مدت زمان پاسخگویی به هر سوال بین 24 تا 72 ساعت است.

لطفا قبل از 72 ساعت از پیگیری سوال و یا ارسال سوال مجدد خودداری فرمائید.

از طریق بخش پیگیری سوال، سوال خود را پیگیری نمایید.

captcha
انصراف

زمان پاسخگویی به سوالات بین 24 تا 72 ساعت می باشد.

انصراف
چینش بر اساس:حروف الفباجدیدهاپربازدیدها

وہ زمین جن کے ملکیت میں آنے کا طریقہ معلوم نہیں

کچھ زمین، ہمیں اپنے باپ داد کی جانب سے وراثت کے ذریعہ، حاصل ہوئی ہیں، لیکن وہ حضرات کیسے ان زمینوں کے مالک بنے، یہ بات ہمارے لئے واضح نہیں ہے، کیا ہم لوگ دوسرے مال کی طرح ان زمینوں کو بھی میراث کے قانون کے مطابق، تقسیم کرسکتے ہیں؟

جواب: اگر تمہارے باپ داد نے، ان زمینوں کو آباد کیا تھا اور اس سے پہلے وہ زمینیں بنجر اور بے آباد تھیں تب تو میراث کے قانون کے مطابق وارثوں کو ملیں گی، اسی طرح اگر انھوں نے خریدا ہو تب بھی لیکن اگر کوئی سند ان زمینوں کے ماضی کے متعلق، موجود نہیں ہے اور کوئی گواہ بھی موجود نہیں ہے تب وہ زمین تمھارے باپ دادا کی ملکیت تھی اور میراث کے قانون کے مطابق تقسیم کرنا چاہیے۔

گاؤں کی حدود کے ایندھن کا استعمال

ایک جگہ پر مرسوم ہے کہ ہر شخص اپنے مویشیوں کے لئے، پہاڑ کے ایک معیّن حصّہ کا گھاس، جمع کرتا ہے، اس طرح کہ وہی شخص اس جگہ کے ایندھن کا مالک سمجھا جاتا ہے، اگر فرض کرلیا جائے کہ وہ شخص اس جگہ کے گھا س کا مالک ہے، کیا وہ شخص اس جگہ کے ایندھن کا بھی مالک ہوجائے گا؟

جواب: چنانچہ وہ علاقہ کسی معیّن آبادی اور گائوں کی مشترکہ حدود (یعنی گرام پنچائت کی) زمین میں شامل ہوتا ہے، تب تو وہاں کے رہنے والے اس علاقہ کی زمین کو آپس میں تقسیم کرنے کا حق رکھتے ہیں اور تقسیم کرنے کے بعد، ہر شخص کو گھاس کاٹنے کے لئے یا ایندھن جمع کرنے کا حق ہے لیکن اگر وہ علاقہ گائوں کی مشترکہ حدود میں شامل نہ ہو تو فقط اس صورت میں انھیں وہاں پر گھاس کاٹنے یا ایندھن جمع کرنے کا حق ہوگا کہ جب انھوں نے اس جگہ کو آباد، یا اس کے چاروں طرف نشان اور اس کو گھیر لیا ۔

یہودیوں کے ذریعہ بنجر زمین کا آباد ہونا

گذشتہ شاہی حکومت کے دور میں، ایک یہودی نے حکومت کی مدد سے کچھ بنجر زمین کو برابر کرایا تھا اور اس کے لئے تحصیل سے کاغذات بھی بنوالئے تھے، انقلاب کے آنے کے بعد وہ شخص مُلک سے بھاگ گیا، اس کا مال مصادرہ ہوگیا یہاں تک کہ اس زمین پر شہری آبادی سے متعلق ادارے نے قبضہ کرلیا، ادارے نے اس میں سے چند پلاٹ کو مسجد سے مخصوص کردیاہے جس پر اب مسجد تعمیر کردی گئی ہے، برائے مہربانی اس مسئلہ میں درج ذیل سوالوں کے جوابات عنایت فرمائیں:الف) آپ فرمائیں کہ کیا فقط بنجر زمین کو برابر کرنا اور اس کے پلاٹ کاٹنا، ملکیت کا باعث ہوجاتا ہے اور کیا اس کا حکم، تحجیر کا حکم ہے؟ب) کیا اس شخص کا ملک سے فرار کرنا، ملکیت سے اعراض کرنے کے حکم میں ہے یا نہیں؟ج) اگر یہودی کی رضایت حاصل کرنا ضروری ہوا اس تک رسائی ممکن نہ ہو کیا اس صورت میں اس جگہ کے مومنین اس زمین کی قیمت اپنے ذمہ لے سکتے ہیں تاکہ جس وقت مالک مطالبہ کرے تو قیمت ادا کردیں یا نہیں؟د) اگر کسی طرح بھی مالک کو تلاش کرنا اور اس کی رضایت حاصل کرنا ممکن نہ ہو تو کیا جامع الشرائط مجتہد کی اجازت سے اس مسجد میں نماز پڑھی جاسکتی ہے؟

جواب: الف)مذکورہ کام،گھر یا مکان بنانے کے لئے آباد کرنے کا باعث اور ملکیت کا سبب ہے۔جواب: ب)فرار کرنا، ملکیت سے اعراض کرنے کی دلیل نہیں ہے۔جواب: ج)اگر وہ یہودی ان لوگوں میں سے تھا کہ جو اسلامی حکومت یا دین اسلام کے خلاف فعالیت کرتے تھے تب وہ کافر حربی میںشمار ہوگا اور اس زمین کو ملکیت میں لینا جائز ہے۔جواب: د)گذشتہ جواب سے اس کا جواب بھی معلوم ہوگیا۔

قتات کی نالی کا راستہ بدلنا

ایک ایسے گاؤں میں جس کی قدمت تقریباً سات سو (۷۰۰)سال ہے ، ایک قنات (قدرتی نالی) جو بہت سے رہائشی گھروں اور باغوں میں سے گذرتی ہے اور کھیتی کے لئے باغوں سے باہر اس کے پانی کو استعمال کیا جاتا ہے، ان آخری سالوں میں خشک سالی کی وجہ سے اس کا پانی کچھ کم ہوگیا ہے، بعض کسان مدّعی ہیں کہ پانی کی کچھ مقدار تو گھروں کے اندر قدیمی نالی کی وجہ سے اور کچھ مقدار باغوں میں درختوں کی جڑوں کی وجہ سے ختم ہوجاتی ہے لہٰذا چاہتے ہیں کہ نالی کو، جو کئی سال سے گھروں کے اندر سے گذرتی رہی ہے اب گھروں کے باہر سے نکالیں اور باغ کے اندر والی نالی کو سمینٹ سے بنائیں، لیکن اس کام پر گھروں اور باغوں کے مالکان نے اعتراض کیا ہے، کیونکہ پانی گھروں کے اندر قطع ہوجائے گا اور باغ کے درخت خشک ہوجائیں گے،فوق الذ کر تمہید کو مدنظر رکھتے ہوئے فرمائیں:۱۔ کیا پانی کا یہ راستہ جو کئی سالوں سے ان گھروں کے اندر سے گذرتا تھابدلنا جائز ہے؟۲۔ اس صورت میں کہ نالی گھروں کے اندر بھی ٹھیک کی جاسکتی ہے ، لیکن ادّعا کرنے والے اس بات پر مصرّ ہیں کہ نہیں نالی کو گھروں کے باہر سے گذارا جائے، کیا یہ کام جائز ہے؟۳۔ کیا باغوں کے اندر نالی پرمالکوں کی مرضی کے بغیر، سیمنٹ کرنا جائز ہے؟۴۔ اس صورت میںجبکہ مالکوں کی رضایت کے ساتھ نالی کو باغ کے اندر سے باغ کے باہر منتقل کردیا جائے تاکہ درختوں کو نقصان نہ پہنچے، پانی کے راستے کو تبدیل کرنے کا کیا حکم ہے؟

جواب: اس صورت میں جبکہ پانی قدیم الایام سے مذکورہ راستے سے گذرتا تھا اور گھروں اور باغوں کے مالکان بھی اسی راستے پر عملاً توافق رکھتے تھے، پانی کے راستے سے کو تبدیل کرنا اشکال رکھتا ہے، اسی طرح پائپ بچھانا یا نالی کو سمینٹ سے بنانا بھی بغیر مالکوںکی رضایت کے اشکال رکھتا ہے، لیکن اگر پانی کے راستے میں کوئی خرابی ہو تو صاحبان باغ اس کو درست کرائیں، ورنہ پانی کے مالکان اپنے پانی کو ضائع ہونے سے بچانے کے لئے بندوبست کرسکتے ہیں اور اس پانی کو باغوں کے لئے استعمال کرنا جائز نہیں ہے مگر یہ کہ اس پانی میں حصہ رکھتے ہوں۔

اہل بستی کا ،بستی کے اطراف میں موجود معادن (کان) میں حق

ہمارے شہر کے اطراف میں بہت سی معادن (کانیں) موجود ہیں یہ معادن نہ کھوج کی جانے والی معادن میں سے ہیں اور نہ زیر زمین واقع ہیں، ان سے فائدہ حاصل کرنا بہت آسان ہے اور نہ ہی ان پر کوئی زیادہ خرچ آتا ہے، مثال کے طور پر ڈولومائیٹ Dolomite(ٹائلس وغیرہ بنانے کی مٹی) سے استفادہ کرنا کہ جو ایک طبیعی پہاڑ کی صورت میں ہے لوگ فقط معمولی فنی آلات، جیسے بلڈوزر یا مکینکی بیلچہ کو استعمال کرکے اس سے منافعہ حاصل کرتے ہیں، مذکورہ معدن جوشہر اور دیہاتوں کا طبعی جز ہے مالکیت اور بستی کی آمدنی کے لحاظ سے ان کی وضعیت کیا ہے؟ کیا دیہات والے ان معاہدوں میں جو خصوصی یا حکومتی شرکتوں (کمپنیوں) کے ساتھ کیے جاتے ہیں مداخلت اور درآمد کا وہ حصہ جو اس معاہدے سے حاصل ہوا ہے اپنے گاؤں کی ترقی کے لئے مخصوص کرسکتے ہیں؟

جواب: اس صورت میں جبکہ معدن (کان) گاؤں کی حریم میں واقع ہو (حریم سے منظور، وہ زمینیں ہیں جو گاؤں والوں کی ضرورتوں میں استعمال کی جاتی ہیں، جیسے وہ زمین جہاں سامان اتارا جاتا ہے، یا پکی ہوئی فصل اور ایندھن جمع کیا جاتا ہے) گاؤں والے اس پر حق رکھتے ہیں اور اپنے حق کے بدلے کوئی چیز لے بھی سکتے ہیں لیکن اگر معدن (کان) گاؤں کے حریم سے خارج ہے سزاوار یہ ہے اس گاؤں کے لوگوں پر مہربانی کی جائے، اگر معدن سے گاؤں والوں کا نقصان ہوتا ہے تو اس کا جبران بھی لازم ہے۔

قتات (قدرتی پانی کی نالی ) چشموں اور کنووں کی حریم (حدود)۔

برائے مہربانی قنات (وہ قدرتی نالی جس سے سینچائی کی جاتی ہے) چشموں اور کنووں کے حریم (حدود) کے بارے میں اپنی مبارک نظر بیان فرمائیں:۱۔ کیا ان حدود کو ان بنجر زمینوں سے مخصوص جانتے ہیں جن کو ابھی قابل کاشت بنایا ہے ، کہ سابق (جس نے پہلے بنجر زمین کو آباد کیا) لاحق (جو اس کے بعد آباد کرے) کی ممانعت کا باعث بنتا ہے ، یا ان کو یہاں تک کہ برابر والی املاک میں بھی لازم جانتے ہیں (یعنی پہلی زمین سے مخصوص نہیں ہے)۲۔ دونوں فرضوں میں، کیا قنات ، چشمے یا پہلے کنویں کے خشک ہوجانے کے بعد پھر بھی یہ حکم باقی ہے؟۳۔ دونوں مذکورہ بالا سوالوں کے فرض میں، ممانعت کا وجود اور حدود کی رعایت کا لزوم معین ہوگیا ہے، اگر کوئی شخص اس کی رعایت نہ کرے اور اپنی ملکیت یا گھر میں چشمہ یا قنات یا کنواں کھودے اور پانی نکالے، کیا وہ اس پانی کا مالک ہوجائے گا اور کیا یہ اس کے لئے مباح ہے؟۴۔ اوپر والے سوال کے فرض میں، اگر اسی مذکورہ پانی سے کچھ اجناس حاصل ہوں جیسے سبزی، میوہ وغیرہ ان کا کیا حکم ہے؟ کیا یہ اجناس حرام ہیں؟

جواب1: دلیلوں کا ظاہر یہ بتاتا ہے کہ یہ احکام بنجر زمینوں سے مربوط ہیں، لیکن ملکی زمینوں میں بھی ان سے فائدہ حاصل کرناہر ایک مالک کے لئے اس حد تک ہونا چاہیے جتنا عرفِ عقلاء میں معمول ہے، معمول سے زیادہ فائدہ حاصل کرنا اس حد تک کہ دوسروں کے لئے باعث ضرر بنے، اشکال رکھتا ہے۔جواب2: کنویں کے خشک ہوجانے کی صورت میں جبکہ اس کا مالک اس کو دوبارہ بنوانے سے صرف نظر کرجائے، تب دوسری قنات اور چشمہ کو بنانا کوئی مانع نہیں رکھتا۔جواب3: ممنوعہ موارد میں احتیاط یہ ہے کہ اس پانی پر غصبی پانی کا حکم جاری کریں۔جواب4: جو اجناس اس پانی سے حاصل ہوئی ہیں حرام نہیں ہیں، لیکن احتیاط یہ ہے کہ پانی کے پیسوں کی بہ نسبت اس شخص کے ساتھ جس کو ضرر پہنچا ہے مصالحت کرے۔

پایگاه اطلاع رسانی دفتر مرجع عالیقدر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
سامانه پاسخگویی برخط(آنلاین) به سوالات شرعی و اعتقادی مقلدان حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
آیین رحمت - معارف اسلامی و پاسخ به شبهات کلامی
انتشارات امام علی علیه السلام
موسسه دارالإعلام لمدرسة اهل البیت (علیهم السلام)
خبرگزاری دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی