طائف کی جنگ
FehrestMozoei
البحث 
شوال سنہ ۸ ہجری قمری
لشکر اسلام کی کامیابی کے ساتھ حنین کی جنگ ختم ہوگئی۔ دشمن کے لشکر کا سردار مالک ابن عوف اپنے ساتھیوں کے ساتھ بھاگ کر مکہ سے ۷۵ کلومیٹر دور طائف میں پناہ گزیں ہوا۔
رسول خدا کچھ مجاہدین اسلام کو ساتھ لے کر طائف کی طرف روانہ ہوئے تاکہ طائف میں مشرکین کی آخری پناہ گاہ کو بھی توڑ دیا جائے۔
لشکر اسلام طائف پہنچا، مشرکین بلند دیواروں والے مضبوط قلعہ میں بے پناہ کھانے پینے کے سامان اور قلعہ کے اندر ہی پانی کے انتظام کے ساتھ نہایت اطمینان کے ساتھ مقابلہ کرنے لگے اور قلعہ کی دیواروں کے اوپر سے لشکر اسلام پر تیر بارانی شروع کر دیں۔ (سیرت ابن ہشام ج۴ ص ۱۲۱، ۱۲۵)
اسلحوں کی ٹیکنالوجی
اس مستحکم قلعہ کو فتح کرنے کے لیے سلمان نے ایک اسکیم بنائی اور اسے رسول خدا کی خدمت میں عرض کیا اسکیم یہ تھی کہ منجنیق ار پتھر و گولہ باری کرنے والی گاڑیوں کو کام میں لاکر قلعوں کو فتح کیا جاسکتا ہے رسول خدا نے سلمان کو حکم دے دیا کہ اس قسم کا اسلحہ مہیا کرو وہ بھی اپنے کام میں مشغول ہوگئے اور انہوں نے قلعہ کی دیواروں کے پار بڑے بڑے پتھر پھینکنے کے لیے منجنیق (جیسے آج کل کا ینک) اور قلعہ کی دیواروں سے نزدیک ہو کر ان کو تباہ کرنے کے لیے گولہ بار بنا کر میدان جنگ میں پہنچایا۔
گولہ اور پتھر بارانی کرنے والی گاڑی کی چھت موٹے اور سخت چمڑے کی بنی ہوئی تھی جس پر دشمنوں کے پھینکے گئے تیر اثر انداز نہیں ہوسکتے تھے۔
(مغازی واقدی ج۳ ص ۹۲۷)
اس طرح پیغمبر کے حکم سے بہت زیادہ مقدار میں خاردار شاخیں ”خارخسک“ قلعہ کے اطراف میں بکھیر دی گئیں یہ کانٹے دشمنوں کے سپاہیوں اور ان کے گھوڑوں اور اونٹوں کے پیروں میں چبھ جاتے تھے۔
اس گاڑی کے ذریعہ مجاہدین اسلام قلعہ کی دیوار تک پہنچ گئے اور آسانی سے دیوار کے کچھ حصہ کو گرانے اور قلعہ کو فتح کرنے میں دیر نہ تھی کہ دشمن نے آگ اور دمکتے ہوئے پتھروں سے حملہ کرکے گاڑی کے چمڑے کی چھت کو جلا کر تہس نہس کر ڈالا کچھ مجاہدین اسلام شہید یا زخمی ہوئے نتیجہ یہ رہا کہ قلعہ کو فتح کرنے کی کوشش بار آور نہ ہوسکی۔
واپسی
طائف کے گرد ۲۰ دن سے زیادہ لشکر اسلام کا محاصرہ رہا۔ قبیلہ ثقیف کے افراد بڑی پامردی سے مقابلہ کر رہے تھے اندرون قلعہ غذا اور رفاہی سامان کے ذخیروں کی موجودگی کی بناء پر یہ محاصرہ بے نتیجہ رہا اور قلعہ تک پہنچنے کے لیے طویل محاصرہ کی ضرورت ھتی۔
ایک طرف مدینہ سے دوری غدا اور جانوروں کے چارہ کی کمی کا خطرہ لشکر اسلام کو تھا ہی اس کے علاوہ حرمت کا مہینہ اور حج کا زمانہ نزدیک تھا۔
رسول خدا نے اعلان کیا کہ غلاموں میں سے جو کوئی بھی حصار کے نیچے آجائے گا وہ آزاد ہے، چند لوگوں نے اپنے آپ کو لشکر اسلام کے حوالہ کر دیا اور رسول خدا کے پاس آکر دشمن کے حالات کی اطلاع دے دی۔ رسول خدا نے ان لگوں کو آزاد کر دیا اور اس کے بعد اعلان کیا کہ طائف کا محاصرہ ختم کیا جائے اور سب واپس لوٹ جائیں۔ (طبقات ابن سعد ج۲ ص ۱۵۸)
ھوازن کے اسیروں کی رہائی
رسول خدا درہٴ ”جعرانہ“ یا ”جعرانہ“ (یہی زیادہ مشہور ہے) لوٹ آئے تاکہ اسیروں اور مال غنیمت کے بارے میں بتائیں کہ کیا کیا جائے۔ یہاں اسراء سائبان کے نیچے زندگی بسر کرتے تھے۔ قبیلہ ہوازن کے بعض وہ افراد جو جنگ میں شریک نہیں تھے اور اسیر نہیں ہوئے تھے۔ وہ رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسیران ہوازن کی رہائی کی درخواست کی۔ پیغمبر رحمت نے ان کی خواہش کو قبول فرمایا اور چھ ہزار اسیران ہوازن کو آزاد کر دیا۔ اس طرح جزیرة العرب کا بہت بڑا اور خطرناک قبیلہ اسلام کی طرف مائل ہوا۔
جنگ کی آگ بھڑکانے والوں کے رہبر مالک ابن عوف کو رسول خدا نے پیغام کہلوایا کہ اگر وہ اپنے آپ کو میرے حوالہ کر دے تو اس کا مال اس کی بیوی سب اسے واپس مل جائے گا اور (الگ سے) سو(۱۰۰) اونٹ بھی ملیں گے۔ قبیلہ ہوازن کے سلسلہ میں پیغمبر کی رحمت اور جواں مردی کے سلوک نے مالک ابن عوف جیسے سرکش کو رام کرلیا۔ وہ راتوں رات طائف سے بھاگ کر رسول خدا کی خدمت میں پہنچا اور مسلمان ہوگیا۔ اس طرح فتنہ کے بڑیعامل، قبیلہ ہوازن کے خطرہ ٹل گیا۔(سیرت ابن ہشام ج۴ ص ۱۳۳)
مالِ غنیمت کی تقسیم اسیروں کی آزادی کے بعد کچھ سپاہی رسول خدا کے گرد جمع ہوئے اور نہایت اصرار کے ساتھ مال کی تقسیم کے خواستگار ہوئے۔ آنحضرت نے فرمایا:
”خدا کی قسم! اگر ”یہامہ“ کے درختوں کے برابر بھی گوسفند اور اونٹ تمہارے لیے ہوں تو میں ان سب کو تمہارے درمیان تقسیم کروں گا۔ تم میرے اندر خوف، بخل اور جھوٹ نہیں پاؤ گے۔ اس مال غنیمت میں میرا حق پانچویں (خمس) حصہ سے زیادہ نہیں ہے۔ میں اسے بھی تم کو دے دوں گا۔ لہٰذا اگر کسی نے ایک سوئی اور دھاگہ بھی اٹھایا ہو تو، لوٹا دے اس لیے کہ غنیمت میں خیانت کی جزاء قیامت کے دن رسوائی، بدنامی اور آتش کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔“
اس وقت انصار میں سے ایک شخص ایک دھاگے کی ریل لے آیا اور کہا: ”میں اس دھاگے کو اپنے اونٹ کا سامان سلنے کے لیے اٹھا لے گیا تھا۔“
پیغمبر نے فرمایا کہ اس ریل میں سے میرا حق تیرے پاس رہ جاتا“ اس مرد انصاری نے کہا: کہ اگر اتنا سخت مسئلہ ہے تو مجھے دھاگے اور ریل کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اور اس کو مالِ غنیمت کے ڈھیر میں لے جا کر رکھ دیا۔“
وہ افراد جن کی دلجوئی کی گئی
جب مالِ غنیمت کی تقسیم شروع ہوئی اور تمام افراد کا حصہ دے دیا گیا تو رسول خدا نے خمس غنائم کو سرداران قریش کے درمیان تقسیم کر دیا اور ابوسفیان اس کے بیٹے معاویہ، حکم ابن حزام، حارث ابن حارث اور حارث اب ہشام جو کہ ”بہت زیمانہ ت گروہ شرک و کفر کے سردار تھے۔“ ان میں سے ہر ایک کو سو اونٹ اور عظمت و مرتبت کے لحاظ سے معمولی افراد کو پچاس یا پچاس سے کم اونٹ دیئے گئے۔
رسول خدا کی بخشش کی دو دلیلیں تھیں ایک تو یہ کہ یہ لوگ رسول خدا کی عطوفت و محبت سے متاثر ہوں ور ان کا دل اسلام کی طرف مائل ہو اور ان سے کینہ ختم ہو جائے، اصطلاح میں اس عمل کو ”تالیف قلوب“ کہتے ہیں، فقہ اسلام میں زکوٰة کے مصارف میں سے ایک مصرف یہ بھی ہے۔ دوسری بات یہ تھی کہ جزیرة العرب کے مشرک قبائل کے سربرآوردہ افراد اسلام کو قبول کرلیں تاکہ کم سے کم لڑائی ہو اور جزیرة العرب کے باقی افراد بھی حلقہ بگوش اسلام ہو جائیں۔
منافقین کا اعتراض
رسول خدا کی بڑی بخشش بہت سے سپاہیوں کے اعتراض کا سبب بنیں اسی درمیان ان افراد نے سب سے زیادہ اعتراض کی آواز بلند کی جو بظاہر احکام دین پر توجہ دیتے تھے مگر باط میں ان کو دین سے کوئی سروکار نہ تھا وہ امر دین میں تاویل وغیرہ کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔ دل کے روگی۔ ”ذالخویصرہ“ نے عتاب آمیز لہجہ میں رسول خدا سے کہا ”اے محمد آپ خدا سے ڈریں اور عدل و انصاف سے کام لیں۔”رسول خدا اس شخص کی باتوں سے برہم ہوئے اور فرمایا: اگر میں انصاف سے کام نہ لوں تو عدالت کس کے پاس ملے گی؟ اصحاب میں سے ایک صحابی نے عرض کی کہ حضور اگر اجازت ہو تو میں جسارت کرنے والے کا سر تن سے جدا کر دوں۔ لیکن حضرت نے اجازت نہیں دی اور فرمایا کہ:
”جلد ہی تمہیں ایسے پیر و ملیں گے جو دین میں اتنی باریک بینی سے کام لیں گے کہ دین سے خارج ہو جائیں گے۔“
(سیرت ابن ہشام ج۴ ص ۱۳۹)
دوستوں کے آنسو
رسول خد کی بخششوں نے قریش اور قبائل کے سربرآوردہ افراد یہاں تک کہ انصار کو بھی رنجیدہ کر دیا اور وہ یہ سوچنے لگے کہ یہ بخششیں خاندان اور رشتہ داریوں کی بنا پر ہیں۔
رسول خدا کو انصار سے یہ امید نہ تھی، آپ رنجیدہ ہوئیں اور ان سے فرمایا:
”کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ دوسرے افراد گوسفندوں اور اونٹوں کے ساتھ اپنے گھر کو جائیں اور تم رسول خدا کے ہمراہ اپنے گھروں کو واپس جاؤ۔“
انصار رسول خدا کی بات سن کر شدت سے روئے اور عرض کیا:
”یہی ہونا چاہیے کہ رسول خدا ہمارے حصہ میں ہوں ہم اسی پر راضی ہیں۔“
مدینہ کی طرف واپسی
مالِ غنیمت کی تقسیم تمام ہوئی، رسول خدا نے عمرہ کے قصد سے مقام جعرانہ سے احرام باندھا اور زیارت خانہ خدا کے لیے مکہ کی سمت روانہ ہوگئے۔
عمرہ کی ادائیگی کے بعد آپ نے عتاب ابن اسید اور معاذ ابن جبل کی ”جنہیں مکہ کا امیر اور معلم علم دین بنا کر اس شہر میں رکھا تھا“ ماموریت کی مدت بڑھا دی۔
اس کے بعد ذی الحجہ کے مہینہ میں مہاجرین اور انصار کے ساتھ مدینہ لوٹ آئے۔
غزوہٴ تبوک ایک ہولناک خبر
سنہ ۹ ہجری رجب کا مہینہ بڑی گرمی کا مہینہ تھا شدید قحط اور گرانی کے ایک زمانہ کے بعد کہ جس سے لوگ حد درجہ پریشان ہوچکے تھے۔ پھلوں اور خرمے کے تیار ہونے اور چننے کا زمانہ آگیا۔ لوگوں نے ذرا اطمینان کا سانس لینے کی سوچی ہی تھی کہ ہولناک قسم کی خبریں پیغمبر کے پاس آنے لگیں کہ عربستان کے شمال مشرق کی سرحدوں پر یعنی روم کے مطلق العنان بادشاہ کی طرف سے مسلمانوں کو دھمکی دی جا رہی ہے۔
نبطی تجار جو ”میدہ اور زیتون“ کا تیل فروخت کرنے کے لیے مدینہ آتے تھے انہوں نے کہا کہ ”بادشاہ روم“ ”ہرقل“ نے بلقاء کے علاقہ میں ایک عظیم لشکر جمع کر رکھا ہے۔ اس لشکر کا کھانے پینے کا اور ایک سال کی تنخواہ کا انتظام بھی اس نے کر دیا ہے۔ اور سرحدی قبائل عرب لخم، جذم سے بھی اپنے سے ہم آہنگی کرلی ہے اور اسلامی سرزمین پر حملہ اور اسلامی تحریک کو مٹا دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
رسول خدا ایک ایسا عظیم لشکر جمع کرنے کے لیے آمادہ ہوگئے جو روم کی بڑی طاقت کے لشکروں سے مقابلہ کی طاقت رکھتا ہو۔
پیغمبر جنگوں، میں اپنا آخری مقصد معین نہیں فرماتے تھے۔ اس عادت کے برخلاف اس بار لشکر جمع کرنے کے آغاز ہی کے دنوں سے اس جنگ کے مقصد کا آپ نے اعلان کر دیا تاکہ لشکر دشت سوزاں میں دور دراز کے راستہ کو طے کرنے، دشوار کام کے انجام دینے اور نہایت طاقتور دشمن سے جنگ کرنے کے لیے تمام تیاریوں کے ساتھ ضروری ساز و سامان اور غذا لے کر روانہ ہوں۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma
آبی
سبز تیره
سبز روشن
قهوه ای