بے نظیر لشکر
FehrestMozoei
البحث 
منافقین کی رخنہ اندازی اور پروپیگنڈے، راستہ کی دوری، شدید گرمی، خشک سالی، دشمن کا بے شمار لشکر، ان میں سے کوئی چیز مسلمانوں کو وسیع پیمانہ پر جنگ میں شرکت سے نہ روک سکی۔
تقریباً تین ہزار افراد نے اپنی آمادی کا اعلان کیا اور ”ثنیة الوداع“ کی لشکر گاہ میں خیمہ زن ہوگئے اس مسلح لشکر کے پاس دس ہزار گھوڑے اور باہ ہزار اونٹ تھے۔
رسول خدا نے لشکر گاہ میں ان سپاہیوں کا معائنہ کیا اور ان کے پرچم کو ان کے ہاتھ میں دے دیا۔ اور سب روانگی کے لیے آمادہ ہوگئے۔
(مغازی ج۳ ص ۹۹۶)
منافقین کی واپسی
منافقین کے لیڈر عبدااللہ اب ابی نے اپنے چاہنے والوں کے ساتھ ”ذہاب“ کے علاقہ میں ”ثنیة الوداع“ میں جو لشکر گاہ تھی اس سے ذرا پیچھے اپنے خیمے نصب کئے اور وہیں سے مدینہ کی طرف لوٹ گیا اس نے کہا ”محمد اس گرمی، دوری اور سختی میں رومیوں سے لڑنے جا رہے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ رومیوں کے ساتھ جنگ ایک کھیل ہے خدا کی قسم میں دیکھ رہا ہوں کہ کل ان کے اصحاب اسیر اور گرفتار ہو جائیں گے۔ (حوالہ سابق)
منافقین یہ چاہتے تھے کہ لشکر اسلام سے عین روانگی کے موقع پر نفسیاتی جنگ چھیڑ کر ان کے حوصلوں کو کمزور کر دیا جائے۔ لیکن ان کی یہ چال کارگر نہ ہوئی۔
(امتناع الاستماع ج۱ ص ۴۵۰)
شخصیت پر حملہ
رسول خدا کی رکاب میں حضرت علی علیہ السلام کو ہر جنگ میں شرکت کا افتخار حاصل تھا۔ لیکن اس جنگ میں نہ جاسکے۔ رسول خدا کے حکم سے مدینہ کی دیکھ بھال کے لیے رہ گئے۔ رسول اللہ منافقین کی سازش سے آگاہ تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ شرک پر باقی رہ جانے والے اعراب کی مدد سے منافقین شہر دینہ پر مجاہدین سے خالی ہو جانے کی بنا پر حملہ کر دیں اور کوئی ناگوار حادثہ پیش آجائے۔ اس پریشان حال سیاسی حالات میں سازشوں کے مقابلہ میں اسلام کے مرکز کی جو دیکھ بھال کرسکتا ہے وہ صرف علی علیہ السلام تھے۔
رسول خدا نے علی علیہ السلام کو اپنی جگہ پر اس لیے بیٹھایا تاکہ اطمینان سے جہاد کے لیے جاسکیں۔ جب منافقین نے علی علیہ السلام کو اپنی تحریک میں رکاوٹ محسوس کیا تو ان کو میدان سے ہٹا دینے کے لیے ماحول بنایا اور افواہیں پھیلانا (درحقیقت ان کی شخصیت پر حملہ) کرنا شروع کر دیا۔ انہوں نے یہ افواہ پھیلائی کہ ”رسول خدا علی علیہ السلام سے افسردہ خاطر ہوگئے آپ نے ان سے بے اعتنائی کی اور ان کو اپنے ساتھ نہیں لے گئے۔“ یہ باتیں علی علیہ السلام کے کانوں ت پہنچیں آپ نے اپنا اسلحہ اٹھایا اور مدینہ سے تین میل دور مقام ”جرف“ میں رسول خدا سے جاملے اور فرمایا ”اے اللہ کے رسول منافقین کہتے ہیں کہ آپ ہم سے مطمئن نہیں تھے اس لیے آپ نے ہمیں مدینہ میں چھوڑ دیا۔“
حضرت نے فرمایا:
”وہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں۔ میں نے جو کچھ چھوڑا ہے اس کی حفاظت اور نگہبانی کے لیے میں نے تم کو مدینہ میں چھوڑ دیا ہے۔“
اس وقت آپ نے بہت سارے اصحاب کے سامنے جو وہاں حاض تھے اور سن رہے تھے، حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا:
”میرے بھائی مدینہ واپس جاؤ، مدینہ کے لیے ہمارے تمہارے علاوہ کوئی مناسب نہیں ہے تم ہی میرے خاندان میں اور میرے محل ہجرت (مدینہ) میں میرے عشیرہ کے درمیان میرے جانشین ہو، کیا تم کو یہ پسند نہیں کہ تم میرے لیے ایسے ہی ہو جیسے موسیت کے لیے ہارون، بس میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہوگا۔“
حضرت علی علیہ السلام مدینہ لوٹ آئے اور رسول خدا اپنے مقصد کے لیے روانہ ہوگئے۔(۱)
تپتے صحرا میں
باہمت و جری مسلمانوں کے ۶۱ سالہ رہبر رسول خدا، سخت ترین سپاہیوں، جیش العسرہ کی کمان سنبھالے ہوئے ہیں۔ دشمن تک پہنچنے کے لیے سپاہیوں کو ۷۷۸ کلومیٹر کے گرم ریگستان کو عبور کرنا پڑے گا۔ لشکر چل پڑا، آفتاب اس لشکر پر آگ برسا رہا تھا۔ شدید گرمی کا خطرہ دشمن سے کم نہ تھا۔ لیکن لشکر اسلام بھی استقامت و مقاومت کا پیکر تھا۔ صرف چند منافقین تخریب کاری اور اذیت رسانی کے ارادہ سے ساتھ ہو گئے تھے۔ یہ لوگ راستہ میں خیانت آمیز حرکتیں اور زہریلے پروپیگنڈے کر رہے تھے۔ لشکر اسلام کا گزر اصحاب ”حجر“ کے علاقہ سے ہوا اصحاب حجر کے ویران شہر میں ایک پانی والا کنواں تھا سپاہیوں نے اس کنویں سے پانی کھینچا اور اپنے ظروف بھر لیے۔ جس وقت یہ لوگ اس جگہ اترے اور سپاہی آرام کرنے لگے تو رسول خدا نے فرمایا کہ:
”فلاں کنویں کا پانی نہ پینا اور اس پانی سے آٹا نہ گوندھنا اور اگر آٹا گوندھ لیا ہے تو اس کو نہ کھانا بلکہ چوپایوں کو دے دینا۔“
صبح سویرے لشکر اسلام رسول خدا کے پاس طلب آب کے لیے پہنچا۔ حضرت نے دعا فرمائی:
بارش ہوئی سارے تالاب گڈھے، بھر گئے۔ جاں بازوں نے بارش کے پاین سے مشکیں بھر لیں۔ منافق نے کہا ”ایک گزرتا ہوا بادل تھا جو اتفاقاً برس گیا۔“
(سیرت ابن ہشام ج۴ ص ۱۶۴،۱۶۵)
ایک جگہ رسول خدا کا اونٹ گم ہوگیا کچھ لوگ اس کو ڈھونڈنے کے لیے نکلے لیکن منافقین میں سے ایک شخص نے کہا کہ یہ کیسے پیغمبر ہیں جن کو یہ نہیں معلوم کہ ان کا اونٹ کہاں ہے۔ درحالانکہ یہ آسمانوں کی خبر دیتے ہیں؟“ ان کی باتیں پیغمبر تک پہنچائی گئیں آپ نے فرمایا: ”مجھے خدا جو بتا دیتا ہے میں غیب کی وہی باتیں جانتا ہوں۔“ اس وقت جبرئیل نازل ہوئے اور آنحضرت کو اونٹ کی جگہ سے باخبر کیا حضرت نے فرمایا میرا اونٹ فلاں وادی میں ہے اور اس کی مہار فلاں درخت میں الجھ گئی ہے جاؤ اس کو پکڑ لاؤ۔ (سیرت ابن ہشام ج۴ ص ۱۶۶)

ابوذر کا واقعہ
چلتے چلتے راستہ میں ابوذر کا اونٹ بیٹھ گیا انہوں نے بڑی کوشش کی کہ وہ کسی طرح قافلہ تک پہنچ جائیں۔ لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔ چنانچہ اونٹ سے اتر پڑے۔ سامان کو پیٹھ پر لادا اور پیدل ہی چل پڑے۔ آفتاب ان کے سر پر شدت کی گرمی برسا رہا تھا۔ ابوذر پیاس سے نڈھال ہوئے جا رہے تھے۔ وہ اپنے آپ کو بھلا چکے تھے اور صرف لشکر رسول خدا تک پہنچنے کے علاوہ کوئی مقصد نہ تھا۔ پیاس سے بھنتے ہوئے جگر کے ساتھ پیدل، پستیوں اور بلندیوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے چلے جا رہے تھے کہ دور سے آپ کی نگاہیں لشکر مسلمین پر پڑیں۔ آپ نے اپنی رفتار بڑھا دی۔ اس طرف ایک سپاہی کی نظر ایک سیاہی پر پڑی اس نے رسول خدا سے عرض کیا کہ:
”کوئی شخص ہماری طرف آرہا ہے حضرت نے فرمایا: اچھی بات ہے وہ ابوذر ہیں۔“
آنے والی سیاہی اور قریب ہو گئی ایک شخص نے چلا کر کہا:
”وہ ابوذر ہیں“
خدا کی قسم وہی ہیں“
حضرت نے فرمایا:
خدا ابوذر پر رحمت نازل کرے وہ اکیلے راستے طے کرتے ہیں، تنہا مریں گے اور تنہا اٹھائے جائیں گے۔
لشکر اسلام تبوک میں
لشکر اسلام نے اپنا سفر جاری رکھا۔ یہاں تک کہ تبوک میں پہنچ گیا۔ لیکن رومیوں کو اپنے سامنے نہیں پایا اس لیے کہ رومی لشکر اسلام کی کثرت سے واقف ہو چکے تھے اور لشکر اسلام کی شجاعت اور ان کی بلند حوصلوں کی اطلاع ان کو تھی۔ اس بنا پر انہوں نے محفوظ جگہ ڈھونڈھ لی اور شمال کی طرف بیٹھ رہے۔
(پیامبر و آئین نبرد، موٴلف جنرل مصطفےٰ طلاس ص ۴۸۳)
تبوک میں لشکر اسلام نے اپنا پڑاؤ ڈال دیا۔ رسول خدا نے لشکر کے سامنے تقریر کی مسلمان بیس دن تک تبوک میں رہے۔ رسول اللہ نے وہاں چند گروہوں کو اپنے زیر اثر قبیلوں سے عہد و پیمان باندھنے کے لیے مختلف سرحدی علاقوں میں روانہ فرمایا:
ان سرحدی علاقوں میں بسنے والے قبیلوں سے عہد و معاہدہ کے بعد جزیرة العرب کی سرحدیں محفوظ ہوگئیں۔
دومة الجندل کے بادشاہ کی گرفتاری
رسول خدا نے سواروں کے ایک دستہ کا خالد بن ولید کو سردار بنا کر بھیجا، خالد اور اس کے سپاہیوں نے وہاں کے بادشاہ ”اکیدر“ اور اس کے بھائی ”حسان“ پر جب وہ ایک وحشی گائے کا پیچھا کر رہا تھا۔ غفلت کے عالم میں حملہ کر دیا۔ حسان مارا گیا اور اکیدر گرفتار ہوگیا۔ خالد نے اکیدر کو گرفتار کرنے کے بعد دومتہ الجندل کو فتح کیا اور مالِ غنیمت کے ساتھ واپس پلٹا۔ اکیدر کو پیغمبر کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ رسول خدا نے اس سے صلح کا معاہدہ کیا اور اس کے لیے جزیہ ادا کرنا ضروری قرار دیا۔
(سیرت ابن ہشام ج۴ ص ۱۶۹)
تبوک میں ”شہر اید“ جہاں عیسائی آباد تھے، اس کے رئیس ”یوحنا ابن روبہ“ نے دومتہ الجندل کے واقعات سننے کے بعد پیش قدمی کی اور خود پیغمبر کی خدمت میں آکر اپنے آپ کو اور اپنے قبیلہ کو اسلام کی حمایت کے سایہ میں پہنچا دیا۔ وہاں یہ طے پایا کہ اہل ایلہ سالانہ تین سو طلائی دینار بعنوان جزیہ کا ادا کریں۔
(مغازی واقدی ج۳ ص ۱۰۴۲)
پیغمبر پر حملہ کرنے کی سازش
مقام تبوک میں بیس دن تک قیام کے بعد، لشکر اسلام نے رسول خدا کے حکم کے بموجب لوٹ آنے کا ارادہ کیا۔ منافقین نے دیکھا کہ لشکر اسلام کے قتل اور زخمی ہونے یا جنگ کی تو نوبت ہی نہیں آئی، لہٰذا انہوں نے چاہا کہ کسی طرح رسول خدا کا قصہ پاک کر دیں۔ انہوں نے منصوبہ بنایا کہ واپسی کے وقت رات کو پیغمبر کے راستہ میں کسی موڑ پر کمین گاہ میں بیٹھ جائیں اور آنحضرت کے اونٹ کو بھڑکا دیں تاکہ آپ اونٹ سے گر کر دروں میں لڑھک کر ختم ہو جائیں۔
جب حضور اس موڑ پر پہنچے تو خدا نے آپ کو منافقین کے ارادوں سے آگاہ کر دیا۔ حضرت نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ:
وہ لوگ درہ کے نیچے سے گزریں اور آپ خود اس موڑ کے اوپر روانہ ہوئے۔ عمار یاسر سے فرمایا کہ اونٹ کی مہار کیھنچتے ہوئے لے چلیں اور حذیفہ ابن یمان سے فرمایا کہ ان کے اونٹ کو پیچھے سے ہانکتے رہیں۔ جب آنحضرت اس موڑ کے اوپر پہنچے تو منافقین نے چاہا کہ اپنا حملہ شروع کر دیں رسول خدا نے غصہ کے عالم میں حذیفہ کو حکم دیا کہ ان کو بھگا دو۔ جب حذیفہ نے ان پر حملہ کیا تو منافقین رسوائی کے ڈر سے فوراً ہی بھاگے اور شب کی تاریکی میں صفوف لشکر میں گم ہوگئے۔ دوسرے دن صبح اسید ابن حضیر نے پیغمبر سے ان لوگوں کو قتل کر ڈالنے کی اجازت مانگی لیکن رسول خدا نے اجازت نہیں دی۔ (سیرت حلبی ج۳ ص ۱۳۴)
مسجد ضرار کو ویران کر دو
رسول خدا تبوک سے واپسی میں جب نزل ”ذی آوان“ پر پہنچے تو آپ وحی اور مندرجہ ذیل آیات کے نزول کے ذریعہ مسجد ضرار کے بانیوں کے نصوبہ سے باخبر ہوگئے ارشاد ہوتا ہے:
”جن لوگوں نے ضرر پہنچانے، کفر اختیار کرنے، مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالنے اور ان لوگوں کے لیے اڈہ بنانے کے لیے جو اس سے پہلے خدا اور رسول سے جنگ کرتے تھے۔ مسجد بنائی ہے۔ البتہ یہ لوگ قسم کھاتے ہیں کہ سوائے نیکی کے اور ہم کچھ نہیں چاہتے اور خدا گواہی دیتا ہے کہ یہ لوگ جھوٹے ہیں آپ ہرگز اس مسجد میں نماز کے لیے نہ کھڑے ہوں۔ وہ مسجد جو پہلے ہی دن سے اساس تقویٰ پر بنی ہے زیادہ بہتر ہے کہ آپ اس میں کھڑے ہوں، اس مسجد میں وہ لوگ ہیں جو اپنے کو پاک و پاکیزہ رکھنے کو دوست رکھتے ہیں اور خدا بھی ان لوگوں کو جو مطہرین ہیں دوست رکھتا ہے۔“ (توبہ:۱۰۶،۱۰۷)
ان آیتوں کے نزول کے بعد آنحضرت نے چند مسلمانوں کو حکم دیا کہ ”جاؤ اور اس مسجد کو جس کو ستم گروں نے بنایا ہے۔ ویران کر دو اور جلا ڈالو۔ رسول خدا کے حکم پر فوراً عمل ہوا اور مسجد کی چھت کو جو کھجور کی لکڑی سے بنائی گئی تھی آگ لگا دی گئی اور منافقین بھاگ کھڑے ہوئے۔ جو اسلحہ اٹھانے پر قادر تھا وہ میدان میں کل پڑا (۲) اس طرح کہ مومنین میں سے کسی نے بھی اس حکم کو ماننے سے انکار نہیں کیا۔ مگر تین آدمیوں نے بعد میں جن کی توبہ خدا نے قبول کرلی۔
درحقیقت اس فوجی تحریک نے امت اسلامی کی جنگ میں آمادگی کو ظاہر کر دیا۔
تبوک کی جنگی مشق، لشکر اسلام کے مضبوط ارادے اور ان کی جسمانی اور روحانی طاقت کا مظاہرہ تھی۔ اس لیے کہ نہایت نظم و نسق کے ساتھ دشوار اور طولانی راستہ کا طے کرنا وہ بھی اس زمانہ کے ابتدائی وسائل کے ساتھ یہ لشکر اسلام کی عظیم روحانی طاقت اور ان کی وسعت فکری کو ثابت کرتا ہے۔
غزوہ تبوک۔اعراب کی نظر میں مسلمانوں نے عسکری اور معنوی مسجد کی چھت جلانے کے بعد اس کی دیواروں کو مسمار کرکے زمین کے برابر کر دیا گیا۔ (سیرت ابن ہشام ج۴ ص ۱۷۴)
اسلحے نہ فروخت کرو
تبوک کے واقعہ کے بعد بہت سے جانبازوں نے یہ سمجھ کر کہ جہاد کا کام اب تمام ہوگیا، اپنے اسلحوں کو بیچنا شروع کر دیا۔ دولت مند ان اسلحوں کو خریدنے لگے تاکہ اپنی قوت میں اضافہ کریں جب یہ خبر پیغمبر کو پہنچی تو آپ نے ان لوگوں کو اس کام سے منع فرمایا۔ ”ہماری امت سے کچھ لوگ اسی طرح اپنے دین کا دفاع کرتے رہیں۔ یہاں تک کہ دجال ظہور کرے۔“
جنگ میں دعا کی تاثیر
تبوک کے واقعہ کے بعد رسول خدا نے خداوند عالم کی بارگاہ میں شکر ادا کیا اور فرمایا:
”خدایا! اس سفر میں جو اجر ملا وہ جو کچھ پیش آیا ہم اس پر تیری بارگاہ میں شکریہ ادا کرتے ہیں۔ اس اجر و پاداش میں وہ لوگ بھی ہمارے شریک ہیں جو عذر شرعی کی وجہ سے یہاں رک گئے تھے۔“
حضرت عائشہ نے کہا:
”اے اللہ کے رسول! آپ لوگوں کو سفر کی تکلیفیں اور سختیاں جھیلنا پڑیں ایسے میں جو لوگ گھروں میں رہ گئے کیا وہ بھی آپ کے ساتھ شریک ہیں؟“
رسول خدا نے فرمایا:
”ہم نے جہاں کہیں بھی سفر کیا، جہاں کہیں بھی خیمہ زن ہوئے، جو لوگ مدینہ میں ہیں وہ ہمارے ساتھ تھے۔ لیکن چونکہ یہ لوگ بیمار تھے اس لیے عملی طور پر ہمارے ساتھ نہ آسکے، قسم اس کی جس کے قبضہٴ قدرت میں میری جان ہے۔ ان کی دعا ہمارے ہتھیاروں سے زیادہ دشمن پر اثر انداز ہوئی۔“
(مغازی ج۳ ص ۱۰۵۶)
غزوہٴ تبوک سے ماخوذ نتائج
غزوہ تبوک موجب بنا کہ تاریخ اسلام میں پہلی بار مسلمانوں میں سے، ہر ایک کی عظمت و منزلت بڑھ جائے۔ وہ اعراب جو ہنوز شرک پر باقی تھے اس حقیقت کو سمجھ گئے کہ وہ لشکر جو میلوں کی مسافت کو نہایت سختی برداشت کرکے رومیوں سے لڑنے کے لیے طے کرسکتا ہے تو بڑی آسانی سے مشرکین عرب کا بھی مقابلہ کرسکتا ہے اور اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ تبوک کے واقعہ کے بعد جزیرة العرب کے مختلف قبائل کی طرف سے مدینہ میں وفود نا شروع ہو گئے تاکہ اپنے قبیلہ کے مسلمان ہو جانے کا اعلان کریں اس وجہ سے ہجرت کے نویں سال کوسن وفود کا نام دیا گیا ہے۔
جزیرة العرب کی سرحدوں کا سرحدی قبائل سے معاہدہ کے بعد محفوظ ہو جانا۔
منافقین کی کثیف ماہیت کا پردہ فاش ہو جانا۔ جو اس واقعہ میں بے حد رسوا ہوئے۔
غزوہٴ تبوک اس بات کا سبب بنا کہ مسلمان رسول خدا کی رحلت کے بعد بڑی آسانی سے شام اور روم کے مختلف علاقوں کو آزاد کرالیں۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma
آبی
سبز تیره
سبز روشن
قهوه ای