پیغمبر اسلام کے عالمی پیغام کا اعلان
FehrestMozoei
البحث 
محرم سنہ ۷ ہجری قمری
صلح حدیبیہ کے معاہدہ نے رسول خدا کو جنوب (مکہ)کی طرف سے مطمئن کر دیا اور اس اطمینان کے سبب عرب کے سربرآوردہ افراد کا ایک گروہ اسلام کا گرویدہ ہوگیا۔ اس موقع پر اسلام کے عظیم رہنما نے فرصت کو غنیمت جانا اور اس زمانہ کے زمامداران حکومت، قبائل کے سردار اور اس وقت کے عیسائی مذہب کے رہبروں سے مذاکرہ اور مکاتبہ کا سلسلہ شروع کیا اور اپنے آئین کو جو ایک عالمی آئین ہے خدا کے حکم سے دنیا کی قوموں کے سامنے پیش کیا۔
رسول خدا نے جو خط دعوت اسلام کے عنوان سے سلاطین، قبائل کے روساء اور اس زمانہ کی سیاسی و مذہبی نمایاں شخصیتوں کو تحریر فرمائے تھے وہ آپ کی دعوت کی حکایت کرتے ہیں۔
اس وقت ان ۱۸۵ خطوط کے متن موجود ہیں جن کو پیغمبر نے تبلیغ یا دعوت اسلام کے لیے بعنوان میثاق و پیمان لکھا تھا۔ (الوثائق السیاسیتہ)
یہ خط دعوت و تبلیغ میں روش اسلام کو بتاتے ہیں کہ جس کی بنیاد منطق اور برہان پر ہے نہ کہ جنگ و شمشیر پر جو حقائق ان خوط میں پوشیدہ ہیں اور دلائل و اشارات و نصیحتیں اور راہنمائی جو رسول خدا نے دوسری قوموں کے سامنے پیش کی ہے، وہ اسلام کے عالمی پیغام ہونے اور ان کی دعوت کے طریقہ کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
ڈپلومیٹک نکات کی رعایت
سلاطین کے پاس اور مختلف علاقوں میں رسول خدا کے بھیجے ہوئے افراد اور سفراء معارف اسلامی سے آگاہ اور اس پر تسلط رکھنے کے ساتھ ساتھ ادب و سخن میں نظریہ رکھتے تھے اور اس زمانہ کے لوگوں کے معاشرتی اور دینی آداب و رسوم سے واقفیت رکھتے تھے۔ اس زمانہ کی طاقتوں کا سامنا کرنے میں عین یقین اور لہجہ کی صفائی کے ساتھ ان کی ظاہری وضع قطع بھی ڈپلومیٹک نکات کی رعایت کی حکایت کرتی تھی۔
رسول خدا نے ان خطوط کے ساتھ جس میں آپ کا عالمی پیغام منعکس تھا ایران، روم، حبشہ، مصر، یمامہ، بحرین، اردن اور حیرہ کی طرف ایک دن میں چھ چیدہ افراد کو روانہ فرمایا۔ (طبقات ابن سعد)
رسول خدا ان خطوط پر مہر (محمد رسول اللہ) جو کہ آپ کی انگوٹھی پر کھدا ہوا تھا لگایا کرتے تھے۔ ان خطوط کو بند کرکے مخصوص موم (لاک) سے چپکا دیا کرتے تھے۔
(حوالہ سابق)
جس زمانہ میں آپ ان خطوط کو لکھ رہے تھے، اس زمنہ میں ایران و روم دو بڑی طاقتیں حکمران تھیں اور دونوں اپنے اپنے ملک کا رقبہ بڑھانے کے سلسلہ میں ایک دوسرے کے بہت زبردست رقیب تھے اور ان دونوں طاقتوں نے سیاست کی نبض کو اپنے ہاتھ میں لے رکھا تھا۔ قیصر روم کے نام رسول خدا کے خط کا مضمون یہ تھا۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
محمد رسول خدا کی طرف سے روم کے عظیم قیصر کے نام
سچائی اور ہدایت کا تباع کرنے والوں پر سلام، میں تم کو دین اسلام کی طرف دعوت دیتا ہوں اسلام کو قبول کرلو تاکہ صحیح و سالم رہو اور خدا بھی تم کو (خود تمہارے ایمان کا اور تمہارے زیر نگین افراد کے ایمان کا) دوہرا اجر دے گا۔ اے اہل کتاب! میں تم کو اس بات کی طرف دعوت دیتا ہوں جو تمہارے اور ہمارے درمیان مشترک ہے اور وہ یہ ہے کہ سوائے خدائے واحد کے ہم کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ قرار دیں اور ہم میں سے بعض، بعض کو رب نہ بنائے اور جب وہ لوگ روگردانی کریں تو کہو کہ تم گواہ رہو ہم مسلمان ہیں۔ (آل عمران:۶۴)
محمد رسول اللہ تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۷۷
عبداللہ بن حذافہ نے پیغمبر کا خط ایران کے دربار میں پہنچایا۔ جب مترجمین نے بادشاہ کے سامنے خط پڑھا تو وہ بھڑک اٹھا کہ محمد کون ہے جو اپنے نام کو میرے نام سے پہلے لکھتا ہے؟ اور پورا خط پڑھنے سے پہلے ہی اس نے اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔
رسول خدا کا قاصد مدینہ واپس آیا اور اس نے سارا ماجرا بیان کیا۔ آپ نے ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کیا اور فرمایا:
”خدایا اس شخص نے میرا خط پھاڑ ڈالا تو اس کی حکومت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے۔“
خسرو پرویز کی دوی گستاخی اور یمن کے لوگوں کا مسلمان ہونا
ساسانی بادشاہ نے طاقت کے نشہ میں چور ہو کر اپنے ہاتھ کی کٹھ پتلی یمن کے حاکم ”باذان“ کو لکھا کہ مجھ کو خبر ملی ہے کہ مکہ میں کسی قریش نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے تم دو دلیر آدمیوں کو وہاں بھیجو تاکہ وہ اس کو گرفتار کرکے میرے پاس لائیں۔
حاکم یمن ”باذان“ نے مرکز کے حکم کے مطابق اپنے دو دلیر آدمیوں کو حجاز روانہ کیا۔ جب وہ لوگ طائف پہنچے تو وہاں کے ایک شخص نے ان کی مدینہ تک راہنمائی کی وہ دونوں افراد مدینہ پہنچے اور باذان کا خط پیغمبر کو دیا۔ آپ کی عظمت و ہیبت اور آپ کے اطمینان نے تعینات افراد کو وحشت میں ڈال دیا۔
جب پیغمبر نے ان کے سامنے اسلام پیش کیا تو لرزنے لگے اس کے بعد آپ نے فرمایا: کہ ”کل میں اپنا نظریہ تمہارے سامنے پیش کروں گا۔ اس کے دوسرے دن جب والیان یمن جواب لینے کے لیے پیغمبر کی خدمت میں پہنچے تو آپ نے فرمایا کہ ”پروردگار عالم نے مجھے خبر دی ہے کہ کل رات جب رات کے سات گھنٹے گزر چکے تھے۔ (۱۰ جمادی الاول سنہ ۷ ہجری کو) ”خسرو پرویز“ اپنے بیٹے ”شیرویہ“ کے ہاتھوں قتل ہوگیا اور اس کا بیٹا تخت سلطنت پر قابض ہوگیا۔ پھر رسول اللہ نے ان کو بیش قیمت ہدیہ دے کر یمن روانہ کیا۔ انہوں نے یمن کی راہ لی اور باذان کو اس خبر سے مطلع کیا۔
باذان نے کہا کہ ”اگر یہ خبر سچ ہے تو پھر یقینا وہ آسمانی پیامبر ہے اور اس کی پیروی کرنی چاہیے، ابھی تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ شیرویہ کا خط حاکم یمن کے نام پہنچا اس میں لکھا تھا کہ ”آگاہ ہو جاؤ کہ میں نے خسرو پرویز کو قتل کر یا اور ملت کا غم و غصہ اس بات کا باعث بنا کہ میں اس کو قتل کر دوں اس لیے کہ اس نے فارس کے اشراف کو قتل کر ڈالا اور بزرگوں کو متفرق کر دیا، جب میرا خط تمہارے ہاتھ میں پہنچے تو تم لوگوں سے میری بیعت لو اور اس شخص سے جو نبوت کا دعویٰ کرتا ہے اور جس کے خلاف میرے باپ نے حکم دیا تھا، ہرگز سختی کا برتاؤ نہ کرنا۔ یہاں تک کہ میرا کوئی نیا حکم تم تک پہنچے۔
شیرویہ کے خط نے اس خبر کی تائید کر دی جو رسول خدا نے عالم غیب سے اور وحی کے ذریعہ دی تھی۔ ایرانی نژاد حاکم باذان اور ملک یمن کے تمام کارندے جو ایرانی تھے، مسلمان ہوگئے اور یمن کے لوگ رفتہ رفتہ حلقہ بگوش اسلام ہونے لگے۔ باذان نے رسول خدا کے نام ایک خط میں اپنے اور حکومت کے کارندوں کے اسلام لانے کی خبر پہنچا دی۔ (تاریخ کامل ج۲ ص ۲۴۶)
بادشاہ حبشہ نجاشی کے نام پیغمبر کا خط
بسم اللہ الرحمن الرحیم
محمد رسول اللہ کی طرف سے زمامدار حبشیہ نجاشی کے نام۔ تم پر سلام ہو، ہم اس خدا کی تعریف کرتے ہیں جس کے سوا کوئی خدا نہیں، وہ خدا کہ جو بے عیب اور بے نقص ہے۔ اس کے بندے اس کے فرمانبردار اس کے غضب سے امان میں ہیں خدا اپنے بندوں کے حال کو دیکھنے والا اور گواہ ہے۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ جناب مریم کے فرزند عیسیٰ روح اللہ اور کلمتہ اللہ ہیں جو پاکیزہ اور زاہدہ مریم کے بطن میں تھے، خدا نے اسی قدرت سے جس سے آدم کو بغیر ماں باپ کے پیدا کیا ان کو بغیر باپ کے ماں کے رحم میں پیدا کیا۔
میں تم کو ایک لاشریک خدا کی طرف دعوت دیتا ہوں اور تم سے یہی چاہتا ہوں کہ تم ہمیشہ اسی خدا کے مطیع اور فرمانبردار رہو اور میرے پاکیزہ آئین کی پیروی کرتے رہو۔ اس خدا پر ایمان لاؤ جس نے مجھ کو رسالت پر مبعوث فرمایا۔
میں پیغمبر خدا ہوں، تم کو اور تمہارے لشکر والوں کو اسلام کی دعوت دیتا ہوں اور اب اس خط اور سفیر کو بھیج کے میں اپنے اس عظیم فریضہ کو پورا کر رہا ہوں۔ جو میں نے لے رکھا تھا اور تم کو پند و نصیحت کر رہا ہوں۔ سچائی اور ہدایت کے پیروؤں پر سلام۔
محمد رسول اللہ
نجاشی نے رسول خدا کے خط کو لیا آنکھوں سے لگایا۔ تخت سے نیچے اترا اور تواضع کے عنوان سے زمین پر بیٹھ گیا اور اس نے کلمہٴ شہادتین زبان پر جاری کیا اور پھر آنحضرت کے خط کے جواب میں اس نے لکھا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یہ خط محمد رسول خدا کی طرف نجاشی کی جانب سے ہے۔ اس کا درود و سلام آپ پر ہو جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں اور جس نے میری ہدایت کی حضرت عیسیٰ کے بشر اور پیغمبر ہونے کے مضمون کا خط آپ کا ملا۔ زمین و آسمان کے خدا کی قسم! جو آپ نے بیان۔ فرمایا وہ حقیقت ہے میں نے آپ کے دین کی حقیقت سے آگاہی حاصل کی اور مہاجر مسلمانوں کی مقتضیات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کی ضروری خدمت عمل میں آئی۔ اب میں اس خط کے ذریعہ گواہی دیتا ہوں کہ آپ خدا کے وہ فرستادہ اور سچے ہیں جس کی تصدیق آسمانی کتابیں کرتی ہیں۔ میں نے آپ کے چچا زاد بھائی (جعفر بن ابی طالب) کے سامنے اسلام و ایمان و بیعت کے مراسم انجام دیئے اور اپنا پیغام و سلام پہنچانے کے لیے اپنے بیٹے ”رارھا“ کو آپ کی خدمت میں بھیج رہا ہوں اور میں اعلان کرتا ہوں کہ میں اپنے علاوہ کسی کا ضامن نہیں ہوں۔ آپ اگر حکم دیں تو میں خود آپ کی خدمت پر فیض میں حاضر ہو جاؤں۔ آپ پر درود و سلام ہو۔ نجاشی
(تاریخ طبری ج۳ ص ۲۴۸)
دوسرے زمامداران حکومت کا موقف
مصر و یمامہ کے سربراہان مملکت میں سے ہر ایک نے تحفوں کے ساتھ رسول خدا کے خط کا جواب دیا لیکن ان میں سے کوئی مسلمان نہیں ہوا۔
مقوقس، مصر کے حاکم نے تحفوں کے ساتھ رسول خدا کے خط کا محترمانہ جواب دیا۔ یمامہ کے حاکم نے جواب میں لکھا کہ میں اس شرط پر مسلمان ہونے کو تیار ہوں کہ رسول خدا کے بعد حکومت میرے ہاتھ میں ہو۔ اس پیش کش کی موافقت رسول خدا نے نہیں کی اور آپ نے فرمایا کہ یہ الٰہی امر ہے۔ (طبقات ابن سعد ج۱ ص ۲۶۳)
لیکن بحرین کا حاکم مسلمان ہوگیا اور رسول خدا نے اس کو اسی طرح باقی رکھا۔ اردن کے حاکم نے رسول خدا کے پیغمبر کے سامنے اپنی جنگی طاقت کا مظاہر کیا وہ مدینہ پر لشکر کشی کی فکر میں تھا اس وجہ سے اس نے مرکزی حکومت (روم) سے اپنی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا لیکن جب اس نے قیصر روم کی بدلی ہوئی نگاہوں کو دیکھا تو اس بارے میں سب کچھ سمجھ گیا اور تمام سیاسی لوگوں کی طرح اس نے بھی اپنا موقف بدل دیا۔ سفیر پیغمبر کی دلجوئی کی اور تحفے اس کے حوالے کیے۔
(سیرت حلبی ج۳ ص ۲۵۵)
خیبر کے یہودیوں سے جنگ کے اسباب
اسلام شروع ہی سے یہودیوں کی سازشوں اور کام بگاڑنے اور رخنہ اندازی کا شکار تھا۔ یہودیوں کا ایک گروہ مدینہ سے ۱۶۵ کلومیٹر دور شمال میں خیبر نامی ایک ہموار اور وسیع جگہ پر سکونت پذیر تھا کہ جہاں انہوں نے اپنی حفاظت کے لیے نہایت مضبوط اور مستحکم سات قلعے بنا رکھے تھے۔ ان کی تعداد بیس ہزر سے زیادہ تھی ان میں جوان اور جنگجو افراد بہت زیادہ تھے۔
صلح حدیبیہ نے رسول خدا کو اس بات کا موقع دیا کہ عالمی پیغام کا اعلان کرنے کے علاوہ اس جزیرہ میں یہودیوں کے آخری خطرناک اڈہ کو بھی صاف کر دیں۔ اس لیے کہ پہلی بات تو یہ کہ سیاسی اور جنگی نکتہ نظر سے خیبر ایک مشکوک اڈہ سمجھا جاتا تھا اور خیبر کے یہودیوں ہی نے جنگ احزاب کی آگ بھڑکائی تھی اس لیے ممکن تھا کہ وہ دوبارہ مشرکین کو بھڑکا دیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ ایران و روم ایسی بڑی طاقتوں سے یہودیوں کے بہت قریبی تعلقات تھے۔ اور ہر لمحہ یہ اندیشہ تھا کہ ان بڑی طاقتوں کے ورغلانے یا ان کی مدد سے یہ لوگ اسلام کی جڑ کھود دیں۔
تیسری بات یہ ہے کہ صلح حدیبیہ کی وجہ سے یہودی یہ سوچنے لگے تھے کہ تیاری کے لحاظ اور جنگی اعتبار سے کمزور ہونے کی بنا پر انہوں نے یہ صلح نامہ قبول کیا ہے ، لہٰذا وہ اس فکر میں تھے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تحریک اسلم کو ناگہانی چوٹ پہنچائی جائے۔ ہر چند کہ صلح حدیبیہ کے معاہدہ نے قریش و یہود کے جنگی اتحاد کے امکان کو ختم کر دیا تھا لیکن دوسرے قبائل تھے جو یہودیوں کے امکانی حملہ یں اہم ثابت ہوسکتے تھے۔ یہ وجوہات تھے جو اس بات کا سبب بنے کہ رسول خدا یودیوں کی سرکوبی کے لیے پیش قدمی کریں اور آتش فتنہ کو خاموش کر دیں۔
لشکر توحید کی روانگی
یک ربیع الاول سنہ ۷ ہجری قمری
رسول اکرم سو جاں بازوں کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہوئے اور ہمیشہ کی طرح دشمن کو غافل رکھنے کے یے مقام رجیع پہنچے۔ یہ ایک چشمہ ہے جو کہ خیبر و غطفان کی سرزمین کے درمیان واقع ہے اور غطفان کی ملکیت ہے۔ چنانچہ اس طرح آپ نے دشمن کو بھی غافل بنا دیا اور دو جنگی ہم پیمان یعنی خیبر کے یہودیوں اور غطفان کے اعراب کے درمیان جدائی ڈال دی۔
اطلاعات کی فراہمی
رسول خدا نے روانگی سے قبل لشکر اسلام کے آگے عباد بن بشیر کو چند سواروں کے ساتھ دشمن کے لشکر کی خبر لانے کے لیے بھیجا۔ ان لوگوں کو یہ کامیابی ملی کہ انہوں نے ایک یہودی جاسوس کو گرفتار کرلیا اور اس کو دھمکا کے اس سے یہودیان خیبر کے جنگی اہم راز اور یہودیوں کی خوف زدگی کی اطلاع حاصل کرلی۔
(مغازی و اقدی ج۲ ص ۶۴۰)
خیبر کا مضبوط قلعہ راتوں رات مسلمانوں کے محاصرہ میں آگیا۔ صبح سویرے خیبر کے یہودی مسلمانوں کے حملہ اور محاصرہ سے غافل قلعہ سے باہر نکلے اور اپنا بیلچہ وغیرہ لے کر اپنے کھیتوں اور نخلستانوں کی طرف چل پڑے کہ اچانک مسلمانوں پر نظر پڑی جو خیبر کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے تھے۔ وہ لوگ ڈر کے مارے قلعہ خیبر کی طرف بھاگے اور آواز دی ”محمد ہم سے لڑنے آئے ہیں۔“ (مغازی ج۲ ص ۶۴۲)
جنگی اعتبار سے مناسب جگہ پر لشکر گاہ کی تعیین
ابتدا میں لشکر اسلام نے خیموں کو نصب کرنے کے لیے ایک جگہ کا انتخاب کیا لیکن یہ جگہ بہت زیادہ مرطوب ہونے کے علاوہ صحت و صفائی کے اعتبار سے بھی نامناسب اور یہودیوں کے تیروں کی زد پر واقع تھی۔ جب یہ جگہ جنگی اعتبار سے مناسب معلوم نہ ہوئی تو رسول خدا نے اپنے اصحاب سے مشورہ کرکے نخلستان کی پشت پر مناسب ترین رجیع نامی جگہ کو لشکر گاہ کے لیے معین فرمایا اور کچھ سپاہیوں کو اس جگہ کی حفاظت اور نگہبانی کے لیے مقرر کر دیا۔ انہوں نے بھی باری باری لشکر گاہ کی نگہبانی کی ذمہ داری قبول کرلی۔(حوالہ سابق)
لشکر کے لیے طبی امداد رسانی کا انتظام
زخمیوں کی مرہم پٹی کرنے والی نسیبہ نامی عورت چند ایسی عورتوں کے ساتھ جو اس فن سے آشنا تھیں مدینہ سے لشکر اسلام کے ہمراہ آئی تھیں اور لشکر گاہ کی پشت پر جنگی مجروحین کی مرہم پٹی کے لیے ایک خیمہ نصب کیا گیا تھا اور وہ عورتیں اور جانبازوں کی مدد کے لیے تیار بیٹھی تھیں۔(مغازی ج۲ ص ۶۸۵)
جدید اطلاعات
مقام رجیع میں ایک سپاہی نے جو بہت زیادہ خوف زدہ ہوگیا تھا اپنے کو لشکر اسلام کے حوالہ کر دیا اور کہنے لگا کہ وہ اگر کچھ خبریں لشکر اسلام کو دے تو کیا اس کو امان ملے گی؟ جب اس کو امان دی گئی تو اس نے بہت سے جنگی راز فاش کر دیئے۔ اس نے بتایا کہ یہودیوں کے درمیان اختلاف ہوگیا ہے۔ پھر ان لوگوں کی رہنمائی اس نے قلعوں اور حصاروں تک کی۔
خیبر میں سات قلعے تھے جن کے نام ہیں۔ ناعم، قموص، کتیبہ، نظاة، شق، وطیح، سلالم، ان قلعوں کے درمیان فاصلہ تھا۔ رجیع کو لشکر گاہ کے عنوان سے منتخب کرلینے اور وہاں سات دن ٹھہرنے کے بعد لشکر اسلام دن میں قلعوں پر حملہ کرتا اور راتوں کو اپنی قیام گاہ پر واپس آجاتا تھا۔ جنگ کے پہلے دن جانبازان اسلام کے پچاس آدمی تیروں سے مجروح ہوئے علاج کے لیے ان کو اس خیمہ میں پہنچایا گیا جو اسی لیے نصب کیا گیا تھا۔
بالآخر سات دنوں کے بعد ناعم نامی پہلا قلعہ فتح ہوا اس کے بعد رفتہ رفتہ سارے قلعے لشکر اسلام کے قبضہ میں آگئے۔
ان قلعوں میں سے ایک قلعہ کی فلح میں وہ یہودی عورت اسیر ہوئی جس نے لشکر اسلام کے لیے اطلاعات فراہم کرنے میں مدد دی تھی۔ رسول اکرم نے اس کو اس کے شوہر کے حوالہ کر دیا۔
سردار کے حکم سے روگردانی
جب رسول خدا حصار ناعم کے قریب پہنچے تو آپ نے لشکر کو صف آرا کیا اور فرمایا کہ جب تک میرا کوئی حکم نہ پہنچے اس وقت تک اپنی مرضی سے جن نہ کرنا، اس موقع پر ایک سپاہی نے خود سرانہ طور پر ایک یہودی پر حملہ کر دیا لیکن یہودیوں کے ہاتھوں مارا گیا۔ جانبازوں نے آنحضرت سے سوال کیا کہ یہ شہید محسوب ہوگا؟ آپ نے فرمایا کہ ”منادی بہ آواز بلند اعلان کر دے کہ جو اپنے کمانڈر کے حکم سے سرتابی کرے بہشت اس کے لیے نہیں ہے۔“ (مغازی و اقدی ج۲ ص ۶۴۹)
دوسری جنگی ٹیکنیک
سارے لشکر اسلام کی کمان رسول خدا کے ہاتھوں میں تھی اور آنحضرت کے فرمان کے مطابق ایک عمدہ جنگی ٹیکنیک کے ساتھ لشکر اسلام ایک ایک قلعہ کا محاصرہ کرتا جا رہا تھا اور اس بات کی کوشش کرتا تھا کہ جس قلعہ کا محاصرہ ہوچکا ہے اس کا رابطہ دوسرے قلعہ سے منقطع ہو جائے اور اس قلعہ کو فتح کرلینے کے بعد دوسرے قلعہ کا محاصرہ کرتا تھا۔
وہ قلعے جن کا ایک دوسرے سے ارتباط تھا، یا وہ قلعے جن کے اندر کے جنگجو زیادہ مقاومت کا ثبوت دیتے تھے وہ قلعے ذرا دیر میں فتح ہوتے تھے۔ لیکن وہ قلعے جن کا آپس میں رابطہ بالکل منقطع ہو جاتا تھا وہ کمانڈروں کے رعب و خوف سے کم مقاومت کر پاتے تھے اور ان کو فتح کرنے میں قتل و خونریزی بھی کم ہوتی تھی۔
(تاریخ التمدن الاسلام ج۱ ص ۶۱)
علی علیہ السلام فاتح خیبر
قلعے یکے بعد دیگرے فتح ہوگئے صرف دو قلعہ باقی رہ گئے اور یہودی ان قلعوں کے اوپر سے مسلمانوں پر بڑی تیزی سے تیر برسا رہے تھے۔ رسول خدا نے اپنے اصحاب میں سے ایک صحابی (ابوبکر) کو لشکر کی سرداری دے کر قلعہ فتح کرنے کے لیے روانہ کیا اور ان کے ہاتھوں میں پرچم دیا، لیکن وہ بغیر پیش قدمی کے لشکست کھا کر پلٹ آئے۔
دوسرے دن پیغمبر نے پرچم لشکر دوسرے صحابی (عمر) کے حوالہ کیا لیکن وہ بھی پیش قدمی نہ کرسکے اور شکست کھا کر واپس آگئے۔
تیسرے دن رسول خدا نے پرچم کو سعد بن عبادة کے حوالہ کیا لیکن وہ بھی شکست سے دوچار ہوئے خود وہ اور ان کا لشکر بھی زخمی ہوگیا اور وہ بھی بیٹھ رہے۔
رسول خدا نے کہا کہ ”کل میں علم اس کے حوالے کروں گا جس کو خدا اور اس کا رسول دوست رکھتا ہوگا اور وہ بھی خدا اور اس کے رسول کو دوست رکھتا ہے۔ وہ شکست کھانے والا اور بھاگنے والا نہیں ہے، خدا اس کے دونوں ہاتھوں سے فتح عطا کرے گا۔
رات ختم ہوئی صبح نمودار ہوئی۔ رسول خدا نے علی علیہ السلام کو بلانے کے لیے بھیجا آپ، آنحضرت کی خدمت میں تشریف لائے جبکہ آپ کی آنکھوں میں درد تھا چنانچہ فرمایا: ”حضور نہ میں دشت کو دیکھ پا رہا ہوں اور نہ کوہ کو“ پھر آپ پیغمبر کے قریب پہنچے آنحضرت نے فرمایا ”اپنی آنکھیں کھولو“ رسول خدا نے اپنا لعاب دہن علی کی آنکھوں میں لگایا تو آنکھیں شفایاب ہوگئیں۔ پھر آپ نے پرچم علی کو دیا اور ان کی کامیابی کے لیے دعا کی۔ امیرالمومنین علی علیہ السلام قلعہ کی طرف روانہ ہوگئے۔
حضرت علی علیہ السلام کی سرکردگی میں جب لشکر قلعہ کے نزدیک پہنچا تو مرحب کے بھائی حارث نے اپنے مشاق اور تیز رفتار شہ سواروں کے ساتھ لشکر اسلام پر حملہ کیا۔ مسلمان بھاگے علی تنہا اپنی جگہ جمے رہے، علی علیہ السلام کی تلوار کی ضرب نے اپنا کام کیا اور حارث ان کے ہاتھوں قتل ہوگیا۔ یہودیوں پر خوف و وحشت طاری ہوگیا اور وہ قلعہ کے اندر بھاگ گئے قلعہ کے دروازہ کو مضبوطی سے بند کرلیا۔ مسلمانوں نے جب یہ منظر دیکھا تو پھر میدان میں پلٹ آئے، ایسے موقع پر خیبر کا مشہور پہلوان حارث کا بھائی اپنے بھائی کی موت سے بے تاب ہوگیا۔ اسلحہ میں غرق، غصہ میں بھرا رجز پڑھتا ہوا قلعہ سے باہر کود پڑا۔
وہ کہہ رہا تھا… ”خیبر مجھے جاتا ہے میں مرحب ہوں اسلحہ میں غرق، آزمودہ کار پہلوان ہوں، کبھی میں نیزے سے وار کرتا ہوں کبھی شمشیر سے جب شیر غصہ کے عالم میں ہوتے ہیں (اس وقت بھی) کوئی میری ممنوعہ جگہ سے قریب نہیں ہوتا۔ (مغازی واقدی ج۲ ص ۵۳،۵۴)
علی نے اس کے جواب میں فرمایا:
”میں وہ ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدر (شیر) رکھا ہے میں بہادر ہوں اور کچھاروں کا شیر ہوں۔“ (ارشاد مفید ص۶۷)
اس کے بعد زبردست جنگ شروع ہوئی، شمشیر علی مرحب کے سر میں در آئی اس کی سپر پتھر کے خود اور اس کے سر کو دانتوں تک دو ٹکڑے میں تقسیم کر دیا۔ یہ ضربت ایسی خطرناک تھی کہ اس کو دیکھ کر یہودیوں کا ایک گروہ بھاگ کھڑا ہوا اور قلعہ کے اندر جاچھپا اور بقیہ افراد علی علیہ السلام کے ساتھ دست بدست جنگ میں مارے گئے۔
علی علیہ السلام نے شیر کی طرح یہودیوں کا پیچھا قلعہ کے دروازہ تک کیا پھر قلعہ کے دروازہ کی طرف متوجہ ہوئے اور اسے اکھاڑ لیا اور اس کو جنگ کے اختتام تک سپر کی طرح استعمال کرتے رہے۔ پھر اس کو اس خندق کے اوپر رکھ دیا جو قلعہ کے چاروں طرف کھدی ہوئی تھی۔(مغازی واقدی ج۲ ص ۶۵۵)
یہ دروازہ اتنا بھاری تھا کہ لشکر اسلام کے آٹھ سپاہی اس کو نہ اٹھاسکے حضرت علی علیہ السلام اس اعجازی قوت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ
”میں نے ہرگز بشری قوت سے اس کو نہیں اکھاڑا ہے بلکہ خداداد قوت کے زیر اثر اور روز جزا پر ایمان کی بنا پر یہ کام کیا ہے۔“
(بحارالانوار ج۲۱ ص ۲۶)
علی علیہ السلا م کی شجاعت، بہادری اور ان کے ہاتھوں کی طاقت سے خیبر کی فتح اور دوسروں کی ناطاقتی کے بارے میں بہت سی حدیثیں اہلسنّت کی کتابوں میں موجود ہیں ان ماخذوں کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma
آبی
سبز تیره
سبز روشن
قهوه ای