حج آخر میں رسول خدا کی پرزور تقریر
FehrestMozoei
البحث 
اس سال حج کے زمانہ میں پیغمبر نے عرفہ کے دن نماز سے پہلے خطبہ پڑھا اور اس کے دوسرے دن مٹی میں آپ کی تقریر کچھ اس طرح تھی۔
خداوند عالم اس بندہ کے چہرہ کو منور اور شاداب رکھ جو میری بات کو سنے اور یاد رکھے اور ان کی حفاظت کرے پھر ان کو ان لوگوں تک پہنچائے جنہوں نے نہیں سنی ہے۔ بہت سے فقہ کے حامل ایسے ہیں جو خود فقیہ نہیں ہیں اور بہت سے فقہ کے پہنچانے والے ایسے ہیں کہ جو ایسے شخص تک پہنچاتے ہیں جو ان سے زیادہ عقلمند ہیں۔ تین چیزیں ایسی ہیں کہ جن سے مرد مسلمان کا دل خیانت نہیں کرتا۔ عمل کو خالص خدا کے لیے انجام دینا، رہبروں کے لیے بھلائی چاہنا اور ایک رنگی اختیار کرنا اور مومنین کی جماعت سے جدا نہ ہونا اس لیے کہ ان کی دعا ہر ایک کو گھیرے رہتی ہے۔
پھر فرمایا:
”اے لوگو تم شاید اب اس کے بعد مجھے نہ دیکھو۔ آیا تم یہ جانتے ہو کہ یہ کون سا شہر، کون سا مہینہ اور کون سا دن ہے؟“
لوگوں نے کہا:
”ہاں یہ حرمت کا شہر، حرمت کا مہینہ اور حرمت کا دن ہے۔“
آپ نے فرمایا:
”خدا نے تمہارے خون تمہارے مال کی حرمت کو اس شہر، اس مہینہ اور اس دن کی حرمت کی طرح قرار دیا ہے۔ کیا میں نے (پیغام) پہنچا دیا۔“ مجمع نے کہا ”ہاں“ آپ نے فرمایا: ”خدایا تو گواہ رہنا۔“
آپ نے ارشاد فرمایا:
”تم خدا سے ڈرتے رہو اور کم (تول کر) نہ بیچنا، زمین میں تباہی نہ مچاؤ اور ہر وہ شخص جس کے پاس کوئی امانت ہو وہ اسے (اس کے مالک تک) پہنچائے۔ اسلام میں سارے لوگ برابر ہیں اس لیے کہ سب آدم و حوا کی اولاد ہیں۔ عربی کو عجمی پر عجمی کو عربی پر سوائے پرہیزگاری کے اور کوئی برتری حاصل نہیں“
کیا میں نے (پیغام) پہنچا دیا؟ لوگوں نے کہا :
”ہاں“
آپ نے فرمایا:
”خدایا گواہ رہنا۔“
حضرت نے فرمایا:
”اپنے نسب کو میرے پاس نہ لانا بلکہ اپنے عمل کو میرے پاس لانا، جو میں لوگوں سے کہتا ہوں تم بھی یہی کہو، کیا میں نے (پیغام) پہنچا دیا؟
لوگوں نے کہا:
”ہاں“
فرمایا:
”خدایا تو گواہ رہنا۔
پھر آپ نے فرمایا:
وہ خون جو جاہلیت میں ہوا ہے میرے پیر کے نیچے ہے اور پہلا خون جس کو میں اپنے پیر کے نیچے رکھتا ہوں وہ آدم ابن ربیعہ ابن حارث (رسول خدا کے وابستگان میں ایک شیر خوار بچہ تھا اور بنی سعد ابن بکر نے اس کو مار ڈالا تھا) کا خون ہے۔ کیا میں نے (پیغام) پہنچا دیا؟
لوگوں نے کہا:
”جی ہاں“
فرمایا:
”خدایا گواہ رہنا۔“
پھر فرمانے لگے:
”ہر وہ ربا جو جاہلیت کے زمانہ میں تھا میرے پیروں کے نیچے ہے۔ پہلا ربا جو میں اپنے پیروں کے نیچے رکھتا ہوں وہ عباس ابن عبدالمطلب کا رہا ہے۔ “
کیا میں نے (پیغام پہنچا دیا؟“
مجمع نے کہا:
”ہاں“
فرمایا :
خدا تو گواہ رہنا۔
پھر فرمایا:
”بے شک ماہ حرام میں تاخیر کفر یں زیادتی ہے اور کافرین اس سے گمراہ ہوں گے ایک سال کو حلال اور ایک سال کو حرام شمار کرتے ہیں تاکہ اس کو شمار کرکے جس کو خدا نے حرام کیا ہے موافق بنالیں۔ آگاہ ہو جاؤ کہ زمانہ گزشتہ لوگوں کی وضع کی طرف پلٹ گیا۔ جس دن خدا نے آسمان اور زمینوں کو پیدا کیا، بیشک خداوند عالم کے نزدیک اس کی کتاب میں بارہ مہینے ہیں ان میں سے چار مہینے حرمت کے ہیں۔ رجب جو جمادی الثانی اور شعبان کے درمیان ہے اور اس کو ”رجب مضر“ کہتے ہیں اور پھر پے درپے تین مہینے ذی القعدہ، ذی الحجہ اور محرم ہیں۔ بتاؤ میں نے تمہیں خبردار کر دیا؟ لوگوں نے جواب دیا ”ہاں“ آپ نے کہا:
”خدایا تو گواہ رہنا“
پھر فرمایا:
”میں تم کو عورتوں کے ساتھ نیکی کرنے کے لیے کہتا وں اس لیے کہ ان کو تمہارے سپرد کیا گیا ہے۔ وہ اپنے امر میں سے کوئی چیز اپنے ہاتھ میں نہیں رکھتیں تم نے ان کو خدا کی امانت میں لیا ہے۔ خدا کے حکم کے مطابق تم نے ان سے قربت کی ہے تمہارا ان پر کچھ حق ہے، ان کی متعارف غذا اور لباس تم پر لازم ہے اور تمہارا حق ان پر یہ ہے کہ کسی کا پیر تمہارے بستر تک نہ پہنچنے دیں۔ تمہاری اطلاع اور اجازت کے بغیر تمہارے گھروں میں کسی کو داخل نہ ہونے دیں۔ پس اگر ان یں سے کوئی چیز انجام دیں تو ان کی خواب گاہ سے دوری اختیار کرو نہایت اطمینان سے ان کو تنبیہ کرو۔
کیا میں نے تبلیغ کر دی؟
لوگوں نے کہا :
”ہاں“
حضرت نے فرمایا:
خدایا گواہ رہنا۔
پھر آپ گویا ہوئے
”اب میں تم سے غلاموں کے بارے میں کچھ کہتا ہوں جو کھانا تم کھاتے ہو وہی ان کو بھی کھلاؤ جو تم پینا وہی ان کو بھی پلانا اگر یہ کوء یخطا کریں تو ان کی سزا کو معاف کر دینا۔ آیا میں نے تبلیغ کر دی؟
سب لوگ بولے:
”ہاں“
حضرت نے فرمایا:
”خدایا تو گواہ رہنا۔“
پھر فرمانے لگے:
”مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، ان کے ساتھ حیلہ اور خیانت نہ کرو۔ ان کی پیٹھ پیچھے بدگوئی نہ کرو ان کا خون حلال ہے اور نہ مال۔ مگر ان کی رضایت سے، کیا میں نے تبلیغ کر دی؟“
لوگوں نے کہا:
”ہاں“
فرمایا:
”خدایا تو گواہ رہنا۔“
پھر آپ نے کہا :
”شیطان آج کے بعد اس بات سے ناامید ہوگیا کہ اس کی پرستش ہوگی لیکن پرستش کے علاوہ جن کاموں کو تم چھوٹا سمجھتے ہو ان پر عمل ہوگا اور وہ (شیطان) اسی پر راضی اور خوش ہے۔ کیا میں نے بتا دیا؟
لوگوں نے کہا:
”ہاں“
آپ نے فرمایا :
”خدایا تو گواہ رہنا“
پھر آپ نے فرمایا:
”دشمن خدا میں سب سے زیادہ گستاخ وہ ہے جو اپنے قتل کرنے والے کے علاوہ کسی کو قتل کرے اور اپنے مارنے والے کے علاوہ کسی کو مارے۔ جو اپنے آقا کی نافرمانی کرے اس نے اس چیز کا انکار کر دیا۔ جو خدا نے محمد پر نازل کی ہے اور جو کوئی اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف اپنی نسبت دے اس پر خدا، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔ کیا میں نے بتا دیا؟ مجمع بولا
”ہاں“
فرمایا:
”خدایا تو گواہ رہنا۔“
پھر آپ نے ارشاد فرمایا:
”میں مامور ہوں کہ جہاد کروں تاکہ وگ خدا کی یکتائی اور میری رسالت کے معتقد ہو جائیں جب اس کا اقرار کرچکیں گے تو سوائے میرے حق کے انہوں نے اپنے مال اور خون کو محفوظ کرلیا اور ان کا حساب خدا پر ہے“ کیا میں نے بتا دیا؟“
لوگوں نے کہا:
”ہاں“
فرمایا:
”خدایا تو گواہ رہنا۔“
پھر آپ نے فرمایا:
”کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے بعد تم گمراہ کرنے والے کافر ہو جاؤ کہ تم میں سے بعض بعض کی گردن کا مالک (مالک الرقاب) ہو جائے۔ میں تمہارے درمیان ایسی چیز چھوڑے جا رہا ہوں کہ اگر تم ان سے متمسک رہے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔“
کتاب خدا اور میری عترت و خاندان۔ کیا میں نے تبلیغ کر دی۔ لوگوں نے کہا:
”ہاں“
فرمایا:
”خدایا تو گواہ رہنا۔“
اس کے بعد فرمایا:
البتہ تم سے سوال ہوگا لہٰذا تم میں جو حاضر ہے وہ غائب تک (یہ پیغامات) پہنچائے۔ (سیرت ابن ہشام ج۳ ص ۶۰۳)
غدیر خم میں
یکشنبہ ۱۸ ذی الحجہ سنہ ۱۰ ہجری
یکشنبہ ۱۱ ذی الحجہ کو جب پیغمبر ”حجفہ“ سے غدیر خم کے پاس پہنچے توامین وحی خدا کی جانب سے یہ پیغام لائے کہ ”اے پیغمب جو خدا کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دو، اور اگر آپ نے نہیں پہنچایا تو اس کی رسالت کو آپ نے مکمل نہیں کیا۔ خدا آپ کو لوگوں سے بچائے گا۔ (۳) مائدہ:۶۸)
اس طرح خدا کی جانب سے پیغمبر کو حکم دیا گیا کہ آپ علی علیہ السلام کو لوگوں کے درمیان کھلم کھلا پہنچوائیں ولایت اور ان کی اطاعت کے واجب ہونے کے سلسلے میں جو مسلمانوں کی تکلیف ہے آپ اسے پہنچا دیں۔ حجاج کا کارواں جحفہ (۲) پہنچا، پیغمبر نے حکم دیا کہ تمام وہ لوگ جو آگے بڑھ گئے ہیں وہ لوٹ آئیں اور باقی ٹھہر جائیں تمام مسلمان جمع ہوگئے ان کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار سے زیادہ تھی۔ اس روز سخت گرمی کے عالم میں لوگ اپنے پیروں کے نیچے اپنی عبا بچھائے اور اپنے دامن کو سائبان بنا کر سروں پر رکھ رہے تھے۔ نماز ہوئی پیغمبر نماز کے بعد اس بلند جگہ پر جلوہ افروز ہوئے جو پالان شتر سے بنائی گئی تھی(منبر) اور آپ نے ایک تقریر فرمائی۔
رسول خدا کی تقریر کا ترجمہ ملاحظہ ہو
حمد و ثنا خدا سے مخصوص ہے ہم اس سے مدد چاہتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اس پر توکل کرتے ہیں اور نامناسب عمل سے اس کی پناہ چاہتے ہیں وہ خدا جس کے سوا کوئی ہادی اور رہنما نہیں ہے۔ جس کی وہ ہدایت کرے اس کو کوئی گراہ کرنے والا نہیں ہے۔ میں گواہی دیتا ہو کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد اس کے بندہ اور پیغمبر ہیں۔
اے لوگو! عنقریب میں دعوت حق پر لبیک کہنے والا اور تمہارے درمیان سے جانے والا ہوں میں بھی مسوٴل ہوں، تم بھی جواب دہ ہو تم میرے بارے میں کیا کہتے ہو؟ لوگوں نے بہ آواز کہا:
”ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے اپنی رسالت کو پہنچا دیا نصیحت اور کوشش کی، خدا آپ کو نیک جزا دے۔“
پیغمبر نے فرمایا:
”کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا اور کوئی خدا نہیں ہے۔ اور محمد اس کے بندہ اور فرستادہ ہیں اور یہ کہ بہشت، دوزخ حق ہے، موت حق ہے اور قیامت کے دن میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے اور خدا قبروں سے تمام سونے والوں کو اٹھائے گا۔“
لوگوں نے کہا: ”جی ہاں“ ہم شہادت دیتے ہیں حضرت نے فرمایا:”خدایا تو گواہ رہنا۔“
بیشک میں دوسرے جہاں میں جانے اور حوض کوثر کے کنارے تک پہنچنے میں تم پر سبقت لے جاؤں گا۔ اور تم حوض پر میرے پاس حاضر ہوگے۔ وہاں ستاروں کی تعداد میں چاندی کے جام اور پیالے ہوں گے۔ دیکھنا ہے کہ تم میرے بعد ان دونوں سے کیا سلوک کرتے ہو جو کہ گراں بہا اور گراں قدر چھوڑے جا رہا ہوں؟
مجمع میں سے ایک شخص نے بلند آواز سے کہا:
”اے اللہ کے رسول وہ دو گراں قدر چیزیں کیا ہیں؟ فرمایا: جو بزرگ ہے وہ کتاب خدا ہے جو تمہارے درمیان اللہ کی مضبوط رسی ہے اور دوسرے اہل بیت عترت ہیں۔ خدائے مہربان اور عالم نے مجھے بتایا ہے کہ یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوں گے۔ یہاں تک کہ حوض (کوثر) پر میرے پاس پہنچیں۔ قرآن و عترت سے آگے نہ بڑھنا اور ان دونوں کی پیروی سے منہ نہ موڑنا ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے۔
اس کے بعد آپ نے علی علیہ السلام کے ہاتھ کو پکڑا اور اس کو اتنا بلند کیا کہ دونوں کی بغل کی سفیدی نمایاں ہوگئی اور لوگوں نے ان کو دیکھا اور پہچانا۔
پھر آپ نے فرمایا:
”اے لوگو! اہل ایمان سے بالاتر کون ہے“
لوگوں نے کہا:
”خدا اور اس کا رسول بہتر جانتا ہے۔“
آپ نے فرمایا:
”بیشک خدا ہمارا مولا ہے اور میں مومنین کا مولا ہوں اور مومنین کے نفسوں سے اولیٰ اور بلند ہوں۔لہٰذا جس کا میں مولا ہوں علی علیہ السلام اس کے مولا ہیں۔(۱) حضرت نے اس بات کو تین بار اور حنبلی حضرات کے پیشوا، احمد ابن حنبل کے قول کے مطابق چار بار تکرار فرمائی اس کے بعد دعا کے لیے ہاتھ بلند کرکے فرمایا:
”بارالہٰا تو اس کو دوست رکھ جو ان کو دوست رکھے اور اس کو دشمن رکھ جو ان سے دشمنی کرے۔ ان کے دوستوں کی مدد فرما اور جو ان کو رسوا کرے اسے ذلیل فرما۔ اور ان کو حق کا مدار و محور قرار دے۔“
پھر آپ نے فرمایا کہ ”حاضرین غائبین تک یہ پیغام پہنچا دیں“ ابھی مجمع پراگندہ بھی نہیں ہوا تھا کہ جبرائیل امین، وحی الٰہی لے کر آپہنچے اور آیہ کریمہ ”الیوم…
”آج میں نے تمہارے دین کو کامل کر دیا، تم پر اپنی نعمتیں تمام کر دیں اور تمہارے لیے دین اسلام کو پسند کرلیا ہے۔“
دین کے کامل ہو جانے سے نعمت کے تمام ہو جانے اور میری رسالت اور میرے بعد علی کی ولایت پر اللہ کے راضی ہو جانے پر رسول نے تکبیر کہی ”اس کے بعد مسلمانوں نے علی ابن ابی طالب کو امیرالمومنین کے عنوان سے مبارک بادی اور سب سے پہلے ابوبکر و عمر علی علیہ السلام کے پاس آئے اور انہوں نے کہا: ”مبارک ہو مبارک ہو، اے ابوطالب کے بیٹے! آپ ہمارے اور تمام مومنین مرد و عورت کے مولا ہوگئے۔“
پھر شاعر انقلاب اسلام، حسان بن ثابت نے کہا یا رسول اللہ! اگر اجازت ہو تو میں اس سلسلہ میں کچھ اشعار پڑھوں۔
رسول خدا نے فرمایا:
خدا کی برکت سے پڑھو۔ اور حسان نے فی البدیہ واقعہ غدیر خم کو اشعار میں بیان کیا۔ ہم یہاں ان کے اشعار میں سے تین شعر نقل کر رہے ہیں:
……………
یعنی غدیر کے دن پیغمبر نے لوگوں کو آواز دی، کیا آواز سا تھی۔ علی علیہ السلام سے فرمایا کہ اٹھو میں نے تم کو اپنے بعد لوگوں کی ہدایت اور امامت کے لیے منتخب کیا۔
میں جس کا مولا ہوں علی اس کے ولی ہیں، لہٰذا از روئے صدق و راستی ان کے پیرو اور دوست دار رہو۔

……
شورشیں
حجة الوداع سے واپسی کے بعد تکان کی شدت کی بنا پر رسول اللہ چنددنوں تک بیمار رہے۔ اس ہنگامہ میں آپ کی خستگی اور طبیعت کی ناسازی کی خبر چاروں طرف پھیل گئی۔ کچھ موقع کی تلاش اور فائدہ کی جستجو میں رہنے والے افراد نے پیغمبری کا دعویٰ کیا۔
مسیلمہٴ کذاب نے یمامہ اور نجد میں خود کو پیغمبر اور رحمان الیمامتہ کہا۔ اسود عنسی نے یمن میں اپنے کو پیغمبر کہا اور اس نے شورش کا آغاز کر دیا۔ سحاح نامی عورت اور طلیحہ نامی ایک شخص نے اس طرح کے دعویٰ سے لوگوں کو دھوکہ دینا شروع کیا۔ اس فتنہ کی جڑیں بہت پھیلی ہوئی تھیں اور یہ دھوکہ باز قومی اور قبائلی تعصب سے فائدہ اٹھانے کی تلاش میں تھے۔ چنانچہ ایک جماعت کو اپنے گرد جمع کرلیا اور جب ان کو قدرت حاصل ہوگئی تو اپنی حکومت و قلمرو کو یہ لوگ وسعت دینے لگے۔
اسود عنسی کا واقعہ
نمونہ کے طور پر اسود عنسی کا واقعہ پیش ہے جس کو پیغمبر کی ناسازئ طبیعت کی خبر نے لالچ میں ڈال دیا اس نے جاہلی طریقوں اور رسوم کو کتب عتیق کے قوانین میں ملا کر یمن میں ایک نئے نقطہٴ خیال کی بنیاد رکھی وہ ایک کاہن اور شعبدہ باز تھا اپنی پرشان باتوں کو مسجع اور مقفی بنا کر اس طرح پیش کرتا کہ جو اس کی باتیں سنتا بددل ہو جاتا۔ جنگجوؤں میں بڑا سنگدل اور تیز تھا۔ ظلم و ستم میں لوگوں کی جان و مال میں سے کسی کی پرواہ نہیں کرتا تھا۔
اسود عنسی نے اپنے سپاہیوں کے ساتھ چند دنوں میں نجران پر قبضہ کرلیا اور اس نے بلا فاصلہ یمن کے دارالسلطنت صنعاء پر حملہ کر دیا۔
”شہر ابن باذام“ ایرانی جو رسول خدا کی طرف سے اس علاقہ میں حکومت کرتے تھے انہوں نے لشکر تیار کیا تاکہ اسود کے راستہ کو روک لیں لیکن شورش کرنے والوں کے جلد حملہ کی بنا پر شہر ابن باذام کا لشکر، اسود کے لشکر کا کچھ نہ کرسکا اور شہر اب باذام اس حملہ میں شہید ہوگئے۔
اسود عنسی کامیاب اور اس کامیابی سے مغرور ہو کر صنعاء میں داخل ہوا۔ اعرابی جو نئے نئے مسلمان ہوئے تھے بہت جلد انہوں نے دوبارہ اسود کے ہاتھوں اسلام سے برگشتگی کا راستہ اختیار کرلیا گروہ گروہ اور قبیلہ قبیلہ نے اس کی بیعت کرلی اور اپنے آپ کو اس کے حوالہ کر دیا۔ تھوڑی ہی مدت میں اسود نے تمام یمن پر طائف و بحرین اور حدود عدن پر تسلط جمالیا۔
ان علاقوں میں باقی ماندہ مسلمانوں نے بھی خوف سے سکوت اختیار کرلیا۔ اسود نے شہر ابن باذام کی بیوی ”آزاد“ کو زبردستی اپنی بیوی بنالیا۔
(تاریخ طبری ج۳ ص ۲۲۷)
یمن میں انقلاب کی سازش
بستر علالت ہی سے رسول خدا نے مدعیان نبوت کے ساتھ جنگ کے لیے نمائندوں کو بھیجا اور خط لکھنا شروع کئے۔
آپ نے ایک خط میں یمن کے ایرانی، سرکردہ افراد کو حکم دیا کہ دین مقدس اسلام کے دفاع کے لیے قیام کریں اور ان کے پیغام کو دینداروں اور باحمیت و غیرت افراد تک پہنچائیں اور کوشش کریں تاکہ اس فساد کی جڑ اسود عنسی کو خفیہ یا آشکارا طور پر ختم کر دیں۔(۳) (طبری ج۳ ص ۳۳۱)
یمن کے آزاد ایرانیوں نے رسول خدا کے فرمان کے مطابق اسلام پر باقی رہ جانے والے قبائل کو اپنے ساتھ تعاون کے لیے بلایا اور جب ان کو معلوم ہوگیا کہ اسود اور سپہ سالار لشکر، قیس میں اختلاف ہے تو انہوں نے قیس کے سامنے نہایت اطمینان سے اس موضوع کو پیش کیا اور اس طرح سپہ سالار لشکر اسود کو اپنے ساتھ ملالیا۔ (تاریخ طبری ج۳ ص ۲۳۱)
اسود کے قصر کے اندرونی معلومات حاصل کرنے کے لیے ”آزاد“ سے رابطہ قائم کیا گیا جو شہر ابن باذام کی بیوی تھیں اور اسود کے تصرف میں تھیں۔
”آزد“ ایک آزادی پسند شیر دل مومنہ اور باعزت خاتون تھیں ان لوگوں کی مدد کے لیے اٹھ کھڑی ہوئیں اور مفید و قیمتی راہنمائیوں کے ذریعہ انہوں نے مومنین کو اسود کے قتل پر آمادہ کیا۔ قصر مکمل طور پر نگہبانوں کی نگرانی میں تھا۔ ”آزاد“ کی راہنمائی میں ایک سرنگ کے ذریعہ جو اسود عنسی کے کمرہ میں پہنچتی تھی رات کو جب وہ نیم خوابیدگی کے عالم میں تھا، انقلابی مومنین نے حملہ کر دیا۔ فیروز نے اس کا سر زور سے دیوار سے ٹکرا دیا اور اس کی گردن مروڑ دی۔ اسود کی آواز وحشی گائے کی طرح بلند ہوئی آزاد نے فوراب ایک کپڑا اس کے منہ میں ٹھونس دیا۔ پہرہ دا محل کے اندر ہونے والی چیخ پکار سے مشکوک ہوگئے اور کمرہ کی پشت سے انہوں نے پوچھا کہ خیریت تو ہے؟ ”آزاد“ نے نہایت اطمینان سے جواب دیا۔
”کوئی بات نہیں ہے پیغمبر پر وحی آرہی ہے“ اس طرح انقلابی مومنین اپنی مہم میں کامیاب ہوئے اور پیغمبری کے جھوٹے دعویدار کو دوزخ میں پہنچا دیا۔ دوسرے دن صبح مسلمانوں نے اسلامی نعرے لگائے اور کلمہٴ شہادتین زبان پر جاری کیا۔ اشہدان لا الہ الا اللہ اشہد ان محمد الرسول اللہ۔ اور اعلان کیا کہ لوگو! اسود ایک جھوٹے شخص سے زیادہ کچھ نہ تھا اس کے بعد اس کا سر لوگوں کی طرف پھینک دیا۔
شہر میں ایک ہنگامہ شروع ہوگیا اور قصر کے نگہبانوں نے اس فرصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے محل کو لوٹ لیا اور جو کچھ اس میں تھا لے کر فرار ہوگئے۔ اس وقت مسلمانوں نے آواز دی کہ نماز کے لیے لوگ صف بستہ ہو جائیں اور پھر نماز کے لیے لوگ کھڑے ہوگئے۔ (طبری ج۳ ص ۲۲۷)
جس رات اسود مارا گیا اسی رات وحی کے ذریعہ حضرت کو معلوم ہوگیا آپ نے فرمایا:
”کل رات ایک مبارک خاندان سے ایک مبارک شخص نے عنسی کو قتل کر دیا۔“
لوگوں نے پوچھا وہ کون تھا۔“
آپ نے فرمایا:
فیروز تھا۔ فیروز کامیاب رہے۔
(تاریخ طبری ج۳ ص ۳۳۹)
مسیلمہ کذاب کا واقعہ
یمامہ میں مسیلمہ کذاب نے بھی پیغمبری کا دعوی کرکے اپنا ایک گروپ بنالیا اور فتنہ پردازی میں مشغول ہوگیا۔ وہ اس بات کی کوشش کرتا تھا کہ بے معنی سخن بافی کے ذریعہ قرآن سے معارضہ کرے۔
رسول خدا ابھی سفر حج سے جلد ہی لوٹے تھے کہ دو افراد مسیلمہ کذاب کا خط آپ کے پاس لے کر پہنچے۔ اس میں لکھا تھا ”مسیلمہ خدا کے رسول کی طرف سے محمد اللہ کے رسول کے نام“ میں پیغمبری میں آپ کا شریک ہوں آدھی زمین قریش سے متعلق ہے اور آدھی مجھ سے، لیکن قریش عدالت سے کام نہیں لے رہے ہیں۔
(تاریخ طبری ج۳ ص ۱۴۶)
رسول اللہ بہت ناراض ہوئے اور مسیلمہ کے نامہ بروں سے فرمایا: ”اگر تم سفیر اور قاصد نہ ہوتے تو میں تمہارے قتل کا حکم دے دیتا۔ تم لوگ کس طرح اسلام سے جدا ہو کر ایک تہی مغز آدمی کے پیرو ہوگئے۔ پھر آپ نے حکم دیا کہ مسیلمہ کو بہت سخت جواب لکھا جائے۔ ”خدائے رحمان و رحیم کے نام سے محمد الرسول اللہ کی طرف سے دروغ گو مسیلمہ کی طرف سلام ہو ہدایت کی پیروی کرنے والوں پر زمین خدا کی ملکیت ہے اور وہ اپنے صالح بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے زمین کا وارث قرار دیتا ہے اور نیک انجام پرہیز گاروں کا ہوگا۔ (حوالہ سابق)
جھوٹے پیغمبر کی طرف میلان کا سبب قومی تعصب
طبری کا بیان ہے کہ ایک شخص یمامہ گیا اور اس نے پوچھا مسیلمہ کہاں ہے؟
اس سے لوگوں نے کہا کہ ”پیغمبر خدا کہو۔“
اس شخص نے کہا: ”نہیں میں پہلے اس کو دیکھوں گا۔“
جب اس نے مسیلمہ کو دیکھا تو کہا کہ ”تو مسیلمہ ہے۔“
”ہاں“
کیا تمہارے اوپر فرشتہ نازل ہوتا ہے؟
ہاں اور اس کا نام رحمان ہے۔
”نور میں آتا ہے یا ظلمت میں۔“
مسیلمہ نے کہا ”ظلمت میں۔“
اس شخص نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تو جھوٹا ہے اور محمد سچے ہیں لیکن میں ربیعہ کی دروغ گوئی کو مضر (حجاز) کی راست گوئی سے زیادہ دوست رکھتا ہوں۔
(تاریخ طبری ج۳ ص ۲۸۶)
جھوٹوں کا انجام
سحاج جو نبوت کا دعویٰ کرتی تھی، مسیلمہ نے اس کے سات شادی کرلی۔ رسول خدا کی رحلت کے بعد لشکر اسلام نے اس کی سرکوبی کی۔ اور اس کے قتل کے بعد اس کی جھوٹی نبوت کی بساط الٹ گئی۔(طبری ج۳ ص ۲۹۰)
رسول خدا کے زمانہ میں مدعیان نبوت میں طلیحہ نامی ایک شخص تھا جو قبیلہ ”طی اسد“ اور قبیلہ غطفان میں ظاہر ہوا۔ رسول خدا نے قبیلہ بنی اسد میں اپنے نمائندوں کو پیغام بھیجا کہ اس کے خلاف قیام کریں۔ وہ لوگ اس پر حملہ آور ہوئے اور وہ فرار کر گیا۔(طبری ج۳ ص ۲۵۶)
اس طرح رسول خدا کی تدبیر سے آپ کی زندگی کے آخری دنوں میں یا آپ کی وفات کے بعد جھوٹ پیغمبروں کی بساط الٹی گئی۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma
آبی
سبز تیره
سبز روشن
قهوه ای