کرکے خدا کی حمد ثناء کرے اور ان پر بے شماردرود و سلام پڑھے اور اس کے بعد اس آیت کی (ولو انھم ) کی تلاوت کریں اور کہے۔ (اللھم انا سمعنا قولک واطعناامرک وقصدنانبییک مستشفعن بہ الیک فی ذنوبنا وما اثقل ظہورنا من اوزارانا(۳)۔ پروردگارا ! ہم نے تیرے کلام کو سنا ہے ہم تیرے امر کی اطاعت کرتے ہوئے تیرے پیغمبر کی خدمت میں آئے ہیں تاکہ انکو تیری بارگاہ میں اپنے گناہوں کی بخشش کے لئے شفیع قرار دیں کیونکہ ہماری پشت گناہ سے جھکی ہوئی ہے(۴)۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.