تبلیغ اسلام کے سلسلے میں چند پیچیدگیاں اور اُن کے حل
FehrestMozoei
البحث 
سنہ۶ ہجری کا آغاز
یہ سال، سیاسی اور جنگی اعتبار سے تاریخ اسلام میں اہم ترین سال شمار کیا جاتا ہے۔ اس لیے کہ لشکر احزاب کی شکست اور ہجرت کے پانچویں سال یہودیوں پر مسلمانوں کی کامیابی کے بعد لشکر اسلام کے حملے شروع ہوئے۔ اس طرح کہ اس سال ۲۴ جنگی دستے (سریہ) مختلف ذمہ داریوں کے ساتھ بھیجے گئے اور ان میں سے بہت سے گروہ اہم کامیابی اور بہت زیادہ مالِ غنیمت کے ساتھ مدینہ واپس آئے۔ اس سال چار غزوات واقع ہوئے کل ۲۸ جنگی حملے یا جنگی مہم اس سال واقع ہوئیں۔ اور صلح حدیبیہ کا اہم معاہدہ بھی اسی سال طے پایا۔ اب ہم اختصار کے ساتھ اس سال کے اہم جنگی واقعات بیان کر رہے ہیں۔
غزوہٴ بنی لحیان
سنہ ۴ ہجری میں رجیع کا بدترین واقعہ جو بنی لحیان کے ہاتھوں مبلغین اسلام کی شہادت پر منتہی ہوا اس نے رسول خدا کو اسی واقعہ کے عاملین کی تنبیہ کے لیے آمادہ کر دیا۔ اب دو سال کے بعد سہ شنبہ یکم ربیع الاول سنہ ۶ ہجری کو رسول خدا نے مکتوم کو مدینہ میں اپنا جانشین معین فرمایا اور لشکر اسلام کے ہزار افراد کے ساتھ نزدیک ترین راستہ سے شمال کی طرف روانہ ہوگئے۔ اور ایسا ظاہر کیا کہ جیسے آپ شام جا رہے ہوں۔ لیکن منزلیں طے کرنے کے بعد آپ داہنی طرف مڑ گئے اور نہایت تیزی سے بنی لحیان کی طرف آگئے۔ مگر لشکر اسلام کی آمد سے دشمن پہلے سے آگاہ تھے وہ پہاڑوں کی طرف بھاگ گئے تھے۔ رسول خدا نے ایک جنگی مشق کی اور لشکر اسلام کے دستوں کے ساتھ راہ مکہ میں ”عسفان“ کی طرف روانہ ہوئے اور پھر آپ نے دو جاسوسوں کو مامور کیا کہ وہ قریش کی اطلاع لائیں۔
جو قبائل قریب قریب آباد تھے اس جنگی مشق نے ان کے حوصلوں پر بڑا اثر کیا اور قریش کی شان و شوکت اور ان کا وقار ان کی نظروں سے گر گیا۔ لشکر اسلام اس مشق کے بعد واپس آگیا۔
زمین پر فساد پھیلانے والوں کا قتل
تاریخ شوال سنہ ۶ہجری
قبیلہ عرینہ سے آٹھ آدمی مدینہ آئے اور انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔ مدینہ کی آب و ہوا ان کو راس نہیں آئی اور وہ بیمار پڑ گئے۔ رسول خدا نے ان کو اپنے اونٹوں کی چراگاہ پر بھیج دیا تاکہ وہ لوگ کھلی ہوا میں تازہ دودھ پی کر صحت مند ہو جائیں۔
چند دنوں تک جو، ان لوگوں نے اونٹوں کا دودھ استعمال کیا تو تندرست و توانا ہوگئے لیکن بجائے اس خدمت کی قدردانی کے انہوں نے رسول خدا کے چرواہے یسار کو نہایت بیدردی سے قتل کر دیا۔ اس کے ہاتھ پاؤں اور سر قلم کردیا۔ زبان اور آنکھوں میں کانٹے چبھو دیئے اور پھر رسول خدا کے تمام اونٹوں کو چرالے گئے۔
آپ نے ”کرزبن جابر“ کو ۲۰ افراد کے ساتھ ان کا پیچھا کرنے کے لیے بھیجا۔ کرز اور اس کے ساتی ان کو اسیر کرکے مدینہ لائے رسول خدا نے حکم دیا کہ زمین پر فساد پھیلانے والوں کے ہاتھ پیر کاٹ کردار پر لٹکا دیا جائے۔ اور اس طرح سے ان کو خیانت کی سزا مل گئی اور یہ آیت مفسدین کے لیے نازل ہوئی کہ:
”ان لوگوں کی سزا جو خدا اور رسول کے ساتھ جنگ کرتے اور زمین پر فساد پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سوائے اس کے اور کچھ نہیں ہے کہ وہ قتل کئے جائیں یا دار پر چڑھائے جائیں یا ان کے ہاتھ پیر اس طرح کاٹے جائیں کہ اگر داہنا پیر ہو تو بایاں ہاتھ ہو اور داہنا ہات ہو ت بایاں پیر ہو۔ یاان کو شہر بدر کر دیا جائے ان کے لیے دنیا میں تباہی اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔(مائدہ:۳۳)
غزوہٴ بنی مصطلق یا مریسیع
شعبان سنہ ۶ ہجری
رسول خدا کو خبر ملی کہ بنی مصطلق، سپاہ اسلام سے جنگ کرنے کی غرض سے اسلحے اور طاقتیں جمع کرنے کی فکر میں ہیں۔ رسول خدا نے اس رپورٹ کی صحت کی تحقیق کے لیے ”بریدة بن حصیدہ اسلمی“ کو اس علاقہ میں بھیجا، بریدہ، بنی مصطلق کی طرف روانہ ہوئے اور انجان بن کے قبیلہ کے سردار سے رابطہ قائم کیا اور واپسی پر ایک رپورٹ میں اس خبر کے صحیح ہونے کی تائید کی۔
رسول خدا نے ابوذرغفاری کو مدیہ میں اپنا جانشین مقرر کیا اور ہزار جاں بازوں کے ساتھ دو شنبہ کے دن دوسری شعبان کو دشمن کی طرف چل پڑے اور چاہ مریسیع کے پاس خیمہ زن ہوئے اس غزوہ میں کچھ وہ منافقین بھی مالِ غنیمت کی لالچ میں لشکر اسلام کے ساتھ ہوگئے۔ جو کسی جنگ میں حضرت کے ساتھ نہیں تھے۔
مقام مریسیع میں دونوں لشکروں کی صفیں آراستہ ہوئیں۔ فرمان رسول خدا کے بموجب تھوڑی دیر تک تیر اندازی کے نتیجہ میں بنی مصطلق ہار گئے اور ان میں ایک آدمی بھی فرار نہ کرسکا۔ ان کے دس آدمی مقتول اور بقیہ اسیر ہوئے۔ اور اس حملہ میں ایک مسلمان بھی شہید نہیں ہوا۔ اس جنگ میں دو ہزار اونٹ پانچ ہزار گوسفند ہاتھ آئے اور دو سو خاندان اسیر ہوئے۔
حادثہ
جنگ ختم ہونے کے بعد لوٹتے وقت ایک چھوٹا سا حادثہ پیش آگیا۔ اگر رسول خدا اس پر مخصوص مہارت کے ساتھ قابو نہ پاگئے ہوتے تو اسلام کے لیے ایک نیا خطرہ بن جاتا۔
پانی کے بارے میں جھجاہ غفاری غلامِ عمر بن خطاب جو مہاجرین میں سے تھے اور سنان جھنی سے رخت سفر باندھ کر نکل جائیں۔
کوچ کا حکم ہونے کے بعد لشکر اسلام ایک رات دن مسلسل چلتا رہا۔ یہاں تک کہ آفتاب ان کے سر پر پہنچ گیا۔ اس وقت ٹھہرنے کا حکم دیا گیا۔ جاں باز اسلام تھکن کی وجہ سے خاک پر پڑ رہے اور گہری نیند سو گئے۔ اس اطمینان اور خوشی کے ساتھ جو ایک لمبی اور غیر معمولی تھکن کے بعد روح و اعصاب کو حاصل ہوتی ہے۔ کدورتیں دلوں سے نکل گئیں اور کینہ کی آگ خودبخود بجھ گئی۔
باپ اور بیٹے میں فرق
عبداللہ بن ابی کے بیٹے نے سمجھا کہ رسول خدا اس کے باپ کے قتل کا فرمان صادر کریں گے۔ تو فوراً رسول خدا کے پاس آیا اور کہنے لگا۔ اے رسول اللہ! سب لوگ جانگے ہیں کہ کوئی بھی میری طرح باپ سے نیک برتاؤ نہیں کرتا لیکن اگر آپ کا فرمان یہ ہے کہ وہ قتل کیا جائے تو آپ حکم دیں میں خود قتل کروں گا۔
رسول خدا نے جواب دیا نہیں تم ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ پیغمبر کے بزرگانہ سلوک نے ابن ابی کے دوستوں کے درمیان اس کی حیثیت و شخصیت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ یہاں تک کہ وہ لوگ کھلم کھلا اس کی سرزنش کرنے لگے۔
رسول خدا نے عفو و درگزر کے حربہ سے خطرناک داخلی دشمن کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔ ایک دن جناب عمر سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ جس دن تم اس کو قتل کرنے کے لیے کہہ رہے تھے اگر میں اس کو قتل کر دیتا تو اس کے دفاع میں بجلیاں کوندتیں۔ لیکن اگر آج ہم اس کے قتل کا حکم دے دیں تو لوگ اس کی جان کو آجائیں گے۔(تاریخ طبری ج۲ ص ۶۰۸)
جو انصار میں سے آپس میں الجھ گئے، سنان نے مدد کے لیے آواز دی اے انصار! اور جھجاہ نے مدد کے لیے پکارا۔ اے مہاجرین! نزدیک تھا کہ بہت بڑا ہنگامہ کھڑا ہو جائے۔ منافقین کے سربدار عبداللہ بن ابی نے موقع کو غنیمت جانا اور اپنے آس پاس کے لوگوں سے بولا:
خدا کی قسم! ہمارا اور ان جلابیب کا معاملہ اس مثل جیسا ہے کہ اپنے کتے کو موٹا کرو تاکہ وہ تمہیں کو کاٹ کھائے۔ لیکن خدا کی قسم! جب ہم مدینہ پلٹ کے جائیں گے تو چونکہ ہم مدینہ کے باعزت لوگ ہیں اس لیے ان زبوں حال اور بے چارہ مہاجرین کو باہر نکال دیں گے۔(طبقات ج۲ ص ۶۰۴، منافقون:۸)
زید بن ارقم نے حضور کو خبر دی
زید بن ارقم نے جب عبداللہ بن ابی کی باتیں سنیں تو رسول خدا کے پاس گئے اور اس کی سازش آمیز اور منافقانہ باتوں کو پیغمبر کے سامنے نقل کر دیا۔ رسول خدا نے زید کی خبر کے بارے میں وحی کے ذریعہ اطمینان حاصل کرلینے کے بعد زید کے کان کو پکڑ کر کہا کہ یہ اس شخص کے کان ہیں جس نے اپنے کانوں کے ذریعہ خدا سے وفا کی ہے۔
عبداللہ بن ابی نے جب زید کی رپورٹ کی خبر سنی تو رسول اللہ کے پاس پہنچا اور حضرت کے سامنے جھوٹی قسم کھا کر کہنے لگا کہ میں ایسی بات نہیں کہی ہے اور چونکہ وہ اپنے قبیلہ کے درمیان بزرگوں اور صاحب احترام شخصیتوں میں شمار کیا جاتا تھا اس لیے انصار میں سے کچھ لوگ پیغمبر کے حضور میں پہنچے، ابی کے فرزند کی حمایت میں انہوں نے کہا کہ شاید زید نے ایسی بات کا وہم کیا ہو یا ان کے کانوں نے غلط سنا ہو۔ یہاں تک کہ سورہ منافقون کے نازل ہونے کے بعد اس پاک دل نوجوان کو اطمینان حاصل ہوا اور عبداللہ بن ابی ذلیل ہوا۔(تاریخ طبری ج۲ ص ۶۰۶)
عمر بن خطاب نے اس واقعہ کو سننے کے بعد رسول خدا سے خواہش ظاہر کی کہ عبداللہ بن ابی کو قتل کر دیا جائے۔ لیکن آنحضرت نے فرمایا کہ ایسی صورت میں دشمن کہیں گے کہ محمد اپنے اصحاب کو قتل کر رہے ہیں مصلحت یہ ہے کہ ہم جلد سے جلد نکل چلیں تاکہ باطل اندیشے دلوں ۔
بنی مصطلق، اسلامی تحریک میں شامل
جب رسول خدا نے مالِ غنیمت اور اسیروں کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کیا تو اس وقت رئیس قبیلہ ”حارث بن ضرار“ کی بیٹی ”جویریة“ ایک مسلمان کے حصہ میں آئیں انہوں نے اپنے آقا سے قرارداد کرلی کہ میں اتنی رقم لے کر آزاد ہو جاؤں گی لیکن ان کے پاس پیسے نہیں تھے۔ ان کی صرف ایک امید تھی، پیغمبر کا لطف و مہربانی، پیغمبر کے پاس آئیں اور کہا:
”میں حارث کی بیٹی ہوں اور اسیر ہو کر آئی ہوں۔ اور اس وقت میں نے یہ طے کرلیا ہے کہ کچھ پیسے ادا کرکے میں آزاد ہو جاؤں، اے اللہ کے رسول! میں آئی ہوں کہ اس پیسے کو ادا کرنے میں آپ میری مدد فرمائیں۔ رسول خدا نے فرمایا کہ کیا تم کو یہ پسند ہے کہ میں تمہارے لیے اس سے بہتر کام انجام دوں؟ جن پیسوں کی تم قرض دار ہو اس کو میں ادا کر دوں پھر تم سے شادی کرلوں۔ جویریة اس پیشکش سے مسرور ہوگئیں۔
جویریہ سے رسول خدا کی شادی کی خبر اصحا میں پھیل گئی لوگوں نے بنی مصطلق کے پیغمبر کے رشتہ دار بن جانے کے احترام میں اپنے اسیروں کو آزاد کر دیا۔ جب بنی مصطلق نے لشکر اسلام کا یہ بڑا پن اور درگزر دیکھا تو وہ لوگ مسلمان ہوگئے اور ایک بابرکت شادی کی بنا پر سب کے سب اسلامی تحریک میں شامل ہوگئے۔
(تاریخ ج۲ ص۶۲)
ایک فاسق کی رسوائی
بنی مصطلق کے مسلمان ہو جانے کے بعد رسول خدا نے ولید بن عقبہ بن ابی معیط کو ان کی طرف زکوٰة وصول کرنے کے لیے بھیجا۔ بنی مصطلق نے جب یہ سنا کہ پیغمبر کا نمائندہ ان کی طرف آرہا ہے تو وہ ان کے استقبال کے لیے دوڑ پڑے لیکن ولید ڈر گیا اور اس نے خیال کیا کہ وہ لوگ جنگ کرنے کے لیے آمادہ ہیں۔ لہٰذا اس نے مدینہ واپس آکر رسول خدا سے کہا کہ وہ لوگ مجھے قتل کر ڈالنا چاہتے تھے اور انہوں نے زکوٰة ادا کرنے سے بھی انکار کر دیا۔
بنی مصطلق کے ساتھ دوبارہ جنگ کی باتیں لوگوں کی زبان پر چڑھ گئیں اس واقعہ کے بعد بنی مصطلق کا ایک وفد مدینہ آیا اور اس نے حقیقت بیان کی۔ اس واقعہ کے بارے میں آیت اتری۔
”اے ایمان لانے والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو اس کی تحقیق کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ نادانی کی بنا پر لوگوں کی جان و مال کو نقصان پہنچا دو پھر جب معلوم ہو کہ فاسق نے جھوٹ بولا تھا جو کچھ کیا ہے اس پر تم کو پشیمانی ہو۔“
(حجرات:۶)
پیغبر کی بیوی پر تہمت (حدیث افک)
رسول خدا جب سفر میں جانا چاہتے (حتیٰ جنگ کے لیے سفر میں بھی) تھے تو اپی بیویوں کے درمیان قرعہ نکالتے تھے جس کے نام قرعہ نکل آتا تھا اس بیوی کو اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔
غزوہ بنی مصطلق میں جناب عائشہ کے نام قرعہ نکلا آپ انہیں اپنے ساتھ لے گئے۔ جنگ سے واپسی کے وقت جب مدینہ کے قریب پہنچے تو وہیں ٹھہر گئے اور آرام کرنے لگے۔ اسی اثنا میں عائشہ اس بات کی طرف متوجہ ہوئیں کہ ان کا گلوبند گم ہوگیا ہے اس کو ڈھونڈنے کے لیے آپ خیمہ گاہ سے دور چلی گئیں جب واپس پلٹیں تو لشکر اسلام کا قافلہ وہاں سے کوچ کرچکا تھا اور تنہا عائشہ رہ گئیں تھیں۔ ایک متقی اور ایک نیک شخص جس کا نام ”صفوان بن معطل“ تھا وہ لشکر اسلام کے پیچھے پیچھے اطلاعات حاصل کرنے کے لیے چلا کرتے تھے۔ وہاں پہنچے اور عائشہ کو دیکھا کہ وہ وہاں تنہا ہیں۔ نہایت ادب سے وہ اونٹ سے نیچے اترے، اونٹ کو زمین پر بٹھایا اور خود دور کھڑے ہوگئے۔ یہاں تک کہ عائشہ اونٹ کی پشت پر سوار ہوگئیں انہوں نے اونٹ کی مہارپکڑی اور راستہ میں ایک حرف بھی گفتگو کئے بغیر ان کو مدینہ لے آئے۔ جب یہ لوگ مدینہ پہنچے تو منافقین نے عبداللہ بن ابی کی قیادت میں صفوان اور عائشہ کے بارے میں تہمتیں تراشیں۔ ناواقف ان تہمتوں کو لے اڑے مدینہ میں تہمتوں اور افواہوں کا بازار گرم تھا، اور ہر آدمی ایک الگ بات کہتا تھا۔ عائشہ بیمار ہوگئیں اور اس تہمت کے غم میں جو بے گناہی کے باوجود ان پر لگایا گیا تھا، روتی تھیں اور کسی وقت ان کو چین نہ تھا قریب تھا کہ اس موضوع پر فتنہ برپا ہو جائے کہ سورہٴ نور کی ۱۱ سے ۲۷ تک آیات نازل ہوئیں اور عائشہ کو یہ خوش خبری سنائی گئی کہ خدا تمہاری پاکیزگی پر گواہ ہے۔ (طبری ج۲ ص ۶۱۱)
پھر رسول خدا نے تہمت لگانے والوں پر حد جاری کی۔ جن لوگوں پر حد جاری کی گئی ان میں حسان بن ثابت اور حمنہ کا نام نظر آتا ہے۔
(سیرت ابن ہشام ج۲ ص ۳۰۹)
ابن اسحاق کہتا ہے کہ بعد میں معلوم ہوا کہ صفوان بن معطل دراصل مردانگی ہی سے عاری تھا اور عورتوں کے ساتھ نزدیکی نہیں کرسکتا تھا۔ یہ مرد پارسا کسی جنگ میں شہید ہوگیا۔(حوالہ سابق ج۳ص ۳۱۹)
صلح حدیبیہ کا پیمان
ذی قعدہ سنہ ۷ ہجری
راہ مکہ میں
لشکر السلام کی پے درپے کامیابی اور مشرکین مکہ کی گوشہ گیری نے پیغمبر کو اس بات پر آمادہ کیا کہ دوسری بار جزیرة العرب میں مسلمانوں کی حیثیت و وقار کے استحکام کے لیے اقدام کریں۔ آپ نے حکم دیا کہ مسلمان سفر حج کے لیے تیار ہو جائیں اور ہمسایہ قبائل جو ابھی تک حالت شرک پر باقی تھے ان سے آپ نے مسلمانوں کے ساتھ اس سفر میں چلنے کی خواہش ظاہر کی۔ ان میں سے بہت سے لوگوں نے عذر پیش کیا اور ساتھ چلنے سے انکار کر دیا۔
اس سفر میں عبادی اور معنوی خصوصیتوں کے علاوہ مسلمانوں کے لیے وسیع اجتماعی اور سیاسی مصلحتیں بھی تھیں۔ اس لیے کہ عرب کے متعصب قبائل نے مشرکین کے غلط پروپیگنڈہ کی بنا پر یہ سمجھ رکھا تھا کہ اس خانہ کعبہ کے لیے جو سلف کی یادگار اور ان کے افتخار کا مظہر ہے، رسول خدا کسی طرح اس کی قدر و منزلت کے قائل نہیں ہیں اور اس وجہ سے اسلام کی اشاعت سے شدت کے ساتھ ہراساں تھے۔ اب غلط خیالات کے پردے چاک ہوئے اور انہوں نے دیکھ لیا کہ رسول خدا حج کو ایک فریضہ واجب جانتے ہیں ایک طرف اگر قریش مانع نہیں ہوئے اور زیارت کعبہ کی توفیق ہوگئی تو یہ مسلمانوں کے لیے بڑی کامیابی ہوگی کہ وہ چند سال کے بعد ہزاروں مشرکین کی آنکھوں کے سامنے اپنی عبادت کے مراسم ادا کریں گے۔ دوسری طرف قریش مسلمانوں کے مکہ میں داخل ہونے سے اگر مانع ہوئے تو اعراب کے جذبات طبعی طور پر مجروح ہو جائیں گے کہ ان لوگوں نے مسلمانوں کو فریضہ حج انجام دینے کے لیے کیوں نہ آزاد چھوڑا۔ یہ سفر چونکہ جنگی سفر نہ تھا اس لیے رسول خدا نے حکم دیا کہ ایک مسافر صرف ایک تلوار اپنے ساتھ رکھے اور بس۔
رسول خدا نے قربانی کے لیے ستر اونٹ مہیا کئے۔ پھر رسول خدا چودہ سو مسلمانوں کے ساتھ مکہ کی طرف روانہ ہوئے اور مقام ذوالحلیفہ میں احرام باندھا۔
آپ نے عباد بن بشر کو ۲۰ مسلمانوں کے ساتھ ہراول دستہ کے عنوان سے آگے بھیج دیا تاکہ جو راستے میں تھے ان لوگوں کے کانوں تک لشکر اسلام کی روانگی کی خبر پہنچا دیں اور اگر ان لوگوں نے کوئی سازش کی تو اس کی خبر رسول خدا کو دیں۔ (طبقات ابن سعد ج۲ ص ۹۵)
قریش کا موقف
جب قریش رسول خدا کی روانگی سے آگاہ ہوئے تو انہوں نے بتوں (لات و عزیٰ) کی قسم کھائی کہ ان کو مکہ میں آنے سے روکیں گے۔ قریش کے سرداروں نے رسول خدا کو روکنے کے لیے خالد بن ولید کو دو سو سواروں کے ساتھ مقام ”کراع الغیم“ بھیجا انہوں نے وہاں مورچے سنبھال لیے۔ رسول خدا قریش کے موقف سے آگاہی کے بعد چونکہ یہ چاہتے تھے کہ خونریزی کے ذریعہ اس مہینہ اور حرم کی حرمت مجروح نہ ہو اس لیے آپ نے راہنما سے فرمایا کہ کارواں کو اس راستہ سے لے چلو کہ جس راستہ میں خالد کا لشکر نہ ملے۔
راہنما قافلہٴ اسلام کو نہایت دشوار گذار راستوں سے لے گیا یہاں تک کہ یہ لوگ مکہ سے ۲۲ کلومیٹر دور حدیبیہ کے مقام پر پہنچ گئے۔ آنحضرت نے سب کو یہ حکم دیا کہ یہیں اتر پڑیں اور اپنے خیمے لگالیں۔ (سیرت ابن ہشام ج۳ ص ۲۲۳)
قریش کے نمائندے پیغمبر کی خدمت میں
قریش نے چاہا کہ آنحضرت کے آخری مقصد سے باخبر ہو جائیں اس لیے انہوں نے اپنے یہاں کی اہم شخصیتوں کو رسول کی خدمت میں بھیجا۔
قریش کی نمائندگی میں پہلے گروپ میں ”بدیل بن خزاعی“ قبیلہ خزاعہ کے افراد کے ساتھ آیا۔ جب وہ رسول خدا سے ملا تو آپ نے فرمایا میں جنگ کے لیے نہیں آیا ہوں میں تو خانہ خدا کی زیارت کے لیے آیا ہوں۔ نمائندے واپس چلے گئے اور انہوں نے یہ اطلاع قریش کو پہنچا دی لیکن قریش نے کہا خدا کی قسم، ہم ان کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔ خواہ زیارت خانہ خدا ہی کی غرض سے کیوں نہ آئے ہوں۔ دوسرے اور تیسرے نمائندے بھیجے گئے اور انہوں نے بھی بدیل ہی والی رپورٹ پیش کی۔
قریش کے تیسرے نمائندہ حلیس بن علقمہ عرب کے تیر اندازوں کے افسر نے کہا کہ ہم نے ہرگز تم سے یہ معاہدہ نہیں کیا کہ ہم خانہ خدا کے زائرین کو روکیں گے، خدا کی قسم! اگر تم لوگ محمد کو آنے نہ دو گے تو میں اپنے تیر انداز ساتھیوں کے ساتھ تمہارے اوپر حملہ کرکے تمہاری اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا۔ قریش اپنے اندر اختلاف رونما ہونے سے ڈر گئے اور انہوں نے حلیس کو اطمینان دلایا کہ ہم کوئی ایسا راستہ منتخب کریں گے جو تمہاری خوشنودی کا باعث ہوگا۔
قریش کا چوتھا نمائندہ عروة بن مسعود تھا، جس پر قریش اظمینان کامل رکھتے تھے۔ وہ جب رسول خدا سے ملا تو اس نے اس بات کی کوشش کی کہ اپنی باتوں میں قریش کی طاقت کو زیادہ اور اسلام کی قوت کو کم کرکے پیش کرے اور مسلمانوں کو جھک جانے اور بلاقید و شرط واپس جانے پر آمادہ کرلے۔ لیکن جب وہ واپس گیا تو اس نے قریش سے کہا کہ میں نے قیصر و کسریٰ اور سلطان حبشہ جیسے بڑے بڑے بادشاہوں کو دیکھا ہے مگر جو بات محمد میں ہے وہ کسی میں نہیں ہے۔
میں نے دیکھا کہ مسلمان ان کے وضو کا ایک قطرہ پانی بھی زمین پر گرنے نہیں دیتے وہ لوگ تبرک کے لیے اس کو بھی جمع کرتے ہیں اور اگر ان کا ایک بال بھی گر جائے تو ان کے اصحاب اس کو فوراً تربک کے لیے اٹھا لیتے ہیں۔ لہٰذا اس خطرناک موقع پر نہایت عاقلانہ ارادہ کرنا۔ (سیرت ابن ہشام ج۳ ص ۳۲۵)
رسول خدا کے سفراء
رسول خدا نے ایک تجربہ کار شخص کو جس کا نام ”خراش“ تھا اپنے اونٹ پر سوار کیا اور قریش کے پاس بھیجا۔ لیکن ان لوگوں نے اونٹ کو پئے کر دیا اور نمائندہ پیغمبر کو قتل کرنے کا منصوبہ بنالیا۔ مگر وہ حادثہ تیر اندازان عرب کے ایک دستہ کی وساطت سے ٹل گیا۔
قریش کی نقل و حرکت یہ بتا رہی تھی کہ ان کے سر میں جنگ کا سودا سمایا ہوا ہے۔ رسول خدا مسئلہ کو صلح کے ذریعہ حل کرنے سے مایوس نہیں ہوئے۔ لہٰذا آپ نے قریش کے پاس ایسے شخص کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجنے کا ارادہ کیا جس کا ہاتھ کسی بھی جنگ میں قریش کے خون سے آلودہ نہ ہوا ہو۔ لہٰذا آپ نے عمر بن خطاب کو حکم دیا کہ وہ قریش کے پاس جائیں۔ انہوں نے عذر ظاہر کیا رسول خدا نے عثمان بن عفان کو جن کی اشراف قریش سے قریب کی رشتہ داری تھی۔ اشراف قریش کے پاس بھیجا۔ عثمان قریش کے ایک آدمی کی پناہ میں مکہ میں وارد ہوئے اور پیغمبر کے پیغام کو قریش کے سربرآوردہ افراد تک پہنچایا۔ انہوں نے پیش کش رد کرنے کے ساتھ عثمان کو بھی اپنے پاس روک لیا انہیں واپس جانے کی اجازت نہیں دی۔ مسلمانوں کے درمیان یہ افواہ اڑ گئی کہ قریش نے عثمان کو قتل کر دیا۔(ایضاً ص ۳۲۸،۳۲۹)
بیعت رضوان
پیغمبر کے نمائندہ کی آنے میں تاخیر کی وجہ سے مسلمانوں کے درمیان عجیب اضطراب اور ہیجان پیدا ہوگیا۔ اس بار مسلمان جوش و خروش میں آکر انتقام پر آمادہ ہوگئے۔ پیغمبر نے ان کے جذبات کو برانگیختہ کرنے کے لیے فرمایا۔ ہم یہاں سے نہیں جائیں گے تاوقتیکہ کام کو ایک ٹھکانے نہ لگا دیں۔ اس خطرناک وقت میں اگرچہ مسلمانوں کے ساتھ جنگ کے لیے ضروری ہتھیار اور ساز و سامان نہ تھا۔ پھر بھی رسول خدا نے یہ ارادہ کیا کہ اپنے اصحاب کے ساتھ عہد و پیمان کی تجدید کریں۔ آنحضرت ایک درخت کے سایہ میں بیٹھے اور تمام اصحاب نے سوائے ایک کے آپ کے ہاتھ پر بعنوان بیعت ہاتھ رکھا اور قسم کھائی کہ خون کے آخری قطرہ تک اسلام کا دفاع کریں گے۔
یہ وہی بیعت رضوان ہے جس کے بارے میں قرآن میں اس طرح آیا ہے کہ:
”خداوند عالم ان مومنین سے، جنہوں نے تمہارے ساتھ درخت کے نیچے بیعت کی ہے، خوش ہوگیا اور ان کے وقار و خلوص سے آگاہ ہوگیا اللہ نے ان کے اوپر ان کی روح کے سکون کی چیز نازل کی اور اجر کے عنوان سے عنقریب ان کو فتح عطا کرے گا۔“ (سورہٴ فتح:۱۸)
بیعت کی رسم ختم ہوئی ہی تھی کہ عثمان پلٹ آئے اور قریش کے وہ جاسوس جو دور سے بیعت کا واقعہ دیکھ رہے تھے ہاتھ پیر مار کر رہ گئے۔ قریش کے سربرآوردہ افراد نے ”سہیل بن عمرو“ کو صلح کی قرارداد معین کرنے کے لیے بھیجا۔
(سیرت ابن ہشام ج۳ ص ۳۳۰)

صلح نامہ کا مضمون
جب سہیل بن عمرو رسول خدا کی خدمت میں پہنچا تو یوں گویا ہوا۔ قریش کے سربرآوردہ افراد کا خیال ہے کہ آپ اس سال یہاں سے مدینہ واپس چلے جائیں اور حج و عمرہ کو آئندہ سال پر اٹھا رکھیں۔
پھر مذاکرات کا باب کھل گیا اور سہیل بن عمرو بنت بات پر بے موقع سخت گیری سے کام لے کر پریشانی کھڑی کرتا رہا۔ جب کہ پیغمبر چشم پوشی کے رویہ کو اس لیے نہیں چھوڑ رہے تھے کہ کہیں صلح کا راستہ ہی بند نہ ہو جائے۔ مکمل موافقت کے ایک سلسلہ کے بعد رسول خدا نے علی علیہ السلام سے فرمایا کہ صلح نامہ لکھو علی علیہ السلام نے رسول کے حکم سے صلح نامہ لکھا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سہیل نے کہا کہ ہم اس جملہ سے آشنا نہیں ہیں آپ بسمک اللھم لکھیں۔ (یعنی تیرے نام سے اے خدا) رسول خدا نے مواقفت کی پھر علی نے پیغمبر کے حکم سے لکھا کہ یہ وہ صلح ہے جسے رسول خدا محمد انجام دے رہے ہیں۔
سہیل بولا: ہم آپ کی رسالت اور نبوت کو قبول نہیں کرتے اگر اس کو قبول کرتے تو آپ سے ہماری لڑائی نہ ہوتی۔ آپ اپنا اور اپنے باپ کا نام لکھیں۔
(بحارالانوار ج۲ ص ۳۳۳،۳۳۳۵)
رسول خدا نے علی علیہ السلام کو حکم دیا کہ اس جملہ کو مٹا دیں لیکن علی نے فرمایا کہ میرے ہاتھوں میں آپ کا نام مٹانے کی طاقت نہیں ہے۔ رسول خدا نے اپنے ہاتھوں سے اس جملہ کو مٹا دیا۔
قریش اور مسلمان دونوں اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ دس سال تک ایک دوسرے سے جنگ نہیں کریں گے۔ تاکہ اجتماعی امن و امان اور عربستان میں عمومی صلح قائم ہو جائے۔
جب کوئی قریش کا آدمی مسلمانوں کی پناہ میں چلاجائے گا تو محمد اس کو واپس کر دیں گے لیکن اگر مسلمانوں میں سے کوئی قریش کی پناہ میں آجائے تو قریش پر یہ لازم نہیں ہے کہ وہ اس کو واپس کریں۔
مسلمان اور قریش دونوں، جس قبیلہ کے ساتھ چاہیں عہد و پیمان کرسکتے ہیں۔
محمد اور ان کے اصحاب اس سال مدینہ واپس جائیں لیکن آئندہ سال زیارت خانہ، خدا کے لیے آسکتے ہیں۔ مگر اس کی شرط یہ ہے کہ تین دن سے زیادہ مکہ میں قیام نہ کریں اور مسافر جتنا ہتھیار لے کر چلتا ہے اس سے زیادہ ہتھیار اپنے ساتھ نہ رکھیں۔
(سیرت ابن ہشام ج۳ ص ۲۳۲)
وہ مسلمان جو مکہ میں مقیم ہیں اس پیمان کی رو سے اپنے مذہبی امور کو آزادی سے انجام دے سکتے ہیں اور قریش کو انہیں آزار پہنچائیں گے اور نہ ہی اس بات پر مجبور کریں گے کہ وہ اپنے مذہب سے پلٹ جائیں ان کے دین کا مذاق نہیں اڑائیں گے۔ اس طرح وہ مسلمان جو مدینہ سے مکہ وارد ہوں ان کی جان و مال محترم ہے۔ (بحارالانوار ج۲۰ ص ۳۵۰)
اس قرارداد کی دو کاپیاں کی گئیں ایک کاپی رسول خدا کی خدمت میں پیش ہوئی۔ اس کے بعد آپ نے جانوروں کو ذبح کرنے کا حکم دیا اور خود آپ نے وہیں سرمونڈا۔ پھر ۱۹ دن کے بعد آپ مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے۔
مخالفین صلح
پیمان صلح کچھ مسلمانوں خصوصاً مہاجرین کی ناراضگی کا باعث ہوا ہر چیز سے زیادہ صلح نامہ کی دوسری شرط سے مسلمانوں کو تکلیف ہوئی کہ جس میں مسلمانوں کے پاس پناہ لینے والوں کو واپس کر دینے کو لازم قرار دیا گیا ہے۔ مخالفین صلح میں سب سے آگے عمر بن خطاب تھے واقدی کی روایت کے مطابق عمر اور ان کے ہمنوا افراد رسول خدا کی خدمت میں پہنچے اور کہا کہ اے اللہ کے رسول کیا آپ نے نہیں کہا تھا کہ جلد ہی آپ مکہ میں وارد ہوں گے اور کعبہ کی کنجی لے لیں گے اور دوسروں کے ساتھ عرفات میں وقوف کریں گے؟ اور اب حالت یہ ہے کہ نہ ہماری قربانی خانہ خدا تک پہنچی اور نہ ہم خود پہنچے۔ رسول خدا نے عمر کو جواب دیا کہ کیا میں اسی سفر میں خانہ خدا تک پہنچنے کے لیے کہا تھا؟ عمر نے کہا: ”نہیں“ پھر رسول مقبول نے عمر کی طرف رخ کیا اور فرمایا کہ ”آیا احد کا دن بھول گئے جس دن تم بھاگ رہے تھے اپنے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے تھے اور میں تمہیں پکا رہا تھا؟ کیا تم احزاب کا دن بھول گئے؟ کیا تم فلاں دن بھول گئے؟“
”مسلمانوں نے کہا اے اللہ کے رسول جو آپ نے سوچا ہے وہ ہم نے نہیں سوچا ہے۔ آپ خدا اور اس کے حکم کو ہم سے بہتر جانتے ہیں۔“
اسی طرح جب صلح نامہ لکھا گیا تو عمر اپنی جگہ سے اٹھ کر رسول خدا کے پاس آئے اور کہا: ”اے اللہ کے رطسول کیا ہم مسلمان نہیں ہیں؟“ آپ نے فرمایا: ”بے شک ہم مسلمان ہیں۔“ عمر نے کہا کہ ”پھر دین خدا میں ہم کیوں ذلت اور پستی برداشت کریں؟ آپ نے فرمایا کہ میں خدا کا بندہ اور اس کا رسول ہوں، اس کے حکم کی مخالفت ہرگز نہیں کروں گا۔ اور وہ بھی ہم کو تباہ نہیں کرے گا۔
عمر بن خطاب نقل کرتے ہیں کہ میں نے کبھی بھی حدیبیہ کے دن کی طرح اسلام کے بارے میں شک نہیں کیا۔ (مغازی و اقدی ج۲ ص ۶۰۷)
ابو بصیر کی داستان اور شرط دوم کا ختم ہو جانا
ابوبصیر نامی ایک مسلمان جو مدت سے مشرکین کی قید میں زندگی گزار رہے تھے مدینہ بھاگ آئے قریش نے پیغمبر کے پاس خط لکھا اور یاد دلایا کہ صلح حدیبیہ کی شرط دوم کے مطابق ابوبصیر کو آپ واپس کر دیں خط کو بنی عامر کے ایک شخص کے حوالہ کیا اور اپنے غلام کو اس کے ساتھ کر دیا۔ رسول خدا نے جو معاہدہ کیا تھا اس کے مطابق ابوبصیر سے کہا تمہیں مکہ لوٹ جانا چاہیے۔ کیونکہ ان کے ساتھ حیلہ بازی سے کام لینا کسی طرح بھی صحیح نہیں ہے، میں مطمئن ہوں کہ خدا تمہاری اور دوسروں کی آزادی کا وسیلہ فراہم کرے گا۔
ابوبصیر ن کہا کہ کیا آپ مجھ کو مشرکین کے سپرد کر رہے ہیں تاکہ وہ مجھ کو دین خدا سے بہکا دیں؟ رسول خدا نے پھر وہی بات دہرائی اور ان کو قریش کے نمائندہ کے سپرد کر دیا۔ جب وہ لوگ مقام ذوالحلیفہ میں پہنچے تو ابوبصیر نے ان محافظین میں سے ایک کو قتل کر دیا اور اس کی تلوار اور گھوڑے کو غنیمت کے طور پر لے لیا اور مدینہ لوٹ آئے۔ جب رسول خدا کی خدمت میں پہنچے تو کہا: ”اے اللہ کے سرول آپ نے اپنے عہد کو پورا کیا اور مجھے اس قوم کے سپرد کر دیا میں نے اپنے دین کا دفاع کیا تاکہ میرا دین برباد نہ ہو۔“
ابوبصیر چونکہ مدینہ میں نہیں رہ سکے اس لیے آپ صحرا کی طرف چلے گئے اور دریائے سرخ کے ساحل پر مکہ سے شام کی طرف جانے والے قافلوں کے راستہ میں چھپ گئے اور دریائے سرخ کے ساحل پر مکہ سے شام کی طرف جانے والے قافلوں کے راستہ میں چھپ گئے جو لوگ مکہ میں مسلمان ہوئے تھے اور قرارداد کے مطابق مدینہ نہیں آسکتے تھے وہ ابوبصیر کے پاس چلے جاتے تھے رفتہ رفتہ ان کی تعداد زیادہ ہوگئی۔ گروہ قریش کے تجارتی قافلوں پر حملہ کرکے ان کو نقصان پہنچانے لگے۔ قریش نے اس آفت سے بچنے کے لیے پیغمبر کو خط لکھا اور ان سے عاجزانہ طور پر یہ خواہش کی کہ ابوبصیر اور ان کے ساتھیوں کو مدینہ بلالیں اور پناہ گزینوں کو واپس کرنے والی شرط صلح نامہ کے متن سے حذف ہو جائے۔ (سیرت ابن ہشام ج۳ ص ۳۳۷)
صلح حدیبیہ کے نتائج کا تجزیہ
پے درپے جنگ ایک دوسرے سے براہ راست ملاقات سے رکاوٹ بنی ہوئی تھی لیکن اس صلح نے فکروں کے آزادانہ ارتباط اور اعتقادی بحث و مباحثہ کا راستہ کھول دیا۔ یہ عرب معاشرہ میں اسلام کی نئی منطق اور دلوں میں اسلام کے نفوذ کی وسعت کا ذریعہ بنی اور وہ اس طرح کہ صلح حدیبیہ والے سال پیغمبر کے ساتھ مسلمانوں کی تعداد چودہ سو تھی اور فتح مکہ والے سال دس ہزار افراد رسول خدا کے ساتھ تھے۔
صلح کے ذریعہ داخلی امن و امان قائم ہو جانے کے بعد اسلام کی عالمی تحریک کو سرحدوں کے پار لے جانے اور عالمی پیغام کو نشر کرنے کے لیے رسول خدا کو موقع مل گیا۔
یہ صلح درحقیقت تحریک اسلامی کو مٹانے کے لیے وجود میں آنے والے ہر طرح کے نئے جنگی اتحاد کے لیے مانع بن گئی۔ لہٰذا لشکر اسلام کے لیے ایک ایسا موقع ہاتھ آگیا کہ وہ اپنے بڑے دشمنوں جیسے خیبر کے یہودی کو اپنے راستہ سے ہٹا سکیں۔
خاص کر صلح کے فوائد کے بارے میں امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ”پیغمبر کی زندگی میں کوئی واقعہ صلح حدیبیہ سے زیادہ فائدہ مند نہیں تھا۔“
(فروغ ابدیت ج۲ ص ۶۰۰)
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma
آبی
سبز تیره
سبز روشن
قهوه ای