طرفین کے خسارے کا تخمینہ
FehrestMozoei
البحث 
آخری قلعہ کی فتح کے بعد یہودی ہار گئے، لشکر اسلام کی جیت ہوئی اس جنگ میں یہودیوں کے ۹۳ سے زیادہ بڑے بڑے، جنگجو افراد ہلاک ہوئے جبکہ شہداء اسلام کی تعداد ۲۰ افراد سے آگے نہ بڑھی۔ اس یطرح قلعوں میں حملہ کے نتیجہ میں کچھ یہودی لشکر اسلام کی اسیری میں آئے۔
اسیروں کے ساتھ اچھا برتاؤ
قلعوں میں سے جب ایک قلعہ فتح ہوا تو حی ابن اخطب کی بیٹی صفیہ اور ایک دوسری عورت اسیر ہوئی تو بلال ان دونوں کو ادھر سے رسول کی خدمت میں لائے۔ جہاں یہودیوں کے مقتولین کی لاشیں پڑی تھیں۔ پیغمبر اٹھے اور انہوں نے صفیہ کے سر پر عبا ڈال دی اور ان دونوں عورتوں کے آرام کے لیے لشکر گاہ میں ایک جگہ معین فرما دی پھر بلال سے سخت لہجہ میں کہا ”کیا تمہارے دل سے بالکل مہر و محبت ختم ہوگئی ہے کہ تم نے ان دونوں عورتوں کو ان کے عزیزوں کے پاس سے گزارا؟“ صفیہ کے دل پر پیغمبر کی محبت نے بڑا اثر کیا بعد میں صفیہ پیغمبر کی باوفا بیویوں کے زمرہ میں شامل ہوئیں۔(مغازی واقدی ج۲ ص ۶۷۳)
کامیابی کے بعد درگزر
تاریخ کے فاتحین نے جب بھی دشمن پر کامیابی حاصل کی تو انہوں نے شمشیر انتقام سے اپنے کینہ کی آگ کو بجھایا اور دشمن کی تباہی میں بڑی بے رحمی کا ثبوت دیا ہے لیکن خدا رسیدہ افراد نے کامیابی کے موقع پر دشمنوں کے ساتھ نہایت لطف و محبت کا سلوک کیا ہے۔ فتح خیبر کے بعد، خیبر کے جن افراد نے زیادہ مال صرف کرکے احزاب کی عظیم شورش برپا کی تھی اور اسلام کو خاتمہ کے دہانہ پر لاکھڑا کیا تھا ان کے سرداروں پر پیغمبر رحمت کے لطف و عطوفت کا سایہ رہا آپ نے ان کو یہ اجازت دی کہ وہ لوگ سرزمین خیبر کی آمدنی کا آدھا حصہ مسلمانوں کو دیں۔
آنحضرت نے فتح کے موقع پر نیزہ کے زور سے ہرگز ان پر اسلام مسلط نہیں کیا یہاں تک کہ آپ نے ان کے مذہبی شعائر اور رسوم کی ادائیگی پر بھی کوئی پابندی عائد نہ کی۔ (حوالہ سابق)
خیبر کی غنیمتیں
قلعہ خیبر فتح کر لینے اور یہودیوں کو خلع سلاح کرنے کے بعد کافی مقدار میں ہتھیار اور جنگی ساز و سامان، یہودیوں کے جمع کئے ہوئے خزانے کہ جن میں بہت زیادہ زیورات، کھانے کے برتن، کپڑے بہت سے چوپائے اور کھانے پینے کے دوسرے بہت زیادہ سامان ہاتھ لگے جو کہ لشکر اسلام کو غنیمت کے طور پر ملے۔
رسول خدا نے حکم دیا کہ سپاہیوں میں سے ایک شخص جانبازان اسلام کے درمیان اعلان کرے کہ
”ہر مسلمان پر لازم ہے کہ مال غنیمت کو بیت المال میں لاکر جمع کر دے۔ چاہے وہ ایک سوئی اور تاگاہی کیوں نہ ہو۔ اس لیے کہ خیانت ننگ و عار ہے اور قیامت میں اس کی سزا آگ ہے۔“ (مغازی واقدی ج۲ ص ۶۸۰)
پھر عادلانہ تقسیم کے لیے تمام مالِ غنیمت ایک جگہ جمع ہوا اور آنحضرت نے حکم دیا کہ اس میں سے کچھ نقد کی صورت میں لوگ تبدیل کر لائیں۔
”فروہ‘ جو مالِ غنیمت بیچنے کے کام پر مامور کئے گئے تھے۔ نہوں نے مالِ غنیمت میں سے ایک دستار دھوپ سے بچنے کے لیے اپنے سر پر باندھ رکھی تھی۔ وہ فراغت کے بعد بے خبری کے عالم میں اپنے خیمے میں چلے گئے وہاں ان کو ایک دم دستار کا خیال آیا تو فوراً ہی خیمے سے باہر نکلے اور اس دستار کو مالِ غنیمت کے ڈھیر میں رکھ دیا۔ جب رسول خدا کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا:
”یہ آگ کی ایک دستار تھی جو تم نے اپنے سر پر باندھ رکھی تھی۔“ (حوالہ سابق)
مالِ غنیمت میں خیانت کی سزا
سپاہیوں میں سے ”کرکرہ“ نامی ایک شخص رسول خدا کے مرکب کی نگہبانی پر مامور تھا لوٹتے وقت اس کو ایک تیر لگا اور وہ جاں بحق ہوگیا۔ رسول خدا سے لوگوں نے پوچھا کہ
کیا ”کرکرہ“ شہید ہے؟
آپ نے فرمایا :
”وہ بھی مالِ غنیمت میں سے عبا چرانے کے جرم میں اب آگ میں جل رہا ہے۔“
اس موقع پر ایک شخص نے پیغمبر سے کہا کہ
”میں نے بغیر اجازت کے ایک جوڑا جوتا مالِ غنیمت سے لے لیا ہے۔“
آنحضرت نے فرمایا:
”واپس کر دو ورنہ قیامت میں آگ کی صورت میں یہ تمہارے پیروں میں ہوگا۔“ (حوالہ سابق)
مالِ غنیمت کی تقسیم
خمس نکالنے کے بعد، جانبازانِ اسلام کے درمیان مالِ غنیمت تقسیم ہوا۔ ان عورتوں کو جنہوں نے لشکر اسلام کی کمک اور ان کی تیمارداری کی تھی رسول خدا نے بیش قیمت گلوبند وغیرہ عطا فرمائے۔(حوالہ سابق)
ایک شخص کو ایک خرابہ سے دو سو درہم ملے پیغمبر نے اس کا خمس نکال لیا اور بقیہ اس کو دے دیا۔
لشکر اسلام خیبر سے کوچ کرنے والا ہی تھا کہ جعفر ابن ابی طالب حبشہ سے واپس آگئے جب آپ نے رسول خدا کو مدینہ میں نہیں دیکھا تو خیبر کی طرف چل پڑے۔ آنحضرت جعفر کی واپسی پر بہت خوش ہوئے سات قدم ان کے استقبال کے لیے بڑھے اور فرمایا: سمجھ میں نہیں آتا کہ میں کس بات کے لیے زیادہ خوشی ناؤں فتح خیبر کے لیے یا جعفر کی واپسی کے لیے۔
(مغازی اقدی جلد۲ ص ۶۸۳، زادالمعاد ج۳ ص ۳۳۳، سنن ابی داؤد (۲۷۴۵) صحیح بخاری جلد۴ ص ۳۵)
خیبر کے حملہ کے نتائج
خیبر کا حملہ، اسلام سے ٹکرانے کے لیے یہودیوں کی اقتصادی اور جنگی اہم طاقتوں کے گھٹ جانے کا باعث بنا۔ اس حملے کے دوسرے نتائج میں یہ ہے کہ یہودیوں کے ایک دوسرے گروہ کے ہتھیار ڈال دینے کی بدولت مشرکین کی فوج میں خوف و ہراس پھیل گیا اور تحریک اسلام کی مزید پائیداری ہوئی۔

خیبر میں لشکر اسلام کی کامیابی کے اسباب
حملہ کے نقشہ اور موثر جنگی ٹیکنیک کا استعمال۔
پیغمبر اسلام کی دقیق اور حکیمانہ سپہ سالاری اور لشکر اسلام کا سپہ سالار کے حکم پر مکمل عمل۔
جنگی حکمت والی مناسب جگہ پر ڈٹے رہنا۔
خیبر کے کامل محاصرہ تک لشکر اسلام کی مکمل پوشیدگی۔
دشمن کے حالات کی اطلاع اور ہر قلعہ میں لشکر کی تعداد و کیفیت کے بارے میں مکمل معلومات۔
علی علیہ السلام کی بے امان جنگ، ایسی جنگ کہ دشمن کے نقصانات میں سے آدھا نقصان دست زبردست حیدر کرار کی توانائی کا نتیجہ تھا۔
فدک
خیبر سے ایک منزل اور مدینہ سے ۱۴۰ کلومیٹر دور کچھ یہودی فدک نامی ایک قصبہ میں رہتے تھے۔ یہ لوگ خیبر کے یہودیوں کے انجام سے ڈر گئے اور خدا نے ان کے دل یں خوف و دہشت بڑھا دی اس وجہ سے انہوں نے پیغمبر کے نمائندہ کے جواب میں ایک شخص کو قرارداد صلح طے کرنے کے لیے رسول خدا کے پاس بھیجا اور آنحضرت سے یہ معاہدہ کیا کہ آدھا فدک وہ ان کے حوالہ کر دیں گے۔ اور اس میں کھیتی کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی آمدنی ان کے حوالہ کریں گے۔
(مغازی ج۲ ص ۷۰۶)
رسول خدا نے فدک فاطمہ زہراء اسلام اللہ علیہا کو عطا کر دیا۔ فدک کی سالانہ آمدنی ۲۴۰۰۰ درہم تھی۔ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا اس آمدنی کا بیشتر حصہ بے سہارا لوگوں کی امداد اور اجتماعی مصالح ایسے امور خیر میں صرف کرتی تھیں۔
(پڑوہشی عمیق از زندگانی علی ص ۲۶۱،۲۶۶)
غزوہٴ وادی القریٰ سنہ ۷ ہجری قمری
خیبر کی جنگ ختم ہونے کے بعد رسول خدا مدینہ سے ۳۵۰ کلومیٹر دور وادی القریٰ کی طرف روانہ ہوئے جو کہ یہودیوں کا ایک… اہم مرکز شمار کیا جاتا تھا۔ آپ نے اس کا محاصرہ کرلای ان کا قلعہ چند دنوں تک لشکر اسلام کے محاصرہ میں رہا۔ انجام کار فتح و کامرانی کے بعد آنحضرت نے ان کی زمینوں کو انہیں کے قبضہ میں رہنے دیا اور وہی معاہدہ جو خیبر کے یہودیوں سے ہوا تھا ان سے بھی طے پایا۔
(تاریخ طبری ج۳ ص ۱۶،۱۷)
تیماء (سنہ ۷ہجری قمری)
مسعودی کی تحریر کے مطابق ”تیماء“ کے لوگ یہودی اور رسول خدا کے دشمن تھے جب ان لوگوں نے وادی القریٰ کے فتح کی خبر سنی تو رسول خدا سے صلح کرلی اور جزیہ دینے پر تیار ہوگئے اس طرح سے جزیرة العرب سے یہودیوں کی طرف سے جنگی خطرہ بالکل ہی ختم ہوگیا۔
خیبر کے سرایا
خیبر کی فتح کے بعد رسول خدا اپنے دیرینہ دشمن کی طرف سے مطمئن ہوگئے اور مدینہ میں وہ اطمینان و سکون ہوا جو پہلے نہ تھا۔ صفر سے لے کر ذی القعدہ تک چند مہینوں کی مدت میں آپ نے صرف چھ گروہ اطلاعات حاصل کرنے کے لیے یا ان بکھرے دستوں اور جماعتوں کی تنبیہ و سزا کے لیے جنہوں نے داخلی امن و امان میں رخنہ ڈال رکھا تھا۔ روانہ فرمائے ان سرایا کے علاوہ اور کوی دوسرا جنگی حملہ وقوع پذیر نہیں ہوا۔
مکہ کی طرف (عمرة (القضا)
یکم ذی القعدہ سنہ۷ ہجری قمری کو۔
صلح حدیبیہ کے ایک سال بعد صلح نامہ کی شرط کے مطابق مسلمان عمرہ کے ارکان بجالانے کے لیے تین روز تک مکہ میں ٹھہرنے کے مجاز ہوئے۔ رسول خدا لشکر اسلام کے دو ہزار افراد کے ساتھ عمرہ کے لیے روانہ ہوئے۔ ان میں وہ افراد بھی تھے جو صلح حدیبیہ اور بیعت رضوان میں شامل تھے۔ ان کے علاوہ جو خیبر میں شہید ہوگئے یا وفات پاگئے اور کچھ دوسرے لوگ بھی تھے جو اس سفر میں شریک ہونے کے لیے آمادہ ہوگئے تھے۔
قرارداد کے مطابق چونکہ ایک مسلمان سوائے ایک تلوار کے (جو مسافر کا اسلحہ سمجھا جاتا تھا) اپنے ساتھ زیادہ ہتھیار نہیں رکھ سکتا تھا۔ اس لیے رسول خدا نے ممکنہ خطرہ سے بچنے کے لیے لشکر اسلام کے ایک سردار کو دو سو جاں بازوں کے ساتھ کافی اسلحہ کے ساتھ آگے بھیج دیا تاکہ وہ لوگ ”مرالظہران“ پر مکہ سے ۲۲ کلومیٹر شمال میں ٹھہریں اور درہ میں آمادہ رہیں۔
مسلمان، مکہ کے قریب پہنچے، رسول خدا ناقہ قصویٰ پر سوار تھے اور عبداللہ ابن رواحہ اس کی مہار تھامے ہوئے تھے اور فخر کے ساتھ رجز پڑھتے جاتے تھے۔
دو ہزار مسلمان خاص شان و شوکت کے ساتھ جبکہ ان کی آواز فرط شوق سے لرز رہی تھی۔ ”لبیک اللھم لبیک“ کی آواز بلند کرتے جا رہے تھے۔ اب برسوں بعد، کعبہ کی زیارت کی توفیق ان لوگوں کو نصیب ہوئی تھی۔
قریش نے شہر مکہ خالی کر دیا تھا وہ پہاڑ کی بلندیوں سے مسلمانوں کی جمعیت کو دیکھنے میں مشغول تھے۔ مسلمانوں کی صدائے لبیک کی پرشکوہ گونج نے ان کے دلوں پر وحشت طاری کر دی تھی۔ عمرہ ادا کرنے کے بعد احتیاطی فوج کے دستہ نے اپنی جگہ دوسرے گروہ کو دے دی انہوں نے عمرہ کے فرائض انجام دیئے۔
مکہ میں سہ روزہ اقامت کی مہلت تمام ہوئی۔ قریش نے ایک شخص کو رسول خدا کے پاس بھیجا اور یہ کہلوایا کہ جتنی جلدی ہوسکے مکہ سے نکل جائیں۔
اس سفر میں رسول خدا نے مکہ کے شمال میں ۱۲ کلومیٹر کے فاصلہ پر مقام ”سرف“ میں جناب میمونہ سے عقد فرمایا اور اس طرح آپ نے قریش کے درمیان اپنی حیثیت اور زیادہ مضبوط کرلی۔عمرة القضاء کے بعد سنہ ۷ ہجری میں اور چار دوسرے سرایا پیش آئے۔
جنگ موتہ
یکم جمادی الاول سنہ۸ ہجری قمری
عالمی استکبار سے پہلا مقابلہ
رسول اکرم نے بادشاہ ”بصری“ کے پاس ایک سفیر بھیجا فرستادہٴ رسول جب سرحد شام میں سرزمین موتہ پر پہنچا تو اس دیار کے حاکم نے سفیر کو قتل کر دیا۔ اور ماہ ربیع الاول میں جو ۱۶ مبلغین پیغمبر کی طرف سے مقام ”ذات اطلاع“ کے سفر پر مامور کئے گئے تھے وہ اس سرزمین کے لوگوں کے ہاتھوں قتل کر یدئے گئے۔ ان میں سے ایک آدمی زخمی ہوا اور لاشوں کے بیچ گر پڑا۔ پھر کسی طرح وہ مدینہ پہنچا۔
(طبقات کبریٰ ج۲ ص ۱۲۸)
یہ دونوں واقعات اس بات کا سبب بنے کہ رسول خدا موتہ کی طرف ایک لشکر روانہ فرمائیں۔ جہاد کا فرمان صادر ہوتے ہی تین ہزار مسلمان جمع ہوگئے رسول خدا نے لشکر کے سپہ سالاروں کو درج ذیل ترتیب دی۔
جب تک زید بن حارث زندہ ہیں وہ تمہارے سپہ سالار رہیں گے۔ اگر زید شہید ہوگئے تو پھر جعفر ابن ابی طالب اور اگر وہ بھی شہید ہوگئے تو عبداللہ بن رواحہ اور اگر وہ بھی شہید ہوگئے تو مسلمان اپنے درمیان سے خود ہی ایک سپہ سالار کا انتخاب کرلیں۔
کیوں روتے ہو؟
لشکر کی روانگی کے وقت اہل مدینہ رسول خدا کے ساتھ جانبازانِ اسلام کو رخصت کرنے کے لیے جمع ہوئے عبداللہ ابن رواحہ گھوڑے پر سوار تھے اور آگے اپنے بیٹے کو سوار کئے ہوئے تھے اور اسی حالت میں شدت کے ساتھ گریہ فرما رہے تھے۔ لوگوں نے سوچا کہ وہ زن و فرزند کی محبت اور ان سے جدائی کے غم میں یا موت کے خوف سے رو رہے ہیں۔ عبداللہ ابن رواحہ جب لوگوں کے گمان کی طرف متوجہ ہوئے تو انہوں نے سر اٹھایا ”اے لوگو! میرا گریہ زندگی اور زن و فرزند و خاندان کی محبت میں نہیں ہے میں شہادت سے نہیں ڈرتا ہوں اور نہ اس وجہ سے رو رہا ہوں بلکہ میرے گریہ کا سبب قرآن کی مندرجہ ذیل آیت ہے۔
وان منکم الا واردھا کان علی ربک صما مقضیا ثم ننجی الذین اتقو ونذرالظالمین فیھا
”تم میں سے کوئی شخص باقی نہیں رہے گا جز اس کے کہ دوزخ میں جائے ار یہ تمہارے پروردگار کا حتمی حکم ہے۔ دوزخ میں داخل ہونے کے بعد ہم ان افراد کو جو خدا ترس اور باتقوا تھے نجات دیں گے اور ستم گاروں کو سا میں چھوڑ دیں گے تاکہ وہ گھٹنوں کے بل آگ میں گر پڑیں۔“
مجھے اطمینان ہے کہ مجھے جہنم میں لے جایا جائے گا۔ لیکن مجھے یہ کیسے پتہ چلے کہ نجات دی جائے گی۔ (سیرت ابن ہشام ج۴ ص ۱۵)
پیغمبر اسلام نے مسلمانوں کے ساتھ شہر کے دروازہ تک مجاہدین کو رخصت کیا اور فرمایا:
”دفع اللہ عنکم وردکم سالمین غانمین“
”یعنی خدا تمہارا دفاع کرے اور تم کو سلامتی اور غنیمت کے ساتھ واپس پلٹائے۔“
لیکن عبداللہ ابن رواحہ نے جواب میں شعر پڑھا جس کا مطلب تھا۔ میں خداوند رحمان سے مغفرت طلب کرتا ہوں اور اس سے شمشیر کی ایسی ضربت کا خواہاں ہوں جو میری حیات کو ختم کر دے۔(حوالہٴ سابق)
خدا حافظ کہتے وقت عبداللہ ابن رواحہ نے پیغمبر سے نصیحت کرنے کی خواہش کی، حضرت نے فرمایا:
”جب تم ایسی سرزمین پر پہنچو جہاں اللہ کی عبادت کم ہوتی ہے تو اس جگہ زیادہ سجدہ کرو۔“
عبداللہ نے کہا :
کچھ اور نصیحت فرمائیں۔
رسول خدا نے فرمایا:
”خدا کو یاد کرو، خدا کی یاد مقصد تک پہنچنے میں تمہاری مددگار ہے۔“ (مغازی واقدی ج۲ ص ۷۱۸)
رسول خدا نے لشکر کے امیروں کو حکم دیا کہ
”خدا کے نام سے اس کی راہ میں جنگ کرو اور جو خدا کا انکار کرے اس سے لڑو، دھوکہ بازی نہ کرو، بچوں کو قتل نہ کرو، جب مشرکین سے سامنا ہو تو تین چیزوں میں سے ان کو ایک کی دعوت دو اور وہ ان میں سے جب کسی ایک کو قبول کرلیں تو ان سے دست بردار ہو جاؤ۔ پہلے اسلام کی دعوت دو اگر وہ قبول کرلیں تو ان سے جنگ نہ کرو۔ دوسرے ان سے یہ مطالبہ کرو کہ وہ اپنی زمین سے چلے جائیں اور ہجرت کریں۔ اگر وہ قبول کرتے ہیں تو ان کے لیے وہی حقوق ہیں جو دوسروں کے لیے ہیں۔ تیسرے اگر ان دونوں باتوں کے قبول کرنے سے انکار کریں تو جزیہ ادا کرنے کی دعوت دو اگر ان تمام باتوں سے سرتابی کریں تو خدا سے مدد مانگو اور ان سے جنگ کرو۔“
(حوالہ سابق ج۱ ص ۷۵۷)
دو طاقتوں کی جنگ
لشکر السلام موتہ کی جانب روانہ ہوا۔ جنوب عمان میں ۲۱۲ کلومیٹر دور مقام ”معان“ پر پہنچتے ہی خبر ملی کہ بادشاہ روم ”ہرقل“ ایک لاکھ سپاہیوں کو ”بلقاء“ کے علاقہ میں سرممین ”مآب“ تک بڑھا لایا ہے، اور اس علاقہ کے ایک لاکھ عرب جنگجو رومیوں کی مدد کے لیے لشکر روم سے آملے ہیں۔
یہ خبر امیرانِ لشکر کے آپس میں مشورہ کا سبب بنی۔ شروع میں تو ان کا یہ ارادہ تھا کہ اس واقعہ کی خبر پیغمبر کو دی جائے اور ان سے معلوم کیا جائے کہ کیا کرنا چاہیے لیکن عبداللہ ابن رواحہ نے اپنی شجاعانہ اور تند تقریر سے ان کو اس فکر سے باز رکھا۔ آپ نے لشکر کو خطاب کرتے ہوئے کہا: ”اے لوگو! خدا کی قسم جو چیز تمہیں اس وقت ناپسند ہے اسی کو طلب کرنے کے لیے تم نکلے ہو یہ وہی شہادت ہے جس کے شوق میں تم نے سفر کی زحمت برداشت کی ہے ہم نے کیا بڑے گروہ کثیر جماعت اور دشمن کے لشکر فروان سے جنگ نہیں کی؟ ہم ایمان کی طاقت سے لڑتے ہیں جس کی بدولت خدا نے ہم کو بزرگی دی ہے۔ اٹھو اور اپنے راستہ پر چل پڑو ہمارے سامنے دو اچھے(احد الحسینین) راستے ہیں۔ یا فتح یا شہادت (سیرت ابن ہشام ج۴ ص ۱۷)
عبداللہ ابن رواحہ کی شعلہ بار تقریر کے بعد لشکر اسلام ٹڈی دل لشکر کی طرف چل پڑا اور بلقاء کی سرحد پر روم کا دو لاکھ کا لشکر تین ہزار مجاہدین سے روبرو ہوا۔
لشکر اسلام کی بے امان جنگ شروع ہوئی اور اللہ والے جو شہادت کو بقاء کا راز سمجھتے تھے۔ شہادت کے استقبال کے لیے دوڑ پڑے۔
لشکر اسلام کے دلبر سردار جعفر ابن ابی طالب کی شہادت
جنگ کے شور و غل میں جعفر ابن ابی طالب نے پرچم اپنے ہاتھ میں لیا اور مردانہ وار قلب لشکر کفر پر حملہ کر دیا اور ان کے نرغہ میں گھر گئے آپ نے اپنے گھوڑے کو پے کر دیا تاکہ وہ ان کے ہاتھ نہ آسکے اور پیادہ لڑتے رہے۔ یہاں تک کہ آپ کا داہنا ہاتھ کٹ گیا پرچم کو آپ نے بائیں ہاتھ میں سنبھالا تھوڑی دیر بعد آپ کا بایاں ہاتھ بھی کٹ گیا اس کے بعد آپ نے پرچم کو سینے سے لگالیا۔ یہاں تک کہ شہادت کی سعادت سے مشرف ہوئے خدا نے ان کے کٹے ہوئے دونوں ہاتھوں کے بدلے ان کو دو پر عنایت کئے تاکہ وہ فرشتوں کے ساتھ جنت میں پرواز کریں اس لیے آپ ”جعفر طیار“ کے لقب سے ملقب ہوئے۔
(سیرت ابن ہشام ج۴ ص ۲۰)
عبداللہ بن رواحہ اور مید ابن حارثہ کی شہادت
جعفر کی شہادت کے بعد زید ابن حارثہ نے پرچم اٹھایا اور لشکر کفر پر حملہ کر دیا اور دلیرانہ جنگ کے بعد درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔ تیسرے سردار لشکر عبداللہ ابن رواحہ نے پرچم اٹھایا۔ تھوڑی دیر تک سوچتے رہے کہ جنگ جاری رکھی جائے یا نہیں۔ آخرکار رجز پڑھتے ہوئے سپاہ دشمن پر حملہ آور ہوئے۔
اے نفس! اگر تو ابھی قتل نہیں ہوگا تو بالآخر مر ہی جائے گا۔
جو تیری آرزو تھی اس کا وقت بھی آگیا ہے۔
اگر ان دونوں کے راستے پر چلو گے تو نجات ملے گی۔
یہ رجز پڑھ کر عبداللہ دلیرانہ انداز میں قلب لشکر پر حملہ آور ہوئے ان کی تلوار کافروں کے سروں پر موت کے شعلے برسانے لگی۔ آخر کار عبداللہ بھی اپنے رب سے جاملے اور انہیں اسی انداز میں شہادت نصیب ہوئی جس میں انہوں نے خداوند عالم سے طلب کی تھی کہ ان کے جسم کو گلگوں بنادیا جائے۔
(سیرت ابن ہشام ج۴ ص ۲۱)
جنگ سے بیٹھ رہنا
عبداللہ ابن رواحہ کی شہادت کے بعد سپاہیوں کی رائے اور پیش کش سے خالد ابن ولید، سردار لشکر بنے، خالد نے جنگ کو بے نتیجہ رکھا۔ رات آنے تک کم و بیش پراگندہ طور پر جنگ ہوتی رہی، رات کو جب دونوں لشکر جنگ سے رک گئے تو خالد نے لشکر گاہ کے پیچھے بہت سے سپاہیوں کو بھیجا تاکہ وہ صبح کو خوب شور و غل مچاتے ہوئے یہاں مقیم لشکر سے آملیں۔ صبح کو رومیوں نے یقین کرلیا کہ مدینہ سے ایک عظیم امدادی لشکر آن پہنچا ہے۔ چونکہ مسلمانوں کی تلوار کی طاقت اور ان کے جذبہٴ شہادت کو وہ دیکھ چکے تھے اس لیے جنگ میں انہوں نے پس و پیش کیا اور حملہ سے باز رہے بلکہ وہ مسلمانوں کے حملہ کے منتظر رہے۔ پھر انہوں نے دیکھا کہ خالد کا حملہ کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ عملی طور پر جنگ بندی ہوگئی، خالد نے ایک بار جنگ سے بیٹھ رہنے کے ذریعہ مسلمانوں کو دشمن کے دو لاکھ جنگجوؤں کے چنگل سے بچالیا۔
جنگ میں رومیوں کی جنگی ٹیکنیک سے مسلمانوں کی آگاہی اور روم کی مغرور سپاہ کے دل میں شہادت کے شیدا لشکر اسلام کا رعب و دبدبہ بیٹھ جانا۔ یہ تھے اس جنگ کے نتائج۔
اس حادثہ میں قبیلہ خزاعہ کے کچھ لو مظلومانہ طریقہ سے قتل کر دیئے گئے اور اس طرح صلح حدیبیہ کا عہد و پیمان ٹوٹ گیا۔ کیونکہ قریش رسول خدا کے ہم پیمان قبیلہ کے خلاف جنگ میں کود پڑے۔ (سیرت ابن ہشام ج۳ ص ۳۲)
تجدید معاہدہ کی کوشش
ابوسفیان اس بات کو بھانپ گیا کہ یہ گستاخی بغیر سزا یوں ہی برداشت نہیں کی جاسکتی۔ درحقیقت قریش نے لشکر اسلام کے لیے خود ہی حملہ کا مواقع فراہم کر دیا تھا۔ اس لیے وہ لوگ فوراً ہی مدینہ پہنچے کہ شاید معاہدہ کی تجدید کرلیں۔
ابوسفیان مدینہ میں اپنی بیٹی رسول خدا کی زوجہ ”ام حبیبہ“ کے گھر پہنچا چونکہ باپ اور بیٹی نے کئی سال سے ایک دوسرے کو نہیں دیکھا تھا۔ اس لیے باپ کا خیال تھا کہ بیٹی بڑے اچھے انداز سے استقبال اور پذیرائی کرے گی اور اس طرح وہ اپنے مقصد کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہو جائے گا۔ لیکن جب رسول خدا کے گھر میں وارد ہوا اور چاہا کہ بستر پر بیٹھ جائے تو بیٹی نے بے اعتنائی کے ساتھ بستر کو لپیٹ دیا۔ ابوسفیان نے تعجب سے پوچھا کہ ”تم نے اس کو لپیٹ کیوں دیا؟“ بیٹی نے جواب دیا کہ ”آپ مشرک ہیں اور نجس ہیں اور میں نے یہ مناسب نہیں سمجھا کہ آپ رسول خدا کی جگہ بیٹھیں۔“
ابوسفیان نے صلح نامہ کی مدت بڑھانے کے لیے رسول خدا سے رجوع کیا آپ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کے جواب میں صرف خاموش رہے ابوسفیان نے بزرگوں میں سے ہر ایک سے وساطت کے لیے رابطہ قائم کیا۔ مگر نفی میں جواب ملا۔ علی علیہ السلام کی راہنمائی میں ابوسفیان مسجد کی طرف آیا اور یک طرفہ صلح نامہ کی مدت میں اضافہ کا اعلان کیا۔ پھر غصہ اور مایوسی کے عالم میں بغیر کسی نتیجہ کے مکہ واپس پلٹ گیا۔(سیرت ابن ہشام ج۴ ص ۳۸،۳۹)
ستم رسیدہ قبیلہ خزاعہ کے افراد نے اپنی صدائے مظلومیت پیغمبر کے کانوں تک
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma
آبی
سبز تیره
سبز روشن
قهوه ای