مدت زمان پاسخگویی به هر سوال بین 24 تا 72 ساعت است.

لطفا قبل از 72 ساعت از پیگیری سوال و یا ارسال سوال مجدد خودداری فرمائید.

از طریق بخش پیگیری سوال، سوال خود را پیگیری نمایید.

captcha
انصراف

زمان پاسخگویی به سوالات بین 24 تا 72 ساعت می باشد.

انصراف
چینش بر اساس:حروف الفباجدیدهاپربازدیدها

قرض میں مہنگائی کا حساب کرنا

آیا قیمتوں میں اضافہ (مہنگائی)کا قرض وغیرہ میں حساب کرنا سود میں شمار ہوگا؟

جواب۔ہمارے زمانہ میں قیمتوں میں اضافہ کا مسئلہ اس شدّت اور وسعت کے ساتھ جو کاغذی پیسہ (کرنسی) کی دین ہے۔ جب بھی عام لوگوں میں مرسوم اور رائج ہونے کی حیثیت سے مشہور اور معروف ہو جائے مفروضہ مسئلہ میں سود شمار نہیں ہوگا۔(جیسا کہ بعض بیرونی ممالک کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ وہاں بینک میں جمع رقم کے سلسلہ میں بھی قیمتوں میں اضافہ (مہنگائی)کا محاسبہ کرتے ہیں اور سود کا بھی حساب کرتے ہیں )۔ایسے حالات اور شرائط میں مہنگائی کا حساب کرنا سود نہیں ہے لیکن اس سے زیادہ فائدہ لینا سود ہے لیکن پمارے معاشرہ میں اور اسی طرح کی دوسری جگہوں پر کہ جہاں عاملوگوں میں مہنگائی اور قیمتوں میں اضافہ کا حساب نہیں ہوتا لہٰذا سب کا سب سود شمار ہوگا۔ اس لئے کہ جو لوگ ایک دوسرے کو قرض دیتے ہیں چند مہینہ یا اس سے زیادہ مدّت کے گزر جانے کے بعد بھی اپنی معیّن رقم کا مطالبہ کرتے ہیں اور مہنگائی کے فرق کا حساب نہیں ہوتا اور رہی ےہ بات کہ علمی نشستوں میں مہنگائی کا حساب ہوتا ہے فقط ےہی کافی نہیں ہے اس لئے کہ معیار وہ ہے جو عام لوگوں میں رائج ہے لیکن ہم ایک صورت کو مستثنیٰ(الگ)کرتے ہیں اور وہ ےہ کہ مثال کے طور پر تیس سال گزرنے کے بعد بہت زیادہ فرق ہو گیا ہو۔لہٰذا خواتین کا قدیم مہر یا انکے اسی طرح کے دیگر مطالبات کے سلسلہ میں ہم احتیاط واجب جانتے ہیں کہ آج ادا کرنے کے وقت کی قیمت کا حساب کیا جائے یا کم از کم مصالحت کی جائے ۔

دسته‌ها: ربا (سود)

شرط کے خلاف ہو نے کی صورت میں ،خرید و فروخت کے معاملہ کا فسخ ہو جانا

زید ایک عشخص کے ساتھ ایک عمارت کا قسطوں کی شکل میں سودا کرتا ہے دونوں حضرات کے ساتھ یہ معاہدہ طے پاتا ہے ”اس شرط پر کہ قسطیں ادا ہو جائیں یا رضایت حاصل ہو جائے ورنہ دوسری صورت میں معاملہ (سودا) فسخ ہے اور عمارت کی پوری قیمت ادا کرنے کے بنعد بیچنے والا شخص سرکاری دفتر (کچہری) میں حاضر ہو کر عمارت کی ملکیت کے کاغذات خریدار کے نام کرائے “سوال یہ ہے کہ اگر خریدار قرض (یعنی قیمت کچھ مقدار ) جو چیک ہونے کی وجہ تھا معین مدت میں ادا نہ کر سکے تو کیا فروخت کرنے والا اس معاملہ کو فسخ کر سکتا ہے یا نتیجہ کی شرط کی مناسبت سے معاملہ خود بخود فسخ ہو جائے گا اور یا یہ کہ یہ فسخ کرنے یا فسخ ہو نے کا مقام ہی نہیں ہے ؟

جواب۔ مفروضہ مسئلہ میں شرط کی مخالفت کرنے کی صورت میں بیچنے والے نے معاملہ کو فسخ کرنے کا حق اپنے لئے محفوظ رکھا ہے لہٰذا فسخ کرنے کا حق ہے لیکن اگر نتیجہ کی شرط کی صورت میں کہا ہے تو ان علماء کے نظریہ کے مطابق جو نجتیجہ کی شرط کو صحیح جانتے ہیں معاملہ خود بخود فسخ ہو جائے گا اور چونکہ ہم نتیجہ کی شرط کے بارے میں احتیاط کے قائل ہیں لہٰذا احوط(زیادہ احتیاط)یہ ہے کہ اس مقام پر آپس میں مصالحت کریں

عورت کا وہ مال و دولت جو اس نے ناجائز کاموں سے جمع کیا ہے

ایک عورت ، اپنے اعتراف کے مطابق کئی سال ، خلاف عفت کا م میں مبتلاء رہی ، اور اسی ناجائز طریقہ سے کسب معاش کرتی رہی نیز اسی ناجائز آمدنی سے مکان خریدا اور گھر کا سامان وغیرہ خریدا ہے اب جبکہ وہ تو بہ کرنا چاہتی ہے ، تو اس کی مال و دولت ، گھر سامان وغیرہ کا کیا حکم ہے ؟

جواب: اگر وہ عورت اس مال کے مالکوں کو پہچانتی ہے تو وہ مال ان کو واپس کر دے اور اگر نہیں پہچانتی ہے تو وہ مال مجہول المالک یعنی جس کے مالک کا پتہ نہ ہو ، کے حکم میں ہے ، اور اگر اس کو اس مال کی بہت زیادہ ضرورت ہے توحاکم شرع اس بات کا لحاظ کرتے ہوئے کہ اس نے توبہ کی ہے ، اس مال کو رد مظالم کے عنوان سے عورت کو دے سکتاہے۔

دسته‌ها: حرام مشاغل

معاملہ کے حق فسخ کی شرط

معمولہ قول ناموں میں یعنی سرکاری اور قانونی معاملہ سے پہلے معاملہ کرنے والے دونوں حضرات کے درمیان رائج ہے کہ کچھ مبلغ رقم کو معاملہ کو فسخ کرنے کے حق کی بابت شرط کی جائے الف: کیا اسلام کی مقدس شریعت کے لحاظ سے یہ شرط صحیح ہے ؟ب: دونوں میں سے جو بھیمعاملہ کو توڑے گا دوسرا شخص فسخ کرنے کے حق کی بابت جو رقم رکھی گئی تھی اسا رقم کو فسخ کرنے والے سے لے سکتا ہے ؟ج: کیا اس رقم کے قولنامے شرعی اور یقینی معاملات کا درجہ رکھتے ہیں اور شریعت کے لحاظ سے یہ سب کچھ صحیح ہے اور معاملہ کرنے والے دونوں پر اس کی مراعات کرنا ضروری ہے ؟

جواب ۔الف: جب معاملہ قطعی و یقینی ہو گیا ہو اور یہ شرط طے پائی ہو کہ دونوں کو معاملہ فسخ کرنے کا حق ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ فلاں مقدار میں رقم ادا کریں یہ شرط صحیح ہے لیکن اگر قطعی طور پر معاملہ یعنی خرید و فروخت نہیں ہو ئی ہے تو مذکورہ رقم کو لینا جائز نہیں ہے جواب ۔ب: مندرجہ بالا جواب سے معلوم ہو گیا جواب۔ج: قولنامے مختلف ہیں بعض میں صراحت ہوتی ہے کہ خریداری قطعی طور پر انجام پا چکی ہے اور بعض قل نامے ایسے نہیں ہیں ہر قولنامے کا اپنا مخسوص حکم ہے جیسا کہ اوپر ذکر ہو گیا ہے

فضول معاملہ میں اصلی مالک کا رجوع کرنا

فضولی (جو نہ خود مالک ہے اور نہ مالک سے اجازت لی ہے اور پھر بھی اس کی چیز کو بیچ دے اور دوسرا شخص خرید لے )طور پر معاملہ کرنے میں اصلی مالک خریدار اور بیچنے والے ان دونوں میں سے کس طرف رجوع کرنے کا حق رکھتا ہے ؟

جواب ۔مالک اس جیسی چیز یا اس کی قیمت خریدار سے لے سکتا ہے اور اگر خریدار اس کی دسترس میں نہ ہو تو بیچنے والے سے لے سکتا ہے پہلی صورت میں خریدار نے جو رقم اصلی مالک کو دی ہے وہ اس رقم کو بیچنے والے سے واپس لے سکتا ہے اور اگر وہ قیمت جو مالک کو دی ہے اس قیمت سے زیادہ ہو جو بیچنے والے کو دی تھی تو اجافی رقم کو بھی بیچنے والے سے لے سکتا ہے مگر یہ کہ اس نے جان بوجھ کر یہ معاملہ کیا ہو اگر ایسا ہو تو اس صورت میں اضافی رقم کو واپس نہیں لے سکتا -

پایگاه اطلاع رسانی دفتر مرجع عالیقدر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
سامانه پاسخگویی برخط(آنلاین) به سوالات شرعی و اعتقادی مقلدان حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
آیین رحمت - معارف اسلامی و پاسخ به شبهات کلامی
انتشارات امام علی علیه السلام
موسسه دارالإعلام لمدرسة اهل البیت (علیهم السلام)
خبرگزاری دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی