مدت زمان پاسخگویی به هر سوال بین 24 تا 72 ساعت است.

لطفا قبل از 72 ساعت از پیگیری سوال و یا ارسال سوال مجدد خودداری فرمائید.

از طریق بخش پیگیری سوال، سوال خود را پیگیری نمایید.

captcha
انصراف

زمان پاسخگویی به سوالات بین 24 تا 72 ساعت می باشد.

انصراف
چینش بر اساس:حروف الفباجدیدهاپربازدیدها

قتل عمد میں وارثین کا تعاون

کیا قتل عمد میں تعاون کرنا موانع ارث میں سے شمار ہوگا؟

جواب: اس صورت میں جبکہ تعاون اس شکل میں ہو ا ہو کہ قتل کی نسبت دونوں (یعنی قاتل اور معاون) کی طرف دی جاسکے، دونوں ارث سے محروم ہوجائیں گے؛ لیکن اگر اس طرح نسبت نہ دے سکیں، مثلاً اس نے اسلحہ کو قاتل کے اختیار میں دیا، یا مقتول کی جگہ کا پتہ بتایا، اس طرذح کا تعاون مانع ارث نہیں ہے۔

دسته‌ها: مختلف مسایل

میراث کا نہ ملنا

پچھتر (۷۵) سال پہلے دو بھائی بنام سید سلیمان وسید خداداد، زندگی بسر کرتے تھے باپ کی موت کے بعد انھوں نے اس کی جائداد اور ترکہ کو اپنے درمیان بطور مساوی تقسیم کرلیا، سید خداداد اپنی مرضی سے اپنے حصہ کو بیچے یا اجارہ پر دیئے بغیر، اس جگہ سے کسی دوسری جگہ منتقل ہوجاتا ہے، اس کا بھائی سید سلیمان ایک شخص بنام سید عبدالله (کہ جو اس زمانے میں اس علاقہ کا بانفود اور مشہور ومعروف شخص تھا ) اور دوسرے چند لوگوں کی مدد سے سید خداداد کے حصے کو بہ شرط بیع قطعی فروخت کردیتا ہے، سید خداداد جب اس چیز سے مطلع ہوتا ہے تو وہ اس علاقہ میں آتا ہے اور اپنے حصے کا مطالبہ کرتا ہے ، اس کا بھائی اور دیگر افراد اس کو دھمکاتے ہیں اور اس کا حق نہیں دیتے، اس وقت سے لے کر آج تک سید خداداد کے وارثوں میں سے کوئی بھی اپنا حق نہیں لے پایا، لہٰذا فرمائیں کہ کیا سید خداداد کے وارثین اپنے حق کا مطالبہ کرسکتے ہیں؟

جواب: چنانچہ بھائیوں نے اس مرحوم کا حق ضائع کیا ہے لہٰذا اس کے وارثین شرعاً اپنا حق واپس لے سکتے ہیں۔

دسته‌ها: مختلف مسایل

کچھ دن پہلے مجھے ایک خاتون کی آشنا کریاگیا تاکہ اس کے باپ کی میراث میں سے اس کا حصہ وصول کرنے کے لئے میں اس کی وکالت قبول کروں ، آشنا کرانے والا شخص غیرملکی (اور مسیحی) ہے، اس خاتون سے آشنائی کراتے ہوئے وہ شخص کہتا ہے: ”ظاہراً مذکورہ خاتون مسلمان تھی، عیسائی ہوگئی ہے اور اب چاہتی ہے کہ اپنے باپ کی میراث کا حصہ جو تہران میں ہے (زمین، گھر، نقد پیسہ وغیرہ) وصول کرے، اسی وجہ سے وہ آپ کو (یعنی مجھے) اپنا وکیل بنانا چاہتی ہے“میں نے اس خاتون سے ملاقات کے دوران گفتگو کرتے وقت غیر مستقیم طور پر اس سے کہا: ”آخر تم اور ہم مسلمان ہیں اور ہمارے کچھ وظائف ہیں وغیرہ وغیرہ“ تاکہ ا سکا رد عمل دیکھوں کہ کیا یہ خاتون واقعی عیسائی ہوگئی ہے یا نہیں؟ خاتون نے ان باتوں کے جواب میں یہ نہیں کہا کہ میں مسلمان نہیں ہوں اور عیسائی ہوگئی، بلکہ خاموش رہی ایسے حالات میں میرے ذہن میں کچھ سوالات ابھرے جن کو میں حضور سے دریافت کرنا چاہتا ہوں:۱۔ کیا میرا شرعی وظیفہ ہے کہ اس سے زیادہ تحقیق کروں؟کیا صریحاً مطلب کو بیان کروں اور اس کے دین کے بارے میں پوچھوں؟۲۔ کیا اس قدر جو آشنائی کرانے والے شخص نے بیان کیا ہے اس کے مسلمان ہونے میں تردید ایجاد کردیتا ہے؟کیا اس کے اسلام کو استصحاب کروں (۱) یا میرا کوئی اور وظیفہ ہے؟

جواب: ۱۔۲ ۔ چنانچہ اس کی حالت سابقہ اسلام ہے اور کوئی دلیل اس کے خلاف قائم نہیں ہوئی ہے تو آپ کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے۔

دسته‌ها: مختلف مسایل

کچھ دن پہلے مجھے ایک خاتون کی آشنا کریاگیا تاکہ اس کے باپ کی میراث میں سے اس کا حصہ وصول کرنے کے لئے میں اس کی وکالت قبول کروں ، آشنا کرانے والا شخص غیرملکی (اور مسیحی) ہے، اس خاتون سے آشنائی کراتے ہوئے وہ شخص کہتا ہے: ”ظاہراً مذکورہ خاتون مسلمان تھی، عیسائی ہوگئی ہے اور اب چاہتی ہے کہ اپنے باپ کی میراث کا حصہ جو تہران میں ہے (زمین، گھر، نقد پیسہ وغیرہ) وصول کرے، اسی وجہ سے وہ آپ کو (یعنی مجھے) اپنا وکیل بنانا چاہتی ہے“میں نے اس خاتون سے ملاقات کے دوران گفتگو کرتے وقت غیر مستقیم طور پر اس سے کہا: ”آخر تم اور ہم مسلمان ہیں اور ہمارے کچھ وظائف ہیں وغیرہ وغیرہ“ تاکہ ا سکا رد عمل دیکھوں کہ کیا یہ خاتون واقعی عیسائی ہوگئی ہے یا نہیں؟ خاتون نے ان باتوں کے جواب میں یہ نہیں کہا کہ میں مسلمان نہیں ہوں اور عیسائی ہوگئی، بلکہ خاموش رہی ایسے حالات میں میرے ذہن میں کچھ سوالات ابھرے جن کو میں حضور سے دریافت کرنا چاہتا ہوں:۱۔ کیا میرا شرعی وظیفہ ہے کہ اس سے زیادہ تحقیق کروں؟کیا صریحاً مطلب کو بیان کروں اور اس کے دین کے بارے میں پوچھوں؟۲۔ کیا اس قدر جو آشنائی کرانے والے شخص نے بیان کیا ہے اس کے مسلمان ہونے میں تردید ایجاد کردیتا ہے؟کیا اس کے اسلام کو استصحاب کروں (۱) یا میرا کوئی اور وظیفہ ہے؟۳۔ وہ گھر جس میں اس خاتون کا سہم الارث (میراث کا حصہ) تھا (آدھا گھر) اس کو کسی شخص کے ہاتھوں بیچ دیا اور میں نے اس کی قیمت میں سے اس توافق کے مطابق جو ہمارے درمیان ہوا تھا ، اپنی وکالت کا محنتانہ لے لیا، اگر بعد میں معلوم ہوجائے کہ یہ خاتون واقعاً اسلام سے خارج اور حقیقت میں اپنے مسلمان باپ سے میراث لینے کا حق نہیں رکھتی تھی، خریدار کی تکلیف کیا ہے؟ وکالت کا وہ محنتانہ جو گھر کی قیمت میں سے میں نے حاصل کیا ہے اس کا کیا حکم ہے؟۴۔ کیا اس گھر میں نماز پڑھی جاسکتی ہے؟ کیا خریدار ضامن ہے کہ آدھے گھر کو حاکم شرع (مقلد)کو واپس کرے یا اس کا یہ معاملہ صحیح ہے؟ اگر آپ کی اجازت پر موکول ہو تو کیا آپ اجازہ فرماتے ہیں؟ یا ردّمظالم کے بدلے اجازہ ہوگا؟۵۔ اگر بعد میں معلوم ہوجائے کہ وہ عورت عیسائی ہوگئی تھی،تو اس صورت میں اس کے ذاتی امور اور اموال میں (سہم الارث کے علاوہ) وکالت کو قبول کرنے کی کیا صورت ہے؟

جواب: ۱۔۲ ۔ چنانچہ اس کی حالت سابقہ اسلام ہے اور کوئی دلیل اس کے خلاف قائم نہیں ہوئی ہے تو آپ کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے۔جواب3:چنانچہ ثابت ہوجائے کہ وہ خاتون باپ کی حیات میں عیسائی ہوگئی تھی، میراث نہیں لے سکتی اور وہ مال جو آپ نے یا دوسروں نے اس کے حصے سے حاصل کیا ہے وارثین کو واپس دیدیں۔جواب4: جیسا کہ اوپر کہا جاچکا، اگر خلاف ثابت ہوتو اس کو تمام وارثین کی طرف پلٹایا جائے گا اور یہ مسئلہ مظالم سے ربط نہیں رکھتا کہ حاکم شرع کے اجازہ کی ضرورت پڑے۔جواب5: اموال کے ان موارد میں جو مسیحی ہونے کے بعد حاصل کیے ہیں وکالت قبول کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔

دسته‌ها: مختلف مسایل

بیٹے اور بیٹیوں کے درمیان میراث کو برابر تقسیم کرنے کی وصیت

دوسال پہلے میری والدہ محترمہ کا انتقال ہوگیا تھا، جبکہ ان کی اولاد میں سے ہم چار بھائی اور تین بہنیں ہیں، مرحومہ کی میراث میں ایک جگہ ہے جس کی قیمت تقریباً ایک کروڑ تومان ہے ، ہم لوگوں کا ارادہ تھا کہ اس کو فروخت کرکے، سب بہن بھائی اپنا اپنا حصہ لے لیں، لیکن ہماری بہنیں مرحومہ والدہ کی اس مضمون کی تحریر پیش کرتی ہیں کہ میراث تقسیم کرتے وقت میرے بچے، بیٹی اور بیٹے کے حصہ میں کوئی فرق نہ رکھیں اور سب برابر طور پر حصہ وصول کریں ، اب جبکہ ہم سب اپنی ماں کی تحریر کے صحیح ہونے یعنی یہ کہ وہ تحریر ہماری والدہ کی ہے، یقین رکھتے ہیں، لیکن ممکن ہے کہ ہمارے بعض بھائی تہہ دل سے اس بات پر راضی نہ ہوں لہٰذا آپ فرمائیں کہ ہمارا شرعی وظیفہ کیا ہے؟

جواب: اس بات پر توجہ رکھتے ہوئے کہ ماں کو اپنے مال کے ایک تہائی حصہ میں تصرف کرنے کا حق حاصل تھا، لہٰذا جو کچھ انھوں نے تمھاری بہنوں کے حصّوں کے بارے میں لکھا ہے، اس میں کوئی اشکال نہیں ہے، اس لئے کہ مذکورہ فرق ایک تہائی حصّہ سے کم ہے، لہٰذا اس بناپر ماں کی وصیت کے مطابق عمل کریں ۔

دسته‌ها: مختلف مسایل
پایگاه اطلاع رسانی دفتر مرجع عالیقدر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
سامانه پاسخگویی برخط(آنلاین) به سوالات شرعی و اعتقادی مقلدان حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
آیین رحمت - معارف اسلامی و پاسخ به شبهات کلامی
انتشارات امام علی علیه السلام
موسسه دارالإعلام لمدرسة اهل البیت (علیهم السلام)
خبرگزاری دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی