دہشت گردی کا انتقام
FehrestMozoei
البحث 
بنی نضیر کے واقعہ کے بعد ”یامین بن عمیر“ جو یہودی سے مسلمان ہو گیا تھا۔ اس سے رسول خدا نے کہا کہ تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارا چچا زاد بھائی میرے بارے میں کیا ارادہ رکھتا تھا اور وہ چاہتا تھا کہ میرا خاتمہ کر دے؟ یامین نے ایک شخص کو دس دینار دیئے اور اس سے کہا کہ عمرو بن حجاش (وہی یہودی جس نے رسول خدا کے سر پر پتھر گرانے کا ارادہ کیا تھا) کو قتل کر دے وہ شخص گیا اور اس نے اس ذلیل یہودی کو اس کی سزا تک پہنچا دیا۔ (سیرت ابن ہشام ج۳ ص ۲۰۳)

غزوہ بدر موعد
یکم ذیقعدہ سنہ ۴ ہجری قمری کو
جنگ احد خت ہو جانے کے بعد ابوسفیان نے جو کامیابی سے سرمست تھا، مسلمانوں کو دھمکایا کہ وہ آئندہ سال بدر میں ان سے مقابلہ کرے گا۔ ایک سال گزر چکا تھا اور مسلمان مختلف جنگوں میں کچھ نئی کامیابیاں حاصل کرچکے تھے اور ابو سفیان جو ڈر رہا تھا کہ کہیں کوئی جنگ نہ چھڑ جائے اور شکست سے دوچار ہونا پڑے۔ بدر تک پہنچنے کے لیے وہ ایک بہانہ تراش رہا تھا اور چاہتا تھا کہ مسلمانوں کو نصرف کر دے۔ ابو سفیان نے اس ہدف تک پہنچنے کے لیے ایک سیاسی چال چلی۔ نعیم نامی ایک شخص کو اس بات پر مامور کیا کہ وہ مدینہ جائے اور افواہیں پھیلائے تاکہ لشکر اسلام کے حوصلے پست و جائیں، ابو سفیان کے فرستادہ نے مدینہ پہنچنے کے بعد اپنی نفسیاتی جنگ کا آغاز کر دیا موقع کی تلاش میں رہنے والے منافقین نے اس کی افواہوں کو پھیلانے میں مدد کی اور لشکر ابوسفیان کے عظیم حملہ کی جھوٹی خبر نہایت آب و تاب کے ساتھ لوگوں کے سامنے بار بار بیان کرنے لگے۔ لیکن اس نفسیاتی جنگ نے رسول خدا اور ان کے باوفا اصحاب کے دل پر ذرہ برابر بھی اثر نہیں کیا۔ رسول خدا اس نفسیاتی جنگ نے رسول خدا اور ان کے باوصا اصحاب کے دل پر ذرہ برابر بھی اثر نہیں کیا۔ رسول خدا نے اس جماعت کے مقابل جو ذرا ہچکچاہٹ کا اظہار کر رہی تھی فرمایا اگر کوئی میرے ساتھ نہیں جائے گا تو میں تنہا جاؤں گا۔ پھر رسول خدا نے پرچم اسلام علی کے سپرد کیا اور پندرہ سو افراد کے ساتھ مدینہ سے ۱۶۰ کلومیٹر بدر کی طرف روانہ ہو گئے۔ اس حالت میں کہ آپ کے ساتھ صرف دس گھوڑے تھے۔
اپنی سازش کی ناکامی اور مسلمانوں کی آمادگی کی خبر سن کر ابوسفیان بھی دو ہزار افراد کے ساتھ بدر کی طرف روانہ ہوا لیکن مقام ”عسفان“ میں خشک سالی اور قحط کو بہانہ بنا کر خوف و وحشت کے ساتھ مکہ لوٹ گیا۔
مسلمان جو بدر میں ابوسفیان کے انتظار میں وقت گزار رہے تھے، مقام بدر میں سیزن کے زمانہ میں انہوں نے اپنا تجارتی سامان فروخت کر دیا اور ہر دینار پر ان کو ایک دینار نفع ملا اور یہ لوگ سولہ دنوں کے بعد مدینہ پلٹ آئے۔
اس طرح سے کفار قریش کے دل میں خوف و وحشت کی لہر دوڑ گئی اور بدر کی شکست کے آثار محو ہوگئے۔ اس لیے کہ قریش کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہوچکی تھی کہ اسلام کا لشکر اب شکست کھانے والا نہیں ہے۔ (سیرت ابن ہشام ج۳ ص ۲۲۰)
سنہ ۴ ہجری میں رونما ہونے والے دوسرے واقعات مندرجہ ذیل ہیں:
۳ شعبان کو امام حسین علیہ السلام کی ولادت باسعادت۔
(مروج الذہب ج۲ ص ۲۸۹)
حضرت علی علیہ السلام کی والدہ گرامی جناب فاطمہ بنت اسد کی وفات، کہ جن کے مادری حق کا بار رسول خدا پر تھا۔
پیغمبر کی ایک بیوی زینب بنت خزیمہ کا انتقال۔
رسول خدا کا جناب ام سلمہ، ہند بنت ابی امیہ سے نکاح، جو رسول خدا کی بیویوں میں ایک پارسا اور عقل و دانش سے مالا مال بیوی تھیں، شیعہ اور سنی دونوں نے ان سے بہت سی حدیثیں نقل کی ہیں۔

……
غزوہٴ ذات الرقاع

بتاریخ چہار شنبہ دسویں محرم سنہ ۵ ہجری کو
غزوہ بنی نضیر کے بعد رسول خدا کو یہ خبر ملی کہ قبیلہ غطفان یعنی بنی ثعلبة اور بنی محارب نے مسلمانوں سے جنگ کے لیے کچھ لشکر جمع کر رکھا ہے۔ رسول خدا نے اس سازش کو ناکام بنانے کے لیے مدینہ میں جناب ابوذر کو اپنا جانشین بنایا اور خود چار سو کا لشکر لے کر نجد کی طرف روانہ ہوئے، آپ دشمن کے عظیم لشکر کے روبرو ہوئے مگر دشمن کو خوف و دہشت نے گھیر لیا اور کسی طرح کے ٹکراؤ سے پہلے ہی متفرق ہوگئے۔
اس سفر میں اس اضطراری حالت میں چونکہ دشمن کے حملہ کا خوف تھا اس لیے رسول خدا نے لشکر اسلام کے ساتھ نماز خوف ادا کی۔ پیغمبر کے سفر کی کل مدت ۱۵ روز تھی۔ (سیرت ہشام ج۲ ص۲۱۳)
غزوہٴ دومة الجندل
روانگی یکشنبہ ۲۵ ربیع الاول سنہ ۵ ہجری
مدینہ میں واپسی ۲۰ ربیع الثانی
مخبروں نے رسول خدا کو خبر دی کہ دومتہ الجندل میں بہت سے لوگ جمع ہوگئے ہیں اور مسافروں کا راستہ روکنے کے علاوہ ان پر ظلم و ستم بھی ڈھا رہے ہیں ان کا قصد یہ ہے کہ مدینہ پر حملہ کر دیں، رسول خدا نے سباع بن عرفطہ غفاری کو مدینہ میں اپنا جانشین معین فرمایا اور ہزار آدمیوں کے لشکر کے ساتھ دومتہ الجندل کی طرف روانہ ہوگئے۔
آنحضرت کے سپاہی راتوں کو راستہ طے کرتے اور دن کو دروں میں چھپ کر آرام کرتے تھے، دشمن کو لشکر اسلام کی روانگی کا پتہ چل گیا۔ اور ان پر ایسا رعب طاری ہوا جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا اور اس علاقہ سے دشمن تیزی سے بھاگ گئے۔
رسول خدا اس علاقہ میں قیام پذیر رہے اور آپ نے مختلف دستوں کو اطراف و جوانب میں بھیجا تاکہ خبر ملنے پر دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنا دیں۔ آپ ۲۵ روز کے بعد مدینہ پلٹ آئے۔ لوٹتے وقت فراز نامی شخص سے جس کا قبیلہ قحط سے متاثر ہوا تھا آپ نے معاہدہ کیا اور ان کو اجازت دی کہ وہ مدینہ کے اطراف کی چراگاہوں سے استفادہ کریں۔
اس غزوہ کی اہمیت کی وجہ یہ ہے کہ مدینہ سے دور دراز کے علاقوں تک جادہ پیمائی اور خشک و ہولناک صحراؤں سے بعور کرنے میں مسلمانوں کی طاقت کا مظاہرہ ہوا اور دوسری طرف اسلام مشرقی روم کی سرحدوں تک نفوذ کرگیا اور یہ فوجی تحریک رومیوں کی تحقیر کا موجب بنی۔ مسعودی کی تحریر کے مطابق، تاریخ اسلام میں روم کی بڑی طاقت کے ہاتھوں کی کھلونا حکومت کے ساتھ فوجی مقابلہ کے لیے یہ پہلا قدم تھا۔
(النبیہ والاشراف۲۱۵۲)
غزوہٴ خندق (احزاب)
تقریباً ۲۳ شوال سنہ ۵ ہجری
بنی نضیر کے یہودی جنہوں نے اپنی کینہ توزی اور انتقام کے خیال سے مدینہ کو چھوڑا تھا وہ خاموشی سے بیٹھ گئے، جب یہ لوگ خیبر پہنچے تو ان کے سردارحی بن اخطب اور کنانہ بن ابی الحقیق ابو عامر فاسق اور ایک دوسری جماعت کے ساتھ مکہ کی طرف روانہ ہوگئے قریش اور ان کے تابعین کو رسول خدا سے جنگ کی دعوت دی۔ انہوں نے قریش سے کہا کہ محمد کی طرف سے تمہارے لیے بہت بڑا خطرہ ہے اگر فوراً انہوں نے پسپا کر دینے والے لشکر کی تیاری نہیں کی تو محمد ہر جگہ اور ہر شخص پر غالب آجائیں گے۔
ایک طرف بدر موعد میں قریش کی شکست و سرنگونی اور جنگی قرارداد کے مطابق لشکر اسلام کے خوف سے ان کا حاضر نہ ہونا اور لشکر اسلام کی پے درپے کامیابی نے قریش کو اس حقیقت کی طرف متوجہ کیا کہ بڑھتی ہوئی جنگی طاقت کے پیش نظر بنیادی طور پر اسلامی تحریک کی سرکوبی کی فکر کرنی چاہیے۔ اس وجہ سے قریش خود اس بات کی فکر میں تھے کہ وہ ایک عظیم لشکر فراہم کریں اور اب بہترین موقع آن پہنچا تھا۔ اس لیے کہ یہودیوں نے اعلان کر دیا تھا کہ ہم تمہارے ساتھ رہیں گے یہاں تک کہ محمد کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیں گے اس وجہ سے قریش کے سرداروں کے ساتھ کعبہ میں گئے اور وہاں انہوں نے قسم کھائی کہ ایک دوسرے کو بے سہارا نہیں چھوڑیں گے اور پیغمبر سے مقابلہ کے لیے آخری فرد کی زندگی تک ایک دل اور ایک زبان ہو کر ڈٹے رہیں گے۔ قریش نے یہودیوں کے سربرآوردہ افراد سے پوچھا کہ تم قدیم کتاب کے جاننے والے اور عالم دین ہو تم فیصلہ کرو کہ ہمارا دین بہت ہے یا محمد کا؟ یہودیوں کے نیرنگ باز سرداروں نے جواب دیا کہ:
”تمہارا دین بہت ہے اور تم حق پر ہو۔“
قرآن اس اتحاد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ:
کیا تم نے ان لوگں کو نہیں دیکھا کہ جن کو کتاب سے کچھ حصہ دیا گیا ہے وہ کس طرح بتں اور طاغوت پر ایمان لات ہیں اور کافرین و مشرکین سے کہتے ہیں کہ تمہارا راستہ مومنین کی بہ نسبت حقیقت سے زیادہ نزدیک ہے۔
یہودی سرداروں سے مشرکین مدد کا وعدہ کر لینے اور روانگی کی تاریخ معین کر لینے کے بعد یہودیوں نے بھی ان سے وعدہ کیا کہ بنی قریظہ کے یہودیوں کو جو اس وقت ساکن مدینہ تھے، مدد کے لیے بلائیں گے اور لوگوں کو پیمان شکنی اور جنگ پر آمادہ کرنے کے بعد وہ لوگ قبیلہ غطفان کی طرف روانہ ہوئے، قبیلہ غطفان کے افراد نے ان کی ہمراہی کے علاوہ اپنے ہم عہد قبیلہ بنی سلیم کو مدد کے لیے بلایا۔
(تاریخ طبری ج۲ ص ۵۶۶)
یہودیوں کی تحریک پر ”تحریک اسلامی کی مخالفت میں یہ بہت بڑا متحدہ محاذ تیار ہوگیا اور مختلف جماعتوں اور گروہوں کے لوگ چاہے وہ مشرکین ہوں، مستکبرین ہوں، یہود و منافقین ہوں، مدینہ سے فرار کرنے والے ہوں، قریش کے مختلف قبائل کے افراد ہوں یا بنی سلیم بنی غطفان، بنی اسد، سب نے آپس میں مل کر اسلام کے خلاف جنگ لڑنے کو تارک کا راستہ سمجھا تاکہ نور خدا کو خاموش کر دیں۔ جنگی اخراجات اور لازمی اسلحہ کی فراہمی یہود کی طرف سے تھی۔
لشکر احزاب کی مدینہ کی طرف روانگی
مختلف قبیلوں اور گروہوں سے اس جنگی عہد و پیمان میں شرکت کرنے والے افراد کی مجموعی تعداد دس ہزار سے زیادہ تھی اور لشکر کی کمان ابو سفیان کے ہاتھوں میں تھی۔
مختلف گروہ کے جنگجو افراد اسلحہ سے لیس روانگی کے لیے تیار تھے۔ اس زمانہ کے جنگی ایمونیشن اور ساز و سامان سے لیس اتنا بڑا لشکر سرزمین حجاز نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
ماہ شوال سنہ ۵ ہجری میں ابوسفیان نے احزاب کے سپاہیوں کو تین الگ الگ دستوں میں یثرب کی جانب روانہ کیا۔
لشکر کی روانگی سے رسول خدا کی آگاہی
جب یہ لشکر مکہ سے مدینہ کی طرف روانہ ہوا تو قبیلہ خزاعہ کے چند سوار نہایت سرعت کے ساتھ پیغمبر کے پاس پہنچے اور سپاہ احزاب کی روانگی کی خبر دی۔
رسول خدا نے آمادگی اور لشکر کی جمع آوری کے اعلان کے ساتھ جنگی ٹیکنیک اور دفاعی طریقہ کار کی تعیین کے لیے اپنے اصحاب سے مشورہ فرمایا۔ اس جنگی مشورہ میں یہ بات پیش ہوئی کہ مدینہ سے باہر نکل کر ان سے جنگ کی جائے یا مدینہ کے اندر موجود رہیں اور شہر کو ایک طرح سے محصور بنا دیں؟ سلمان فارسی نے کہا: اے اللہ کے رسول جب ہم ایران میں تھے تو اس وقت اگر دشمن کے شہ سواروں کے حملہ کا خطرہ ہوتا تھا تو ہم شہر کے چاروں طرف خندق کھو ددیتے تھے۔ دفاع کے لیے جو مجلس مشارت منعقد ہوئی تھی اس میں سلمان کی رائے کو مان لیا گیا رسول خدا نے سلمان کے نقشہ کے مطابق خندق کھودنے کا حکم دیا۔ (مغازی ج۲ ص ۴۴۴)
اس زمانہ میں مدینہ تین طرف سے طبیعی رکاوٹوں جیسے پہاڑوں، نخلستان کے جھنڈ اور نزدیک نزدیک بنے ہوئے گھروں سے گھرا ہوا تھا صرف ایک طرف سے کھلا اور قابل نفوذ تھا۔
رسول خدا نے دس آدمیوں کو چالیس ہاتھ کے ایک قطعہ ارض کو کھودنے پر مامور کیا۔ جزیرة العرب کی گرم اور جھلسا دینے والی ہوا کے برخلاف مدینہ، صحراء کی طرح سرد اور تکلیف دہ ہے، جس دن خندق کی کھدائی ہو رہی تھی اس دن صبح سویرے جب آفتاب بھی نہیں نکلا تھا، جاڑے کی سخت سردی میں تین ہزار مسلمان لبوں پر، پرشور نعرہ اور دلوں میں حرارت ایمانی کے جوش و ولولہ کے ساتھ کام میں شغول ہوگئے اور غروب آفتاب تک کام کرتے رہے رسول خدا بھی تمام مسلمانوں کے ساتھ ساتھ کام میں مشغول تھے۔ پھاؤ ڑے چلاتے مٹی کو زنبیل می ڈال کر کاندھوں پر رکھ کر باہر لاتے تھے۔ سلمان نہایت تیزی سے چند آدمیوں کے برابر کام کر رہے تھے۔ مہاجر و انصار ہر ایک نے کہا کہ سلمان ہم میں سے ہیں۔ لیکن رسول خدا نے فرمایا: سلمان ہم اہل بیت میں سے ہیں۔ (سیرت حلبی ج۳ ص ۳۱۳)
خندق کھودت کھودتے سلمان کے سامنے ایک بہت بڑا سفید پتھر آگیا۔ خود انہوں نے اور دوسرے افراد نے بھی کافی کوشش کی مگر وہ پتھر اپنی جگہ سے ہلا تک نہیں۔ رسول خدا کو خبر ہوئی تو آپ خود تشریف لائے اور کلہاڑی سے اس پتھر پر ایک ضرب لگائی اس ضرب کی وجہ سے ایک بجلی چمکی اور پتھر کا ایک حصہ ٹوٹ کر بکھر گیا۔ پیغمبر نے صدائے تکبیر بلند کی۔ جب دوسری اور تیسری بار آپ نے کلہاڑی چلائی تو ہر ضرب سے بجلی چمکی اور پتھر کے ٹکڑے ہونے لگے۔ رسول خدا ہر بار صدائے تکبیر بلند کرتے رہے، جناب سلمان نے سوال کیا کہ آپ بجلی چمکتے وقت تکبیر کیوں کہتے ہیں؟
رسول خدانے فرمایا:
جب پہلی بار بجلی چمکی تو یمن اور صنعاء کے محلوں مکو میں نے کھلتے دیکھا، دوسری مرتبہ بجلی کے چمکنے میں شام و مغرب کے کاخہائے سرخ کو فتح ہوتے دیکھا، اور جب تیسری بار بجلی چمکی تو میں نے دیکھا کہ کاخہائے کسری میری امت کے ہاتھوں مسخر ہو جائیں گے۔
مومنین رسول خدا کے کیے ہوئے وعدے سے خوش ہوگئے اور انہوں نے ”بشارت بشارت“ کی آواز بلند کی۔ لیکن منافقین نے مذاق اڑایا اور کہا کہ حالت یہ ہے کہ دشمن ہر طرف سے ٹوٹے پڑ رہے ہیں اور ہم میں اتنی جرأت نہیں ہے کہ ہم اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے باہر نکل سکیں اور محمد کاخہائے ایران و روم کی فتح کی گفتگو کر رہے ہیں۔ سچ تو ہے کہ یہ باتیں فریب سے زیادہ نہیں ہیں۔ (معاذ اللہ) قرآن منافقین کے بارے میں کہتا ہے: منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری (نفاق) ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ وعدے جو خدا اور اس کے رسول کر رہے ہیں یہ دھوکہ سے زیادہ نہیں ہیں۔ (تاریخ طبری ج۲ ص ۵۶۹)
منافقین خندق کھودنے میں مسلمانوں کی مدد کر رہے تھے مگر ان کی کوشش تھی کہ کسی بہانے سے اپنے کاندھوں کو اس بوجھ سے خالی کرلیں اس طرح وہ اپنے نفاق کو آشکار کر رہے تھے۔
خندق کی کھدائی تمام ہوئی اس کا طول ۱۲۰۰۰ ہاتھ تقریباً ۴/۵ کلومیٹر گہرائی ۵ ہاتھ اور اس کی چوڑائی اتنی تھی کہ ایک سوار گھوڑے کو جست دے کر پار نہیں کرسکتا تھا۔ آخر میں خندق کے بیچ میں کچھ دروازے بنا دیئے گئے اور ہر دروازہ کی نگہبانی کے لیے ایک قبیلہ معین کر دیا گیا۔ زبیر بن عوام کو دروازہ کے محافظین کی سرپرستی پر معین کیا گیا۔ (تاریخ یعقوب ج۲ ص ۵۰)
مسلمانوں نے بھی خندق کے پیچھے اپنے لیے محاذ بنالیے اور شہر کے دفاع کے لیے تیر انداز مکمل آمادگی کے ساتھ موجود تھے۔
مدینہ لشکر کفار کے محاصرے میں
کفر کا حملہ آور لشکر ابوسفیان کی سرکردگی میں خندق کھد جانے کے چھ دن بعد سیلاب کی طرح مدینہ پہنچ گیا۔ انہوں نے شہر کے چاروں طرف اور اپنے آگے ایک بڑی خندق دیکھی تو مسلمانوں کی اس دفاعی ٹیکنیک پر ان کو تعجب ہوا۔ جنگی دیدہ وروں نے کہا یہ فوجی ٹیکنیک محمد نے ایرانیوں سے سیکھی ہے اس لیے کہ عرب اس ڈھنگ سے واقف نہیں ہیں۔ ان لوگوں نے مجبوراً اپنے خیمے خندق کے سامنے لگالیے۔ دشمن کے لشکر کے خیموں سے سارا بیابان سیاہ ہوگیا۔ لشکر اسلام نے بھی خندق کے اس طرف خیمے لگا لیے اور دشمن سے مقابلے اور ان کے حملے سے بچنے کے لیے تیار ہوگئے۔
بنی قریظہ کی عہد شکنی
لشکر احزاب اور اس کے کماندار ابو سفیان جن کے سروں میں مسلمانوں پر برق رفتاری سے کامیابی حاصل کرنے کا سودا سمایا ہوا تھا، خندق جیسی بڑی رکاوٹ کے سامنے آجانے سے اب راستہ کی تلاش میں لگ گئے تاکہ لشکر کو خندق کے پار پہنچا سکیں۔
حی بن اخطب یہودی جو قبیلہ بنی نضیر کا شہر بدر کیا ہوا سردار اور جنگ کی آگ بھڑکانے کا اصلی ذمہ دار تھا۔ خندق کی موجودگی سے سپاہ احزاب کے حملہ کا ناکام ہوت ہوئے دیکھ کر سب سے زیادہ خوف زدہ تھا، وہ کوشش کر رہا تھا ہ جلد سے جلد احزاب کی کامیابی کا کوئی راستہ مل جائے۔ اس نے مدینہ کے اندر سے محاذ کھولنے کا ارادہ کیا۔ اس پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بنی قریظہ کے وہ یہودی جو مدینہ میں مقیم تے، بہترین وسیلہ تھے۔ اس نے رئیس قبیلہ سے گفتگو کرنے کا ارادہ کیا، قلعہ بنی قریظہ کی طرف گیا اور قلعہ کے بند دروازوں کے پیچھے سے گفتگو کی، لیکن قبیلہ بنی قریظہ کے سردار کعب بن اسد نے جواب دیا کہ ہم نے محمد سے عہد و پیمان کیا ہے اور ہم یہ معاہدہ توڑ سکتے اس لیے کہ سوائے سچائی اور وفاداری کے ان سے ہم نے اور کچھ نہیں دیکھا ہے۔
حی، کعب کے احساسات کو بھڑکانے میں کامیاب ہو گیا اور اس نے اپنے لیے قلعہ کا دروازہ کھلوالیا۔ قلعہ میں داخل ہوا اور بنی قریظہ کے بزرگ افراد کو اس بات پر آمادہ کرلیا کہ وہ رسول خدا سے کئے ہوئے اپنے عہد و پیمان کو توڑ دیں اور اپنی فوجیں نیز دوسرے سامان حملہ آوروں کو دے دیں۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma
آبی
سبز تیره
سبز روشن
قهوه ای