شہر مکہ میں داخلہ
FehrestMozoei
البحث 
رسول خدا لشکر اسلام کے ساتھ فاتحانہ شہر مکہ میں داخل ہوئے آپ کے چہرے اقدس پر ایسا رعب و داب اور شکوہ و جلال تجلی ریز تھا جو تعریف کی حد سے باہر ہے۔
اسلام کو بہت بڑی فتح نصیب ہوئی تھی آپ اہل مکہ کے گھروں میں نہیں گئے بلکہ آپ نے جاں نثار کرنے والے اور اپنے مہربان چچا ابوطالب کے مزار کے پاس مقام ”حجون“ میں خیمہ لگایا۔
رسول خدا کچھ دیر تک خیمہ میں آرام فرماتے رہے پھر غسل کے بعد جنگی لباس پہنا اپنے مرکب پر سوار ہوئے مجاہدین بھی تیار ہو کر مسجدالحرام کی طرف روانہ ہوئے۔ جب آپ کی نگاہ کعبہ پر پڑی تو آپ آگے بڑھے اور آپ نے حجر اسود کو بوسہ دیا۔ درآں حالانکہ آپ مرکب پر سوار تھے۔ اسی حالت میں تکبیر کہتے جاتے تھے اور لشکر اسلام آپ کے جواب میں صدائے تکبیر بلند کرتا جاتا تھا۔
”حق آیا اور باطل ختم ہوگیا اور باطل تو ختم ہونے والا ہی تھا۔“
(اسرار:۸۱)
اتحاد کی آواز
حضرت نے کعبہ کی کنجی ”عثمان بن طلحہ“ سے لی اور دروازہ کھول دیا۔ تمام مسلمانوں نے مل کر دعائے وحدت پڑھی۔
لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ صدق وعدہ ونصرعبدہ و دھزم الاحزاب وحدہ
آپ کعبہ کے اندر تشریف ل گئے اور جناب ابراہیم اور دوسرے افراد کی جو تصویریں مشرکین نے بنا رکھی تھیں ان کو دیوار کعبہ سے نکال دیا۔ اور اسی حالت میں آپ نے فرمایا:
”خدا ان لوگوں کو قتل کرے جو ان چیزوں کی تصویریں بناتے ہیں جن کو انہوں نے پیدا نہیں کیا ہے۔“
رسول خدا نے علی علیہ السلام کے ساتھ جو بتوں کو توڑنے کے لیے آپ کے کاندھے پر سوار ہوئے تھے تمام بتوں کو توڑ ڈالا اور آپ نے خانہٴ توحید کو تمام کفر و شرک کی علامتوں سے پاک کر دیا۔ اس کے بعد آپ نے لوگوں کے سامنے جن کی آنکھیں فرمان پیغمبر کی منتظر تھیں مندرجہ ذیل خطبہ ارشاد فرمایا:
”اس خدا کی تعریف جس نے اپنا وہدہ سچ کر دکھایا اور اپنے بندہ کی مدد کی، جس نے انہا احزاب (گروہوں) کو شکست دی، تم کیا کہتے ہو اور کیا تصور کرتے ہو؟“ مکہ والوں نے کہا کہ ”خیرو نیکی اور نیکی کے سوا ہم کو اور کوئی گمان نہیں ہے کہ آپ بزرگوار اور صاحب اکرام کے بھتجیے ہیں۔“ رسول خدا نے فرمای کہ ”میں وہی بات کہتا ہوں جو ہمارے بھائی یوسف نے کہی تھی۔“ قال…۔
آج تمہارے اوپر کوئی ملامت نہیں ہے خدا تم کو بخش دے وہ رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ مہربان ہے۔
اس کے بعد آپ نے فرمایا: کہ ہر وہ ربا (سود) جو جاہلیت میں معمول بن گیا تھا اور ہر وہ خون اور مال جو تمہاری گردن پر تھا اور تمام فضول افتخار، پامال اور ختم کر دیئے گئے۔ لیکن کعبہ کی نگہبانی کلید برداری اور حاجیوں کو سیراب کرنے کا افتخار باقی ہے جو لوگ تازیانہ سے غلطی و خطا سے قتل کر دیئے جائیں ان کے لیے سو (۱۰۰) ایسی اونٹنیاں دیت کے طور پر دی جائیں جن میں چالیس اونٹنیاں حاملہ ہوں۔ خدا نے جاہلیت کے تکبر و غرور اور آباؤ اجداد پر افتخار کو خت کر دیا۔ تم آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا کئے گئے ہیں اور تم میں سب سے زیدہ خدا کے نزدیک مکرم وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ بے شک خدا نے مکہ کو زی و آسمان کی پیدائش کے وقت حرم امن قرار دیا ہے۔ اور اللہ کی عطا کی ہوئی حرمت کی بنا پر یہ ہمیشہ حرم الٰہی رہے گا۔
ہم سے پہلے اور ہمارے بعد کسی کے لیے بھی اس کی حرمت کا پامال کرنا جائز نہ تھا اور نہ جائز ہے۔ اور میرے لیے بھی اس کی حرمت کو برباد کر دینا ایک دن تھوڑی دیر کے علاوہ جائز نہ تھا۔ (اور آپ نے اپنے ہاتھ سے تھوڑی مدت کی طرف اشارہ فرمایا) مکہ کے جانوروں کاشکار نہ کرنا چاہیے اور نہ ان کو ہنکانا چاہیے۔ اس کے درختوں کو کاٹنا نہیں چاہیے اور اس میں پڑی ہوئی گم شدہ چیز کو اٹھانا جائز نہیں ہے۔ مگر اس کے لیے جو اس کے اعلان کرنے کا ارادہ رکھتا ہو اور اس کے سبزے اکھاڑنا بھی جائز نہیں ہے۔ عباس نے کہا اے اللہ کے رسول سوائے ”اذخر“ (۱)کے پودوں کے کہ جن کو اکھاڑ پھینکنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ قبروں کے لیے اور گھروں کو صاف کرنے کے لیے بھی۔ ”رسول خدا تھوڑی دیر تک چپ رہے پھر فرمایا: سوائے اذخر کے اس کا اکھاڑنا حلال ہے۔ وارث کے بارے میں وصیت نہیں ہے… اور کسی عورت کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ اپنے شوہر کی دولت سے اجازت کے بغیر بخشش و عطا کرے مسلمان، مسلمان کے بھائی ہیں اور تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ دشمن کے مقابل سب متحد اور ہم آہنگ رہیں ان کا خون محفوظ رہے ان میں دور و نزدیک سب برابر ہیں۔ جنگ میں ان میں سے ناتواں اور توانا دونوں برابر مالِ غنیمت سے بہرہ مند ہوں۔ لشکر کے میمنہ اور میسرہ میں شریک کوئی معیار نہیں ہے مسلمان کافر کے خون کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا اور کوئی صاحب پیمان، معاہدہ میں قتل نہیں کیا جائے گا۔ دو مختلف دین رکھنے والے ایک دوسرے کی میراث نہیں پائیں گے۔ مسلمان اپنے علاقہ والوں کو ہی صدقات و زکوٰة دیں گے دوسری جگہ والوں کو نہیں۔ عورت اپنی پھوپھی اور خالہ کی سوتن نہ بنے۔ مدعی کو دلیل اور شاہد پیش کرنا چاہیے اور منکر کے ذمہ قسم ہے۔
کوئی عورت بغیر محرم کے ایسے سفر پر نہ جائے جس کی مدت تین روز سے زیادہ ہو۔ عیدالفطر اور عید قربان کے روزوں سے میں تم کو منع کرتا ہوں۔ اور ایسے لباس پہننے سے منع کرتا ہوں جس سے تمہاری شرمگاہ کھلی رہے یا ایسا لباس پہننے سے تم کو منع کرتا ہوں کہ جب تمہارے لباس کا کنارہ ہٹ جائے تو تمہاری شرمگاہ نظر آنے لگے۔ مجھے امید ہے کہ تم نے یہ سارے مطالب سمجھ لیے ہوں گے۔
(مغازی واقدی ج۲ ص ۸۳۶)
بلال کی آواز
ظہر کا وقت آپہنچا رسول خدا نے بلال کو حکم دیا کہ کعبہ کی چھت پر جا کر اذان دیں جس وقت بلال بند آواز میں ”اشہدان محمد رسول اللہ“ تک پہنچے تو مشرکین کے سرکردہ افراد کہ جو گھروں میں چھپ گئے تھے ان میں سے ہر ایک نے ایک الگ بات کہی اور اہانت کی۔
ابوسفیان نے کہا: ”لیکن میں کچھ نہیں کہتا اس لیے کہ اگرمیں کوئی بات کہوں گا تو یہی ریگزار محمد کو خبر پہنچا دے گی اور ہر ایک کی بات آنحضرت تک پہنچ جائے گی۔
بت پرست، بت شکن
رسول خدا نے ان بت پرستوں سے بیعت لی جو جو مسلمان ہوگئے تھے اور عورتوں کے لیے بھی پانی کا ایک برتن لایا گیا اور اس میں تھوڑا سا عطر ملالیا گیا۔ عورتوں نے اپنے ہاتھ کو بیعت کی غرض سے پانی کے اندر ڈالا حضرت نے ان سے یہ عہدپیمان لیا کہ وہ شرک اختیار نہ کریں زا اور چوری نہ کریں۔
پھر رسول خدا نے سب کو یہ حکم دیا کہ جو بت ان کے پاس ہیں ان کو توڑ ڈالیں۔ یہاں تک کہ آپ نے بڑے بڑے مشرکین کو بتوں کے توڑنے کے لیے اطراف میں بھیجا۔
یہ لوگ بتوں پر اعتقاد رکھتے تھے اور اپنے نفع کے لیے بتوں کی حمایت کرتے تھے۔ اب خود ہی بت شکنی میں مصروف ہوگئے۔
آزاد شدہ شہر مکہ کے لیے والی اور معلم دین کا تقرر
مشرک قبیلے ”ہوازن اور ثقیف“ کی سازشوں کی خفیہ خبریں پیغمبر تک پہنچ چکی تھیں۔ اب ان کے علاقوں میں پہنچ کر ان کی سازشوں کو کچل دینا پیغمبر کے لیے ضروری تھا۔ آپ نے ”عتاب ابن اسید“ جو کہ چوبیس سال کے ایک لائق اور مدبر جوان تھے۔ کو شہر مکہ کا والی بنایا۔(سیرت ابن ہشام)
رسول خدا نے معاذ ابن جبل کو جو معارف اسلام سے واقف فقیہ تھے۔ تبلیغ اسلام اور مکہ والوں کو احکام دین سے آشنا کرنے کے لیے اس شہر کے معلم کے عنوان سے معین فرمایا۔ فتح مکہ کے سلسلہ میں سورہ نصر نازل ہوئی۔
(مغازی واقدی ج۲ ص ۸۸۹)
اسلام کے نام پر خونریزی اور جرائم
فتح مکہ کے بعد رسول خدا نے ”خالد ابن ولید“ کو بت شکنی اور تبلیغ اسلام کے لیے ۳۵۰، مہاجرین و انصار کے ساتھ قبیلہ بنی جذیمہ کی طرف بھیجا۔ خالد نے وہاں پہنچنے کے بعد ان لوگوں کو اپنی طرف سے عدم تعرض کے بارے میں مطمئن کرکے بنی جذیمہ سے ہتھیار کھوالیے اور جاہلیت کے زمانہ میں خالد کے چچا کو بنی جذیمہ نے قتل کر دیا تھا۔ لہٰذا اس نے فرمان رسول خدا کے خلاف ان کو اسیر کیا اور پھر قتل کا حکم دے دیا۔ جانبازان مہاجرین و انصار نے حکم پر عمل کئے بغیر اپنے اسیروں کو آزاد کردیا بنی سلیم خالد کے گروپ نے اپنے اسیروں کو قتل کر ڈالا اور اس طرح سے کچھ بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
جب یہ خبر سول خدا تک پہنچی تو آپ نے فرمایا:
”خدایا! خالد نے جو کیا ہے اس کے لیے میں تیری بارگاہ میں بیزاری کا اظہار کرتا ہوں۔“
پھر آپ نے علی علیہ السلام کو معین فرمایا کہ وہ مقتولین کا خوں بہا اور ستم رسیدہ افراد کا حرجانہ ادا کریں۔
جو مال رسول خدا نے دیا تھا علی علیہ السلام اسے اپنے ساتھ لے کر بنی جذیمہ کے پاس پہنچے اور آپ نے مقتولین کا خون بہا اور نقصانات کا حرجانہ ادا کیا۔ یہاں تک کہ لکڑی کے اس برتن کا بھی حساب ہوا جس میں کتا پانی پیتا تھا جب آپ اس بات سے مطمئن ہوگئے کہ اب خون بہا اور حرجانہ باقی نہیں رہا جو مال باقی بچا تھا اس کو بھی آپ نے ن کے درمیان تقسیم کر دیا تاکہ وہ مصیبت زدہ افراد رسول خدا سے راضی ہو جائیں۔ (سیرت ابن ہشام ج۴ ص ۷۰،۷۱)
حضرت علی علیہ السلام جب واپس پلٹے تو آپ نے اپنے کام کی رپورٹ آنحضرت کی خدمت میں پیش کی آپ نے فرمایا:
”میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں، تم نے بڑا عمدہ کام کیا۔ تم نے جو کیا وہ میری نظر میں سرخ بالوں والے اونٹ رکھنے سے بہتر ہے۔“ (تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۶۱)
جنگ حنین
۵ شوال سنہ ۸ ہوجری
مشرکین کے ہم مرکز مکہ کی فتح نے اطراف مکہ کے مشرک قبیلوں کے دلوں میں شدید رعب و وحشت پیدا کر دیا۔ ان قبیلوں نے تحریک اسلام کی موج کو روکنے کے لیے یہ ارادہ کیا کہ تمام قبائل کے اتحاد اور ملاپ سے ایک وسیع نقشہ کے تحت غفلت کے عالم میں مسلمانوں کے حملہ سے پہلے ہی ان پر حملہ کر دیا جائے۔
’ھوازن، ثقیف، نضر، سعد“ اور چند دسرے قبیلوں نے مل کر اسلام کے خلاف ایک مشترکہ محاذ بنایا اور مالک ابن عوف جو ایک جنگجو اور دلیر جوان تھا اسی کو لشکر کا سپہ سالار چنا گیا۔(۲)
َدشمن کی سازش سے پیغمبر کی آگاہی
جنگی محاذ کی تشکیل اور دشمن کی سازشوں کی خبر رسول خدا کے کانوں تک پہنچی حضرت نے سراغرساں فورس کے ایک آدمی کو دشمن کے جنگی راز کی اطلاعات فراہم کرنے کے لیے متحد قبائل کے درمیان بھیجا۔ پیغمبر کا فرستادہ دشمن کے لشکر میں گھس کے ان کے نقشوں اور ان کے خفیہ جنگی ارادوں سے باخبر ہوگیا اور ان کے لشکر کا تجزیہ کرنے کے بعد مکہ واپس آیا اور جو کچھ دیکھا اور سنا تھا وہ نحضرت کی خدمت میں بیان کر دیا۔
حنین کی طرف روانگی
دشمن کے حالات سے مکمل آگاہی کے بعد رسول خدا ۱۲ ہزار سپاہیوں، دس ہزار فتح مکہ میں شرکت کرنے والے مہاجرین و انصار اور دو ہزار ان دلیران مکہ کے ساتھ جو اسلامی تحریک سے آملے تھے۔ مکہ سے دشمن کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ لشکر جزیرہ کی تاریخ یں بے نظیر تھا۔ ساتھیوں میں سے ایک شخص نے سفر کی ابتدا میں جب جاں بازوں کی کثرت اور لشکر اسلام کے جنگی ساز و سامان کو دیکھا تو کہا کہ ”اب مسلمان سپاہ کی کمی کی بنا پر مغلوب نہیں ہوں گے۔“ وہ اس بات سے غافل تھا کہ صرف افراد اور ساز و سامان ہی کامیابی کا سبب نہیں ہوتے۔
دشمن کی اطلاعات اور ان کی تیاری
دشمن کے لشکر کے سپہ سالار مالک ابن عوف نے اپنے تین آدمیوں کو جاسوسی اور لشکر اسلام کا تجزیہ کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ وہ لوگ لشکر اسلام کو دیکھنے اور ان کی تمام عظمت و شکوہ کا مشاہدہ کرنے کے بعد وحشت زدہ ہو کر واپس گئے اور لشکر اسلام کی عظیم طاقت کی خبر اپنے سپہ اسالر کو پہنچائی۔ اس خبر سے مالک کو یہ احساس ہوگیا کہ آمنے سامنے کی جنگ میں اس کا لشکر، لشکر اسلام کا مقابلہ نہیں کرسکے گا۔ لہٰذا اس نے اپنے آدمیوں کو حکم دیا کہ حنین کی بلندیوں پر جنگی اعتبار سے مناسب جگہوں، پتھروں کے پیچھے اور پہاڑ کی بلندیوں پر مورچہ سنبھال لیں اور اس تنگ جگہ پر لشکر اسلام کے آتے ہی یکبارگی حملہ کر دیں۔ جنگجو افراد جنگ میں زیادہ مقاومت کا مظاہرہ کریں اس غرض سے اس نے حکم دیا کہ عورتوں، بچوں، چوپایوں اور اپنے مال کو بھی اپنے ساتھ لے لیں تاکہ ان سب کے دفاع میں زیادہ کوشش کریں۔
درہ حنین میں
مکہ سے ۲۸ کلومیٹر مشرق میں واقع درہ حنین کے نزدیک لشکر اسلام شب سہ شنہ ۱۰ شوال سنہ ۸ ہجری کو پہنچ گیا۔ رسول اسلام کے حکم کے مطالق لشکر اسلام رات کو سو گیا اور صبح سویرے خالد ابن ولید کی کمان میں لشکر کا ہراول دستہ تیار کرکے آگے بھیج دیا۔
خالد شمال و مشرق مکہ سے ۱۲ کلومیٹر دور مقام جعرانہ تک بڑھے چلے گئے دس شوال صبح کو دونوں لشکر آپس میں ملے اور درہ حنین میں داخل ہوگیا۔
(مغازی واقدی ج۳ ص ۸۹۹)
فرار
دشمن جو لشکر اسلام کی آمد کے لیے آمادہ اور منتظر تھے یکبارگی مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے صبح کی تاریکی ان کی مددگار تی سنگلاخ ان کی پناہ گاہ تھے۔ ان پناہ گاہوں سے لشکر اسلام پر تیر بارانی ہو رہی تھی اور گھوڑے بھاگ رہے تھے۔
فوج بھاگنے لگی بنی سلیم کے سواروں نے جو خالد کی کمان میں تھے ابتدا ہی میں فرار کو قرار پر ترجیح دی اس کے بعد دو ہزار مکی بھاگنے والے افراد کے ساتھ ہوگئے پھر تو بقیہ افراد بھی بھاگنے لگے۔ رسول خدا کے پاس صرف دس آدمی رہ گئے آپ دشمن کے نرغے میں گھرے نہایت دلیری سے ان کا مقابلہ کر رہے تھے اور ان کے ارادگرد جو لوگ تھے وہ مردانہ وار جنگ میں مصروف تھے۔ اس مقابلہ میں ایمن نامی لشکر اسلام کا ایک سپاہی اپنے رہبر اور مقصد کا دفاع کرتے ہوئے خاک و خون میں غلطاں ہو کر شہادت پر فائز ہوگیا۔ (سیرت ابن ہشام ج، ص ۸۵، ۸۶)
واپسی، مقابلہ، کامیابی
پیغمبر نے اس حساس موقع پر مخصوص انداز سے متفرق اور بھاگے ہوئے لشکر کو جمع کیا جب آپ نے لشکر کو فرار کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: ”لوگو! کہاں بھاگے جا رہے ہو؟“ اس کے بعد پیغمبر نے اپنے چچا عباس سے ”جن کی آواز بلند تھی“ کہا کہ آپ ان کو آواز دیں کہ ”اے گروہ انصار، اے اصحاب بیعت رضوان، پیغمبر کی طرف پلٹ آؤ۔“
پیغمبر کی استقامت و پائیداری اور عباس کی آواز سے مسلمان ہوش میں آگئے اور ایک کے بعد ایک پلٹ آئے۔ مقابلہ کرنے والے لشکر کی تعداد سو(۱۰۰) تک پہنچ گئی اور بہادروں کی زبردست جنگ شروع ہوئی اس جنگ کی تپش میں پیغمبر نے فرمایا ہ اب جنگ کا تنور دہک اٹھا ہے۔
میدان رزم و پیکار کے شجاع ترین بہادر حضرت علی علیہ السلام شروع ہی سے شمع نبوت کے اردگرد پروان ہو کر چکر لگاتے اور جان کی بازی لگا کر پیغمبر کا دفاع کر رے تھے۔ اس عرصہ یں آپ نے بنی ہوازن کے ۴۰ جیالوں کو جہنم رسید کیا۔
رسول خدا نے اپنی باریکی بین اور حکیمانہ کمان دشمن کے لشکر کو غفلت میں ڈال دینے والے حملہ کے برخلاف ایک نئی لہر کا آغاز کیا۔ آپ بہ نفس نفیس رجز پڑھتے جاتے تھے اور ایسی شجاعت کے ساتھ دشمن سے مقابلہ کرتے جاتے تھے جو تعریف و بیان حدود سے باہر ہے۔ دشمن ہاتھ آئی ہوئی فتح کو بچانے کی کوشش کر رہے تھے لیکن لحظہ بہ لحظہ کمزور ہی ہوتے جا رہے تھے اور سامنے لشکر اسلام کی ہر لحظہ تعداد بڑھتی جا رہی تھی۔
آخرکار دشمن کی دفاعی لائن ٹوٹ گئی، مال و زن و فرزند کی حمایت دشمن کی پائیداری کے لیے مضبوط سہارا نہ بن سکی۔ لشکر اسلام کے واپس پلٹ آنے اور ان کی شجاعانہ جنگ کی بدولت مطلع صاف ہونے کے ساتھ ساتھ دشمن کی شکست کے آثار نمایاں ہوئے اور اسلام کو کامیابی ملی۔ چھ ہزار دشمن اسیر ہوئے، سپر اور بہت زیادہ مال غنیمت ہاتھ آیا جو کہ چوبیس ہزار اونٹ چالیس ہزار گوسفند اور تقرباً آٹھ سو پچاس کلوگرام چاندی پر مشتمل تھا۔ یہ مال چھوڑ کر میدان جنگ سے بھاگ گئے۔
(تاریخ پیامبر مصنف مرحوم ایلنی ص ۵۵۲)
عورتوں اور بوڑھوں کو قتل نہ کرو
جب جنگ کی آگ بھڑک رہی تھی تو اس وقت رسول خدا ایک عورت کی لاش کے پاس سے گزرے لوگوں نے آپ کو بتایا کہ یہ وہ عورت ہے جن کو خالد بن ولید نے قتل کیا ہے۔
پیغمبر نے مجاہدین میں سے ایک شخص کے ذریعہ حکم بھیجا کہ خالد کے پاس پہنچ کر کہو کہ رسول خدا نے تمہیں عورتوں اور بوڑھوں کو قتل کرنے سے منع کیا ہے۔
(مغازی ج۳ ص ۹۱۳)
چند قدم آگے بڑھ کر آپ نے ایک دوسری عورت کی لاش دیکھ کر فرمایا:
”اس کو کس نے قتل کیا ہے؟“ ایک شخص نے آگے بڑھ کر کہا: ”اے اللہ کے رسول! میں نے اسے قتل کیا ہے۔ میں نے اس کو اپنی سواری کی پشت پر بٹھایا تھا اس نے مجھے مار ڈالنا چاہا تو میں نے اس کو قتل کر دیا۔“ پیغمبر نے کہا ”اس کو سپرد خاک کر دو۔“ (حوالہ سابق)
دشمن کے فرار کے بعد آپ نے حکم دیا کہ تمام مالِ غنیمت ”بدل ابن ورقاء“ کی نگرانی میں مقام ”جعرانہ“ میں جمع کیا جائے اور لشکر کا ایک دستہ ان مشرکین کے تعاقب میں جائے جو مقام ”نخلہ“ اور ”اوطاس“ تک بھاگ گئے تھے۔
تعاقب کرنے والا دستہ دشمن کو مکمل شکست دے کر اپنے مرکز پر پلٹ آیا۔
آغاز جنگ میں مسلمانوں کی شکست کا تجزیہ
غرور، اپنی کثرت اور جنگی ساز و سامان پر اعتماد اور نتیجہ میں خود فریبی اور غیبی امداد سے غفلت، آغازِ جنگ میں مسلماوں کی شکست و فرار کے اہم اسباب تھے۔
جیسا کہ خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
”خدا نے بہت سی جگہوں پر تمہاری مدد کی منجملہ ان کے جنگ حنین میں اس نے تمہاری مدد کی، اس وقت جب تم کو تمہاری کثرت نے تعجب میں ڈال دیا، لیکن اس نے تمہیں ذرا سا بھی فائدہ نہیں پہنچایا اور زمین اپنی وسعتوں کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی پھر تم رو گرداں ہو کر بھاگ گئے۔ پھر خدا نے پیغمبر اور مومنین پر سکینہ (اطمینان) نازل کیا اور ایسا لشکر نازل کیا جس کو تم دیکھتے نہ تھے اور کافروں کو ذلت و عذاب میں ڈال دیا۔(توبہ:۲۵)
دوسرا سبب لشکر اسلام میں منافقین جیسے ابوسفیان وغیرہ کا وجود تھا۔ جو دشمن کے پہلے ہی حملے سے بھاگ کھڑے ہوئے اور نتیجہ میں دوسرے سپاہیوں کے حوصلوں کی کمزوری کا سبب بنے اور وہ لوگ بھی بھاگ گئے۔
شب کی تاریکی اور جغرافیائی حالات بھی دشمن کے لیے معاون ثابت ہوئے۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma
آبی
سبز تیره
سبز روشن
قهوه ای